ایک بچہ پالیسی سے جنم لینے والا عجوبہ جہاں دلہن سونے میں تُلتی ہے
چین میں لڑکیوں کی کم ہوتی تعداد نے انھیں لڑکوں سے زیادہ اہم بنا دیا…دلچسپ تحقیقی رپورٹ
آج وائی چنگ شو کے لیے بڑا اہم دن تھا، اس کا بیاہ جوہونے والا تھا۔ چینی دارالحکومت بیجنگ کا یہ تیس سالہ نوجوان وقت مقررہ پر بارات لیے اپنی دلہن کے گھر پہنچ گیا۔ بارات چند رشتے داروں اور دوستوں پر مشتمل تھی۔
خوشی سے سرشار وائی چنگ نے دروازے پر دستک دی۔ اندر سے عورتوں کی آواز آئی ''سرخ پیکٹ پھینکو، سرخ پیکٹ پھینکو۔'' یہ خواتین ''نذرانہ'' مانگ رہی تھیں تاکہ دولہے کو اندر آنے کی اجازت مل سکے۔
چین میں ''چوانگمن'' (chuangmen) نامی یہ رسم بہت مقبول ہوچکی ہے۔ یہ رسم بجالاتے ہوئے دولہا سرخ لفافوں میں رقم ڈال کر دروازے کے نیچے سے اندر سرکاتا ہے۔وائی چنگ بھی رسم انجام دینے کے لیے تیار تھا۔ اس نے جیب سے سرخ لفافے نکالے اور دروازے کے نیچے سے سرکا دیئے۔ دوسری جانب سے آواز آئی ''ارے یہ تو بہت کم رقم ہے، اور دو اور دو۔''
وائی چنگ نے سرد آہ بھری اور مزید لفافے دروازے سے سرکائے۔ یہ بیچارا چینی نوجوان اب تک اپنی شادی کرانے کے لیے ''30 ہزار ڈالر'' خرچ کرچکا تھا جو پاکستانی کرنسی میں تقریباً اکتیس لاکھ روپے بنتے ہیں۔ شادی کرانے کے چکر میں اس نے خود کو قلاش کر ڈالا تھا اور اب بھی مزید اخراجات وائی چنگ کے منتظر تھے۔
ایک کٹھن مرحلہ...بیاہ رچانا!
شادی کے بے پناہ اخراجات کا بوجھ اٹھانے میں وائی چنگ تنہا نہیں، آج چین میں کروڑوں نوجوانوں کے لیے بیاہ کرنا ایک کٹھن مرحلہ بن چکا۔ انہیں شادی کرنے کی خاطر جو کشت اٹھانے پڑتے ہیں، ان کی بابت جان کر چینی نوجوانوں پر رحم آنے لگتا ہے۔ شادی جیسے یادگار اور فطری عمل کو مصیبت بنا دینے میں چینی حکومت کا بڑا کردار ہے۔ اس مسئلے نے اسی کی وضع کردہ ''ایک بچہ پالیسی'' کے بطن سے جنم لیا۔ اس پالیسی کی داستان آشکارا کرتی ہے کہ انسان نے جب بھی فطرت سے انحراف کیا، مسائل کے چنگل میں پھنس کر اس نے اپنی زندگی عذاب بنالی۔
جب 1949ء میں جدید چین کا ظہور ہوا، تو اس کی آبادی چون کروڑ نفوس پر مشتمل تھی۔ چینی صدر، ماؤزے تنگ سمجھتے تھے کہ آبادی جتنی زیادہ ہو، ملک اتنی ہی زیادہ ترقی کرتا ہے۔ اسی لیے انہوں نے چینی جوڑوں پر زوردیا کہ وہ زیادہ بچے پیدا کریں۔ نتیجتاً جب 1976ء میں ماؤزے تنگ دنیا سے رخصت ہوئے تو چین کی آبادی ''94 کروڑ'' تک پہنچ چکی تھی۔
بڑھتی آبادی کی وجہ سے جب خصوصاً کھانے پینے کی اشیا نایاب ہونے کے باعث مہنگی ہوئیں تو چینی حکومت کے کان کھڑے ہوگئے۔ چینی حکمران طبقے کو یقین ہوگیا کہ اگر ملک کی آبادی تیزی سے بڑھتی رہی، تو خوراک ،ایندھن اور دیگر قدرتی وسائل کی قلت جنم لے سکتی ہے۔ اسی لیے وہ خاندانی منصوبہ بندی کا سخت طریق کار متعارف کرانے پر غور کرنے لگی۔
