شائستہ آدمی کی تلاش میں

ہمارے سامنے سمجھ لو کہ ایک دفتر کھلا ہے۔ ایک ضخیم ادبی رسالہ۔ کم و بیش 580صفحوں میں پھیلا ہوا۔

rmvsyndlcate@gmail.com

KARACHI:
ہمارے سامنے سمجھ لو کہ ایک دفتر کھلا ہے۔ ایک ضخیم ادبی رسالہ۔ کم و بیش 580صفحوں میں پھیلا ہوا۔ رسالہ کا نام ہے' کولاژ۔ بھلے مانس رسالہ اردو میں نکالا تھا تو نام بھی اردو میں ہوتا تو رسالہ کی کونسی ہیٹی ہو جاتی۔ مگر شوق کا کوئی مول نہیں ہے۔ مگر اس انگریزی اصطلاح کا پھر مطلب بھی سمجھا دیا ہوتا۔ کولاژ۔ سمجھ لو کہ انواع و اقسام کی کھچڑی۔ مگر یہ گلزار ستمبر ہے۔ یعنی گلزار صاحب بھی تو یکرنگ نہیں ہیں۔ کتنے رنگ یہاں آکر ملتے ہیں۔ دھنگ رنگ شخصیت دھنک رنگ فنکار۔

رسالہ کے مرتبین یا مدیران اقبال نظر اور شاہدہ تبسم۔ اتنے ضخیم رسالہ کو دیکھ کر ہی قاری کا دل دھک سے رہ جاتا ہے۔ سو ڈرتے ڈرتے رسالہ کھولا۔ اقبال نظر صاحب نے خبر دی کہ پہلا مضمون شاہدہ تبسم نے کتنا ڈوب کر اور کس جوش و جذبے کا ساتھ لکھا کہ ادھر مضمون ختم ہوا' ادھر ان کی زندگی کا ورق تمام ہوا۔( انا للہ وانا الیہ راجعون)

ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے۔ مگر ادھر تو دفتر کا دفتر لکھا جا چکا ہے۔ ہمارے کہنے کے لیے کچھ بچا بھی ہے یا نہیں۔ پہلا ہی مضمون شاہدہ تبسم کا ہے' ''دوسرا گوتم''

