کراچی پر آرٹس کونسل کے اثرات
جب برصغیر تقسیم ہوا تو کراچی کے بھاگ جاگے، قائد اعظم نے اس کو ملک کا دارالسلطنت قرار دے دیا
جس طرح ملبوسات کی دنیا میں فیشن شو کی اہمیت ہے، ایسے ہی ادب کی دنیا میں مشاعروں اور ادبی محفلوں کے اثرات عوام الناس پر پڑتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ تحریر نہ صرف تہذیب بدل ڈالتی ہے بلکہ حکومتوں کی بساط بھی الٹ دیتی ہے۔ سُر اور سنگیت من میں دریا کی روانی پیدا کر کے ٹھہراؤ اور سکون کو جگہ دیتے ہیں۔ جب شاعروں اور مطربوں کا ملاپ ہوتا ہے تو رنگ محفل بدل جاتا ہے۔ غرض اصناف فن کے جتنے شعبے ہیں ہر ایک کا اپنا گُر ہے جو تہذیب اور ثقافت کو اپنے آنچل میں باندھ لیتا ہے۔
جب برصغیر تقسیم ہوا تو کراچی کے بھاگ جاگے، قائد اعظم نے اس کو ملک کا دارالسلطنت قرار دے دیا، یہاں آنے والوں میں صرف خانماں خراب نہ تھے بلکہ ایک مضبوط بیوروکریسی اور کثیر تعداد شعرا اور ادبا بھی آن بسے۔ ان آنے والوں میں ایک صاحبہ ثروت خاتون عطیہ فیضی رحمین بنت حسن علی فیضی بھی ہیں جن کو کراچی کونسل آف پاکستان کی تاریخ میں بھلایا نہ جا سکے گا کیونکہ ان کی ابتدائی کوششیں غیر معمولی ہیں۔
1948ء کی ابتدا میں ممبئی سے کراچی آئیں ''ایوان رفعت'' کو آباد کیا یہاں پر ادبی محفلیں، دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں، مصوروں کو جمع کرنا شروع کر دیا۔ خیال کو شکل دینے کی تگ و دو کی جن میں فیض صاحب کا بھی ایک حصہ ہے۔ آخر کار ان محفلوں نے 1955ء میں ایک غیر رسمی فائن آرٹس سوسائٹی قائم کی۔
بعد ازاں اس سوسائٹی کا ہر فرد اس تنظیم کو فعال کرنے میں کوشاں ہو گیا۔ بالآخر 1963ء میں اس تنظیم کو سوسائٹی ایکٹ 1860ء شق نمبر (XXI) کے تحت رجسٹر کر لیا گیا، جس کا نام آرٹس کونسل آف پاکستان رکھا گیا۔
آرٹس کونسل آف پاکستان کا مطلب یہ ہوا کہ اس طرز کی کوئی سوسائٹی اس وقت ملک میں موجود نہ تھی۔ کیونکہ کراچی کو تجارتی اہمیت کے علاوہ مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ اس سوسائٹی کو عطیہ فیضی نے ذاتی زمین کا تحفہ دیا جو ایک عظیم قربانی تھی۔ عطیہ فیضی کوئی عام عورت نہ تھیں جو ان کا لہجہ سنتا اور انداز گفتگو دیکھتا بس ہمہ تن گوش ہو جاتا تھا۔ تعجب ہے ہمہ تن گوش ہونے والوں محو غم دوش رہنے والوں میں علامہ اقبال، شبلی نعمانی جیسے اکابرین بھی تھے اور چھوٹے موٹوں کا کیا کہنا ان کا شوہر ایک یہودی تھا جو ان کی محبت میں رہ کر مشرف بہ اسلام ہوا۔
عطیہ فیضی پیدا استنبول ترکی میں ہوئیں اور 1967ء میں 90 سال کی عمر میں کراچی میں وفات پائی۔ علامہ اقبال لندن ان سے ملنے جاتے تھے ایک بار تو ان سے سردیوں میں ملنے چلے گئے ان کی تحریر کے بھی وہ معترف تھے۔ غرض ایسے لوگوں سے دنیا خالی ہوتی جا رہی ہے۔ اب لوگ آرٹس کونسل میں جشن مناتے ہیں مگر عطیہ فیضی کا تذکرہ کم ہی ہوتا ہے۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ آرٹس کونسل کے انتخابات ہوتے رہے پروگرام ہوتے رہے۔
