پلیز بچے کم پیداکریں
ایک زمانہ تھا جب چین جاپان اورکوریا آج کے مقابلے میں نسبتاً کم ترقی یافتہ تھے اورغربت کا سامنا کررہے تھے۔
ایک زمانہ تھا جب چین جاپان اورکوریا آج کے مقابلے میں نسبتاً کم ترقی یافتہ تھے اورغربت کا سامنا کررہے تھے۔اس وقت ان ملکوں کی حکومتیں اپنے عوام کو بچے کم پیدا کرنے کی جبری تلقین کرتی تھیں، چین نے تو اپنے بڑے شہروں میں ایک فیملی میں ایک سے زائد بچے پیدا کرنے پر پابندی لگادی تھی اورایک سے زائد بچہ پیدا کرنے پر باقاعدہ سزائیں دی جاتی تھیں، یہی حال جنوبی کوریا کا تھا۔
1970 اور 1980 کی دہائیوں میں ایک دور وہ بھی تھا کہ جنوبی کوریا کی حکومت کا سب سے زیادہ زورغربت مٹانے پر تھا اوراس کا ایک طریقہ اس کی سمجھ میں یہ آیا تھا کہ بچے کم سے کم پیدا کیے جائیں۔اس کے لیے کئی ٹیمیں تشکیل دی گئی تھیں اس مہم کے انچارج مسٹرکم چنگ جانی تھے جنھوں نے اپنے محکمۂ صحت کے کئی افسران کو اس کام پر لگا رکھا تھا۔
یہ لوگ مختلف گاؤں اوردیہات کا دورہ کرتے اور لوگوں کو خاندانی منصوبہ بندی کے فوائد بتاتے، اس موقعے پر وہ لوگوں میں مانع حمل ادویات تقسیم کرتے، مردوں، عورتوں کو احتیاط اوراگر ہوسکے تو نس بند کروانے کی ترغیب دیتے، اس کام کے لیے کلینک کی مفت سہولتیں بھی فراہم کی جاتیں۔ اس کے علاوہ بیویوں کو انعام میں مفت آٹے کی بوریاں دی جاتیں اور شوہروں کو لازمی فوجی تربیت سے استثنیٰ دلوانے کا لالچ دیا جاتا، جیسا کہ مسٹرکم نے مزید بتایاکہ ہم میں سے ہر ایک کے لیے کوٹا مقررکیا گیا تھا کہ کم سے کم اتنے افراد کو ہمیں فیملی پلاننگ پر آمادہ کرنا ہے۔
کوئی سرکاری ملازم جسے اپنی پروموشن کی فکر اور پرواہ ہو اس سرکاری خواہش کو نظر انداز نہیں کرسکتا تھا مگر اب جیسے فاسٹ فاروڈ کے ذریعے سن 2015 میں آجایے، چین میں ایک بچے والی فیملی کی تنہائیوں کا مداوا کرنے کے لیے ایک میاں بیوی کو دو بچوں کی اجازت دے دی گئی ہے، جاپان میں جہاں بوڑھوں کی تعداد جوانوں کے مقابلے میں بڑھ گئی ہے، عوام کو زیادہ بچے پیدا کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ادھر جنوبی کوریا میں مسٹرکم اور ان کے ساتھی اس کے بالکل برعکس کررہے ہیں جو وہ پہلے کیا کرتے تھے وہ مختلف جوڑوں کو زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی طرف راغب کررہے ہیں، بچے پیدا کرنے پر ماہانہ نقد الاؤنس دیا جاتا ہے اورگھروں پرگوشت اور دیگر اشیا خوراک کے ڈبے پہنچائے جاتے ہیں ۔
اس کے ساتھ ہی نوزائیدہ بچوں کے لیے کپڑے، ڈائپرز اوردوائیں پہنچائی جاتی ہیں۔ اخبارات میں بھی دنیا میں آنیوالے ان نئے مہمانوں کو خوش آمدید کہا جاتا ہے اور بچوں کی پیدائش پر مبارکبادیاں شایع کرائی جاتی ہیں۔ بچوں کے زندہ رہنے کی دعائیں کی جاتی ہیں، بچوں کے نام رکھنے کے لیے کنفیوشس اسکالرزکی خدمات پیش کی جاتی ہیں۔
