نسوانی تنقید کی ایک مثال
جس صنف کی سمت میں ان کا قلم چل نکلا بس سمجھ لو کہ فراٹے بھرتا چلا گیا
لاہور:
رئیس فاطمہ کو ہم صرف رئیس فاطمہ سمجھ رہے تھے۔
مگر ان کے قلم نے جو رنگ رنگ کے گل کھلائے ہیں ان کی تفصیل پڑھ کر تو ہم ہکا بکا رہ گئے۔ ارے وہ تو رئیس فاطمہ سے بڑھ کر رئیس التحریر ہیں۔ جس صنف کی سمت میں ان کا قلم چل نکلا بس سمجھ لو کہ فراٹے بھرتا چلا گیا۔ مختصر افسانے کے میدان میں قلم رواں تھا۔ بہک کر ناولٹ کی طرف نکل گیا۔ پھر کیا تھا لکھ لکھ کر ناولٹوں کی قطار لگا دی۔ سفر نامے کے میدان میں بھی تیز دوڑی ہیں مگر یہاں ان کے قدم کوتاہی کر گئے۔ ان کے قدم بس ہندوستان تک گئے۔ اسی حد تک قلم بھی گیا۔ خیر دو سفرنامے تو پھر بھی لکھ ڈالے۔
اب ادبی تنقید ان کے قلم کی زد میں ہے۔ قرۃ العین حیدر کے افسانوں کا ایک تجزیاتی مطالعہ اس طرح کیا ہے کہ جو ان کے نقادان کے مقام سے انکار کرے وہ کافر۔ اب جو ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ 'ارتکاذ' کے عنوان سے چھپ کر سامنے آیا ہے تو اس میں ان کے تنقیدی مضامین تو ہیں ہی۔ مگر قرۃ العین حیدر کے افسانوں کے تجزیاتی مطالعہ پر انھیں جو داد ملی تھی اس داد کی روداد بھی اس مجموعہ میں شامل ہو کر اس کی شان بڑھا رہی ہے۔ مگر اس سے یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ خود ان کی قلم نے جو گوہر افشانیاں کی ہیں، اس سے لطف اندوز ہوں یا ان پر جو داد کے ڈونگرے برسے ہیں ان سے حظ اٹھائیں۔ پھر سوچا کہ داد میں جو کچھ لکھا گیا ہے اس سے بعد میں نمٹیں گے۔ پہلے خود رئیس فاطمہ کی نگارشات سے استفادہ کریں۔
اس کتاب میں ویسے تو انھوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ادب میں مردانہ اور زنانہ ڈبے الگ الگ نہیں بنانے چاہئیں۔ صحیح کہا۔ زنانہ مردانہ سواریاں ایک ہی ڈبے میں سفر کرتی دکھائی دیں تو کیا مضائقہ ہے۔ انھوں نے اپنے مجموعہ میں یہی کیا ہے۔ اسی ایک ڈبے میں مردوں کے بیچ ان کی دو پسندیدہ زنانہ سواریاں بھی نظر آ رہی ہیں۔ ڈاکٹر رشید جہاں اور میرا بائی۔ اور ہاں باقی جو ادب کی زنانہ سواریاں ہیں یا کہہ لیجیے کہ اردو ناول کی انھوں نے سب کو سمیٹ کر اکٹھا بٹھایا ہے اور اردو ادب میں خاتون لکھنے والیوں نے جو حصہ بٹایا ہے اس کا اچھی خاصی تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ بنظر غور دیکھا جائے تو یہی ان کے موجودہ تنقیدی کام کا امتیازی پہلو ہے۔ یعنی انھوں نے اردو ادب میں جو خاتون لکھنے والیوں نے حصہ ڈالا ہے اس کا بھی حساب کتاب کر کے دکھایا ہے۔
