جائز حق بھی ناجائز طریقے سے کیوں آخر کیوں

عوام کا المیہ دیکھیے کہ اِن کو اپنا جائز حق حاصل کرنے کیلئے بھی ناجائز طریقہ کار اختیار کرنا پڑتا ہے۔

اِس میں کوئی رو رائے نہیں کمیشن مافیا کے خاتمے کے ساتھ ہی پاکستان میں کرپشن میں کم از کم 50 فیصد فوری کمی واقع ہو گی۔ فوٹو:فائل

اگر پاکستان کو 'کمیشن مافیا' کی جنت اور 'کمیشن ایجنٹوں' کو پاکستان کا بے تاج بادشاہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا- کون سا ایسا جائز نا جائز کام ہے جو یہ منٹوں میں نہیں کرسکتے؟ ان کے تعلقات سرکاری محکموں کے چھوٹے عملے سے لے کر افسران بالا اور پارلیمنٹ ہاؤس تک ہوتے ہیں اور انہی تعلقات کی بنیاد پر یہ ہر ناممکن کام بھی ممکن کرکے دکھا دیتے ہیں۔

ایسے افراد کی عام طور پر دو اقسام ہوتی ہیں۔ پہلی قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو واقعی پروفیشنل کمیشن ایجنٹ ہوتے ہیں اور باقاعدہ اسے ایک پیشے کی طرح اپنا لیتے ہیں۔ جبکہ دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جو ہوتے تو کسی اور شعبے سے منسلک ہیں لیکن اضافی آمدن کے لیے پارٹ ٹائم ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں۔ ایسے افراد انتہائی پروفیشنل انداز میں اپنا کام سر انجام دیتے ہیں۔ اگر آپ ان سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں تو یہ عام طور پر آپ کو کسی بھی رویونیو ڈیپارٹمنٹ، ایکسائز آفس، پاسپورٹ آفس، تھانہ، کچہری،عدالت، ضلع تحصیل اور یونین کونسل کے دفاتر کے سامنے با کثرت مل جائیں گے۔

یہ افراد محض مندرجہ بالہ بیان کیے گئے محکموں میں نہیں بلکہ تقریباً تمام ہی سرکاری محکموں میں یہ باقاعدہ طور پر موجود ہوتے ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہ محکمے کے ''غیر سرکاری ملازمین'' اِن محکموں کے سرکاری ملازمین اور افسران سے بھی زیادہ صاحبِ اختیار ہوتے ہیں۔

اگر اِن کے طریقہ واردات کی بات کی جائے تو یہ ایسے ہوتا ہے کہ یہ سرکاری ملازمین عام اور جائز کام جان بوجھ کر اس قدر مشکل بنا دیتے ہیں کہ غریب عوام کے پاس اس بات کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ وہ ان 'کمیشن ایجنٹوں' سے ''معاملات'' طے کریں اور ان کو پیسے دیں تاکہ وہ ان پیسوں سے ان محکموں کے ہلکاروں کو خوش کرسکیں اور اس کے بعد آپ کا بظاہر انتہائی پیچیدہ نظر آنے والا کام پلک جھپکتے میں حل ہوجاتا ہے۔ عام طور پر کام کا بھاؤ انسان کی مجبوری اور کام کی پیچیدگی دیکھ کر لگاتے ہیں۔ اِس کے علاوہ اس انسان کی سادگی اور کم علمی کو بھی بنیاد بنا کر خوب لوٹا جاتا ہے جبکہ اس کے برعکس اگر آپ پڑھے لکھے اور قدرے تیز طرار ہیں تو آپ سے معاملات قدرے کم پیسوں میں بھی طے پا جاتے ہیں۔

ایسی ایک مثال کا میں عینی شاہد ہوں جب ایک کمیشن ایجنٹ نے ایک سادہ لوح زمیندار کو دھوکہ دینے کی کوشش کی پٹواری سے کام نکلوانا اُن کے بس کی بات نہیں، ابتداء میں تو وہ انکار کرتے رہے اور اصرار کرتے رہے کہ اپنا کام خود ہی کروائیں گے مگر وقت جب ہاتھ سے نکلتا رہا اور کام بنتا دکھائی نہیں دیا تو مجبوراً زمیندار نے کمیشن ایجنٹ سے رابطہ کیا، جس پر ایجنٹ کا کہنا تھا کہ پٹواری سے فرد بنوانے میں 10 ہزار کا خرچہ ہوجائے گا، اب کام تو کروانا تھا بس اِسی مجبوری کا ایجنٹ نے فائدہ اُٹھایا اور جو کام محض 100 روپے میں ہوسکتا تھا اُس کے لیے 10 ہزار خرچ کرنے پڑگئے۔ اصل میں معاملہ یہ ہے کہ اِن سرکاری محکموں کے کلرکوں، ریڈروں اور افسران نے عوام میں ایسی دہشت پھیلا رکھی ہوئی ہے کہ یہ عام عوام ڈائریکٹ ان سرکاری ملازمین کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں اور پھر انہی پیشہ ور کمیشن ایجنٹوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ ان سرکاری ملازمین اور ان ایجنٹوں کے اِس گٹھ جوڑ سے کرپشن کا بازار خوب گرم ہوتا ہے اور معاملات باہر ہی باہر نپٹا لئے جاتے ہیں۔ ان کمیشن ایجنٹوں کا اصل فائدہ ان سرکاری ملازمین کو ہوتا ہے جو نہ تو خود سے رشوت طلب کرنے کا رسک لیتے ہیں اور نہ ہی قانون کی گرفت میں آپاتے ہیں اور شام تک اچھا خاصا ''نذرانہ'' بھی جمع ہوجاتا ہے۔