جب چینی مائیں سات آٹھ بچے پیدا کرنے لگیں، تو اس چلن سے ماؤزے تنگ بھی گھبرا گئے تھے۔ اسی لیے ان کے حکم پر 1970ء سے چینی حکومت شہریوں پر زور دینے لگی کہ وہ دو تین بچے ہی پیدا کریں۔ تاہم اس پالیسی کوشدت سے نافذ نہیں کیا گیا۔ بہرحال اس سے یہ ضرور فائدہ ہوا کہ شہروں میں مقیم تعلیم یافتہ طبقہ کم بچے پیدا کرنے لگا۔
ماؤ کے بعد ڈینگ زیاؤپنگ نے حکومت سنبھالی۔ وہ معیشت کو پابندیوں سے آزاد کرکے اسے جدید خطوط پر استوار کرنا چاہتے تھے۔ اس زمانے میں یورپ میں یہ تحریک چل چکی تھی کہ والدین ایک دو بچے ہی پیدا کریں تاکہ وسائل کی قلت جنم نہ لے۔ بعض چینی دانشور و سرکاری افسر اس تحریک سے بہت متاثر ہوئے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ جس ملک کی آبادی کم ہو، وہ زیادہ ترقی یافتہ اور خوشحال ہوتا ہے۔ اس ضمن میں وہ پڑوسی ممالک مثلاً سنگاپور، ہانگ کانگ وغیرہ کی مثال دیتے۔
چین کی بدقسمتی ڈینگ زیاؤپنگ بھی ان نظریات سے متاثر ہوگئے۔ چناںچہ ان کی ایما پر آبادی میں اضافہ روکنے کے لیے 1979ء میں ''ایک بچہ پالیسی'' سرکاری طور پر نافذ کردی گئی۔ اب خاص طور پر چینی شہروں میں ایک سے زیادہ بچہ پیدا کرنا جرم قرار پایا۔ جس جوڑے سے یہ جرم سرزد ہوتا، اسے بھاری جرمانے سمیت مختلف سزاؤں کا سامنا کرنا پڑتا۔پاکستان میں بھی کئی دانش وروں نے چینی حکومت کی ''ایک بچہ پالیسی'' کو سراہا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کی آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے۔
ایک وقت ایسا آئے گا کہ قدرتی وسائل کروڑوں پاکستانیوں کی ضروریات پوری نہیں کرسکیں گے۔ اسی لیے ان کی خواہش ہے کہ پاکستان میں بھی ایک دو بچوں سے زیادہ بچے پیدا کرنے والے جوڑوں کو مجرم قراردیا جائے۔ان نام نہاد دانش وروں کی اب آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ چین میں ایک بچہ پالیسی نے معاشرے کو فوائد تو کم دیئے، نقصانات زیادہ پہنچادیئے۔ چناںچہ ماہ اکتوبر 2015ء کے اواخر میں چینی حکومت نے اس نقصان دہ پالیسی کو ختم کرنے کا اعلان کردیا۔
ہمارے دین میں تو غربت سے ڈر کر بچے پیدا نہ کرنا گناہ ہے۔ قرآن پاک میں واضح حکم آیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے :''یہ سوچ کر اولاد پیدا نہ کرنا گناہ ہے کہ بچوں کے اخراجات کیسے پورے ہوں گے، کیونکہ ہر بچے کو روزی روٹی دینے کی ذمہ داری خود اللہ پاک نے اٹھائی ہے۔''
چین کی ایک بچہ پالیسی نے کچھ وقتی کچھ طویل المیعادی خرابیاں پیدا کیں۔ اسے تمام چینی باشندوں پر لاگو نہیں کیا گیا۔ مثلاً دیہات میں مقیم جوڑوں کو دو بچے پیدا کرنے کی اجازت مل گئی۔ وجہ یہی کہ دیہی معاشرے میں زیادہ بچے جنم دینے کا رواج ہے تاکہ کام کرنے والے ہاتھ مل سکیں۔ نیز چین کی 55 اقلیتی اقوام (اوغوز، قازق، تبتی وغیرہ) بھی پالیسی سے مستثنیٰ قرار پائے۔ پھر بھی شہروں میں مقیم چین کی تقریباً نصف آبادی ایک بچہ پالیسی کی لپیٹ میں آگئی۔
