امریکی صدارتی مباحثہ اور ہم
حکومتوں کو درس گاہوں کے معیار بشمول عمارتوں کو بھی خوش نما اور تعلیمی سہولتوں سے آراستہ کرنا ہوتا ہے
امریکا سے اتفاق کیا جائے یا اختلاف مگر انتخابات سے قبل جس جمہوری روایت کو پروان چڑھایا گیا ہے۔
اس سے کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے، بقول حضرت علی کرم اﷲ وجہہ علم تمہاری کھوئی ہوئی بھیڑیں ہیں وہ جہاں سے ملیں ان کو ڈھونڈ لو۔ پاکستان میں جمہوریت کے تان سین جو راگ الاپ رہے ہیں، ان کو امریکی صدارتی انتخابات سے قبل جن مباحثوں کا انعقاد کیا جاتا ہے، اس پر غور و فکر ضروری ہے۔ اسلام کی نظر میں ایک عام جاہل آدمی اور عالم کی رائے کی جداگانہ اہمیت ہے جو انفرادیت صاحب الرائے کو حاصل ہے۔ وہ عام آدمی کو ہرگز نہیں کیونکہ صاحب الرائے عمل اور ردعمل کو مدنظر رکھتا ہے۔ اسی لیے خلفائے راشدین کے عہد میں صاحب الرائے ہی حکومتی فیصلے انجام دیتے تھے۔
اپنی ملکی اور غیر ملکی پالیسی کو مرتب کرنے کے لیے زیرک دانش مندوں کی کثیر تعداد ہوا کرتی تھی، جب ہی فتوحات اور اس دور کی حکمت عملی وضع کی جاتی تھی، یہاں تک کہ اموی اور عباسی دور کے بعض حکمرانوں نے اس پالیسی کو جاری رکھا، مگر مملکتِ خداداد کے وجود میں آنے کے چند برس بعد ہی ایسے سیاست دانوں کا دور شروع ہوگیا، جنھوں نے مصاحبین اور گروہی، نسلی سیاست شروع کردی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں کمی کے بجائے زیادتی ہوتی گئی اور آج یہ دائرہ اس قدر وسیع ہوگیا ہے کہ جمہوریت چند خاندانوں کی جاگیر بن کر رہ گئی ہے۔
سیاست کے افق پر علما، دانشور، فلسفی اور دانشوروں کو دور کردیا گیا ہے، مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ اب مغرب کے پاس یا ان کے اتحادیوں کے پاس وہ کچھ موجود ہے جو کبھی ہمارا طرۂ امتیاز ہوتا تھا۔ عوامی اجتماعات میں ہمارے لیڈران طرّہ امتیاز ایک بڑی سی مقامی پگڑی پہن کر آتے ہیں، اس طرح وہ جلسہ گاہ میں یہ ثابت کرتے ہیں کہ میں خان بہادر ہوں، مجھے یہ طرۂ امتیاز فرنگی نے عطا کیا ہے اور ہم تمہارے قدیم حکمران ہیں اور وہاں جا کر ویسی ہی دیسی اور مقامی بولی میں خطاب کرتے ہیں۔ سیاست کے میدان میں جہاں روزمرّہ کے مسائل اور عوامی خوش حالی پر گفتگو ہونی چاہیے، وہاں ثقافتی مے نوش کرائی جاتی ہے اور یہ لسانی، مقامی مسرور کن نشہ آور گفتگو کی جاتی ہے، مگر ترقی یافتہ قوموں کے رنگ ڈھنگ ہی کچھ اور ہیں۔
گزشتہ منگل کو آخری مباحثے سے قبل امریکی صدارتی انتخابات پر جتنے بھی مباحثے ہوئے، وہ وہاں کی یونیورسٹیوں میں منعقد ہوئے، جس کا اہتمام ان یونیورسٹیوں نے کیا تھا۔ مباحثے کے آڈیٹوریم میں یہ مباحثے ہوئے جہاں اساتذہ اور طلبا کی کثیر تعداد موجود تھی۔ سوال و جواب کے آداب، صاحبِ اقتدار اور حزب مخالف کے امیدوار اس سیاسی دنگل میں اپنے اپنے جوہر دِکھاتے ہیں۔ الفاظ، زبان، بیان، لہجہ نفسِ مضمون، مدعا اور ملکی مفادات کو اولیت دی گئی۔ تعلیمی اداروں میں ان انتخابی اجتماعات کا انعقاد اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ترقی یافتہ دنیا میں تعلیمی اداروں کو سیاسیات اور سماجیات اور معاشیات کی چابی سمجھا جاتا ہے۔
