غریب آدمی کی تلاش
وطن عزیز کی 68 سالہ تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو یہ جملہ آپ کو بار بار سنائی دے گا
عظیم ماہر معاشیات جناب اسحٰق ڈار نے ایک بار پھر یہ اعلان کیا ہے کہ ان کی طرف سے حال ہی میں عائد کردہ 40 ارب مالیت کے اضافی ٹیکسوں کا بوجھ ''غریب آدمی'' پر نہیں پڑے گا۔
وطن عزیز کی 68 سالہ تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو یہ جملہ آپ کو بار بار سنائی دے گا کیونکہ کم و بیش ہر حکومت نے اسے اپنے اپنے دورِ اقتدار میں ایک سے زیادہ بار استعمال کیا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر بار لوگوں نے اسے ایک شرم ناک تحمل کے ساتھ سنا اور یہ سوچ کر خاموش ہو رہے کہ اب اٹھارہ کروڑ کی آبادی میں اس ''غریب آدمی'' کو کیسے تلاش کیا جائے جس پر اس مہنگائی کا کوئی اثر نہیں پڑے گا؟ لیکن کچھ من چلے ایسے بھی تھے جن کے سر میں یہ سودا سما گیا کہ چلو اگر متعلقہ ''غریب آدمی'' نہیں ملتا تو کم از کم اس لفظ اور ترکیب کے معنی ہی کہیں سے ڈھونڈ لیے جائیں۔
اب جناب نہ صرف پاکستان میں بولی جانے والی تمام زبانوں کی ڈکشنریاں چھان ماری گئیں بلکہ کئی بڑی غیرملکی زبانوں کی خدمات بھی حاصل کی گئیں مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ ''غریب آدمی'' کی اصل اور صحیح تعریف کیا ہے! کسی نے ایک واقعہ سنایا کہ امراء کے بچوں کے لیے بنائے گئے ایک بہت بھاری فیسوں والے اسکول میں ٹیچر نے بچوں کو poor man یعنی ''غریب آدمی'' پر مضمون لکھنے کی اسائنمنٹ دی تو ایک بچے نے لکھا:
''ہمارے بلاک کے آخر میں ایک غریب آدمی رہتا ہے، اس کا گھر صرف ایک ہزار گز کا ہے اور اس کے پورچ میں صرف تین چار گاڑیاں ہوتی ہیں جن کے ماڈل بھی خاصے پرانے ہیں۔ اس گھر کے بچوں کے پاس لیپ ٹاپ بھی سستے سے ہیں اور ان کے موبائل بھی پرانے ماڈل کے ہیں۔ وہاں پارٹیاں بھی سال میں کبھی کبھار ہی ہوتی ہیں اور انھوں نے دو سال سے نہ تو گھر کا فرنیچر بدلا ہے اور نہ ہی نیا پینٹ کروایا ہے وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔''
''غریب آدمی'' کی طرح اور بھی کئی الفاظ اور تراکیب کے نت نئے معنی سننے میں آتے ہیں، مثال کے طور پر ایک صاحب سے پوچھا گیا کہ ان کے بچے کتنے ہیں؟ بولے ''اوپر والے'' کی مہربانی سے چار بچے ہیں۔ سوال کرنے والے نے پھر پوچھا ''آپ کے اوپر کون رہتا ہے؟''
اس لسانی، علمی اور ہلکی پھلکی بحث سے قطع نظر یہ سوال اب بھی اپنی جگہ پر قائم ہے کہ جن 300 کے قریب روزمرہ استعمال کی چیزوں کی قیمتیں بڑھنے سے جس ''غریب آدمی'' پر کوئی اثر نہیں پڑا آخر وہ کم بخت ہے کون اور کہاں رہتا ہے؟ کہ نہ اس پر بجٹ کا اثر ہوتا ہے نہ ضمنی بجٹوں کا اور نہ مختلف سرکاری محکموں کے عائد کردہ نت نئے سرچارجز کا۔ اسے کانجی ہاؤسز جیسے سرکاری اسپتالوں، ڈاکٹرز اور لیبارٹریز مافیا کے گٹھ جوڑ، اسکولوں کی بڑھتی ہوئی فیسوں اور گھٹتی ہوئی سہولتوں، ہر شے میں ملاوٹ کی فراوانی، بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ اور تھانے کچہری سے ملنے والی ذلت اور خواری سے بھی کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔
بیشتر ٹی وی چینلز کے ڈرامے اور ان پر چلنے والے اشتہارات بھی اس سے کوئی سوال نہیں کرتے۔ جو اس کی اولاد کے ذہن سے حیا، شرافت، ذمے داری، رشتوں کے احترام اور حق حلال کی کمائی کے ساتھ زندہ رہنے کے رویے کو تہس نس کرتے چلے جا رہے ہیں۔ سیاست دانوں کی قلابازیوں اور الیکشن کے نام پر لگنے والے مچھلی بازار بھی اس کے لیے روزمرہ کی باتیں اور معمول کے واقعات بن گئے ہیں۔ نہ وہ حکومت وقت سے یہ سال کرتا ہے کہ وہ اس کی ترجیحات اور اشد ضروریات پر توجہ دینے کے بجائے ایک خاص طرح کے منصوبے ہی کیوں بناتی چلی جا رہی ہے اور نہ ہی حزب اختلاف کی جماعتوں سے یہ پوچھتا ہے کہ وہ ''اس'' کے حقوق کے لیے لڑنے کے بجائے ہمہ وقت اپنے ہی اقتدار کے لیے کیوں کوشاں رہتے ہیں۔
ایک ستم ظریف نے اس ساری صورت حال پر جل کر کہا کہ ایسے بے حس اور مردہ ضمیر غریب آدمی کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہی ہونا چاہیے کہ جو اپنے حق کے لیے خود آواز بلند نہیں کرتا اور خاموش رہتا ہے تو وہ اصل میں مظلوم نہیں بلکہ ظالم کا ساتھی ہے اور یہ کہ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی جسے خود اپنی حالت بدلنے کا خیال اور احساس نہ ہو۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر حکومت کو اپنے جائز اخراجات پورے کرنے کے لیے ملک میں جاری دولت کے بہاؤ میں سے ہی اپنا حصہ نکالنا پڑتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ عوام دوست اور اپنے فرض پر کاربند حکومتیں یہ کام ایسے ٹیکسز اور مالیاتی پالیسیوں کے ذریعے کرتے ہیں جس میں ایک خاص حد سے زیادہ آمدنی والے افراد پر درجہ بدرجہ ٹیکس کی شرح بڑھائی جائے اور ہرٹیکس کے قابل آمدنی والے فرد سے پورا پرا ٹیکس وصول کیا جائے اور یہ احتیاط کی جائے کہ عام آدمی کی زندگی کو آسان اور بہتر بنانے کے لیے اس پر براہِ راست اور بالواسطہ ٹیکس کم کیے جائیں۔ اگر کوئی حکومت طاقتور افراد سے ان پر عائد جائز ٹیکس وصول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تو اسے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس کمی کو ان لوگوں سے پورا کرے جو یا تو پہلے سے ٹیکس نیٹ میں شامل ہیں یا اس قابل ہی نہیں کہ ان پر کوئی ٹیکس عائدکیا جائے۔
مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومتوں پربنیادی اعتراض یہی ہے کہ اس میں چند خاندان اور ان کے احباب ہر جائز اور ناجائز طریقے سے مختلف قومی وسائل پر قبضہ کرتے چلے جا رہے ہیں اور اپنی سیاسی طاقت کو عوام کی فلاح کے بجائے اپنی دولت اورکاروباروں کے فروغ کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں پٹرول کی قیمتیں نچلی ترین سطح کو چھو رہی ہیں لیکن یہ لوگ انتہائی ڈھٹائی سے اس سہولت کو عوام تک پہنچنے نہیں دے رہے۔
پچھلے دو ماہ میں ہمسایہ ملک میں پٹرول اور اس سے متعلقہ مصنوعات کی قیمتوں میں تین بار کمی کی گئی ہے جب کہ ہم نے انھیں جوں کا توں برقرار رکھا ہے۔ جن تین سو سے زیادہ اشیاء کی قیمتوں میں گزشتہ دنوں اضافہ کیا گیا ہے ان میں سے بھی بیشتر کا کنٹرول چند مخصوص خاندانوں کے پاس ہے۔ قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے اس اضافے کی ایک وجہ ''ضرب عضب'' پر اٹھنے والے اخراجات کو پورا کرنا بھی بتایا گیا ہے جب کہ مختلف عالمی اداروں سے حاصل کیے گئے بے محابا قرضوں کے سود اور اقساط کی ادائیگی کو بھی وجہ بلکہ ''وجوہات'' قرار دیا گیا ہے۔
دوسری طرف حزبِ اختلاف کے تمام اہم لیڈر بھی اس پر تبصرہ کرنے سے آنکھیں چراتے پھر رہے ہیں اورسب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ''غریب آدمی'' جو اس ساری کارروائی کا اصل ہدف اور شکار ہے ایک سکتے کے سے عالم میں یہ سب کچھ دیکھے چلا جا رہا ہے۔ اس صورت حال پر مجھے ایک بار پھر اپنا وہ مرحوم کزن یاد آ رہا ہے جو تاش کی بازی میں کمزور پتے ہاتھ میں آنے پر مایوسی میں سر ہلا کر کہا کرتا تھا:
''سسی نہ لڑے تو پنوں کیا کرے؟''
وطن عزیز کی 68 سالہ تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو یہ جملہ آپ کو بار بار سنائی دے گا کیونکہ کم و بیش ہر حکومت نے اسے اپنے اپنے دورِ اقتدار میں ایک سے زیادہ بار استعمال کیا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر بار لوگوں نے اسے ایک شرم ناک تحمل کے ساتھ سنا اور یہ سوچ کر خاموش ہو رہے کہ اب اٹھارہ کروڑ کی آبادی میں اس ''غریب آدمی'' کو کیسے تلاش کیا جائے جس پر اس مہنگائی کا کوئی اثر نہیں پڑے گا؟ لیکن کچھ من چلے ایسے بھی تھے جن کے سر میں یہ سودا سما گیا کہ چلو اگر متعلقہ ''غریب آدمی'' نہیں ملتا تو کم از کم اس لفظ اور ترکیب کے معنی ہی کہیں سے ڈھونڈ لیے جائیں۔
اب جناب نہ صرف پاکستان میں بولی جانے والی تمام زبانوں کی ڈکشنریاں چھان ماری گئیں بلکہ کئی بڑی غیرملکی زبانوں کی خدمات بھی حاصل کی گئیں مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ ''غریب آدمی'' کی اصل اور صحیح تعریف کیا ہے! کسی نے ایک واقعہ سنایا کہ امراء کے بچوں کے لیے بنائے گئے ایک بہت بھاری فیسوں والے اسکول میں ٹیچر نے بچوں کو poor man یعنی ''غریب آدمی'' پر مضمون لکھنے کی اسائنمنٹ دی تو ایک بچے نے لکھا:
''ہمارے بلاک کے آخر میں ایک غریب آدمی رہتا ہے، اس کا گھر صرف ایک ہزار گز کا ہے اور اس کے پورچ میں صرف تین چار گاڑیاں ہوتی ہیں جن کے ماڈل بھی خاصے پرانے ہیں۔ اس گھر کے بچوں کے پاس لیپ ٹاپ بھی سستے سے ہیں اور ان کے موبائل بھی پرانے ماڈل کے ہیں۔ وہاں پارٹیاں بھی سال میں کبھی کبھار ہی ہوتی ہیں اور انھوں نے دو سال سے نہ تو گھر کا فرنیچر بدلا ہے اور نہ ہی نیا پینٹ کروایا ہے وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔''
''غریب آدمی'' کی طرح اور بھی کئی الفاظ اور تراکیب کے نت نئے معنی سننے میں آتے ہیں، مثال کے طور پر ایک صاحب سے پوچھا گیا کہ ان کے بچے کتنے ہیں؟ بولے ''اوپر والے'' کی مہربانی سے چار بچے ہیں۔ سوال کرنے والے نے پھر پوچھا ''آپ کے اوپر کون رہتا ہے؟''
اس لسانی، علمی اور ہلکی پھلکی بحث سے قطع نظر یہ سوال اب بھی اپنی جگہ پر قائم ہے کہ جن 300 کے قریب روزمرہ استعمال کی چیزوں کی قیمتیں بڑھنے سے جس ''غریب آدمی'' پر کوئی اثر نہیں پڑا آخر وہ کم بخت ہے کون اور کہاں رہتا ہے؟ کہ نہ اس پر بجٹ کا اثر ہوتا ہے نہ ضمنی بجٹوں کا اور نہ مختلف سرکاری محکموں کے عائد کردہ نت نئے سرچارجز کا۔ اسے کانجی ہاؤسز جیسے سرکاری اسپتالوں، ڈاکٹرز اور لیبارٹریز مافیا کے گٹھ جوڑ، اسکولوں کی بڑھتی ہوئی فیسوں اور گھٹتی ہوئی سہولتوں، ہر شے میں ملاوٹ کی فراوانی، بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ اور تھانے کچہری سے ملنے والی ذلت اور خواری سے بھی کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔
بیشتر ٹی وی چینلز کے ڈرامے اور ان پر چلنے والے اشتہارات بھی اس سے کوئی سوال نہیں کرتے۔ جو اس کی اولاد کے ذہن سے حیا، شرافت، ذمے داری، رشتوں کے احترام اور حق حلال کی کمائی کے ساتھ زندہ رہنے کے رویے کو تہس نس کرتے چلے جا رہے ہیں۔ سیاست دانوں کی قلابازیوں اور الیکشن کے نام پر لگنے والے مچھلی بازار بھی اس کے لیے روزمرہ کی باتیں اور معمول کے واقعات بن گئے ہیں۔ نہ وہ حکومت وقت سے یہ سال کرتا ہے کہ وہ اس کی ترجیحات اور اشد ضروریات پر توجہ دینے کے بجائے ایک خاص طرح کے منصوبے ہی کیوں بناتی چلی جا رہی ہے اور نہ ہی حزب اختلاف کی جماعتوں سے یہ پوچھتا ہے کہ وہ ''اس'' کے حقوق کے لیے لڑنے کے بجائے ہمہ وقت اپنے ہی اقتدار کے لیے کیوں کوشاں رہتے ہیں۔