اس پالیسی کو مقبول بنانے کے لیے چینی حکومت نے جوڑوں کو پُرکشش ترغیبات و مراعات دیں۔ جو جوڑا پالیسی پر عمل کرتا، اسے ستائشی سرٹیفکیٹ سے نوازا جاتا۔ سرکاری ادارے آسان شرائط پر قرضے دیتے۔ حاملہ کو طویل عرصہ چھٹیاں ملتیں۔ مرد یا عورت سرکاری ملازم ہوتا، تو بچے کے 14 سال کا ہونے تک اسے ہر سال ایک اضافی تنخواہ ملتی۔ غرض ان ترغیبات کے باعث لاکھوں چینی جوڑے صرف ایک بچہ جنم دینے پر رضامند ہوگئے۔
لیکن سیکڑوں چینی جوڑوں نے پالیسی کو قبول نہ کیا۔ ان کا استدلال تھا کہ محض ایک بچے سے خاندان مکمل نہیں ہوتا۔ خدانخواستہ بچہ بڑا ہوکر چل بسے تب ماں باپ کی دنیا اندھیر ہوجائے گی۔ مگر اس وقت چینی حکومت پر ایک بچہ پالیسی لاگو کرنے کا خبط سوار تھا، اس لیے ناخوشگوار واقعات بھی پیش آئے۔ کئی خواتین کا زبردستی اسقاط حمل کرایا گیا جبکہ مرد سٹریلائزیشن کے عمل سے گزر ے۔ خصوصاً قصبات میں جو جوڑا پالیسی کے مطابق نہ چلتا، تو سرکاری افسر اپنے نمبر بڑھانے کی خاطر اسے دق کرنے لگتے۔
لڑکیوں کا کال پڑ گیا
جس زمانے میں ایک بچہ پالیسی متعارف ہوئی، اسی دوران چین میں الٹراساؤنڈ مشین آپہنچی۔ جلد شہروں اور قصبات میں جوڑے حمل کے بعد الٹراساؤنڈ کرانے لگے۔ تمام ترقی پذیر ممالک کی طرح چینی معاشرے میں بھی نر کو زیادہ اہمیت حاصل تھی۔ اسی لیے ٹیسٹ سے لڑکی کی موجودگی ظاہر ہوتی تو کئی جوڑے اسقاط حمل کرادیتے۔
ایک بچہ پالیسی اور الٹراساؤنڈ ٹیسٹ کے اشتراک کا یہ نتیجہ نکلا کہ چین میں لڑکیوں کی نسبت لڑکے زیادہ پیدا ہونے لگے۔ پچھلے پینتیس سال کے دوران چین میں یہ عجوبہ جنم لے چکا کہ وہاں لڑکیوں کے مقابلے میں ''تین کروڑ تیس لاکھ نوجوان'' زیادہ بستے ہیں۔ اسی عجوبے نے خصوصاً چینی شہروں میں دلہنوں کا قحط سا پیدا کردیا۔پاکستان کے برعکس چین میں شوہر ہونے والی بیوی کو جہیز دیتا ہے۔ 1970ء میں ایک سائیکل اور چند جوڑے لباس جہیز دینے پر چینی نوجوان کو دلہن مل جاتی تھی۔
آج اس کے لیے یہ ''لازم'' ہوچکا کہ وہ شادی سے پہلے ایک گھر اور کار کا مالک ہو، تب ہی کوئی لڑکی اور اس کے والدین اسے بہ نظر التفات دیکھتے ہیں ۔چین میں اب یہ حال ہے کہ شہروں میں خصوصاً نوجوان کئی سال ملازمت یا کاروبار کرکے رقم جمع کرتے ہیں۔ جب ڈھیر ساری رقم اکٹھی ہوجائے، تب ہی وہ شادی کرکے اپنا گھر بسا پاتے ہیں۔
نوجوان کو گھر بنانے اور کار خریدنے کا مرحلہ ہی درپیش نہیں ہوتا، اسے لڑکی کے والدین کو بھی کثیر رقم دینا پڑتی ہے۔بیوی آسانی سے نہ ملنے کے عجوبے نے دو اور عجوبوں کو جنم دے ڈالا۔ پہلا یہ کہ چینی شہروں میں پلاٹوں اور گھروں کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ ظاہر ہے، جس شے کی مانگ بڑھتی رہے، اس کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے۔ بیجنگ اور شنگھائی میں پراپرٹی کی ہوش ربا قیمتوں کا یہ عالم ہے کہ محض ایک سو مربع گز کا فلیٹ ''چار کروڑ روپے'' میں ملتا ہے۔ پراپرٹی کی ایسی مہنگائی میں تو صرف امیر چینی نوجوان ہی گھر خرید پاتے ہیں۔
