ڈی پورٹ پاکستانیوں کا مسئلہ

ان ایجنٹوں کے خلاف بھی بھرپور کارروائی ہونی چاہیے جنہوں نے ان پاکستانیوں کو سہانے خواب دکھا کر بیرون ملک بھیجا۔

ان ایجنٹوں کے خلاف بھی بھرپور کارروائی ہونی چاہیے جنہوں نے ان پاکستانیوں کو سہانے خواب دکھا کر بیرون ملک بھیجا۔ فوٹو : آئی این پی

WASHINGTION:
جمعرات کو یونان سے بے دخل کیے گئے 49 افراد کو لے کر ایک خصوصی چارٹر طیارے کے اسلام آباد ایئر پورٹ پر اترنے کے بعد 30 افراد کو شہریت کی تصدیق نہ ہونے پر اسی طیارے میں واپس بھجوا دیا گیا جب کہ 19 افراد کو پاکستانی شہریت کی تصدیق کے بعد حراست میں لے کر ایف آئی اے پاسپورٹ سیل کے حوالے کر دیا گیا اور ان کے خلاف مقدمات درج کرلیے گئے ہیں۔

ایف آئی اے حکام کے مطابق پاسپورٹ سیل کے حوالے کیے جانے والے 19 افراد کے نام اس فہرست میں شامل تھے جو چند روز قبل وزارت داخلہ کی طرف سے انھیں موصول ہوئی تھی جس میں 38 افراد کے نام ہیں جن کی فہرست یونان حکومت نے پہلے دی تھی اور پاکستانی حکام نے ان کی شہریت کی تصدیق بھی کی تھی۔

دوسری جانب وزیرداخلہ چوہدری نثار نے یونان سے بے دخل افراد کو لے کر آنے والے طیارے کی لینڈنگ کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا ہے کہ طیارے کو کس طرح لینڈنگ کی اجازت دی گئی؟ وزیرداخلہ نے کہا کہ غیر تصدیق شدہ کوائف پر کسی بھی ملک سے کسی بھی شخص کو پاکستان ڈی پورٹ کرنے کی صورت میں انھیں اسی فلائٹ سے واپس کر دیا جائے گا۔ یورپین یونین کے کمشنر سے تمام معاملات طے پانے کے باوجود ایک یورپی ملک کی جانب سے پاکستانی قوانین کی خلاف ورزی کی گئی جس کی قطعاً اجازت نہیںدی جا سکتی۔ کچھ ممالک اس غیر اخلاقی، غیر انسانی اور غیرقانونی طریقہ کار کو روکنے کے لیے ہمارے پختہ عزم کو سمجھ نہیں پا رہے۔

ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ بیرون ملک سے بے دخل کیے گئے افراد کو شہریت کے ثبوت نہ ہونے کی بناء پر واپس بھجوایا گیا ہے' وزارت داخلہ کے حکام کے مطابق تارکین وطن کے امور کے بارے میں یورپی یونین کے حکام سے حالیہ ملاقات میں یہ طے کیا گیا تھا کہ یورپی یونین اور پاکستانی حکومت کے درمیان 2009ء میں ہونے والے معاہدے کے سقم دور کیے جائیں گے' وزارت داخلہ کے حکام کے مطابق ابھی یہ معاملہ حل نہیں ہوا اور اس سے پہلے ہی یورپی یونین کے رکن ملک کی طرف سے اس کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔


وزارت داخلہ کے ایک اہلکار کے مطابق اس سے پہلے بھی یونان سے کچھ پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کیا گیا تھا تاہم انھیں جہاز سے اترنے کی اجازت دی گئی تھی' یونان میں سیکڑوں پاکستانی جعلی دستاویزات کے الزام میں پکڑے گئے ہیں جنھیں واپس بھجوانے کے لیے یونان کی حکومت نے تمام تیاریاں مکمل کر رکھی ہیں۔

دوسری جانب وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے پاکستان میں کینیڈین ہائی کمشنر کو بھی ایک خط لکھا ہے کہ کینیڈا کی سفری دستاویزات پر سفر کرنے والے کسی بھی ڈی پورٹ ہونے والے شخص کو قبول نہیں کیا جائے گا نہ ہی ان کے ساتھ آنے والے سرکاری حکام کو امیگریشن کی اجازت دی جائے گی۔ ادھر یورپی یونین کے ترجمان کا بیان ہے کہ شناختی کارڈ کی تصدیق پاکستانی حکام کا کام ہے' ہمارے پاس اس کا کوئی نظام نہیں ہے۔ پیرس میں حملوں کے بعد پورے یورپ میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد کے خلاف کارروائیوں میں تیزی آ گئی ہے اور انھیں گرفتار کر کے متعلقہ ممالک کے حوالے کیا جا رہا ہے۔

عوامی حلقوں کے مطابق اس وقت ہزاروں پاکستانی غیر قانونی طور پر بیرون ملک مقیم ہیں' اندرون ملک ایجنٹوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھاری معاوضہ لے کر پاکستانیوں کو غیرقانونی طور پر بیرون ملک بھجوانے کے دھندے میں ملوث ہے' یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان ایجنٹوں کی سرپرستی بعض اعلیٰ سرکاری افسران کرتے ہیں۔ پاکستانی حکومت کی جانب سے کئی بار ایسے بیانات سامنے آئے کہ ان ایجنٹوں اور ان کے سرپرستوں کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے گی مگر بات بیانات سے آگے نہ بڑھ سکی اور پاکستانیوں کا بیرون ملک غیر قانونی طور پر جانے کا سلسلہ جاری رہا۔

دوسری جانب حکومت پاکستان نے بیرون ملک سے ڈی پورٹ کیے گئے پاکستانیوں سے متعلق نئی پالیسی تشکیل دی ہے جس کے تحت اگر کسی پاکستانی کو ڈی پورٹ کرنا ہو تو متعلقہ ملک کو اس کی وجہ بھی بتانا ہو گی اور تصدیق کیے بغیر کسی شخص کو واپس نہیں لیا جائے گا۔ اب غیر ممالک میں مقیم ہزاروں غیرقانونی پاکستانی پریشانی کا شکار ہیں اگر انھیں اپنی حکومت بھی تسلیم نہیں کرتی تو پھر ان پاکستانیوں کا کیا مستقبل ہو گا اور انھیں کس کے سہارے چھوڑ دیا جائے گا' کیا انھیں غیر ممالک کی حکومتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے گا حکومت کو اس بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔

ان ایجنٹوں کے خلاف بھی بھرپور کارروائی ہونی چاہیے جنہوں نے ان پاکستانیوں کو سہانے خواب دکھا کر بیرون ملک بھیجا۔ جن تارک وطن پاکستانیوں کے پاس دستاویزی ثبوت نہیں ان کے تحفظ کے لیے بھی کوئی پالیسی تشکیل دی جانی چاہیے۔ ادھر ایسے غیر ملکی خصوصاً افغانستان کے باشندے جنہوں نے پاکستانی شناختی کارڈ یا پاسپورٹ بنائے ہیں اور وہ غیر ممالک میں ہیں' ان کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے اور جن لوگوں نے انھیں پاکستانی دستاویزات تیار کرانے میں مدد کی' ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔
Load Next Story