ماحولیات کا بگاڑ سب سے بڑا خطرہ ہے
عالمی ماحولیات کو زہریلی گیسوں کاربن وغیرہ کے اخراج کے باعث جو سنگین خطرہ لاحق ہے
عالمی ماحولیات کو زہریلی گیسوں کاربن وغیرہ کے اخراج کے باعث جو سنگین خطرہ لاحق ہے اس سلسلے میں 30 نومبر سے پیرس میں کانفرنس شروع ہو چکی ہے۔ اس کانفرنس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ اس کانفرنس میں 151 عالمی لیڈر شرکت کر رہے ہیں۔ ماحولیات کا مسئلہ پچھلے دس سالوں میں انتہائی سنگین صورت اختیار کر چکا ہے۔ جیسے جیسے دنیا تیز رفتاری سے ترقی کر رہی ہے اتنی سے رفتار سے فضا میں زہریلی گیسوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ تیز رفتار ترقی دنیا کے ترقی یافتہ صنعتی ملک کر رہے ہیں۔ ترقی دنیا کے ترقی یافتہ ملک کر رہے ہیں اس کی قیمت کم ترقی یافتہ ملک ادا کر رہے ہیں آبادی کی اکثریت کم ترقی یافتہ ملکوں میں آباد ہے اور وہی اس سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
مثال کے طور پر پاکستان میں کاربن کا اخراج ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ یہ گرین گیسوں کی تباہی ہے جس کا نتیجہ ہم شدید گرمی اور سیلابوں کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں فصلیں تباہ، غذائی قلت، مہنگائی، انسانی املاک اور لاکھوں لوگوں کی تباہی ہے۔ سیلاب ہر سال پاکستان میں مسلسل آ رہے ہیں اور سیکڑوں ارب روپے کا نقصان پہنچا رہے ہیں جو ہماری معیشت کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ حکومت سیلاب زدہ علاقوں میں ہر سال جیسا تیسا ترقیاتی کام کرتی ہے۔ سیلاب ان کو تباہ برباد کر کے رکھ دیتے ہیں۔ یعنی پانچ دس سال میں جو ترقیاتی کام ہوتے ہیں وہ ایک آن میں ملیا میٹ ہو جاتے ہیں اور ہم پچھلے دس سال والی صورت حال میں چلے جاتے ہیں۔
پچھلے پانچ سالوں میں پاکستان میں قدرتی آفات کی شکل میں یہ عمل بار بار دہرایا جا رہا ہے جس نے ہماری معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ماحولیات کی تباہی اور دہشت گردی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ بڑھتا ہوا درجہ حرارت انسانی ذہن پر اثر انداز ہو کر ایسی دماغی تبدیلیوں کا باعث بنتا ہے جو انسان میں غصہ نفرت اور انتقام کی شدت کو بڑھا دیتا ہے۔ یہ دماغی کیمیکل تبدیلیاں شدید نفسیاتی بگاڑ لے کر آتی ہیں جس کے نتیجے میں انسان تشدد اور دہشت گردی کی طرف آسانی سے مائل ہو جاتا ہے۔ ویسے بھی سیلابوں کے نتیجے میں جب فصلیں تباہ ہوں گی۔ کھانے کو ملے گا نہیں یا بہت کم ملے گا تو انسان چوری ڈاکہ تشدد اور دہشت گردی نہیں کرے گا تو کیا کرے گا۔
تازہ ترین صورت حال ماحولیات کے حوالے سے یہ ہے کہ پاکستان بڑھتے ہوئے درجہ حرارت میں پہلے دس ملکوں میں سے 8 ویں نمبر پر ہے۔ جب کہ لاطینی امریکا کے ممالک اور میانمار (برما) اس نئی فہرست میں سب سے اوپر ہیں۔ پاکستان سمیت ان ملکوں میں پچھلے بیس سالوں میں طوفان، سیلاب، لینڈ سلائیڈ اور خشک سالی نے پانچ لاکھ سے زیادہ لوگوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ ماحولیات کے حوالے سے تازہ ترین رسک انڈیکس یہ بھی بتاتا ہے کہ اگر بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو کنٹرول نہ کیا گیا تو مستقبل میں اس طرح کی تباہیاں زیادہ تیزی سے ان ملکوں میں آئیں گی۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ اگر گرین ہاؤس زہریلی گیسوں پر قابو نہ پایا گیا جو فضا میں درجہ حرارت کم نہیں ہونے دیتیں جس کی وجہ سے تیل گیس اور کوئلے کا بے شمار استعمال ہے تو مندرجہ بالا تباہیوں کے علاوہ سمندر کی سطح میں اضافہ سے اس کے کنارے قائم شہر ڈوب جائیں گے اور ہماری حکومت کی عقلمندی دیکھیں کہ ہمارے ہاں سمندر اور پنجاب میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔
یہ خود کشی نہیں تو اور کیا ہے۔ پچھلے بیس سالوں میں لاطینی امریکا کے ممالک ان آفات سے متاثر ہوئے۔ ماحولیاتی رسک انڈیکس بتاتا ہے کہ اب باری پاکستان، بنگلہ دیش، انڈیا اور دیگر ملکوں کی ہے۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے ہونے والے نقصان کا اندازہ تین سو ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ روپوں میں یہ تیس ہزار ارب بنتے ہیں۔ اس وقت ماحولیاتی کانفرنس کے پیش نظر یہ سوال ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں دو ڈگری سیلیس تک کمی کی جائے۔ اگر یہ مقصد حاصل ہو جاتا ہے تو دنیا صنعتی انقلاب کے رونما ہونے سے پہلے کا درجہ حرارت حاصل کرے گی کیونکہ یہ صنعتی انقلاب ہی ہے جس نے ماحولیات کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ چند دن پیشتر چین کے دارالحکومت بیجنگ میں ڈیڑھ سو فیکٹریوں کو بند کر دیا گیا کیونکہ ان سے نکلنے والے دھوئیں نے پورے شہر کو اس طرح ڈھانپ لیا تھا کہ سانس لینا تک دشوار ہو گیا تھا۔ یہ ہے صنعتی انقلاب کی برکت جو زمین انسان اور اوزون کو تباہ کر رہی ہے۔
اوزون قدرت کا وہ تحفہ ہے جو ڈھال کی شکل میں ہمیں کاربن اور زہریلی گیسوں سے بچاتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کے غریب ترین 48 ملکوں کو ماحولیات کی خرابی سے نمٹنے کے لیے سالانہ سو بلین ڈالر چاہئیں جو انھیں دنیا کے امیر ترین ملکوں نے فراہم کرنے ہیں۔ پیرس کانفرنس کے آغاز پر پوری دنیا میں 5 لاکھ لوگوں نے ماحولیات کی درستگی کے لیے مظاہرے کیے لیکن پاکستان میں ہمیں کوئی بڑی سرگرمی نظر نہیں آئی۔ پاکستانیوں پر عجیب بے حسی کا عالم ہے کہ بڑی سے بڑی آفت آ جائے یہ گھروں سے ہی باہر نہیں نکلتے۔ حکومت سے تو گلہ ہی فضول ہے۔ چند رسمی اقدامات اور بس۔ پاکستانیوں کی اکثریت کو نہیں پتہ کہ ہم کتنے بڑے خطرے کی لپیٹ میں آ چکے ہیں جس نے ہمیں خاموشی سے دبوچ لیا ہے۔
میڈیا کی اس حوالے سے بہت بڑی ذمے داری بنتی ہے کہ ماحولیات کے حوالے سے پاکستانی عوام کو مسلسل اور باقاعدگی سے ایجوکیٹ کرے نہ کہ چند مضامین اور ٹاک شوز پر ہی اکتفا کر لی جائے۔ دنیا کو جب ہم گھر جیسا سمجھیں گے تو تبھی حالات میں ہر طرح کی بہتری آئے گی۔ لیکن ہمارے گھروں کے باہر تو دشمن کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔ باشعور اور اپنے وطن سے محبت کرنے والی قومیں کون ہوتی ہیں اس کی مثال جرمنی ہے جہاں آج سے تیس سال پہلے ماحولیات کے مسئلے پر ہی گرین پارٹی وجود میں آئی اور جرمن عوام نے ماحولیات کے تحفظ کے لیے اسے پارلیمنٹ میں پہنچا دیا۔ انھیں اسی وقت شدت سے احساس ہو گیا تھا کہ صنعتی انقلاب کے نتیجے میں پیدا ہونے والی زہریلی گیس کاربن وغیرہ جنگلات آب و ہوا اور پانی کو زہر آلود کر رہے ہیں۔
یہ عجیب بات ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں کی ترقی غریب ملکوں کی ماحولیات کی تباہی کا باعث بن رہی ہے۔ امریکی صدر اوباما نے کہا ہے کہ موجودہ نسل آخری نسل ہے جو ماحولیات کی تباہی کو روکنے کے لیے کچھ کر سکتی ہے'... ورنہ تو اس زمین پر ہر طرح کی زندگی کا خاتمہ یقینی ہے۔ سوچنے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں سردی کئی دہائیوں سے دیر سے آ رہی ہے اور اس کا دورانیہ بھی مختصر سے مختصر ہوتا جا رہا ہے۔ وہ سردی جس کے اثرات ستمبر میں شروع ہو جاتے تھے اس کے لیے پچھلے تیس سالوں سے دسمبر کے آخر کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