دوسرا عجوبہ یہ کہ اب چینی معاشرے میں لڑکی کی اہمیت بڑھ چکی۔ دراصل پاکستانی معاشرے کی طرح چین میں بھی والدین بیٹے کی شادی کے تمام اخراجات برداشت کرتے ہیں۔ بلکہ چینی والدین پہ بوجھ زیادہ ہے کیونکہ انہیں لڑکی کو دیئے گئے جہیز میں حصہ بھی ڈالنا پڑتا ہے۔ غرض بیٹے کی تعلیم و تربیت سے لے کر شادی کرنے تک کے اخراجات اٹھانے کے واسطے چینی والدین کو سخت محنت کرنا پڑتی ہے۔
بیٹے کی پرورش پہ بہت زیادہ رقم خرچ ہوتے دیکھ کر ہی اب چینی والدین کی اکثریت چاہتی ہے کہ بیٹی کو جنم دیا جائے۔ چینی معاشرے میں اب بیٹی سونے کی چڑیا بن چکی، وہ پہلے کی طرح بے بس و محکوم نہیں رہی۔ اب پڑھ لکھ کر جوان ہونے پر وہ باآسانی ملازمت یا کاروبار کرسکتی ہے۔ پھر اسے اچھا سا رشتہ ڈھوندنے میں بھی مشکل پیش نہیں آتی... شادی کے لیے لڑکوں کی لائن جو لگی ہوتی ہے۔ وہ پھر اپنی پسند کے لڑکے سے شادی کرتی ہے۔ گویا ایک بچہ پالیسی کے بطن سے چین میں ''عورت راج'' قسم کاعجوبہ جنم لے چکا۔
چین میں دلہنوں کی ناپیدگی کے باعث ایک اور عجوبہسامنے آگیا۔ وہ یہ کہ ایسے چینی جرائم پیشہ گروہ وجود میں آچکے جو قریبی غریب ممالک مثلاً کمبوڈیا، لاؤس، برما وغیرہ سے لڑکیاں اغوا کرکے لاتے ہیں۔ ان لڑکیوں کو پھر چینی ''دولہا مارکیٹ'' میں مہنگے داموں فروخت کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں چینی پولیس نے ایسے بعض جرائم پیشہ گروہوں کو گرفتار کیا ہے۔
دو اور بڑے مسائل
پینتیس برس تک مسلسل کم بچے ہونے کے باعث مستقبل میں چین کو دو بڑے مسائل درپیش ہوں گے۔ اول افرادی قوت کی تعداد میں کمی، دوم بوڑھے شہریوں کی تعداد میں اضافہ۔ ماہرین کا کہنا ہے، 2025ء کے بعد ہر سال چین کی آبادی میں ایک کروڑ بوڑھوں کا اضافہ ہوگا۔ جبکہ افرادی قوت میں صرف ستر لاکھ نوجوان داخل ہوں گے۔ گویا گھٹتی افرادی قوت کو ضعیف شہریوں کے اخراجات برداشت کرنا پڑیں گے جس سے مالی و نفسیاتی الجھنیں جنم لیں گی۔
ایک بچہ پالیسی نے ایک اور مسئلہ بھی پیدا کردیا۔ وہ یہ کہ بیشتر والدین نے اپنے اکلوتے بچوں کی پرورش بڑے نازو نعم سے کی اور انہیں زندگی میں آنے والے عام مسائل سے محفوظ رکھا۔ چناں چہ چینی معاشرے میں ایسے ''چھوٹے بادشاہ'' جنم لے چکے جو بڑے نازک مزاج ہیں۔ وہ معمولی سی خلاف مزاج بات برداشت نہیں کرپاتے اور سخت کام کرنے سے گھبراتے ہیں۔ لہٰذا معاشرے کو ان سے کوئی زیادہ فائدہ نہیں پہنچ رہا۔