لہٰذا حکومتوں کو درس گاہوں کے معیار بشمول عمارتوں کو بھی خوش نما اور تعلیمی سہولتوں سے آراستہ کرنا ہوتا ہے جب کہ ہمارے تعلیمی حکومتی اداروں کی خستہ حالی اور ان کے اساتذہ کے حالات اور طلبا کی بے راہ روی سب کے سامنے ہے کیونکہ یہ شعبہ خسارے کا سودا سمجھا جاتا ہے، لہٰذا ہر قسم کا کرپشن تعلیمی نظام میں داخل ہوگیا ہے۔ بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن اپنی افادیت کھوتا جارہا ہے اور اے اور او لیول ملک میں قبولیت کی شاہراہ پر ہے۔ اس لیے طلبا کی کثیر تعداد معاشی کمتری کی وجہ سے معیاری تعلیم سے محروم ہوتی جارہی ہے۔
ابھی یہ خلیج مزید وسیع ہوتی جائے گی۔ منگل کو امریکی صدارتی مباحثے پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ انتخابات سے قبل ملک کن کن مراحل سے گزرتا ہے، یہ نہیں کہ شعبدہ بازی سے کام لیا جائے، نام نہاد ٹریکٹر پروگرام، لیپ ٹاپ پروگرام، انکم سپورٹ پروگرام وغیرہ یہ تمام سیاسی شعبدہ بازی درحقیقت ملک کو مزید بستی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ ملک کی پستی کی نکیل ان سیاست دانوں کے پاس ہے۔ امریکی صدارتی انتخابات سے قبل جو میدان تیار کیا گیا وہ خالصتاً علمی اور سیاسی تھا جو ملک کے نامور پروفیسروں اور دانشوروں کی رہنمائی میں تیار کیا گیا۔
یہی وہ سیاسی اکھاڑا ہے جو امریکا کی قسمت کا فیصلہ کرے گا۔ اگر صدر اوباما اور ان کے مدمقابل گورنر رومنی کی تقاریر کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ رومنی اور اوباما گو کہ دو مختلف سیاسی پارٹیوں سے ہیں مگر دونوں کا نظریہ امریکا کو مزید فعال اور اس کی گرفت دنیا پر مزید کڑی کرنے اور امریکا کو مزید فعال اور دیگر قوموں کو ہم نوا بنانے کا ہے۔ البتہ ایک چیز جو دونوں رہنمائوں کے سوال جواب سے ظاہر ہوئی، وہ یہ ہے کہ رومنی امریکی اہداف کے حصول کے لیے سخت گیر موقف کے حامی ہیں، مثلاً صدارتی امیدوار رومنی اسرائیلی موقف کے حامی نظر آئے کہ ایران پر ایک سرخ لکیر لگانے کی ضرورت ہے اور اگر وہ اپنے نیوکلیئر پروگرام پر اس لکیر سے تجاوز کرے تو حملہ کردیا جائے۔ اسرائیلی حکومت ری پبلکن کو اپنا زیادہ حلیف سمجھتی ہے اور یہودی لابی رومنی کی حمایت کرے گی، اس لیے اوباما کو بعض مشکلات کا سامنا ہے۔
گو کہ اوباما انتظامیہ بھی ایران کے خلاف پابندیاں عاید کرکے ایران کو کمزور کرنے کے اہداف پر سرگرم ہے، مثلاً ایران سے تیل یا گیس لینے والوں کی سرزنش کرنا بجائے اس کے کہ وہ ایران کے خلاف براہِ راست حملہ کرے۔ اوباما کو یہ معلوم ہے کہ معاشی بدحالی ایک دن ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردے گی اور رفتہ رفتہ امریکا اپنے اہداف کے قریب تر ہوتا جائے گا۔ رومنی نے اوباما کو آخری مباحثے میں خارجہ پالیسی کے مسئلے پر آڑے ہاتھ لیا، خصوصاً لیبیا کے مسئلے پر اور شام کے مسئلے پر تو صدر اوباما نے خود کوخوبصورتی سے بچالیا اور جواب دیا مگر بن غازی میں امریکی سفیر اور ان کے ساتھیوں کی جو جان گئی اس سے کسی قدر ان کو پسپائی ہوئی۔ گورنر رومنی نے فوجی اخراجات بڑھانے پر زور دیا۔ صدر اوباما نے اس کا بہتر جواب دیا کہ وہ اپنے اتحادیوں کو ملا کر یہ کام کررہے ہیں۔
