قانون کی عملداری
حضرت علیؓ کا آفاقی قول ہے کہ ’’کفر کی حکمرانی چل سکتی ہے، ظلم و استبداد کی حکمرانی کا چلنا ممکن نہیں ہوتا‘‘
حضرت علیؓ کا آفاقی قول ہے کہ ''کفر کی حکمرانی چل سکتی ہے، ظلم و استبداد کی حکمرانی کا چلنا ممکن نہیں ہوتا''۔ اس قول کی عصری زماں و مکان کے لحاظ سے تشریح و تفہیم یہ ہو گی کہ جمہوری یا غیر جمہوری ہر طرح کی حکومت چل سکتی ہے، مگر ایک ایسی حکومت کا قائم رہنا ممکن نہیں، جس میں قانون کی حکمرانی کا فقدان ہو۔ اس قول کے تناظر میں ہمیں پاکستان کی 68 برس کی تاریخ پر نظر ڈالنا چاہیے کہ آیا اس عرصہ میں کوئی حکومت قانون کی حقیقی حکمرانی قائم کر سکی یا قانون کی بالادستی کے نام پر محض تضیع اوقات کی گئی۔ کیونکہ قیام سے اب تک جس قسم کی حکمرانی کی گئی ہے، اس میں قانون کی بالادستی کا شائبہ تک نہیں ملتا۔
پروفیسر حمزہ علوی مرحوم لکھتے ہیں کہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی چوہدری محمدعلی مرحوم کی قیادت میں سول بیوروکریسی کے اعلیٰ اہلکاروں کا ایک متوازی منصوبہ ساز گروہ تشکیل پا گیا تھا، جو کابینہ سے زیادہ بااثر تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان مرحوم اکثر اپنی کابینہ کے اراکین سے کہا کرتے تھے کہ کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے چوہدری محمد علی کو اعتماد میں لے لو، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اس فیصلے کو رد کر دے۔ انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ لیاقت علی خان مرحوم نے چوہدری محمدعلی کے رویوں سے عاجز آ کر دو مرتبہ استعفیٰ دینے کی بھی کوشش کی۔
چوہدری محمد علی کے بارے میں ہجرت کر کے آنے والے بعض سینئر سول سرونٹس بھی اچھی رائے نہیں رکھتے تھے۔ مسرت حسین زبیری نے دو جلدوں پر مشتمل اپنی سوانح حیات A Voyage into History میں چوہدری محمد علی پر متعصبانہ رویوں اور اقدامات کا الزام عائد کیا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری نے اپنی سوانح ''گرد راہ'' اور ان کی بیگم حمیدہ اختر نے اپنی سوانح ''ہمسفر'' میں الزام عائد کیا کہ چوہدری محمد علی نے پاکستان میں اقرباپروری کی بنیاد رکھی۔ ڈھاکا میں 15 اگست 1947ء کو پاکستانی جھنڈا لہرانے والے کمشنر شہاب الدین رحمت اللہ نے اپنی سوانح ''شہاب بیتی'' (یہ قدرت اللہ شہاب کی ''شہاب نامہ'' سے مختلف ہے) میں بھی چوہدری محمد علی کو ہدف تنقید بنایا ہے۔
چوہدری محمدعلی پر یہ بھی الزام ہے کہ ان کی ہدایت پر اس وقت کے سیکریٹری اطلاعات و نشریات نے قائد اعظم کی 11 اگست کو دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں کی جانے والی تقریر کو سنسر کیا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چوہدری محمد علی بنگالیوں کے لیے شدید ناپسندیدگی رکھتے تھے، جس کی ایک مثال یہ ہے کہ انھوں نے محکمہ اطلاعات کو ہدایت دے رکھی تھی کہ بنگالی صحافیوں کو وفاقی حکومت کی خبریں ایک دن تاخیر سے دی جائیں۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں کو جو 13 اگست 1947ء تک قیام پاکستان کے شدید مخالف تھے، چوہدری محمدعلی نے خفیہ طور پر پاکستان مدعو کیا تھا۔ کیونکہ وہ بانی پاکستان کے تصورات کے برخلاف پاکستان کو ایک تھیوکریٹک ریاست بنانے کے متمنی تھے۔ یہ چوہدری محمد علی ہی تھے، جنہوں نے مولانا شبیر احمد عثمانی کو قرارداد مقاصد دستور ساز اسمبلی میں پیش کرنے پر اکسایا۔ قرارداد مقاصد کی نوک پلک درست کرنے کے لیے اس کا مسودہ ایک ڈپٹی سیکریٹری کے ذریعے ایک مذہبی رہنما کو بھیجا گیا، جو اس وقت ملتان جیل میں نظر بند تھے۔ بنگال سے تعلق رکھنے والے فضل القادر چوہدری لکھتے ہیں کہ چوہدری محمدعلی اتنے بااختیار تھے کہ وہ دستور ساز اسمبلی کی کارروائیوں میں بھی دخل اندازی کرتے تھے۔ کچھ اراکین اسمبلی کی اپنی کوتاہیاں اور کچھ سول بیوروکریسی کے دباؤ کا نتیجہ تھا کہ دستور ساز اسمبلی کے 1947ء سے 1954ء کے دوران 7 برس کے عرصہ میں کل 156 اجلاس ہوئے۔
1953-54ء کے دوران تین ایسے واقعات رونما ہوئے، جن کی وجہ سے سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کی ملک کی پالیسی سازی پر گرفت مزید کمزور پڑی اور بیوروکریسی کے اختیار میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ پہلا واقعہ پنجاب میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات تھے، جس کے نتیجے میں لاہور سمیت چند شہروں میں جنرل اعظم خان کی سربراہی میں مارشل لا نافذ کیا گیا۔ یہ وہ واقعہ تھا جس نے فوج کو اقتدار پر قابض ہونے کی راہ دکھائی۔ کہا جاتا ہے کہ ان فسادات کی پشت پر میاں ممتاز دولتانہ تھے، جن کی وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کے ساتھ ذاتی چپقلش چل رہی تھی۔ حالانکہ میاں صاحب خاصے لبرل مشہور تھے۔
دوسرا واقعہ سابقہ مشرقی پاکستان میں جگتو فرنٹ کی بے مثال کامیابی تھا، جس نے مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والی بیوروکریسی اور فیوڈل سیاستدانوں کی نیندیں اڑا دی تھیں، کیونکہ جگتو فرنٹ کی سابقہ مشرقی پاکستان میں کامیابی کے مغربی پاکستان پر پڑنے والے اثرات کے نتیجے میں بیوروکریسی کی بااختیاریت اور فیوڈل سیاست کے خاتمہ کا امکان تھا۔ اس لیے اس کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی صوبائی اسمبلی تحلیل کر دی گئی۔
تیسرا واقعہ 1954ء میں آئین کا ابتدائی مسودے پر اراکین کے اتفاق ہوتے ہی گورنر جنرل غلام محمد کی جانب سے اسمبلی کا تحلیل کیا جانا ہے۔ اس عمل نے اراکین پارلیمان کی رہی سہی حیثیت بھی ختم کر دی۔ ان تین واقعات کے بعد بیوروکریسی اس قدر طاقتور ہو گئی کہ اس نے 1955ء میں مغربی پاکستان کے فیوڈل سیاستدانوں اور گماشتہ کاروباری حلقوں کے تعاون سے بنگالی سیاستدانوں کو زبان کے مسئلہ پر بلیک میل کر کے ان کی عددی برتری کو ختم کرنے کے لیے پیریٹی کا اصول وضع کر دیا۔ جس کے نتیجے میں مغربی پاکستان میں ون یونٹ قائم کر کے چھوٹے صوبوں کی سیاسی، ثقافتی اور انتظامی بااختیارات ختم کر دی گئی۔