درج بالا حقائق سے عیاں ہے، چین کی کم بچے کرنے والی پالیسی فوائد نہ دے سکی، الٹا اس نے معاشرے میں کئی مسائل پیدا کردیئے۔ اسی لیے چینی حکومت کو اسے خیر باد کہنا پڑا۔ اب شاید کوئی اور ملک یہ انوکھا تجربہ کرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔
خوشی سے سرشار وائی چنگ نے دروازے پر دستک دی۔ اندر سے عورتوں کی آواز آئی ''سرخ پیکٹ پھینکو، سرخ پیکٹ پھینکو۔'' یہ خواتین ''نذرانہ'' مانگ رہی تھیں تاکہ دولہے کو اندر آنے کی اجازت مل سکے۔
چین میں ''چوانگمن'' (chuangmen) نامی یہ رسم بہت مقبول ہوچکی ہے۔ یہ رسم بجالاتے ہوئے دولہا سرخ لفافوں میں رقم ڈال کر دروازے کے نیچے سے اندر سرکاتا ہے۔وائی چنگ بھی رسم انجام دینے کے لیے تیار تھا۔ اس نے جیب سے سرخ لفافے نکالے اور دروازے کے نیچے سے سرکا دیئے۔ دوسری جانب سے آواز آئی ''ارے یہ تو بہت کم رقم ہے، اور دو اور دو۔''
وائی چنگ نے سرد آہ بھری اور مزید لفافے دروازے سے سرکائے۔ یہ بیچارا چینی نوجوان اب تک اپنی شادی کرانے کے لیے ''30 ہزار ڈالر'' خرچ کرچکا تھا جو پاکستانی کرنسی میں تقریباً اکتیس لاکھ روپے بنتے ہیں۔ شادی کرانے کے چکر میں اس نے خود کو قلاش کر ڈالا تھا اور اب بھی مزید اخراجات وائی چنگ کے منتظر تھے۔
ایک کٹھن مرحلہ...بیاہ رچانا!
شادی کے بے پناہ اخراجات کا بوجھ اٹھانے میں وائی چنگ تنہا نہیں، آج چین میں کروڑوں نوجوانوں کے لیے بیاہ کرنا ایک کٹھن مرحلہ بن چکا۔ انہیں شادی کرنے کی خاطر جو کشت اٹھانے پڑتے ہیں، ان کی بابت جان کر چینی نوجوانوں پر رحم آنے لگتا ہے۔ شادی جیسے یادگار اور فطری عمل کو مصیبت بنا دینے میں چینی حکومت کا بڑا کردار ہے۔ اس مسئلے نے اسی کی وضع کردہ ''ایک بچہ پالیسی'' کے بطن سے جنم لیا۔ اس پالیسی کی داستان آشکارا کرتی ہے کہ انسان نے جب بھی فطرت سے انحراف کیا، مسائل کے چنگل میں پھنس کر اس نے اپنی زندگی عذاب بنالی۔
جب 1949ء میں جدید چین کا ظہور ہوا، تو اس کی آبادی چون کروڑ نفوس پر مشتمل تھی۔ چینی صدر، ماؤزے تنگ سمجھتے تھے کہ آبادی جتنی زیادہ ہو، ملک اتنی ہی زیادہ ترقی کرتا ہے۔ اسی لیے انہوں نے چینی جوڑوں پر زوردیا کہ وہ زیادہ بچے پیدا کریں۔ نتیجتاً جب 1976ء میں ماؤزے تنگ دنیا سے رخصت ہوئے تو چین کی آبادی ''94 کروڑ'' تک پہنچ چکی تھی۔
بڑھتی آبادی کی وجہ سے جب خصوصاً کھانے پینے کی اشیا نایاب ہونے کے باعث مہنگی ہوئیں تو چینی حکومت کے کان کھڑے ہوگئے۔ چینی حکمران طبقے کو یقین ہوگیا کہ اگر ملک کی آبادی تیزی سے بڑھتی رہی، تو خوراک ،ایندھن اور دیگر قدرتی وسائل کی قلت جنم لے سکتی ہے۔ اسی لیے وہ خاندانی منصوبہ بندی کا سخت طریق کار متعارف کرانے پر غور کرنے لگی۔
جب چینی مائیں سات آٹھ بچے پیدا کرنے لگیں، تو اس چلن سے ماؤزے تنگ بھی گھبرا گئے تھے۔ اسی لیے ان کے حکم پر 1970ء سے چینی حکومت شہریوں پر زور دینے لگی کہ وہ دو تین بچے ہی پیدا کریں۔ تاہم اس پالیسی کوشدت سے نافذ نہیں کیا گیا۔ بہرحال اس سے یہ ضرور فائدہ ہوا کہ شہروں میں مقیم تعلیم یافتہ طبقہ کم بچے پیدا کرنے لگا۔