اس مباحثے کا اصل محور مشرقی وسطیٰ ہی تھا۔ افغانستان پر بدستور ان کا عمل دخل جوں کا توں رہے گا اور ان کی تقریر کا یہ پہلو کہ وہ امریکا کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں اور دشمن اوران کی نسلوں کی کمیں گاہوں کو آیندہ بھی تباہ کرتے رہیں گے، اس سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ ڈرون حملے بدستور جاری رہیں گے۔ اس مباحثے نے صدر اوباما کو مضبوط تر کردیا اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وسط نومبر میں ہونے والے انتخابات میں صدر اوباما کی فتح کی زیادہ امید ہے، لہٰذا پاکستان کے سیاسی حکمرانوں کو اپنی خارجہ پالیسی کے اہداف ترتیب دینے کی ضرورت ہے اور کچھ سیکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ تعلیمی میدان میں عقل کے ناخن لینے کی ضرورت ہے، خستہ حال اسکولوں اور کالجوں اور وسیع دفاعی اخراجات سے ملک مضبوط نہ ہوگا۔ علم کی شمع کو پرزور طریقے سے روشن رکھنا ہوگا اور سیاست کے اصل ستون اور فلک کی اصل قوت یہ درس گاہیں ہیں مگر کیا یہ سب ممکن ہے؟
تم اپنی شمع تمنّا کو رو رہے ہو فراز
ان آندھیوں میں تو پیارے چراغ سب کے گئے
اس سے کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے، بقول حضرت علی کرم اﷲ وجہہ علم تمہاری کھوئی ہوئی بھیڑیں ہیں وہ جہاں سے ملیں ان کو ڈھونڈ لو۔ پاکستان میں جمہوریت کے تان سین جو راگ الاپ رہے ہیں، ان کو امریکی صدارتی انتخابات سے قبل جن مباحثوں کا انعقاد کیا جاتا ہے، اس پر غور و فکر ضروری ہے۔ اسلام کی نظر میں ایک عام جاہل آدمی اور عالم کی رائے کی جداگانہ اہمیت ہے جو انفرادیت صاحب الرائے کو حاصل ہے۔ وہ عام آدمی کو ہرگز نہیں کیونکہ صاحب الرائے عمل اور ردعمل کو مدنظر رکھتا ہے۔ اسی لیے خلفائے راشدین کے عہد میں صاحب الرائے ہی حکومتی فیصلے انجام دیتے تھے۔
اپنی ملکی اور غیر ملکی پالیسی کو مرتب کرنے کے لیے زیرک دانش مندوں کی کثیر تعداد ہوا کرتی تھی، جب ہی فتوحات اور اس دور کی حکمت عملی وضع کی جاتی تھی، یہاں تک کہ اموی اور عباسی دور کے بعض حکمرانوں نے اس پالیسی کو جاری رکھا، مگر مملکتِ خداداد کے وجود میں آنے کے چند برس بعد ہی ایسے سیاست دانوں کا دور شروع ہوگیا، جنھوں نے مصاحبین اور گروہی، نسلی سیاست شروع کردی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں کمی کے بجائے زیادتی ہوتی گئی اور آج یہ دائرہ اس قدر وسیع ہوگیا ہے کہ جمہوریت چند خاندانوں کی جاگیر بن کر رہ گئی ہے۔