وہی چوہدری محمد علی جنھوں نے 1954ء کے آئین کے خلاف اندرون خانہ سازشیں کی تھیں، ریٹائرمنٹ کے بعد جب خود وزیر اعظم بنے تو 1956ء میں آئین دے دیا۔ مگر یہ آئین پارلیمانی ہونے کے باوجود پیریٹی کے اصول کو آئینی تحفظ دینے کا باعث بنا۔ آئینی ماہرین کے مطابق اس کی حیثیت ابتدا ہی میں متنازع ہو گئی تھی۔ مگر طاقتور بیوروکریسی اس آئین کے تحت بھی سیاسی اقتدار بنگالی قیادت یا نیشنل عوامی پارٹی (NAP) (جو اس وقت مڈل اور ورکنگ کلاس کی ملک گیر مقبول جماعت بن چکی تھی) کو منتقل کرنے پر آمادہ نہیں تھی۔ لہٰذا فروری 1959ء میں متوقع عام انتخابات سے قبل ہی اسکندر مرزا اور ایوب خان نے سازباز کر کے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔
مارشل لا کے نتیجے میں نہ صرف سیاسی عمل رک گیا، بلکہ قانون کی تفہیم و تشریح کا طریقہ کار بھی تبدیل ہو گیا۔ ملک میں کرمنل پروسیجر کوڈ (CrPC) اور پاکستان پینل کوڈ (PPC) سمیت تقریباً سبھی قوانین برطانوی نوآبادیاتی دور کے تیار کردہ ہیں۔ انگریزوں نے جس سیاسی و سماجی بصیرت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ قوانین ترتیب دیے تھے، اس کی وجہ سے نوآبادیاتی ہونے کے باوجود سماج کی نچلی سطح تک انصاف کی فراہمی کا سبب تھے۔ لیکن ایک ایسے ملک و معاشرے میں جہاں قبائلیت اور جاگیردارانہ کلچر کی جڑیں خاصی مضبوط رہی ہوں، ان قوانین کی غلط تفہیم و تشریح نے معاشرے میں دوہرے معیار کو جنم دیا اور قانون کی بالادستی کے تصور کو بری طرح مجروح کر دیا، ساتھ ہی ایک نئی طاقتور مقتدر اشرافیہ وجود میں آ گئی، جس نے آئین و قانون کی دھجیاں بکھیر کر اپنی بے پناہ قوت اور طاقت کا اظہار کیا۔
ایوب خان کے مارشل لا سے بنگلہ دیش کی آزادی تک، دسمبر 1971ء سے جولائی 1977ء تک 1977ء سے 1988ء تک اور 1988ء سے 1999ء تک 1999ء سے 2008ء تک اور پھر 2008ء سے تادم تحریر ملک میں آئین و قانون کی بالادستی کا جائزہ لیں، تو سوائے مایوسی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ 1973ء میں آئین بنا، مگر نفاذ کے 24 گھنٹوں کے بعد ہی اس میں منطقی اور غیر منطقی ترامیم کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ فوجی آمروں نے پارلیمانی آئین میں ایسی تبدیلیاں کی کہ وہ صدارتی شکل اختیار کر گیا۔ 2008ء کے بعد آئین کی پارلیمانی جمہوری حیثیت بحال کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن 2013ء کے بعد نامساعد حالات کو بہانہ بنا کر بیوروکریسی نے ایک بار پھر 1954ء کی طرح سیاستدانوں کو اپنے نرغے میں لے لیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پارلیمان میں موجود ہر جماعت نے 21 ویں ترمیم منظور کر کے دراصل غیر آئینی اور غیر جمہوری اقدامات کا راستہ کھول دیا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسی صورتحال میں آئین و قانون کی بالادستی کا کس طرح تصور کیا جا سکتا ہے؟
آج ملک میں بظاہر ایک منتخب حکومت ہے، ایک پارلیمان بھی موجود ہے۔ مگر کیا ملک میں حکمرانی اور کیے جانے والے اقدامات آئین و قانون کے دائرے میں ہیں؟ کیا ملک میں جمہوریت اور جمہوری اقدار پر عمل ہو رہا ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں، جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر ملک میں قومی کے بجائے علاقائی سوچ حاوی آ چکی ہے۔ کبھی یہ نعرہ سنتے تھے کہ ''وفاق کی زنجیر، بینظیر''۔ مگر آج کوئی سیاسی جماعت یا رہنما وفاق کی زنجیر تو کجا دھاگہ تک نہیں ہے۔ ایک ایسے ماحول میں جب سیاسی قوتیں اپنے اپنے مخصوص صوبوں تک محدود ہو چکی ہوں، ملک گیر معاملات میں دلچسپی اور آئین و قانون کی بالادستی کی کون فکر کرے۔ نتیجتاً ملک کی داخلہ، خارجہ اور مالیاتی پالیسیوں پر غیر سیاسی قوتیں حاوی آ چکی ہیں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو شاید سیاسی جماعتوں کے پاس سوائے ہاتھ ملنے کے کچھ اور باقی نہ بچ پائے۔