ماؤ کے بعد ڈینگ زیاؤپنگ نے حکومت سنبھالی۔ وہ معیشت کو پابندیوں سے آزاد کرکے اسے جدید خطوط پر استوار کرنا چاہتے تھے۔ اس زمانے میں یورپ میں یہ تحریک چل چکی تھی کہ والدین ایک دو بچے ہی پیدا کریں تاکہ وسائل کی قلت جنم نہ لے۔ بعض چینی دانشور و سرکاری افسر اس تحریک سے بہت متاثر ہوئے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ جس ملک کی آبادی کم ہو، وہ زیادہ ترقی یافتہ اور خوشحال ہوتا ہے۔ اس ضمن میں وہ پڑوسی ممالک مثلاً سنگاپور، ہانگ کانگ وغیرہ کی مثال دیتے۔
چین کی بدقسمتی ڈینگ زیاؤپنگ بھی ان نظریات سے متاثر ہوگئے۔ چناںچہ ان کی ایما پر آبادی میں اضافہ روکنے کے لیے 1979ء میں ''ایک بچہ پالیسی'' سرکاری طور پر نافذ کردی گئی۔ اب خاص طور پر چینی شہروں میں ایک سے زیادہ بچہ پیدا کرنا جرم قرار پایا۔ جس جوڑے سے یہ جرم سرزد ہوتا، اسے بھاری جرمانے سمیت مختلف سزاؤں کا سامنا کرنا پڑتا۔پاکستان میں بھی کئی دانش وروں نے چینی حکومت کی ''ایک بچہ پالیسی'' کو سراہا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کی آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے۔
ایک وقت ایسا آئے گا کہ قدرتی وسائل کروڑوں پاکستانیوں کی ضروریات پوری نہیں کرسکیں گے۔ اسی لیے ان کی خواہش ہے کہ پاکستان میں بھی ایک دو بچوں سے زیادہ بچے پیدا کرنے والے جوڑوں کو مجرم قراردیا جائے۔ان نام نہاد دانش وروں کی اب آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ چین میں ایک بچہ پالیسی نے معاشرے کو فوائد تو کم دیئے، نقصانات زیادہ پہنچادیئے۔ چناںچہ ماہ اکتوبر 2015ء کے اواخر میں چینی حکومت نے اس نقصان دہ پالیسی کو ختم کرنے کا اعلان کردیا۔
ہمارے دین میں تو غربت سے ڈر کر بچے پیدا نہ کرنا گناہ ہے۔ قرآن پاک میں واضح حکم آیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے :''یہ سوچ کر اولاد پیدا نہ کرنا گناہ ہے کہ بچوں کے اخراجات کیسے پورے ہوں گے، کیونکہ ہر بچے کو روزی روٹی دینے کی ذمہ داری خود اللہ پاک نے اٹھائی ہے۔''
چین کی ایک بچہ پالیسی نے کچھ وقتی کچھ طویل المیعادی خرابیاں پیدا کیں۔ اسے تمام چینی باشندوں پر لاگو نہیں کیا گیا۔ مثلاً دیہات میں مقیم جوڑوں کو دو بچے پیدا کرنے کی اجازت مل گئی۔ وجہ یہی کہ دیہی معاشرے میں زیادہ بچے جنم دینے کا رواج ہے تاکہ کام کرنے والے ہاتھ مل سکیں۔ نیز چین کی 55 اقلیتی اقوام (اوغوز، قازق، تبتی وغیرہ) بھی پالیسی سے مستثنیٰ قرار پائے۔ پھر بھی شہروں میں مقیم چین کی تقریباً نصف آبادی ایک بچہ پالیسی کی لپیٹ میں آگئی۔