سیاست کے افق پر علما، دانشور، فلسفی اور دانشوروں کو دور کردیا گیا ہے، مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ اب مغرب کے پاس یا ان کے اتحادیوں کے پاس وہ کچھ موجود ہے جو کبھی ہمارا طرۂ امتیاز ہوتا تھا۔ عوامی اجتماعات میں ہمارے لیڈران طرّہ امتیاز ایک بڑی سی مقامی پگڑی پہن کر آتے ہیں، اس طرح وہ جلسہ گاہ میں یہ ثابت کرتے ہیں کہ میں خان بہادر ہوں، مجھے یہ طرۂ امتیاز فرنگی نے عطا کیا ہے اور ہم تمہارے قدیم حکمران ہیں اور وہاں جا کر ویسی ہی دیسی اور مقامی بولی میں خطاب کرتے ہیں۔ سیاست کے میدان میں جہاں روزمرّہ کے مسائل اور عوامی خوش حالی پر گفتگو ہونی چاہیے، وہاں ثقافتی مے نوش کرائی جاتی ہے اور یہ لسانی، مقامی مسرور کن نشہ آور گفتگو کی جاتی ہے، مگر ترقی یافتہ قوموں کے رنگ ڈھنگ ہی کچھ اور ہیں۔
گزشتہ منگل کو آخری مباحثے سے قبل امریکی صدارتی انتخابات پر جتنے بھی مباحثے ہوئے، وہ وہاں کی یونیورسٹیوں میں منعقد ہوئے، جس کا اہتمام ان یونیورسٹیوں نے کیا تھا۔ مباحثے کے آڈیٹوریم میں یہ مباحثے ہوئے جہاں اساتذہ اور طلبا کی کثیر تعداد موجود تھی۔ سوال و جواب کے آداب، صاحبِ اقتدار اور حزب مخالف کے امیدوار اس سیاسی دنگل میں اپنے اپنے جوہر دِکھاتے ہیں۔ الفاظ، زبان، بیان، لہجہ نفسِ مضمون، مدعا اور ملکی مفادات کو اولیت دی گئی۔ تعلیمی اداروں میں ان انتخابی اجتماعات کا انعقاد اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ترقی یافتہ دنیا میں تعلیمی اداروں کو سیاسیات اور سماجیات اور معاشیات کی چابی سمجھا جاتا ہے۔
لہٰذا حکومتوں کو درس گاہوں کے معیار بشمول عمارتوں کو بھی خوش نما اور تعلیمی سہولتوں سے آراستہ کرنا ہوتا ہے جب کہ ہمارے تعلیمی حکومتی اداروں کی خستہ حالی اور ان کے اساتذہ کے حالات اور طلبا کی بے راہ روی سب کے سامنے ہے کیونکہ یہ شعبہ خسارے کا سودا سمجھا جاتا ہے، لہٰذا ہر قسم کا کرپشن تعلیمی نظام میں داخل ہوگیا ہے۔ بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن اپنی افادیت کھوتا جارہا ہے اور اے اور او لیول ملک میں قبولیت کی شاہراہ پر ہے۔ اس لیے طلبا کی کثیر تعداد معاشی کمتری کی وجہ سے معیاری تعلیم سے محروم ہوتی جارہی ہے۔
ابھی یہ خلیج مزید وسیع ہوتی جائے گی۔ منگل کو امریکی صدارتی مباحثے پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ انتخابات سے قبل ملک کن کن مراحل سے گزرتا ہے، یہ نہیں کہ شعبدہ بازی سے کام لیا جائے، نام نہاد ٹریکٹر پروگرام، لیپ ٹاپ پروگرام، انکم سپورٹ پروگرام وغیرہ یہ تمام سیاسی شعبدہ بازی درحقیقت ملک کو مزید بستی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ ملک کی پستی کی نکیل ان سیاست دانوں کے پاس ہے۔ امریکی صدارتی انتخابات سے قبل جو میدان تیار کیا گیا وہ خالصتاً علمی اور سیاسی تھا جو ملک کے نامور پروفیسروں اور دانشوروں کی رہنمائی میں تیار کیا گیا۔