ان میں جو ایک شاعرہ نظر آ رہی ہے اس کی اردو ادب میں شمولیت تھوڑی وضاحت مانگتی ہے۔ وہ ہے میرا بائی۔ رئیس فاطمہ نے اچھا کیا کہ اس شاعرہ کو اپنے جائزے میں شامل کر لیا۔ ہندی روایت کے کم از کم دو شاعر ایسے ہیں جنھیں اردو زبان و ادب کے مورخین اردو کے حساب میں شامل کر لیتے تو کوئی مضائقہ نہیں تھا۔ وہ ہیں کبیر اور میرا بائی۔
کبیر کی زبان تو اردو سے اتنی قریب ہے کہ اس کے کتنے دوہے ہمارے اجتماعی حافظہ کا حصہ ہیں۔ اور ان کی زبان ایسی ہے کہ ہم اسے اردو نہ کہیں تو یہ اردو کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ مگر ہمارے ماہرین لسانیات کی اپنی منطق تھی اور ہمارے زبان و ادب کے مورخوں کے اپنے تعصبات تھے کہ اردو کے ارتقا میں اس نام کا سرسری حوالہ دے کر گزر گئے۔ اسے اردو شاعروں کی صف میں باقاعدہ شمار نہیں کیا۔ ہاں اب جمیل جالبی کی تاریخ میں اس کا ذکر زیادہ تفصیل سے ہوا ہے۔
ان دو شاعروں پر جس شخص نے پوری توجہ کی ہے وہ ہیں علی سردار جعفری۔ ان کے دو انتخاب قابل ذکر ہیں۔ 'کبیر بانی' اور 'پریم وانی' اور یہ دونوں انتخاب ہندوستانی بک ٹرسٹ نے بہت اہتمام سے شائع کیے تھے۔
'پریم وانی' میں میرا بائی کے بھجن اس طرح شامل کیے گئے ہیں کہ ان کے ناگری متن کے پہلو بہ پہلو یہ اردو رسم الخط میں بھی پیش کیے گئے ہیں۔ پھر ان کی تشریح۔ اور پھر آخر میں مشکل الفاظ کی یعنی ایسے الفاظ جو زمانہ گزرنے کے ساتھ ہمارے لیے اجنبی بن گئے ہیں ان کی وضاحت اور معنی و مفہوم۔ کبیربانی بھی اسی طور مرتب کی گئی ہے۔ کبیر بانی پر مفصل دیباچہ خود علی سردار جعفری نے لکھا ہے۔ پریم وانی، کا دیباچہ اور فرہنگ ڈاکٹر صفدر آہ سیتا پوری نے لکھا اور مرتب کیا ہے۔
اس کے بعد اور بھی کبیر اور میرا بائی دونوں کے انتخاب اردو میں شائع ہوئے ہیں۔ مگر ہمارے نقاد پھر بھی ان سے اتنے ہی بے تعلق رہے جتنے پہلے تھے۔
کبیر کی زبان میں تو خیر فارسی عربی کا خاصا میل ہے۔ مگر میرا بائی نے تو بھجن لکھے ہیں۔ اسی حساب سے ان کی زبان بھی ہے۔ مگر وہاں بھی فارسی عربی کے الفاظ جا بجا نظر آئیں گے۔ جیسے صاحب، جہر (زہر) حجور (حضور) پِھکر (فکر) باجوبند (بازوبند) مرجی (مرضی) دوانی (دیوانی) ہاجر ناجر (حاضر ناظر)، اب میرا بائی کا ذرا یہ بھجن ملاحظہ فرمائیے۔
کرنا پھکیری پھر کیا دلگیری
سدا مگن میں رہنا جی
کوئی دن گاڑی نے کوئی دن بنگلہ
کوئی دن جنگل بسناجی
کوئی دن کھاجا نے کوئی دن لائود
کوئی دن فاکم فاکا جی
پھکیری یعنی فقیری، فاکم فاکا یعنی فاقم فاقہ۔ ا ور مقطع یوں ہے
میرا کہے گردھر ناگُن
آئے پڑے سو سہنا جی
اور رئیس فاطمہ نے صحیح لکھا کہ ''پانچ سو سال پہلے جنم لینے والی میرا یقیناً اپنے دور کی باغی نسوانی آواز تھی۔ جب عورتوں کا گھروں سے نکلنا اور بے پردہ ہونا معیوب تھا تب میرا نے ان تمام بندھنوں کو توڑ ڈالا۔'' اور میرا تو ویسے بھی مہارانی تھی۔ راجپوتوں کے حساب سے اس نے محل سے قدم باہر نکال کر راجپوتی شان کو خاک میں ملا دیا۔