ایک ستم ظریف نے اس ساری صورت حال پر جل کر کہا کہ ایسے بے حس اور مردہ ضمیر غریب آدمی کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہی ہونا چاہیے کہ جو اپنے حق کے لیے خود آواز بلند نہیں کرتا اور خاموش رہتا ہے تو وہ اصل میں مظلوم نہیں بلکہ ظالم کا ساتھی ہے اور یہ کہ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی جسے خود اپنی حالت بدلنے کا خیال اور احساس نہ ہو۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر حکومت کو اپنے جائز اخراجات پورے کرنے کے لیے ملک میں جاری دولت کے بہاؤ میں سے ہی اپنا حصہ نکالنا پڑتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ عوام دوست اور اپنے فرض پر کاربند حکومتیں یہ کام ایسے ٹیکسز اور مالیاتی پالیسیوں کے ذریعے کرتے ہیں جس میں ایک خاص حد سے زیادہ آمدنی والے افراد پر درجہ بدرجہ ٹیکس کی شرح بڑھائی جائے اور ہرٹیکس کے قابل آمدنی والے فرد سے پورا پرا ٹیکس وصول کیا جائے اور یہ احتیاط کی جائے کہ عام آدمی کی زندگی کو آسان اور بہتر بنانے کے لیے اس پر براہِ راست اور بالواسطہ ٹیکس کم کیے جائیں۔ اگر کوئی حکومت طاقتور افراد سے ان پر عائد جائز ٹیکس وصول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تو اسے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس کمی کو ان لوگوں سے پورا کرے جو یا تو پہلے سے ٹیکس نیٹ میں شامل ہیں یا اس قابل ہی نہیں کہ ان پر کوئی ٹیکس عائدکیا جائے۔
مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومتوں پربنیادی اعتراض یہی ہے کہ اس میں چند خاندان اور ان کے احباب ہر جائز اور ناجائز طریقے سے مختلف قومی وسائل پر قبضہ کرتے چلے جا رہے ہیں اور اپنی سیاسی طاقت کو عوام کی فلاح کے بجائے اپنی دولت اورکاروباروں کے فروغ کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں پٹرول کی قیمتیں نچلی ترین سطح کو چھو رہی ہیں لیکن یہ لوگ انتہائی ڈھٹائی سے اس سہولت کو عوام تک پہنچنے نہیں دے رہے۔
پچھلے دو ماہ میں ہمسایہ ملک میں پٹرول اور اس سے متعلقہ مصنوعات کی قیمتوں میں تین بار کمی کی گئی ہے جب کہ ہم نے انھیں جوں کا توں برقرار رکھا ہے۔ جن تین سو سے زیادہ اشیاء کی قیمتوں میں گزشتہ دنوں اضافہ کیا گیا ہے ان میں سے بھی بیشتر کا کنٹرول چند مخصوص خاندانوں کے پاس ہے۔ قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے اس اضافے کی ایک وجہ ''ضرب عضب'' پر اٹھنے والے اخراجات کو پورا کرنا بھی بتایا گیا ہے جب کہ مختلف عالمی اداروں سے حاصل کیے گئے بے محابا قرضوں کے سود اور اقساط کی ادائیگی کو بھی وجہ بلکہ ''وجوہات'' قرار دیا گیا ہے۔
دوسری طرف حزبِ اختلاف کے تمام اہم لیڈر بھی اس پر تبصرہ کرنے سے آنکھیں چراتے پھر رہے ہیں اورسب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ''غریب آدمی'' جو اس ساری کارروائی کا اصل ہدف اور شکار ہے ایک سکتے کے سے عالم میں یہ سب کچھ دیکھے چلا جا رہا ہے۔ اس صورت حال پر مجھے ایک بار پھر اپنا وہ مرحوم کزن یاد آ رہا ہے جو تاش کی بازی میں کمزور پتے ہاتھ میں آنے پر مایوسی میں سر ہلا کر کہا کرتا تھا:
''سسی نہ لڑے تو پنوں کیا کرے؟''