اس ادارے کو نئے خطوط پر چلانے کے لیے ریڈیو پاکستان کے مقبول پروگرام کرنے والوں میں یاور مہدی کا نام مشہور ہے جو 1970ء کی دہائی میں اپنا لوہا منواتے رہے۔ وہاں ایک دہائی سے ان کا نام چلتا رہا۔ وہاں سے رخصت ہو کر انھوں نے آرٹس کونسل کی تنظیم نو کی۔ فائن آرٹس اور کمرشل آرٹس کی کلاسیں ہوتی تھیں۔ پروگرام بھی گاہے بہ گاہے ہوتے تھے۔ مگر ان کی قیادت میں رات کو دیر تک کے پروگرام کا کلچر نہ تھا۔
ان کے دست راست حضرات ادارے کو جدید خطوط پر نہ چلا سکے۔ وہاں ایک دور ایسا بھی آیا کہ آرٹس کونسل کی قیادت ٹی وی پروگرام میں اینکر پرسن بننے والے انیق احمد کرنے لگے جن کے پاس آرٹس کونسل کو چلانے کے علاوہ دوسرے کام ہوتے تھے۔ کبھی کبھی آرٹس کونسل آئے لوگ ان کو ڈھونڈتے رہتے۔ ان کی پشت پر یاور مہدی کا ہاتھ تھا بہرحال اپنے اعتبار سے وہ لوگوں کا چناؤ کرتے تھے۔ مگر ان کی پارٹی کے کارکنان یاور صاحب کے راستوں پر نہ چل سکے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ گزشتہ آٹھ برسوں سے ایک نئی قیادت نے آرٹس کونسل کے انتخابات میں فتح پانی شروع کی۔ رفتہ رفتہ اس قیادت کے روح رواں احمد شاہ نے آرٹس کونسل کا زاویہ نگاہ بدل دیا۔
اس قیادت کا یہ خیال تھا کہ آرٹس کونسل کی معاشی پوزیشن کو مستحکم کیا جائے تا کہ آرٹس کونسل میں جو ارکان عسرت میں گھرے ہیں ان کی گاہے بہ گاہے مدد کی جائے اور آرٹس کونسل کو یتیمی کے انداز میں چلنے والے ادارے کی شکل میں نہ چلایا جائے۔ ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے، باقاعدگی سے منافع بخش کام کیے جائیں۔
ادارے کو وسعت دی جائے نیا جدید آڈیٹوریم بنایا جائے، جہاں تھیٹر جدید انداز میں منعقد کیے جائیں۔ نیا جدید آڈیٹوریم مکمل اے سی اور اعلیٰ ساؤنڈ سسٹم کے تحت ہال بنایا گیا جو کسی بھی فائیو اسٹار ہوٹل کے ہال سے بہتر ہے۔ یہ کس قدر اچھا ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ ماضی میں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اکثر پروگرام فائیو اسٹار ہوٹلوں میں کیا کرتے تھے مگر گزشتہ برسوں سے وہ اپنے پروگرام آرٹس کونسل میں کرتے ہیں بلکہ اس مرتبہ انھوں نے پروگرام کرنے کے بعد 25 لاکھ روپے آرٹس کونسل کے فنڈ میں دینے کا اعلان کیا جس کو احمد شاہ جو گزشتہ 8 برسوں سے الیکشن جیت رہے ہیں۔
