امریکا نے ڈیورنڈ لائن کو سرحد قرار دیدیا
افغان باشندے مہاجرین کی شکل میں بڑی تعداد میں پاکستان خصوصاً خیبر پختونخوا میں آباد ہوئے
DERA GHAZI KHAN:
پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد جسے ''ڈیورنڈ لائن'' کہا جاتا ہے ، اسے افغانستان نے روز اول سے ہی تسلیم نہیں کیا حالانکہ یہ برطانوی دور سے ہی برصغیر پاک و ہند اور افغانستان کے درمیان سرحد چلی آ رہی ہے۔
اس حوالے سے گاہے بگاہے مختلف بیانات اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں۔اب امریکی دفتر خارجہ (اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ) نے واضح کیا ہے کہ ڈیورنڈ لائن پاکستان اور افغانستان کے درمیان بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سرحد ہے۔ اس سے قبل 21 اکتوبر کو افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکا کے خصوصی ایلچی مارک گراسمین نے افغان دارالحکومت کابل میں ایک نجی ٹی وی چینل پر بھی کہا تھا کہ امریکی حکومت ڈیورنڈ لائن کو دونوں ملکوں میں بین الاقوامی سرحد تسلیم کرتی ہے۔ عین اسی وقت کابل میں افغانستان کی وزارت امور خارجہ کی طرف سے سرکاری بیان جاری کیا گیا ہے کہ اس لائن کے قانونی اسٹیٹس (حیثیت یا درجہ) کے بارے میں کسی بھی طرف سے آنے والا کوئی بھی بیان بے معنی اور غیر متعلق ہے۔ یوں افغانستان نے ایک بار پھر روایتی طرز عمل کا مظاہرہ کیا۔
ادھر واشنگٹن میں دفتر خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ سے ایک رپورٹر نے ڈیورنڈ لائن کی حیثیت کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے کہا کہ ہماری پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور جو ایمبیسڈر گراسمین نے کہا ہے وہ بالکل درست ہے۔ انھوں نے اسے ایک بین الاقوامی سرحد قرار دیا ہے تو گویا یہ بین الاقوامی سرحد ہی ہے۔امریکا کی جانب سے ڈیورنڈ لائن کو بین الااقوامی سرحد تسلیم کرنا ، پاکستان کے موقف کی فتح ہے۔ پاکستان کو ڈیورنڈ لائن کو زیادہ محفوظ بنانے کا حق حاصل اور عالمی قوانین اسے اس کی اجازت دیتے ہیں۔پاکستان اور افغانستان کی سرحد چونکہ بہت زیادہ طویل ہے اور یہ علاقہ بھی انتہائی دشوار گزار ہے، اس لیے ابھی تک یہاں پوری طرح حفاظتی انتظامات نہیں ہیں، جس کا فائدہ اٹھا کر دہشت گرد عناصر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں آجاتے ہیں۔
سوات سے فرار ہونے والے ملا فضل اﷲ کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ افغانستان میں پناہ گزین ہے، اسی طرح کالعدم تحریک طالبان کے لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان سے فرار ہوکر افغانستان چلے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر حفاظتی اقدامات ناکافی ہیں جس کا فائدہ قانون شکن اور عسکریت پسند اٹھا رہے ہیں۔ پاکستان کی حکومت کو اس وقت دہشت گردی کے عفریت کا سامنا ہے۔ امریکا اور نیٹو کی فوجیں افغانستان میں موجود ہیں۔ وہاں افغان طالبان امریکی اور نیٹو فوج کی مزاحمت کر رہے ہیں۔ ان حالات میں پاک افغان سرحد انتہائی اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ ماضی میں پاکستان میں یہاں کسی قسم کے حفاظتی انتظامات کی ضرورت نہیں سمجھی۔ اس نرمی کا فائدہ اٹھا کر ڈیورنڈ لائن کے آر پار آنا جانا انتہائی آسان ہے۔
اس کی وجہ سے پاکستان میں افغان باشندوں کی آمد کا سلسلہ بلا روک ٹوک جاری رہا۔ افغان جنگ کی وجہ سے افغان باشندے مہاجرین کی شکل میں بڑی تعداد میں پاکستان خصوصاً خیبر پختونخوا میں آباد ہوئے۔ اس وجہ سے پاکستان خصوصاً خیبر پختونخوا کے سماجی نظام میں خرابیاں پیدا ہوئیں۔خیبر پختونخوا کی حکومت بھی اس بات کی حامی ہے کہ افغان مہاجرین کو واپس بھیجا جائے۔ بہر حال اس وقت سب سے زیادہ ضرورت ڈیورنڈ لائن کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانے کی ہے۔
پاک بھارت سرحد پر جس طرح حفاظتی اقدامات ہیں اسی طرح پاکستان کو افغانستان کی سرحد اور پھر ایران کی سرحد کے ساتھ انتظامات کرنے چاہئیں۔پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کی خود مختاری کا احترام کرتے ہیں۔ اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانا ہر ملک کا حق ہے۔ پاکستان اگر اپنی شمال مغربی سرحد کو محفوظ بناتا ہے تو اس کا فائدہ افغانستان کو بھی ہو گا۔ افغانستان کی حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ بے جا ضد چھوڑ کر اس معاملے میں پاکستان کی حمایت کرے۔ پاک افغان سرحد محفوظ بن گئی تو افغانستان میں دہشت گردی بھی خود بخود ختم ہو جائے گی اور پاکستان کی حکومت بھی دہشت گردی کے عفریت کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد جسے ''ڈیورنڈ لائن'' کہا جاتا ہے ، اسے افغانستان نے روز اول سے ہی تسلیم نہیں کیا حالانکہ یہ برطانوی دور سے ہی برصغیر پاک و ہند اور افغانستان کے درمیان سرحد چلی آ رہی ہے۔