ڈاکٹر رشید جہاں پر مضمون سرسری ہے۔ اسے تعارفی مضمون کہنا چاہیے۔ مگر اس تعارف کے ساتھ انھوں نے یہ بھی ضروری سمجھا کہ اس بہانے سارے ترقی پسند ادیبوں کو رگیدا جائے۔ اور ان کی یہ تنقید کچھ اتنی روا بھی نظر نہیں آتی۔ مگر ترقی پسند تحریک کا ایک قصور ضرور ہے کہ رشید جہاں کی تاریخی اہمیت کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ رشید جہاں کے افسانے افسانوں کی حیثیت سے زیادہ معیاری نہ ہوں مگر ان کی اور خود رشید جہاں کی تاریخی اہمیت بہت ہے۔ یہ انجمن کا فرض تھا کہ وہ ان افسانوں کو یکجا کر کے قرینے سے متصل دیباجہ کے ساتھ شائع کرتی اور رشید جہاں کے نام اور کام کی جو تاریخی اہمیت ہے اسے وہ اجاگر کرتی۔ باقی خود رشید جہاں کے لیے ان کے افسانوں کی اہمیت ثانوی تھی۔ پارٹی کے کام سے انھیں زیادہ شغف تھا۔
باقی اور چھوٹے بڑے شاعروں افسانہ نگاروں کے بارے میں بھی رئیس فاطمہ نے خامہ فرسائی کی ہے۔ جس کے بارے میں بھی لکھا ہے گرمجوشی سے لکھا ہے اور دل کھول کر خراج تحسین پیش کیا ہے۔ رئیس فاطمہ کی یہی ادا تو قابل قدر ہے کہ ایک مرتبہ جس کی قائل ہوگئیں پھر اس کی قدر کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتیں۔ مگر آخر رئیس فاطمہ خاتون نقاد ہیں۔ نسوانی تنقید کی ایک شان یہ بھی تو ہے۔
رئیس فاطمہ کو ہم صرف رئیس فاطمہ سمجھ رہے تھے۔
مگر ان کے قلم نے جو رنگ رنگ کے گل کھلائے ہیں ان کی تفصیل پڑھ کر تو ہم ہکا بکا رہ گئے۔ ارے وہ تو رئیس فاطمہ سے بڑھ کر رئیس التحریر ہیں۔ جس صنف کی سمت میں ان کا قلم چل نکلا بس سمجھ لو کہ فراٹے بھرتا چلا گیا۔ مختصر افسانے کے میدان میں قلم رواں تھا۔ بہک کر ناولٹ کی طرف نکل گیا۔ پھر کیا تھا لکھ لکھ کر ناولٹوں کی قطار لگا دی۔ سفر نامے کے میدان میں بھی تیز دوڑی ہیں مگر یہاں ان کے قدم کوتاہی کر گئے۔ ان کے قدم بس ہندوستان تک گئے۔ اسی حد تک قلم بھی گیا۔ خیر دو سفرنامے تو پھر بھی لکھ ڈالے۔
اب ادبی تنقید ان کے قلم کی زد میں ہے۔ قرۃ العین حیدر کے افسانوں کا ایک تجزیاتی مطالعہ اس طرح کیا ہے کہ جو ان کے نقادان کے مقام سے انکار کرے وہ کافر۔ اب جو ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ 'ارتکاذ' کے عنوان سے چھپ کر سامنے آیا ہے تو اس میں ان کے تنقیدی مضامین تو ہیں ہی۔ مگر قرۃ العین حیدر کے افسانوں کے تجزیاتی مطالعہ پر انھیں جو داد ملی تھی اس داد کی روداد بھی اس مجموعہ میں شامل ہو کر اس کی شان بڑھا رہی ہے۔ مگر اس سے یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ خود ان کی قلم نے جو گوہر افشانیاں کی ہیں، اس سے لطف اندوز ہوں یا ان پر جو داد کے ڈونگرے برسے ہیں ان سے حظ اٹھائیں۔ پھر سوچا کہ داد میں جو کچھ لکھا گیا ہے اس سے بعد میں نمٹیں گے۔ پہلے خود رئیس فاطمہ کی نگارشات سے استفادہ کریں۔