جنوبی کوریا میں زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کروانے کی مہم کی ضرورت اس لیے پڑی کہ جنوبی کوریا کا برتھ ریٹ دنیا میں سب سے کم یعنی ایک اعشاریہ دو بچے فی ماں رہ گیا ہے۔ صرف ایک شہر ہنیام ایسا ہے جہاں بچوں کی پیدائش کی شرح ملک میں سب سے زیادہ یعنی دو اعشاریہ چار ہے اسی لیے یہ شہر ملک بھر کی امنگوں اور تمناؤں کا محور بن گیا ہے اور حکومت بھی اس سب سے زیادہ زرخیز شہر پر دامے اور درمے سب سے زیادہ توجہ دے رہی ہے۔یہ جنوبی کوریا وہی ملک ہے جہاں کے لوگ ملک کو ترقی اور خوشحالی پر گامزن کرنے کے طریقے سیکھنے آج سے چالیس سال پہلے پاکستان آیا کرتے تھے مگر پھر کیا ہوا؟ یہ سارے ممالک آسمان پر پہنچ گئے اور ہم اب بھی روز اول کی طرح زمین پر ہیں ۔
اس طرح مجموعی طور پر دیکھا جائے تو چین جاپان اورکوریا کے ہمیں دو ادوار نظر آتے ہیں۔ پہلا دور وہ تھا جب وہاں حکومت کے ہرکارے یہ درخواست لے کر آتے تھے کہ پلیزکم بچے پیدا کریں تاکہ ہمارا ملک ترقی کرسکے اور غربت اور جہالت دور ہو سکے اور اس کے لیے انگریزی زبان میں Carrot and Sticks دونوں طریقے استعمال کیے جاتے تھے پھر دوسرا دور وہ آیا جب تینوں ملکوں میں مزید بچے پیدا کرنے کی گنجائش پیدا کر لی گئی ہے اور معیشت کو اس قابل کرلیاگیا ہے کہ آبادی میں مزید اضافہ برداشت کر سکے بلکہ حکومت اس قابل ہوگئی ہے کہ بچے پیدا کرنے پر انعام و اکرام بھی دے سکے چنانچہ حال ہی میں جنوبی کوریا میں ایک خاتون کو تیسرا بچہ پیدا کرنے پر ڈیڑھ سال کی سرکاری خرچ پر میٹرنٹی Leave دی گئی ہے۔
اب ہم اس کے مقابلے میں ذرا اپنی اداؤں پر غورکریں، ہم رات دن پاک چین دوستی کا وظیفہ پڑھتے ہیں مگر وہ راستہ اختیار کرنے کو تیار نہیں جس پر چل کر اس عظیم برادر پڑوسی ملک نے ترقی اور خوشحالی کی منزلیں طے کی ہیں اور غربت اور جہالت سے پیچھا چھڑایا ہے۔اس کا مطلب ہے ہم ابھی پہلے دور میں ہی داخل نہیں ہوئے ہیں، ابھی تک ہمارے شہروں اورگاؤں دیہات میں حکومت کی طرف سے کوئی بھی یہ پیغام لے کر نہیں آیا ہے کہ ہم بچے کم پیدا کریں کیونکہ ترقی اورخوشحالی کی پہلی کنجی یہی ہے جس پر دنیا کی ترقی یافتہ قوموں نے عمل کیا ہے۔
ابھی تک سرکار کے کسی ہرکارے نے اس مقصد سے ہمارے دروازے پر دستک نہیں دی ہے۔کیا ہمارے ملک میں اتنی صنعتی ترقی اور سرمایہ کاری ہورہی ہے کہ اس ساری افرادی قوت کی کھپت ہوجائے گی۔ یہ بھی ایک ایسا خواب ہے جس کا شرمندہ تعبیر ہونا بیحد مشکل ہے اگر یہی حال رہا ہے تو ہمارے یہاں آبادی بڑھتی جائے گی اور بیروزگاری بھی،پھر اس بات کا بھی پورا پورا خطرہ ہے کہ بیروزگار نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ چوری چکاری، ڈکیتی اور اسی قسم کے دیگر جرائم کے راستے پر نکل کھڑا ہو اور ملک و قوم کے لیے ایک خوفناک چیلنج بن جائے یہ پہلو بھی ہمیں اس بات کا سبق دیتا ہے کہ ہم کم سے کم بچے پیدا کریں ایسے بچے جن کی اچھی تعلیم و تربیت ہم افورڈ کرسکیں اور جن کے لیے ہماری حکومت روزگارکا بندوبست کرسکے۔فی الحال صورتحال یہ ہے کہ ہم پہلے دور سے ہی جان نہیں چھڑاسکے ہیں۔