یہی وہ سیاسی اکھاڑا ہے جو امریکا کی قسمت کا فیصلہ کرے گا۔ اگر صدر اوباما اور ان کے مدمقابل گورنر رومنی کی تقاریر کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ رومنی اور اوباما گو کہ دو مختلف سیاسی پارٹیوں سے ہیں مگر دونوں کا نظریہ امریکا کو مزید فعال اور اس کی گرفت دنیا پر مزید کڑی کرنے اور امریکا کو مزید فعال اور دیگر قوموں کو ہم نوا بنانے کا ہے۔ البتہ ایک چیز جو دونوں رہنمائوں کے سوال جواب سے ظاہر ہوئی، وہ یہ ہے کہ رومنی امریکی اہداف کے حصول کے لیے سخت گیر موقف کے حامی ہیں، مثلاً صدارتی امیدوار رومنی اسرائیلی موقف کے حامی نظر آئے کہ ایران پر ایک سرخ لکیر لگانے کی ضرورت ہے اور اگر وہ اپنے نیوکلیئر پروگرام پر اس لکیر سے تجاوز کرے تو حملہ کردیا جائے۔ اسرائیلی حکومت ری پبلکن کو اپنا زیادہ حلیف سمجھتی ہے اور یہودی لابی رومنی کی حمایت کرے گی، اس لیے اوباما کو بعض مشکلات کا سامنا ہے۔
گو کہ اوباما انتظامیہ بھی ایران کے خلاف پابندیاں عاید کرکے ایران کو کمزور کرنے کے اہداف پر سرگرم ہے، مثلاً ایران سے تیل یا گیس لینے والوں کی سرزنش کرنا بجائے اس کے کہ وہ ایران کے خلاف براہِ راست حملہ کرے۔ اوباما کو یہ معلوم ہے کہ معاشی بدحالی ایک دن ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردے گی اور رفتہ رفتہ امریکا اپنے اہداف کے قریب تر ہوتا جائے گا۔ رومنی نے اوباما کو آخری مباحثے میں خارجہ پالیسی کے مسئلے پر آڑے ہاتھ لیا، خصوصاً لیبیا کے مسئلے پر اور شام کے مسئلے پر تو صدر اوباما نے خود کوخوبصورتی سے بچالیا اور جواب دیا مگر بن غازی میں امریکی سفیر اور ان کے ساتھیوں کی جو جان گئی اس سے کسی قدر ان کو پسپائی ہوئی۔ گورنر رومنی نے فوجی اخراجات بڑھانے پر زور دیا۔ صدر اوباما نے اس کا بہتر جواب دیا کہ وہ اپنے اتحادیوں کو ملا کر یہ کام کررہے ہیں۔
اس مباحثے کا اصل محور مشرقی وسطیٰ ہی تھا۔ افغانستان پر بدستور ان کا عمل دخل جوں کا توں رہے گا اور ان کی تقریر کا یہ پہلو کہ وہ امریکا کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں اور دشمن اوران کی نسلوں کی کمیں گاہوں کو آیندہ بھی تباہ کرتے رہیں گے، اس سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ ڈرون حملے بدستور جاری رہیں گے۔ اس مباحثے نے صدر اوباما کو مضبوط تر کردیا اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وسط نومبر میں ہونے والے انتخابات میں صدر اوباما کی فتح کی زیادہ امید ہے، لہٰذا پاکستان کے سیاسی حکمرانوں کو اپنی خارجہ پالیسی کے اہداف ترتیب دینے کی ضرورت ہے اور کچھ سیکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ تعلیمی میدان میں عقل کے ناخن لینے کی ضرورت ہے، خستہ حال اسکولوں اور کالجوں اور وسیع دفاعی اخراجات سے ملک مضبوط نہ ہوگا۔ علم کی شمع کو پرزور طریقے سے روشن رکھنا ہوگا اور سیاست کے اصل ستون اور فلک کی اصل قوت یہ درس گاہیں ہیں مگر کیا یہ سب ممکن ہے؟
تم اپنی شمع تمنّا کو رو رہے ہو فراز
ان آندھیوں میں تو پیارے چراغ سب کے گئے