پروفیسر حمزہ علوی مرحوم لکھتے ہیں کہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی چوہدری محمدعلی مرحوم کی قیادت میں سول بیوروکریسی کے اعلیٰ اہلکاروں کا ایک متوازی منصوبہ ساز گروہ تشکیل پا گیا تھا، جو کابینہ سے زیادہ بااثر تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان مرحوم اکثر اپنی کابینہ کے اراکین سے کہا کرتے تھے کہ کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے چوہدری محمد علی کو اعتماد میں لے لو، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اس فیصلے کو رد کر دے۔ انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ لیاقت علی خان مرحوم نے چوہدری محمدعلی کے رویوں سے عاجز آ کر دو مرتبہ استعفیٰ دینے کی بھی کوشش کی۔
چوہدری محمد علی کے بارے میں ہجرت کر کے آنے والے بعض سینئر سول سرونٹس بھی اچھی رائے نہیں رکھتے تھے۔ مسرت حسین زبیری نے دو جلدوں پر مشتمل اپنی سوانح حیات A Voyage into History میں چوہدری محمد علی پر متعصبانہ رویوں اور اقدامات کا الزام عائد کیا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری نے اپنی سوانح ''گرد راہ'' اور ان کی بیگم حمیدہ اختر نے اپنی سوانح ''ہمسفر'' میں الزام عائد کیا کہ چوہدری محمد علی نے پاکستان میں اقرباپروری کی بنیاد رکھی۔ ڈھاکا میں 15 اگست 1947ء کو پاکستانی جھنڈا لہرانے والے کمشنر شہاب الدین رحمت اللہ نے اپنی سوانح ''شہاب بیتی'' (یہ قدرت اللہ شہاب کی ''شہاب نامہ'' سے مختلف ہے) میں بھی چوہدری محمد علی کو ہدف تنقید بنایا ہے۔
چوہدری محمدعلی پر یہ بھی الزام ہے کہ ان کی ہدایت پر اس وقت کے سیکریٹری اطلاعات و نشریات نے قائد اعظم کی 11 اگست کو دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں کی جانے والی تقریر کو سنسر کیا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چوہدری محمد علی بنگالیوں کے لیے شدید ناپسندیدگی رکھتے تھے، جس کی ایک مثال یہ ہے کہ انھوں نے محکمہ اطلاعات کو ہدایت دے رکھی تھی کہ بنگالی صحافیوں کو وفاقی حکومت کی خبریں ایک دن تاخیر سے دی جائیں۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں کو جو 13 اگست 1947ء تک قیام پاکستان کے شدید مخالف تھے، چوہدری محمدعلی نے خفیہ طور پر پاکستان مدعو کیا تھا۔ کیونکہ وہ بانی پاکستان کے تصورات کے برخلاف پاکستان کو ایک تھیوکریٹک ریاست بنانے کے متمنی تھے۔ یہ چوہدری محمد علی ہی تھے، جنہوں نے مولانا شبیر احمد عثمانی کو قرارداد مقاصد دستور ساز اسمبلی میں پیش کرنے پر اکسایا۔ قرارداد مقاصد کی نوک پلک درست کرنے کے لیے اس کا مسودہ ایک ڈپٹی سیکریٹری کے ذریعے ایک مذہبی رہنما کو بھیجا گیا، جو اس وقت ملتان جیل میں نظر بند تھے۔ بنگال سے تعلق رکھنے والے فضل القادر چوہدری لکھتے ہیں کہ چوہدری محمدعلی اتنے بااختیار تھے کہ وہ دستور ساز اسمبلی کی کارروائیوں میں بھی دخل اندازی کرتے تھے۔ کچھ اراکین اسمبلی کی اپنی کوتاہیاں اور کچھ سول بیوروکریسی کے دباؤ کا نتیجہ تھا کہ دستور ساز اسمبلی کے 1947ء سے 1954ء کے دوران 7 برس کے عرصہ میں کل 156 اجلاس ہوئے۔