انھوں نے وزیر اعلیٰ بلوچستان کو اسٹیج پر آ کر واپس کرنے کا اعلان کیا کہ وہ ایک مہمان کی حیثیت سے آئے ہیں، مگر مالک صاحب نے رقم واپس نہ لی لیکن یہ انداز آرٹس کونسل کی تہذیب کا طرز عمل تھا۔ ظاہر ہے آرٹس کونسل محض راگ و رنگ کا کھیل نہیں یہ تہذیب و ثقافت کا ایک آئینہ ہے۔ احمد شاہ نے محض زبانی، کلامی گفتگو کے آرٹ سے ہی قیادت نہیں کی ہے بلکہ انھوں نے یہ محسوس کر لیا کہ تجارتی طبقے کو آرٹس کونسل میں جگہ دی جائے اور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کو بھی یہاں رکنیت دی جس سے عطیات میں اضافہ ہوا اور اپنی تدبیری صلاحیت سے گورنر ہاؤس اور چیف منسٹر ہاؤس میں توازن قائم کیا۔ آرٹس کونسل کو کسی پارٹی کا سیاسی اکھاڑہ نہ بننے دیا۔
رفتہ رفتہ ادبی اداروں کے ساتھ تجارتی اداروں کے مالکان بھی رکنیت میں شامل ہوئے ورنہ فنون لطیفہ کے ارکان کے 300 روپے سالانہ فیس سے تو خط و کتابت بھی ممکن نہ تھی۔ پروگرام تو دور کی بات ہے۔ اس کے علاوہ ایک خاص بات کہ کمرشل پروگراموں اور عام رفاہی اور اصلاحی پروگراموں کو اکثر مفت جگہ دی جاتی ہے مگر مفت جگہ ان پروگراموں کے لیے جو پروگرام مقصدیت سے پُر اور لوگوں کے ذوق کی تسکین ہوتی ہو، جب کہ دوسری جانب ایئرکنڈیشن آڈیٹوریم ایک منافع بخش پلیٹ فارم ہے۔
اس طرح سالانہ آمدنی کا ذریعہ ہے جس کا مقصد آرٹس کونسل کے لوگوں کو تسکین دینا ہے تا کہ ان لوگوں کی فنی قوت مجروح نہ ہو۔ اس کے علاوہ ایسے بھی آرٹسٹ موجود ہیں جو غربت کے حصار میں ہیں، ان کی خاموشی سے مدد کرنا بھی احمد شاہ کا شیوہ ہے۔ اگر کسی قادر الکلام کو اپنی نگارشات کو شایع کرانا ہے اور کتاب چھپوانے کی حیثیت نہیں ہے تو یہ کام بھی ادارہ کرتا رہا ہے۔
اردو کے صاحب تفکر اور طرز مرصع کے شاعر عزیز حامد مدنی کا کلام ان کی موت کے تقریباً 20 برس بعد احمد شاہ کی ذاتی کوششوں سے شایع ہوا۔ جب کہ شاعر خود موجود نہیں اور ان کے گھر والے بھی نہیں کیونکہ مدنی صاحب نے شادی نہ کی تھی۔ اس سے ادب نوازی کے گہرے لگاؤ کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس موقعے پر عزیز حامد مدنی کے دو اشعار صاحبان ذوق کے لیے:
گل کا وہ رخ بہار کے آغاز سے اٹھا
شعلہ سا عندلیب کی آواز سے اٹھا
جیسے دعائے نیم شبی کا سرود ہو
اک شور میکدے میں اس انداز سے اٹھا
دیکھیے یہ کلام آرٹس کونسل نے محفوظ کر دیا ہے۔ ادب نوازی کا یہ واضح ثبوت ہے، مگر اس قیادت کی آرٹ کی تمام جہتوں پر نظر اور پروگرام کرانے میں توسیع سال میں سیکڑوں پروگراموں کا تسلسل۔ ایک نیا کام جو موجودہ لیڈرشپ نے شروع کیا وہ اردو کانفرنس کا انعقاد ہے۔ 8 دسمبر سے 11 دسمبر تک یہ کانفرنس آرٹس کونسل میں منعقد ہو گی۔ ہر روز 3 سے 4 اجلاس ہوں گے۔ ان پروگراموں میں نے اردو زبان کو عالمی افق پر لے جانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے مگر صد افسوس اس کے باوجود کہ ناقدروں نے نیب سے شکایت کر کے آرٹس کونسل کے خازن کے دفتر پر چھاپا ڈلوا دیا۔ مگر کیا ہونا تھا وہی ڈھاک کے 3 پات۔ تحقیقات کے بعد مقدمہ خارج ہو گیا اور نتیجتاً سندھ ہائی کورٹ کا مقدمہ بھی خارج ہو گیا۔