دوسرے دور میں داخلے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہمارے دوست ممالک جو ترقی اور خوشحالی کے حصول میں ہماری مدد کو آرہے ہیں بد قسمتی سے ابھی تک سب سے اہم کلیدی پیغام ہم تک پہنچانے میں ناکام رہے ہیں، انھوں نے یہ سب سے اہم ٹرمپ کارڈ ابھی تک اپنے پاس ہی رکھا ہے۔
1970 اور 1980 کی دہائیوں میں ایک دور وہ بھی تھا کہ جنوبی کوریا کی حکومت کا سب سے زیادہ زورغربت مٹانے پر تھا اوراس کا ایک طریقہ اس کی سمجھ میں یہ آیا تھا کہ بچے کم سے کم پیدا کیے جائیں۔اس کے لیے کئی ٹیمیں تشکیل دی گئی تھیں اس مہم کے انچارج مسٹرکم چنگ جانی تھے جنھوں نے اپنے محکمۂ صحت کے کئی افسران کو اس کام پر لگا رکھا تھا۔
یہ لوگ مختلف گاؤں اوردیہات کا دورہ کرتے اور لوگوں کو خاندانی منصوبہ بندی کے فوائد بتاتے، اس موقعے پر وہ لوگوں میں مانع حمل ادویات تقسیم کرتے، مردوں، عورتوں کو احتیاط اوراگر ہوسکے تو نس بند کروانے کی ترغیب دیتے، اس کام کے لیے کلینک کی مفت سہولتیں بھی فراہم کی جاتیں۔ اس کے علاوہ بیویوں کو انعام میں مفت آٹے کی بوریاں دی جاتیں اور شوہروں کو لازمی فوجی تربیت سے استثنیٰ دلوانے کا لالچ دیا جاتا، جیسا کہ مسٹرکم نے مزید بتایاکہ ہم میں سے ہر ایک کے لیے کوٹا مقررکیا گیا تھا کہ کم سے کم اتنے افراد کو ہمیں فیملی پلاننگ پر آمادہ کرنا ہے۔
کوئی سرکاری ملازم جسے اپنی پروموشن کی فکر اور پرواہ ہو اس سرکاری خواہش کو نظر انداز نہیں کرسکتا تھا مگر اب جیسے فاسٹ فاروڈ کے ذریعے سن 2015 میں آجایے، چین میں ایک بچے والی فیملی کی تنہائیوں کا مداوا کرنے کے لیے ایک میاں بیوی کو دو بچوں کی اجازت دے دی گئی ہے، جاپان میں جہاں بوڑھوں کی تعداد جوانوں کے مقابلے میں بڑھ گئی ہے، عوام کو زیادہ بچے پیدا کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ادھر جنوبی کوریا میں مسٹرکم اور ان کے ساتھی اس کے بالکل برعکس کررہے ہیں جو وہ پہلے کیا کرتے تھے وہ مختلف جوڑوں کو زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی طرف راغب کررہے ہیں، بچے پیدا کرنے پر ماہانہ نقد الاؤنس دیا جاتا ہے اورگھروں پرگوشت اور دیگر اشیا خوراک کے ڈبے پہنچائے جاتے ہیں ۔
اس کے ساتھ ہی نوزائیدہ بچوں کے لیے کپڑے، ڈائپرز اوردوائیں پہنچائی جاتی ہیں۔ اخبارات میں بھی دنیا میں آنیوالے ان نئے مہمانوں کو خوش آمدید کہا جاتا ہے اور بچوں کی پیدائش پر مبارکبادیاں شایع کرائی جاتی ہیں۔ بچوں کے زندہ رہنے کی دعائیں کی جاتی ہیں، بچوں کے نام رکھنے کے لیے کنفیوشس اسکالرزکی خدمات پیش کی جاتی ہیں۔
جنوبی کوریا میں زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کروانے کی مہم کی ضرورت اس لیے پڑی کہ جنوبی کوریا کا برتھ ریٹ دنیا میں سب سے کم یعنی ایک اعشاریہ دو بچے فی ماں رہ گیا ہے۔ صرف ایک شہر ہنیام ایسا ہے جہاں بچوں کی پیدائش کی شرح ملک میں سب سے زیادہ یعنی دو اعشاریہ چار ہے اسی لیے یہ شہر ملک بھر کی امنگوں اور تمناؤں کا محور بن گیا ہے اور حکومت بھی اس سب سے زیادہ زرخیز شہر پر دامے اور درمے سب سے زیادہ توجہ دے رہی ہے۔یہ جنوبی کوریا وہی ملک ہے جہاں کے لوگ ملک کو ترقی اور خوشحالی پر گامزن کرنے کے طریقے سیکھنے آج سے چالیس سال پہلے پاکستان آیا کرتے تھے مگر پھر کیا ہوا؟ یہ سارے ممالک آسمان پر پہنچ گئے اور ہم اب بھی روز اول کی طرح زمین پر ہیں ۔