اس کتاب میں ویسے تو انھوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ادب میں مردانہ اور زنانہ ڈبے الگ الگ نہیں بنانے چاہئیں۔ صحیح کہا۔ زنانہ مردانہ سواریاں ایک ہی ڈبے میں سفر کرتی دکھائی دیں تو کیا مضائقہ ہے۔ انھوں نے اپنے مجموعہ میں یہی کیا ہے۔ اسی ایک ڈبے میں مردوں کے بیچ ان کی دو پسندیدہ زنانہ سواریاں بھی نظر آ رہی ہیں۔ ڈاکٹر رشید جہاں اور میرا بائی۔ اور ہاں باقی جو ادب کی زنانہ سواریاں ہیں یا کہہ لیجیے کہ اردو ناول کی انھوں نے سب کو سمیٹ کر اکٹھا بٹھایا ہے اور اردو ادب میں خاتون لکھنے والیوں نے جو حصہ بٹایا ہے اس کا اچھی خاصی تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ بنظر غور دیکھا جائے تو یہی ان کے موجودہ تنقیدی کام کا امتیازی پہلو ہے۔ یعنی انھوں نے اردو ادب میں جو خاتون لکھنے والیوں نے حصہ ڈالا ہے اس کا بھی حساب کتاب کر کے دکھایا ہے۔
ان میں جو ایک شاعرہ نظر آ رہی ہے اس کی اردو ادب میں شمولیت تھوڑی وضاحت مانگتی ہے۔ وہ ہے میرا بائی۔ رئیس فاطمہ نے اچھا کیا کہ اس شاعرہ کو اپنے جائزے میں شامل کر لیا۔ ہندی روایت کے کم از کم دو شاعر ایسے ہیں جنھیں اردو زبان و ادب کے مورخین اردو کے حساب میں شامل کر لیتے تو کوئی مضائقہ نہیں تھا۔ وہ ہیں کبیر اور میرا بائی۔
کبیر کی زبان تو اردو سے اتنی قریب ہے کہ اس کے کتنے دوہے ہمارے اجتماعی حافظہ کا حصہ ہیں۔ اور ان کی زبان ایسی ہے کہ ہم اسے اردو نہ کہیں تو یہ اردو کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ مگر ہمارے ماہرین لسانیات کی اپنی منطق تھی اور ہمارے زبان و ادب کے مورخوں کے اپنے تعصبات تھے کہ اردو کے ارتقا میں اس نام کا سرسری حوالہ دے کر گزر گئے۔ اسے اردو شاعروں کی صف میں باقاعدہ شمار نہیں کیا۔ ہاں اب جمیل جالبی کی تاریخ میں اس کا ذکر زیادہ تفصیل سے ہوا ہے۔
ان دو شاعروں پر جس شخص نے پوری توجہ کی ہے وہ ہیں علی سردار جعفری۔ ان کے دو انتخاب قابل ذکر ہیں۔ 'کبیر بانی' اور 'پریم وانی' اور یہ دونوں انتخاب ہندوستانی بک ٹرسٹ نے بہت اہتمام سے شائع کیے تھے۔
'پریم وانی' میں میرا بائی کے بھجن اس طرح شامل کیے گئے ہیں کہ ان کے ناگری متن کے پہلو بہ پہلو یہ اردو رسم الخط میں بھی پیش کیے گئے ہیں۔ پھر ان کی تشریح۔ اور پھر آخر میں مشکل الفاظ کی یعنی ایسے الفاظ جو زمانہ گزرنے کے ساتھ ہمارے لیے اجنبی بن گئے ہیں ان کی وضاحت اور معنی و مفہوم۔ کبیربانی بھی اسی طور مرتب کی گئی ہے۔ کبیر بانی پر مفصل دیباچہ خود علی سردار جعفری نے لکھا ہے۔ پریم وانی، کا دیباچہ اور فرہنگ ڈاکٹر صفدر آہ سیتا پوری نے لکھا اور مرتب کیا ہے۔