اس پالیسی کو مقبول بنانے کے لیے چینی حکومت نے جوڑوں کو پُرکشش ترغیبات و مراعات دیں۔ جو جوڑا پالیسی پر عمل کرتا، اسے ستائشی سرٹیفکیٹ سے نوازا جاتا۔ سرکاری ادارے آسان شرائط پر قرضے دیتے۔ حاملہ کو طویل عرصہ چھٹیاں ملتیں۔ مرد یا عورت سرکاری ملازم ہوتا، تو بچے کے 14 سال کا ہونے تک اسے ہر سال ایک اضافی تنخواہ ملتی۔ غرض ان ترغیبات کے باعث لاکھوں چینی جوڑے صرف ایک بچہ جنم دینے پر رضامند ہوگئے۔
لیکن سیکڑوں چینی جوڑوں نے پالیسی کو قبول نہ کیا۔ ان کا استدلال تھا کہ محض ایک بچے سے خاندان مکمل نہیں ہوتا۔ خدانخواستہ بچہ بڑا ہوکر چل بسے تب ماں باپ کی دنیا اندھیر ہوجائے گی۔ مگر اس وقت چینی حکومت پر ایک بچہ پالیسی لاگو کرنے کا خبط سوار تھا، اس لیے ناخوشگوار واقعات بھی پیش آئے۔ کئی خواتین کا زبردستی اسقاط حمل کرایا گیا جبکہ مرد سٹریلائزیشن کے عمل سے گزر ے۔ خصوصاً قصبات میں جو جوڑا پالیسی کے مطابق نہ چلتا، تو سرکاری افسر اپنے نمبر بڑھانے کی خاطر اسے دق کرنے لگتے۔
لڑکیوں کا کال پڑ گیا
جس زمانے میں ایک بچہ پالیسی متعارف ہوئی، اسی دوران چین میں الٹراساؤنڈ مشین آپہنچی۔ جلد شہروں اور قصبات میں جوڑے حمل کے بعد الٹراساؤنڈ کرانے لگے۔ تمام ترقی پذیر ممالک کی طرح چینی معاشرے میں بھی نر کو زیادہ اہمیت حاصل تھی۔ اسی لیے ٹیسٹ سے لڑکی کی موجودگی ظاہر ہوتی تو کئی جوڑے اسقاط حمل کرادیتے۔
ایک بچہ پالیسی اور الٹراساؤنڈ ٹیسٹ کے اشتراک کا یہ نتیجہ نکلا کہ چین میں لڑکیوں کی نسبت لڑکے زیادہ پیدا ہونے لگے۔ پچھلے پینتیس سال کے دوران چین میں یہ عجوبہ جنم لے چکا کہ وہاں لڑکیوں کے مقابلے میں ''تین کروڑ تیس لاکھ نوجوان'' زیادہ بستے ہیں۔ اسی عجوبے نے خصوصاً چینی شہروں میں دلہنوں کا قحط سا پیدا کردیا۔پاکستان کے برعکس چین میں شوہر ہونے والی بیوی کو جہیز دیتا ہے۔ 1970ء میں ایک سائیکل اور چند جوڑے لباس جہیز دینے پر چینی نوجوان کو دلہن مل جاتی تھی۔
آج اس کے لیے یہ ''لازم'' ہوچکا کہ وہ شادی سے پہلے ایک گھر اور کار کا مالک ہو، تب ہی کوئی لڑکی اور اس کے والدین اسے بہ نظر التفات دیکھتے ہیں ۔چین میں اب یہ حال ہے کہ شہروں میں خصوصاً نوجوان کئی سال ملازمت یا کاروبار کرکے رقم جمع کرتے ہیں۔ جب ڈھیر ساری رقم اکٹھی ہوجائے، تب ہی وہ شادی کرکے اپنا گھر بسا پاتے ہیں۔
نوجوان کو گھر بنانے اور کار خریدنے کا مرحلہ ہی درپیش نہیں ہوتا، اسے لڑکی کے والدین کو بھی کثیر رقم دینا پڑتی ہے۔بیوی آسانی سے نہ ملنے کے عجوبے نے دو اور عجوبوں کو جنم دے ڈالا۔ پہلا یہ کہ چینی شہروں میں پلاٹوں اور گھروں کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ ظاہر ہے، جس شے کی مانگ بڑھتی رہے، اس کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے۔ بیجنگ اور شنگھائی میں پراپرٹی کی ہوش ربا قیمتوں کا یہ عالم ہے کہ محض ایک سو مربع گز کا فلیٹ ''چار کروڑ روپے'' میں ملتا ہے۔ پراپرٹی کی ایسی مہنگائی میں تو صرف امیر چینی نوجوان ہی گھر خرید پاتے ہیں۔