اس طرح مجموعی طور پر دیکھا جائے تو چین جاپان اورکوریا کے ہمیں دو ادوار نظر آتے ہیں۔ پہلا دور وہ تھا جب وہاں حکومت کے ہرکارے یہ درخواست لے کر آتے تھے کہ پلیزکم بچے پیدا کریں تاکہ ہمارا ملک ترقی کرسکے اور غربت اور جہالت دور ہو سکے اور اس کے لیے انگریزی زبان میں Carrot and Sticks دونوں طریقے استعمال کیے جاتے تھے پھر دوسرا دور وہ آیا جب تینوں ملکوں میں مزید بچے پیدا کرنے کی گنجائش پیدا کر لی گئی ہے اور معیشت کو اس قابل کرلیاگیا ہے کہ آبادی میں مزید اضافہ برداشت کر سکے بلکہ حکومت اس قابل ہوگئی ہے کہ بچے پیدا کرنے پر انعام و اکرام بھی دے سکے چنانچہ حال ہی میں جنوبی کوریا میں ایک خاتون کو تیسرا بچہ پیدا کرنے پر ڈیڑھ سال کی سرکاری خرچ پر میٹرنٹی Leave دی گئی ہے۔
اب ہم اس کے مقابلے میں ذرا اپنی اداؤں پر غورکریں، ہم رات دن پاک چین دوستی کا وظیفہ پڑھتے ہیں مگر وہ راستہ اختیار کرنے کو تیار نہیں جس پر چل کر اس عظیم برادر پڑوسی ملک نے ترقی اور خوشحالی کی منزلیں طے کی ہیں اور غربت اور جہالت سے پیچھا چھڑایا ہے۔اس کا مطلب ہے ہم ابھی پہلے دور میں ہی داخل نہیں ہوئے ہیں، ابھی تک ہمارے شہروں اورگاؤں دیہات میں حکومت کی طرف سے کوئی بھی یہ پیغام لے کر نہیں آیا ہے کہ ہم بچے کم پیدا کریں کیونکہ ترقی اورخوشحالی کی پہلی کنجی یہی ہے جس پر دنیا کی ترقی یافتہ قوموں نے عمل کیا ہے۔
ابھی تک سرکار کے کسی ہرکارے نے اس مقصد سے ہمارے دروازے پر دستک نہیں دی ہے۔کیا ہمارے ملک میں اتنی صنعتی ترقی اور سرمایہ کاری ہورہی ہے کہ اس ساری افرادی قوت کی کھپت ہوجائے گی۔ یہ بھی ایک ایسا خواب ہے جس کا شرمندہ تعبیر ہونا بیحد مشکل ہے اگر یہی حال رہا ہے تو ہمارے یہاں آبادی بڑھتی جائے گی اور بیروزگاری بھی،پھر اس بات کا بھی پورا پورا خطرہ ہے کہ بیروزگار نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ چوری چکاری، ڈکیتی اور اسی قسم کے دیگر جرائم کے راستے پر نکل کھڑا ہو اور ملک و قوم کے لیے ایک خوفناک چیلنج بن جائے یہ پہلو بھی ہمیں اس بات کا سبق دیتا ہے کہ ہم کم سے کم بچے پیدا کریں ایسے بچے جن کی اچھی تعلیم و تربیت ہم افورڈ کرسکیں اور جن کے لیے ہماری حکومت روزگارکا بندوبست کرسکے۔فی الحال صورتحال یہ ہے کہ ہم پہلے دور سے ہی جان نہیں چھڑاسکے ہیں۔
دوسرے دور میں داخلے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہمارے دوست ممالک جو ترقی اور خوشحالی کے حصول میں ہماری مدد کو آرہے ہیں بد قسمتی سے ابھی تک سب سے اہم کلیدی پیغام ہم تک پہنچانے میں ناکام رہے ہیں، انھوں نے یہ سب سے اہم ٹرمپ کارڈ ابھی تک اپنے پاس ہی رکھا ہے۔