اس کے بعد اور بھی کبیر اور میرا بائی دونوں کے انتخاب اردو میں شائع ہوئے ہیں۔ مگر ہمارے نقاد پھر بھی ان سے اتنے ہی بے تعلق رہے جتنے پہلے تھے۔
کبیر کی زبان میں تو خیر فارسی عربی کا خاصا میل ہے۔ مگر میرا بائی نے تو بھجن لکھے ہیں۔ اسی حساب سے ان کی زبان بھی ہے۔ مگر وہاں بھی فارسی عربی کے الفاظ جا بجا نظر آئیں گے۔ جیسے صاحب، جہر (زہر) حجور (حضور) پِھکر (فکر) باجوبند (بازوبند) مرجی (مرضی) دوانی (دیوانی) ہاجر ناجر (حاضر ناظر)، اب میرا بائی کا ذرا یہ بھجن ملاحظہ فرمائیے۔
کرنا پھکیری پھر کیا دلگیری
سدا مگن میں رہنا جی
کوئی دن گاڑی نے کوئی دن بنگلہ
کوئی دن جنگل بسناجی
کوئی دن کھاجا نے کوئی دن لائود
کوئی دن فاکم فاکا جی
پھکیری یعنی فقیری، فاکم فاکا یعنی فاقم فاقہ۔ ا ور مقطع یوں ہے
میرا کہے گردھر ناگُن
آئے پڑے سو سہنا جی
اور رئیس فاطمہ نے صحیح لکھا کہ ''پانچ سو سال پہلے جنم لینے والی میرا یقیناً اپنے دور کی باغی نسوانی آواز تھی۔ جب عورتوں کا گھروں سے نکلنا اور بے پردہ ہونا معیوب تھا تب میرا نے ان تمام بندھنوں کو توڑ ڈالا۔'' اور میرا تو ویسے بھی مہارانی تھی۔ راجپوتوں کے حساب سے اس نے محل سے قدم باہر نکال کر راجپوتی شان کو خاک میں ملا دیا۔
ڈاکٹر رشید جہاں پر مضمون سرسری ہے۔ اسے تعارفی مضمون کہنا چاہیے۔ مگر اس تعارف کے ساتھ انھوں نے یہ بھی ضروری سمجھا کہ اس بہانے سارے ترقی پسند ادیبوں کو رگیدا جائے۔ اور ان کی یہ تنقید کچھ اتنی روا بھی نظر نہیں آتی۔ مگر ترقی پسند تحریک کا ایک قصور ضرور ہے کہ رشید جہاں کی تاریخی اہمیت کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ رشید جہاں کے افسانے افسانوں کی حیثیت سے زیادہ معیاری نہ ہوں مگر ان کی اور خود رشید جہاں کی تاریخی اہمیت بہت ہے۔ یہ انجمن کا فرض تھا کہ وہ ان افسانوں کو یکجا کر کے قرینے سے متصل دیباجہ کے ساتھ شائع کرتی اور رشید جہاں کے نام اور کام کی جو تاریخی اہمیت ہے اسے وہ اجاگر کرتی۔ باقی خود رشید جہاں کے لیے ان کے افسانوں کی اہمیت ثانوی تھی۔ پارٹی کے کام سے انھیں زیادہ شغف تھا۔
باقی اور چھوٹے بڑے شاعروں افسانہ نگاروں کے بارے میں بھی رئیس فاطمہ نے خامہ فرسائی کی ہے۔ جس کے بارے میں بھی لکھا ہے گرمجوشی سے لکھا ہے اور دل کھول کر خراج تحسین پیش کیا ہے۔ رئیس فاطمہ کی یہی ادا تو قابل قدر ہے کہ ایک مرتبہ جس کی قائل ہوگئیں پھر اس کی قدر کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتیں۔ مگر آخر رئیس فاطمہ خاتون نقاد ہیں۔ نسوانی تنقید کی ایک شان یہ بھی تو ہے۔