دوسرا عجوبہ یہ کہ اب چینی معاشرے میں لڑکی کی اہمیت بڑھ چکی۔ دراصل پاکستانی معاشرے کی طرح چین میں بھی والدین بیٹے کی شادی کے تمام اخراجات برداشت کرتے ہیں۔ بلکہ چینی والدین پہ بوجھ زیادہ ہے کیونکہ انہیں لڑکی کو دیئے گئے جہیز میں حصہ بھی ڈالنا پڑتا ہے۔ غرض بیٹے کی تعلیم و تربیت سے لے کر شادی کرنے تک کے اخراجات اٹھانے کے واسطے چینی والدین کو سخت محنت کرنا پڑتی ہے۔
بیٹے کی پرورش پہ بہت زیادہ رقم خرچ ہوتے دیکھ کر ہی اب چینی والدین کی اکثریت چاہتی ہے کہ بیٹی کو جنم دیا جائے۔ چینی معاشرے میں اب بیٹی سونے کی چڑیا بن چکی، وہ پہلے کی طرح بے بس و محکوم نہیں رہی۔ اب پڑھ لکھ کر جوان ہونے پر وہ باآسانی ملازمت یا کاروبار کرسکتی ہے۔ پھر اسے اچھا سا رشتہ ڈھوندنے میں بھی مشکل پیش نہیں آتی... شادی کے لیے لڑکوں کی لائن جو لگی ہوتی ہے۔ وہ پھر اپنی پسند کے لڑکے سے شادی کرتی ہے۔ گویا ایک بچہ پالیسی کے بطن سے چین میں ''عورت راج'' قسم کاعجوبہ جنم لے چکا۔
چین میں دلہنوں کی ناپیدگی کے باعث ایک اور عجوبہسامنے آگیا۔ وہ یہ کہ ایسے چینی جرائم پیشہ گروہ وجود میں آچکے جو قریبی غریب ممالک مثلاً کمبوڈیا، لاؤس، برما وغیرہ سے لڑکیاں اغوا کرکے لاتے ہیں۔ ان لڑکیوں کو پھر چینی ''دولہا مارکیٹ'' میں مہنگے داموں فروخت کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں چینی پولیس نے ایسے بعض جرائم پیشہ گروہوں کو گرفتار کیا ہے۔
دو اور بڑے مسائل
پینتیس برس تک مسلسل کم بچے ہونے کے باعث مستقبل میں چین کو دو بڑے مسائل درپیش ہوں گے۔ اول افرادی قوت کی تعداد میں کمی، دوم بوڑھے شہریوں کی تعداد میں اضافہ۔ ماہرین کا کہنا ہے، 2025ء کے بعد ہر سال چین کی آبادی میں ایک کروڑ بوڑھوں کا اضافہ ہوگا۔ جبکہ افرادی قوت میں صرف ستر لاکھ نوجوان داخل ہوں گے۔ گویا گھٹتی افرادی قوت کو ضعیف شہریوں کے اخراجات برداشت کرنا پڑیں گے جس سے مالی و نفسیاتی الجھنیں جنم لیں گی۔
ایک بچہ پالیسی نے ایک اور مسئلہ بھی پیدا کردیا۔ وہ یہ کہ بیشتر والدین نے اپنے اکلوتے بچوں کی پرورش بڑے نازو نعم سے کی اور انہیں زندگی میں آنے والے عام مسائل سے محفوظ رکھا۔ چناں چہ چینی معاشرے میں ایسے ''چھوٹے بادشاہ'' جنم لے چکے جو بڑے نازک مزاج ہیں۔ وہ معمولی سی خلاف مزاج بات برداشت نہیں کرپاتے اور سخت کام کرنے سے گھبراتے ہیں۔ لہٰذا معاشرے کو ان سے کوئی زیادہ فائدہ نہیں پہنچ رہا۔
درج بالا حقائق سے عیاں ہے، چین کی کم بچے کرنے والی پالیسی فوائد نہ دے سکی، الٹا اس نے معاشرے میں کئی مسائل پیدا کردیئے۔ اسی لیے چینی حکومت کو اسے خیر باد کہنا پڑا۔ اب شاید کوئی اور ملک یہ انوکھا تجربہ کرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