1953-54ء کے دوران تین ایسے واقعات رونما ہوئے، جن کی وجہ سے سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کی ملک کی پالیسی سازی پر گرفت مزید کمزور پڑی اور بیوروکریسی کے اختیار میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ پہلا واقعہ پنجاب میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات تھے، جس کے نتیجے میں لاہور سمیت چند شہروں میں جنرل اعظم خان کی سربراہی میں مارشل لا نافذ کیا گیا۔ یہ وہ واقعہ تھا جس نے فوج کو اقتدار پر قابض ہونے کی راہ دکھائی۔ کہا جاتا ہے کہ ان فسادات کی پشت پر میاں ممتاز دولتانہ تھے، جن کی وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کے ساتھ ذاتی چپقلش چل رہی تھی۔ حالانکہ میاں صاحب خاصے لبرل مشہور تھے۔
دوسرا واقعہ سابقہ مشرقی پاکستان میں جگتو فرنٹ کی بے مثال کامیابی تھا، جس نے مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والی بیوروکریسی اور فیوڈل سیاستدانوں کی نیندیں اڑا دی تھیں، کیونکہ جگتو فرنٹ کی سابقہ مشرقی پاکستان میں کامیابی کے مغربی پاکستان پر پڑنے والے اثرات کے نتیجے میں بیوروکریسی کی بااختیاریت اور فیوڈل سیاست کے خاتمہ کا امکان تھا۔ اس لیے اس کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی صوبائی اسمبلی تحلیل کر دی گئی۔
تیسرا واقعہ 1954ء میں آئین کا ابتدائی مسودے پر اراکین کے اتفاق ہوتے ہی گورنر جنرل غلام محمد کی جانب سے اسمبلی کا تحلیل کیا جانا ہے۔ اس عمل نے اراکین پارلیمان کی رہی سہی حیثیت بھی ختم کر دی۔ ان تین واقعات کے بعد بیوروکریسی اس قدر طاقتور ہو گئی کہ اس نے 1955ء میں مغربی پاکستان کے فیوڈل سیاستدانوں اور گماشتہ کاروباری حلقوں کے تعاون سے بنگالی سیاستدانوں کو زبان کے مسئلہ پر بلیک میل کر کے ان کی عددی برتری کو ختم کرنے کے لیے پیریٹی کا اصول وضع کر دیا۔ جس کے نتیجے میں مغربی پاکستان میں ون یونٹ قائم کر کے چھوٹے صوبوں کی سیاسی، ثقافتی اور انتظامی بااختیارات ختم کر دی گئی۔
وہی چوہدری محمد علی جنھوں نے 1954ء کے آئین کے خلاف اندرون خانہ سازشیں کی تھیں، ریٹائرمنٹ کے بعد جب خود وزیر اعظم بنے تو 1956ء میں آئین دے دیا۔ مگر یہ آئین پارلیمانی ہونے کے باوجود پیریٹی کے اصول کو آئینی تحفظ دینے کا باعث بنا۔ آئینی ماہرین کے مطابق اس کی حیثیت ابتدا ہی میں متنازع ہو گئی تھی۔ مگر طاقتور بیوروکریسی اس آئین کے تحت بھی سیاسی اقتدار بنگالی قیادت یا نیشنل عوامی پارٹی (NAP) (جو اس وقت مڈل اور ورکنگ کلاس کی ملک گیر مقبول جماعت بن چکی تھی) کو منتقل کرنے پر آمادہ نہیں تھی۔ لہٰذا فروری 1959ء میں متوقع عام انتخابات سے قبل ہی اسکندر مرزا اور ایوب خان نے سازباز کر کے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔
مارشل لا کے نتیجے میں نہ صرف سیاسی عمل رک گیا، بلکہ قانون کی تفہیم و تشریح کا طریقہ کار بھی تبدیل ہو گیا۔ ملک میں کرمنل پروسیجر کوڈ (CrPC) اور پاکستان پینل کوڈ (PPC) سمیت تقریباً سبھی قوانین برطانوی نوآبادیاتی دور کے تیار کردہ ہیں۔ انگریزوں نے جس سیاسی و سماجی بصیرت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ قوانین ترتیب دیے تھے، اس کی وجہ سے نوآبادیاتی ہونے کے باوجود سماج کی نچلی سطح تک انصاف کی فراہمی کا سبب تھے۔ لیکن ایک ایسے ملک و معاشرے میں جہاں قبائلیت اور جاگیردارانہ کلچر کی جڑیں خاصی مضبوط رہی ہوں، ان قوانین کی غلط تفہیم و تشریح نے معاشرے میں دوہرے معیار کو جنم دیا اور قانون کی بالادستی کے تصور کو بری طرح مجروح کر دیا، ساتھ ہی ایک نئی طاقتور مقتدر اشرافیہ وجود میں آ گئی، جس نے آئین و قانون کی دھجیاں بکھیر کر اپنی بے پناہ قوت اور طاقت کا اظہار کیا۔
ایوب خان کے مارشل لا سے بنگلہ دیش کی آزادی تک، دسمبر 1971ء سے جولائی 1977ء تک 1977ء سے 1988ء تک اور 1988ء سے 1999ء تک 1999ء سے 2008ء تک اور پھر 2008ء سے تادم تحریر ملک میں آئین و قانون کی بالادستی کا جائزہ لیں، تو سوائے مایوسی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ 1973ء میں آئین بنا، مگر نفاذ کے 24 گھنٹوں کے بعد ہی اس میں منطقی اور غیر منطقی ترامیم کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ فوجی آمروں نے پارلیمانی آئین میں ایسی تبدیلیاں کی کہ وہ صدارتی شکل اختیار کر گیا۔ 2008ء کے بعد آئین کی پارلیمانی جمہوری حیثیت بحال کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن 2013ء کے بعد نامساعد حالات کو بہانہ بنا کر بیوروکریسی نے ایک بار پھر 1954ء کی طرح سیاستدانوں کو اپنے نرغے میں لے لیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پارلیمان میں موجود ہر جماعت نے 21 ویں ترمیم منظور کر کے دراصل غیر آئینی اور غیر جمہوری اقدامات کا راستہ کھول دیا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسی صورتحال میں آئین و قانون کی بالادستی کا کس طرح تصور کیا جا سکتا ہے؟
آج ملک میں بظاہر ایک منتخب حکومت ہے، ایک پارلیمان بھی موجود ہے۔ مگر کیا ملک میں حکمرانی اور کیے جانے والے اقدامات آئین و قانون کے دائرے میں ہیں؟ کیا ملک میں جمہوریت اور جمہوری اقدار پر عمل ہو رہا ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں، جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر ملک میں قومی کے بجائے علاقائی سوچ حاوی آ چکی ہے۔ کبھی یہ نعرہ سنتے تھے کہ ''وفاق کی زنجیر، بینظیر''۔ مگر آج کوئی سیاسی جماعت یا رہنما وفاق کی زنجیر تو کجا دھاگہ تک نہیں ہے۔ ایک ایسے ماحول میں جب سیاسی قوتیں اپنے اپنے مخصوص صوبوں تک محدود ہو چکی ہوں، ملک گیر معاملات میں دلچسپی اور آئین و قانون کی بالادستی کی کون فکر کرے۔ نتیجتاً ملک کی داخلہ، خارجہ اور مالیاتی پالیسیوں پر غیر سیاسی قوتیں حاوی آ چکی ہیں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو شاید سیاسی جماعتوں کے پاس سوائے ہاتھ ملنے کے کچھ اور باقی نہ بچ پائے۔