اس حوالے سے گاہے بگاہے مختلف بیانات اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں۔اب امریکی دفتر خارجہ (اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ) نے واضح کیا ہے کہ ڈیورنڈ لائن پاکستان اور افغانستان کے درمیان بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سرحد ہے۔ اس سے قبل 21 اکتوبر کو افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکا کے خصوصی ایلچی مارک گراسمین نے افغان دارالحکومت کابل میں ایک نجی ٹی وی چینل پر بھی کہا تھا کہ امریکی حکومت ڈیورنڈ لائن کو دونوں ملکوں میں بین الاقوامی سرحد تسلیم کرتی ہے۔ عین اسی وقت کابل میں افغانستان کی وزارت امور خارجہ کی طرف سے سرکاری بیان جاری کیا گیا ہے کہ اس لائن کے قانونی اسٹیٹس (حیثیت یا درجہ) کے بارے میں کسی بھی طرف سے آنے والا کوئی بھی بیان بے معنی اور غیر متعلق ہے۔ یوں افغانستان نے ایک بار پھر روایتی طرز عمل کا مظاہرہ کیا۔
ادھر واشنگٹن میں دفتر خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ سے ایک رپورٹر نے ڈیورنڈ لائن کی حیثیت کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے کہا کہ ہماری پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور جو ایمبیسڈر گراسمین نے کہا ہے وہ بالکل درست ہے۔ انھوں نے اسے ایک بین الاقوامی سرحد قرار دیا ہے تو گویا یہ بین الاقوامی سرحد ہی ہے۔امریکا کی جانب سے ڈیورنڈ لائن کو بین الااقوامی سرحد تسلیم کرنا ، پاکستان کے موقف کی فتح ہے۔ پاکستان کو ڈیورنڈ لائن کو زیادہ محفوظ بنانے کا حق حاصل اور عالمی قوانین اسے اس کی اجازت دیتے ہیں۔پاکستان اور افغانستان کی سرحد چونکہ بہت زیادہ طویل ہے اور یہ علاقہ بھی انتہائی دشوار گزار ہے، اس لیے ابھی تک یہاں پوری طرح حفاظتی انتظامات نہیں ہیں، جس کا فائدہ اٹھا کر دہشت گرد عناصر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں آجاتے ہیں۔
سوات سے فرار ہونے والے ملا فضل اﷲ کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ افغانستان میں پناہ گزین ہے، اسی طرح کالعدم تحریک طالبان کے لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان سے فرار ہوکر افغانستان چلے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر حفاظتی اقدامات ناکافی ہیں جس کا فائدہ قانون شکن اور عسکریت پسند اٹھا رہے ہیں۔ پاکستان کی حکومت کو اس وقت دہشت گردی کے عفریت کا سامنا ہے۔ امریکا اور نیٹو کی فوجیں افغانستان میں موجود ہیں۔ وہاں افغان طالبان امریکی اور نیٹو فوج کی مزاحمت کر رہے ہیں۔ ان حالات میں پاک افغان سرحد انتہائی اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ ماضی میں پاکستان میں یہاں کسی قسم کے حفاظتی انتظامات کی ضرورت نہیں سمجھی۔ اس نرمی کا فائدہ اٹھا کر ڈیورنڈ لائن کے آر پار آنا جانا انتہائی آسان ہے۔
اس کی وجہ سے پاکستان میں افغان باشندوں کی آمد کا سلسلہ بلا روک ٹوک جاری رہا۔ افغان جنگ کی وجہ سے افغان باشندے مہاجرین کی شکل میں بڑی تعداد میں پاکستان خصوصاً خیبر پختونخوا میں آباد ہوئے۔ اس وجہ سے پاکستان خصوصاً خیبر پختونخوا کے سماجی نظام میں خرابیاں پیدا ہوئیں۔خیبر پختونخوا کی حکومت بھی اس بات کی حامی ہے کہ افغان مہاجرین کو واپس بھیجا جائے۔ بہر حال اس وقت سب سے زیادہ ضرورت ڈیورنڈ لائن کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانے کی ہے۔
پاک بھارت سرحد پر جس طرح حفاظتی اقدامات ہیں اسی طرح پاکستان کو افغانستان کی سرحد اور پھر ایران کی سرحد کے ساتھ انتظامات کرنے چاہئیں۔پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کی خود مختاری کا احترام کرتے ہیں۔ اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانا ہر ملک کا حق ہے۔ پاکستان اگر اپنی شمال مغربی سرحد کو محفوظ بناتا ہے تو اس کا فائدہ افغانستان کو بھی ہو گا۔ افغانستان کی حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ بے جا ضد چھوڑ کر اس معاملے میں پاکستان کی حمایت کرے۔ پاک افغان سرحد محفوظ بن گئی تو افغانستان میں دہشت گردی بھی خود بخود ختم ہو جائے گی اور پاکستان کی حکومت بھی دہشت گردی کے عفریت کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