یوں روزانہ اربوں روپے کی رشوت انتہائی منظم اور ''قانونی'' طریقے سے کرپٹ سرکاری ملازمین کی جیبوں میں پہنچ جاتی ہے۔ ایسا ہی ایک تجربہ مجھے پاسپورٹ بنوانے کے دوران ہوا اور میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ قانون اور اصولوں کے مطابق پاسپورٹ بنوانے کا تجربہ کسی ایک آدھ کو ہی ہوا ہوگا اور اکثریت کو اپنا جائز حق حاصل کرنے کے لیے بھی اِن ناجائز طریقہ کار یعنی کمیشن مافیا کے ذریعے ہی معاملہ حل کروانا پڑتا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو انتہائی فضول اور بے تکے اعتراضات اور وقت ضائع کرنے کے مختلف حیلے بہانے کئے جاتے ہیں اور ایک ملازمت پیشہ شخص جو بمشکل چھٹی لے کر آتا ہے آخر کار تنگ آ کر اپنا پاسپورٹ ان ایجنٹوں کے حوالے کرتا ہے۔ جو نذرانہ لے کر اس کو ایک انتہائی لمبی لائن میں لگائے بغیر پورے پروٹوکول اور انتہائی ڈھٹائی سے آگے نکال دیتے ہیں۔


اگرچہ ہمارے وزیر داخلہ اور ڈی جی پاسپورٹ انتہائی وثوق سے دعوے کرتے نظر آتے ہیں کہ پاسپورٹ آفس سے ان ایجنٹوں کا خاتمہ کردیا ہے لیکن حقیقت میں معاملات اِس کے برعکس ہیں۔ اگر حکومت کے دعوے کے باوجود بھی یہ کمیشن ایجنٹ پوری آب و تاب سے اپنے کام کررہے ہیں تو پھر گمان ہوتا ہے کہ کہیں یہ ایجنٹس پاکستان کے وزیر داخلہ سے بھی کہیں زیادہ طاقتور تو نہیں؟

میرے ایک بہت اچھے دوست ہیں جن کے والد آجکل وفاقی وزیر بھی ہیں وہ کہتے ہیں جس کام کو کروانے کے لئے پیسہ آجائے، وہاں وفاقی وزیر کی سفارش بھی بے اثر ہوجاتی ہے۔ میرے ایک اور بہت اچھے دوست گورنمنٹ کنٹریکٹر ہیں اور ماشااللہ بہت صاحبِ حیثیت بھی ہیں، اِس قدر صاحبِ حیثیت ہیں کہ اسلام آباد میں ان کی کئی ذاتی کوٹھیاں ہیں۔ ایک دن انہوں نے مجھے آفر کی کہ میں بینک کی نوکری چھوڑ کر ان کے ساتھ اسی بزنس میں شامل ہوجاؤں تو میں نے ان سے معذرت کی کہ میرا اس کام کا کوئی تجربہ نہیں لہذا مجھے معاف ہی رکھیں تو بہتر ہے۔ میرے انکار پر انہوں نے مجھے اپنی اس ''کامیابی'' کی کہانی سنائی۔

اُن کے بقول وہ پہلے محکمہ سوئی گیس میں میٹر ریڈر تھے، دورانِ نوکری ایک حادثے میں اُن کی ایک ٹانگ بُری طرح متاثر ہوئی اور ان کے لئے چلنا مشکل بھی ہوگیا، معاملات اِس قدر خراب ہوگئے کہ محکمہ نے انہیں جبری ریٹائر کردیا۔ وہ بتارہے تھے کہ وہ دن اُن کی زندگی کے مشکل ترین دن تھے لیکن خدا کا کرنا کیا ہوا کہ وہ ایسے ہی ایک کمیشن ایجنٹ کے ہتھے چڑھ گئے۔ جس نے ان سے رشوت لے کر انہیں ایک گلی پکی کرنے کا ایک چھوٹا سا کنٹریکٹ دلوا دیا اور پھر وہاں سے ہی انہوں نے پاکستان میں راتوں رات ترقی کرنے کا گر سیکھا۔ انہی کمیشن ایجنٹوں سے ساز باز کرکے انہوں نے بے تحاشہ کنٹریکٹ حاصل کئے اور آج وہ محض 10 سال کے مختصر سے عرصہ میں ایک میٹر ریڈر سے کروڑ پتی کنٹریکٹر بن گئے ہیں اور وہ اپنی اس کامیابی کا سہرا برملا ان کمیشن ایجنٹوں کو دیتے ہیں۔ اُن کے بقول جو شخص ان کو ''خوش'' کرنا سیکھ لیتا ہے کامیابی ان کے گھر آ کر دستک دیتی ہے۔

میری ذاتی رائے کے مطابق اگر حکومتِ پاکستان واقعی کرپشن ختم کرنے کے لئے کوئی قدم اٹھانا چاہتی ہے تو سب سے پہلے پاکستان کی عوام کو اس کمیشن مافیا سے فوری طور پر چھٹکارہ دلوائے، میں یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس کمیشن مافیا کے ختم ہوتے ہی پاکستان میں کرپشن میں کم از کم 50 فیصد فوری کمی کا واضح امکان ہے اور غریب عوام سُکھ کا سانس لے سکے گی۔

[poll id="808"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story