جب کہ آرٹس کونسل کے الیکشن سیاست دانوں کے لیے بھی ایک مثال ہوتے ہیں جب کراچی میں آپریشن نہ تھا پورے شہر میں خوف اور موت منڈلا رہی تھی ایسے موقعے پر بھی آرٹس کونسل میں پروگرام ہوتے رہے۔ دراصل آرٹس کونسل تہذیب کا ایک دفتر ہے جو فنون کی روش پر دیے جلا رہا ہے جس سے سیاہ راستے خود منور ہو رہے ہیں۔
جب برصغیر تقسیم ہوا تو کراچی کے بھاگ جاگے، قائد اعظم نے اس کو ملک کا دارالسلطنت قرار دے دیا، یہاں آنے والوں میں صرف خانماں خراب نہ تھے بلکہ ایک مضبوط بیوروکریسی اور کثیر تعداد شعرا اور ادبا بھی آن بسے۔ ان آنے والوں میں ایک صاحبہ ثروت خاتون عطیہ فیضی رحمین بنت حسن علی فیضی بھی ہیں جن کو کراچی کونسل آف پاکستان کی تاریخ میں بھلایا نہ جا سکے گا کیونکہ ان کی ابتدائی کوششیں غیر معمولی ہیں۔
1948ء کی ابتدا میں ممبئی سے کراچی آئیں ''ایوان رفعت'' کو آباد کیا یہاں پر ادبی محفلیں، دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں، مصوروں کو جمع کرنا شروع کر دیا۔ خیال کو شکل دینے کی تگ و دو کی جن میں فیض صاحب کا بھی ایک حصہ ہے۔ آخر کار ان محفلوں نے 1955ء میں ایک غیر رسمی فائن آرٹس سوسائٹی قائم کی۔
بعد ازاں اس سوسائٹی کا ہر فرد اس تنظیم کو فعال کرنے میں کوشاں ہو گیا۔ بالآخر 1963ء میں اس تنظیم کو سوسائٹی ایکٹ 1860ء شق نمبر (XXI) کے تحت رجسٹر کر لیا گیا، جس کا نام آرٹس کونسل آف پاکستان رکھا گیا۔
آرٹس کونسل آف پاکستان کا مطلب یہ ہوا کہ اس طرز کی کوئی سوسائٹی اس وقت ملک میں موجود نہ تھی۔ کیونکہ کراچی کو تجارتی اہمیت کے علاوہ مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ اس سوسائٹی کو عطیہ فیضی نے ذاتی زمین کا تحفہ دیا جو ایک عظیم قربانی تھی۔ عطیہ فیضی کوئی عام عورت نہ تھیں جو ان کا لہجہ سنتا اور انداز گفتگو دیکھتا بس ہمہ تن گوش ہو جاتا تھا۔ تعجب ہے ہمہ تن گوش ہونے والوں محو غم دوش رہنے والوں میں علامہ اقبال، شبلی نعمانی جیسے اکابرین بھی تھے اور چھوٹے موٹوں کا کیا کہنا ان کا شوہر ایک یہودی تھا جو ان کی محبت میں رہ کر مشرف بہ اسلام ہوا۔
عطیہ فیضی پیدا استنبول ترکی میں ہوئیں اور 1967ء میں 90 سال کی عمر میں کراچی میں وفات پائی۔ علامہ اقبال لندن ان سے ملنے جاتے تھے ایک بار تو ان سے سردیوں میں ملنے چلے گئے ان کی تحریر کے بھی وہ معترف تھے۔ غرض ایسے لوگوں سے دنیا خالی ہوتی جا رہی ہے۔ اب لوگ آرٹس کونسل میں جشن مناتے ہیں مگر عطیہ فیضی کا تذکرہ کم ہی ہوتا ہے۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ آرٹس کونسل کے انتخابات ہوتے رہے پروگرام ہوتے رہے۔