نثر غائب۔ رہوار قلم شاعری کی راہ پر چل نکلا۔ شاعری گلزار صاحب کی۔ قلم شاہدہ تبسم کا۔ کئی رنگ آئے اور گزر گئے۔ اور آگے دلی کی دوپہر ؎
لُو سے جھلسی دلی کی دوپہر میں اکثر
میں ٹھٹھکا۔ یہ تو واقعی دلی کی دوپہر چڑھتی نظر آ رہی ہے ؎
لو سے جھلسی دلی کی دوپہر میں اکثر
چار پٹی بننے والا جب
گھنٹہ گھر والے نکڑ سے' کان پہ رکھ کے ہاتھ' اک ہانک لگاتا تھا
چار... پٹی... بنوا... لو
خس کی ٹٹی میں سوئے لوگ اندازہ کر لیتے تھے۔ ڈیڑھ بجا ہے
دو بجتے بجتے جامن والا گزرے گا
جامن... ٹھنڈے... کالے... جامن
تین بجے تک لو کا سناٹا رہتا تھا
چار بجے تک لنگری سوٹا' پیسنے لگتا تھا ٹھنڈائی
چار بجے کے پاس پاس ہی ہاپڑ کے پاپڑ آتے تھے
لو... ہاپڑ کے پاپڑ
برف کی سل پر سجنے لگتی تھیں گنڈیریاں
کیوڑا چھڑکا جاتا تھا
پڑھتے پڑھتے ہمیں یاد آ گیا پروفیسر احمد علی کا افسانہ 'ہماری گلی'۔ دلی کی ایک اور دوپہر۔ اندر حویلی میں شرفا جھالر والے لمبے پنکھے کی ہوا میں سو رہے ہیں۔ باہر گلی جاگ رہی ہے... دودھیا سنگھاڑے لو... کیوڑے کی بیل کے بتاشے... دودھیا سنگھاڑے۔ بالوشاہی گنڈیریاں... رسیلی گنڈیریاں کیوڑے والی... کندن کو شرماتی ہے' جوبن کر چمکاتی ہے' گوری جب چباتی ہے... لیلو گوری کے لیے گلوری... دلدار کی اک شان ہے' یہ پان اس کی جان ہے... لے لو میرے پان کی گلوری۔
ادھر شاہجہانی مسجد کی سیڑھیوں کے سامنے کٹورا بج رہا ہے۔ سقہ صدا لگا رہا ہے۔ میاں آب حیات پلاؤں۔
پھر چیخوف کی ایک کہانی میرے تصور میں پھرنے لگتی ہے۔ ٹیکا ٹیک دوپہری۔ آسمان پر ایک چیل منڈلاتے منڈلاتے جیسے سو گئی ہے۔ اب اڑ نہیں رہی۔ ہوا میں تیر رہی ہے۔ ارے لو ادھر ایک منڈیر پر ایک چیل آنکھیں موندے کب سے بیٹھی ہے۔ آسماں تانبا۔ زمیں دھوپ میں تپ رہی ہے۔ سناٹا۔ جادو۔ جادو۔ گرمی کی دوپہر کا اپنا ایک جادو ہوتا ہے۔ اور ان دوپہروں میں دلی کی گلیوں کا اپنا جادو جاگتا تھا۔ گلزار کی پوری نظم پڑھو اور گلی کے جادو میں کھو جاؤ۔ دوپہر کا بیان اور شاعری میں۔ جادو میں جادو۔
مگر یہ کونسا لہجہ ہے ؎

مورا گورا رنگ لئی لے
مو ہے شام رنگ دئی دے
یہ بندرا بن کی گلی ہے۔ اور یہ پریم کی پکار ہے؎
چھپ جاؤں گی رات ہی میں
موہے پی کا سنگ دئی دے
اور پھر ایک اور لہجہ۔ قیامت کا سماں ہے؎
ہم سب بھاگ رہے تھے
ریفیو جی تھے
چھوٹی مجھ سے چھ سالوں کی
دودھ پلائے' خوب کھلائے ساتھ لیا تھا
میں نے اپنی ایک بھمیری اور اک لاٹو
پاجامے میں اڑس لیا تھا
رات کی رات ہم گاؤں چھوڑ کر بھاگ رہے تھے
ہم ریفیو جی تھے
وہیں اسی دن پھینک آیا تھا بچپن اپنا
لیکن میں نے سرحد کے سناٹوں کے صحراؤں میں اکثر دیکھا ہے
ایک بھمیری اب بھی ناچا کرتی ہے
اور اک لاٹو اب بھی گھوما کرتا ہے

یا اللہ اس شاعر کی شاعری میں کتنے لہجے اپنا جادو جگاتے ہیں۔ گلزار صاحب عجب رنگا رنگ شخصیت ہیں۔ فلم ساز فلمی کہانی کار۔ فلمی گیت۔ فلم کے اتنے دائروں میں گھرا ہوا فنکار۔ اس سے باہر کیسے نکلے گا۔ مگر گلزار صاحب کس سہولت سے فلمی دنیا سے نکل کر ادب کی دنیا میں آ جاتے ہیں۔ غزل ان کی اپنی جگہ۔ افسانہ اپنی جگہ اور ان کی شخصیت ۔ ہم نے تو انھیں کم ہی دیکھا ہے۔ بہت ہی کم۔ مگر وہ ایسی شخصیت ہیں کہ ایک اڑتی سی نظر سے دیکھ لو۔ وہ تمہارے تصور میں کھب جاتی ہے۔ اسی رسالہ میں جاوید صدیقی کا ایک مضمون ہے۔ ارے ان سے بہتر انھیں اور کون بیان کر پائے گا۔ سنئے:

گلزار صاحب کو جب بھی دیکھو' بڑے 'دھلے دھلائے' نکھرے نکھرے نظر آتے ہیں۔ کپڑے سفید اور سادہ۔ چائنیز کالر کا کرتا جو گھٹنوں تک نہیں پہنچتا۔ مگر بہت اکڑا ہوا ہوتا ہے۔ پتہ نہیں کلف سے یا گلزار کے جسم پر ہونے کے غرور میں۔ سیدھا پاجامہ جس کی موری نہ علی گڑھ والوں کی طرح چھوٹی ہوتی ہے نہ لکھنؤ والوں کی طرح پھیلی ہوئی۔ پاؤں میں سنہری کام کی پنجابی جوتیاں' سنہری فریم سے جھانکتی ہوئی آنکھیں۔ ہونٹوں پر ایک شفیق مسکراہٹ' کھچڑی بال جن میں اب چاول زیادہ اور دال کم دکھائی دیتی ہے۔ اور ہاں وہ نہایت سفید مونچھیں۔ منہ میں دانت بھی ہیں جو خاص خاص موقعوں پر نظر آتے ہیں''۔ لیجیے دریا کو کوزے میں بند کر دیا۔ اس بیان کو اور بھی مختصر کیا جا سکتا ہے۔ بس اتنا کہہ کر کہ کیا شائستہ آدمی ہیں۔ اپنے آپ کو کتنا کم خرچ کرتے ہیں اور کتنی احتیاط کے ساتھ۔ کم بولنا' اور آہستگی کے ساتھ۔ الفاظ کے اصراف بیجا سے پرہیز۔ اور اس زمانے میں جب نعروں کا شور ہے اور حلق پر سارا زور ہے۔ فراق گورکھپوری کا ایک گمشدہ فقرہ ''جو قوم چیخوں سے جگائی جاتی ہے وہ جاگنے پے بھی وحشی ہی رہتی ہے''۔ ہم ایک وحشی زمانے میں سانس لے رہے ہیں۔ شائستگی کم یاب بلکہ نایاب ہے۔ گلزار صاحب کا وہ سارا نقشہ جو جاوید صدیقی نے پیش کیا جس کا سلیم عارف نے خلاصہ کیا اور جس کی تصدیق میری اس ایک ملاقات سے ہوئی جو بمبئی کے سفر میں میسر آئی تھی۔ ایسی شائستگی۔ ارے یہ اس تہذیب کے ساتھ چلی گئی جسے ہم گنگا جمنی تہذیب کہتے ہیں۔ وہ شائستہ لوگ اب کہاں ع

اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر
جب ہی تو مجھے گلزار صاحب اتنے عجب' اتنے اپنے زمانے اور اہل زمانہ سے الگ تھلگ نظر آتے ہیں۔ میں نے اڑتا اڑتا انھیں دلی میں دیکھا تھا۔ اڑتی اڑتی ملاقات بمبئی میں ہوئی تھی۔ کتنے اجلے اجلے نظر آتے تھے ع
اجل پنکھ دیے بگلا کو' کویل کس بدھ کاری
شاید یہ سوال سور داس نے اٹھایا تھا۔ مگر کویل اپنے کالے بال و پر کے باوصف اپنی اجلی سریلی کوک سے ہمارے دلوں کو موہ لیتی ہے مگر وہ زمانہ کہاں گم ہو گیا جب اس برصغیر کے اجلے آسمان و زمین کے بیچ راج ہنس اپنے اجل پنکھوں کے ساتھ پرواز کرتے نظر آتے تھے۔
گلزار صاحب راج ہنس تو نہیں ہیں' مگر آدمی کتنے اجلے ہیں اور کتنے شائستہ ہیں۔ اتنے کم گو اور ان کی شان میں اتنا ضخیم دفتر۔
Load Next Story