اس ادارے کو نئے خطوط پر چلانے کے لیے ریڈیو پاکستان کے مقبول پروگرام کرنے والوں میں یاور مہدی کا نام مشہور ہے جو 1970ء کی دہائی میں اپنا لوہا منواتے رہے۔ وہاں ایک دہائی سے ان کا نام چلتا رہا۔ وہاں سے رخصت ہو کر انھوں نے آرٹس کونسل کی تنظیم نو کی۔ فائن آرٹس اور کمرشل آرٹس کی کلاسیں ہوتی تھیں۔ پروگرام بھی گاہے بہ گاہے ہوتے تھے۔ مگر ان کی قیادت میں رات کو دیر تک کے پروگرام کا کلچر نہ تھا۔
ان کے دست راست حضرات ادارے کو جدید خطوط پر نہ چلا سکے۔ وہاں ایک دور ایسا بھی آیا کہ آرٹس کونسل کی قیادت ٹی وی پروگرام میں اینکر پرسن بننے والے انیق احمد کرنے لگے جن کے پاس آرٹس کونسل کو چلانے کے علاوہ دوسرے کام ہوتے تھے۔ کبھی کبھی آرٹس کونسل آئے لوگ ان کو ڈھونڈتے رہتے۔ ان کی پشت پر یاور مہدی کا ہاتھ تھا بہرحال اپنے اعتبار سے وہ لوگوں کا چناؤ کرتے تھے۔ مگر ان کی پارٹی کے کارکنان یاور صاحب کے راستوں پر نہ چل سکے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ گزشتہ آٹھ برسوں سے ایک نئی قیادت نے آرٹس کونسل کے انتخابات میں فتح پانی شروع کی۔ رفتہ رفتہ اس قیادت کے روح رواں احمد شاہ نے آرٹس کونسل کا زاویہ نگاہ بدل دیا۔
اس قیادت کا یہ خیال تھا کہ آرٹس کونسل کی معاشی پوزیشن کو مستحکم کیا جائے تا کہ آرٹس کونسل میں جو ارکان عسرت میں گھرے ہیں ان کی گاہے بہ گاہے مدد کی جائے اور آرٹس کونسل کو یتیمی کے انداز میں چلنے والے ادارے کی شکل میں نہ چلایا جائے۔ ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے، باقاعدگی سے منافع بخش کام کیے جائیں۔
ادارے کو وسعت دی جائے نیا جدید آڈیٹوریم بنایا جائے، جہاں تھیٹر جدید انداز میں منعقد کیے جائیں۔ نیا جدید آڈیٹوریم مکمل اے سی اور اعلیٰ ساؤنڈ سسٹم کے تحت ہال بنایا گیا جو کسی بھی فائیو اسٹار ہوٹل کے ہال سے بہتر ہے۔ یہ کس قدر اچھا ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ ماضی میں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اکثر پروگرام فائیو اسٹار ہوٹلوں میں کیا کرتے تھے مگر گزشتہ برسوں سے وہ اپنے پروگرام آرٹس کونسل میں کرتے ہیں بلکہ اس مرتبہ انھوں نے پروگرام کرنے کے بعد 25 لاکھ روپے آرٹس کونسل کے فنڈ میں دینے کا اعلان کیا جس کو احمد شاہ جو گزشتہ 8 برسوں سے الیکشن جیت رہے ہیں۔
انھوں نے وزیر اعلیٰ بلوچستان کو اسٹیج پر آ کر واپس کرنے کا اعلان کیا کہ وہ ایک مہمان کی حیثیت سے آئے ہیں، مگر مالک صاحب نے رقم واپس نہ لی لیکن یہ انداز آرٹس کونسل کی تہذیب کا طرز عمل تھا۔ ظاہر ہے آرٹس کونسل محض راگ و رنگ کا کھیل نہیں یہ تہذیب و ثقافت کا ایک آئینہ ہے۔ احمد شاہ نے محض زبانی، کلامی گفتگو کے آرٹ سے ہی قیادت نہیں کی ہے بلکہ انھوں نے یہ محسوس کر لیا کہ تجارتی طبقے کو آرٹس کونسل میں جگہ دی جائے اور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کو بھی یہاں رکنیت دی جس سے عطیات میں اضافہ ہوا اور اپنی تدبیری صلاحیت سے گورنر ہاؤس اور چیف منسٹر ہاؤس میں توازن قائم کیا۔ آرٹس کونسل کو کسی پارٹی کا سیاسی اکھاڑہ نہ بننے دیا۔
رفتہ رفتہ ادبی اداروں کے ساتھ تجارتی اداروں کے مالکان بھی رکنیت میں شامل ہوئے ورنہ فنون لطیفہ کے ارکان کے 300 روپے سالانہ فیس سے تو خط و کتابت بھی ممکن نہ تھی۔ پروگرام تو دور کی بات ہے۔ اس کے علاوہ ایک خاص بات کہ کمرشل پروگراموں اور عام رفاہی اور اصلاحی پروگراموں کو اکثر مفت جگہ دی جاتی ہے مگر مفت جگہ ان پروگراموں کے لیے جو پروگرام مقصدیت سے پُر اور لوگوں کے ذوق کی تسکین ہوتی ہو، جب کہ دوسری جانب ایئرکنڈیشن آڈیٹوریم ایک منافع بخش پلیٹ فارم ہے۔
اس طرح سالانہ آمدنی کا ذریعہ ہے جس کا مقصد آرٹس کونسل کے لوگوں کو تسکین دینا ہے تا کہ ان لوگوں کی فنی قوت مجروح نہ ہو۔ اس کے علاوہ ایسے بھی آرٹسٹ موجود ہیں جو غربت کے حصار میں ہیں، ان کی خاموشی سے مدد کرنا بھی احمد شاہ کا شیوہ ہے۔ اگر کسی قادر الکلام کو اپنی نگارشات کو شایع کرانا ہے اور کتاب چھپوانے کی حیثیت نہیں ہے تو یہ کام بھی ادارہ کرتا رہا ہے۔
اردو کے صاحب تفکر اور طرز مرصع کے شاعر عزیز حامد مدنی کا کلام ان کی موت کے تقریباً 20 برس بعد احمد شاہ کی ذاتی کوششوں سے شایع ہوا۔ جب کہ شاعر خود موجود نہیں اور ان کے گھر والے بھی نہیں کیونکہ مدنی صاحب نے شادی نہ کی تھی۔ اس سے ادب نوازی کے گہرے لگاؤ کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس موقعے پر عزیز حامد مدنی کے دو اشعار صاحبان ذوق کے لیے:
گل کا وہ رخ بہار کے آغاز سے اٹھا
شعلہ سا عندلیب کی آواز سے اٹھا
جیسے دعائے نیم شبی کا سرود ہو
اک شور میکدے میں اس انداز سے اٹھا
دیکھیے یہ کلام آرٹس کونسل نے محفوظ کر دیا ہے۔ ادب نوازی کا یہ واضح ثبوت ہے، مگر اس قیادت کی آرٹ کی تمام جہتوں پر نظر اور پروگرام کرانے میں توسیع سال میں سیکڑوں پروگراموں کا تسلسل۔ ایک نیا کام جو موجودہ لیڈرشپ نے شروع کیا وہ اردو کانفرنس کا انعقاد ہے۔ 8 دسمبر سے 11 دسمبر تک یہ کانفرنس آرٹس کونسل میں منعقد ہو گی۔ ہر روز 3 سے 4 اجلاس ہوں گے۔ ان پروگراموں میں نے اردو زبان کو عالمی افق پر لے جانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے مگر صد افسوس اس کے باوجود کہ ناقدروں نے نیب سے شکایت کر کے آرٹس کونسل کے خازن کے دفتر پر چھاپا ڈلوا دیا۔ مگر کیا ہونا تھا وہی ڈھاک کے 3 پات۔ تحقیقات کے بعد مقدمہ خارج ہو گیا اور نتیجتاً سندھ ہائی کورٹ کا مقدمہ بھی خارج ہو گیا۔
جب کہ آرٹس کونسل کے الیکشن سیاست دانوں کے لیے بھی ایک مثال ہوتے ہیں جب کراچی میں آپریشن نہ تھا پورے شہر میں خوف اور موت منڈلا رہی تھی ایسے موقعے پر بھی آرٹس کونسل میں پروگرام ہوتے رہے۔ دراصل آرٹس کونسل تہذیب کا ایک دفتر ہے جو فنون کی روش پر دیے جلا رہا ہے جس سے سیاہ راستے خود منور ہو رہے ہیں۔