2017-2016 ء آنے والے دو سال اب تک کے گرم ترین سال ہوں گے۔
مثال کے طور پر پاکستان میں کاربن کا اخراج ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ یہ گرین گیسوں کی تباہی ہے جس کا نتیجہ ہم شدید گرمی اور سیلابوں کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں فصلیں تباہ، غذائی قلت، مہنگائی، انسانی املاک اور لاکھوں لوگوں کی تباہی ہے۔ سیلاب ہر سال پاکستان میں مسلسل آ رہے ہیں اور سیکڑوں ارب روپے کا نقصان پہنچا رہے ہیں جو ہماری معیشت کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ حکومت سیلاب زدہ علاقوں میں ہر سال جیسا تیسا ترقیاتی کام کرتی ہے۔ سیلاب ان کو تباہ برباد کر کے رکھ دیتے ہیں۔ یعنی پانچ دس سال میں جو ترقیاتی کام ہوتے ہیں وہ ایک آن میں ملیا میٹ ہو جاتے ہیں اور ہم پچھلے دس سال والی صورت حال میں چلے جاتے ہیں۔
پچھلے پانچ سالوں میں پاکستان میں قدرتی آفات کی شکل میں یہ عمل بار بار دہرایا جا رہا ہے جس نے ہماری معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ماحولیات کی تباہی اور دہشت گردی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ بڑھتا ہوا درجہ حرارت انسانی ذہن پر اثر انداز ہو کر ایسی دماغی تبدیلیوں کا باعث بنتا ہے جو انسان میں غصہ نفرت اور انتقام کی شدت کو بڑھا دیتا ہے۔ یہ دماغی کیمیکل تبدیلیاں شدید نفسیاتی بگاڑ لے کر آتی ہیں جس کے نتیجے میں انسان تشدد اور دہشت گردی کی طرف آسانی سے مائل ہو جاتا ہے۔ ویسے بھی سیلابوں کے نتیجے میں جب فصلیں تباہ ہوں گی۔ کھانے کو ملے گا نہیں یا بہت کم ملے گا تو انسان چوری ڈاکہ تشدد اور دہشت گردی نہیں کرے گا تو کیا کرے گا۔
تازہ ترین صورت حال ماحولیات کے حوالے سے یہ ہے کہ پاکستان بڑھتے ہوئے درجہ حرارت میں پہلے دس ملکوں میں سے 8 ویں نمبر پر ہے۔ جب کہ لاطینی امریکا کے ممالک اور میانمار (برما) اس نئی فہرست میں سب سے اوپر ہیں۔ پاکستان سمیت ان ملکوں میں پچھلے بیس سالوں میں طوفان، سیلاب، لینڈ سلائیڈ اور خشک سالی نے پانچ لاکھ سے زیادہ لوگوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ ماحولیات کے حوالے سے تازہ ترین رسک انڈیکس یہ بھی بتاتا ہے کہ اگر بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو کنٹرول نہ کیا گیا تو مستقبل میں اس طرح کی تباہیاں زیادہ تیزی سے ان ملکوں میں آئیں گی۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ اگر گرین ہاؤس زہریلی گیسوں پر قابو نہ پایا گیا جو فضا میں درجہ حرارت کم نہیں ہونے دیتیں جس کی وجہ سے تیل گیس اور کوئلے کا بے شمار استعمال ہے تو مندرجہ بالا تباہیوں کے علاوہ سمندر کی سطح میں اضافہ سے اس کے کنارے قائم شہر ڈوب جائیں گے اور ہماری حکومت کی عقلمندی دیکھیں کہ ہمارے ہاں سمندر اور پنجاب میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔
یہ خود کشی نہیں تو اور کیا ہے۔ پچھلے بیس سالوں میں لاطینی امریکا کے ممالک ان آفات سے متاثر ہوئے۔ ماحولیاتی رسک انڈیکس بتاتا ہے کہ اب باری پاکستان، بنگلہ دیش، انڈیا اور دیگر ملکوں کی ہے۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے ہونے والے نقصان کا اندازہ تین سو ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ روپوں میں یہ تیس ہزار ارب بنتے ہیں۔ اس وقت ماحولیاتی کانفرنس کے پیش نظر یہ سوال ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں دو ڈگری سیلیس تک کمی کی جائے۔ اگر یہ مقصد حاصل ہو جاتا ہے تو دنیا صنعتی انقلاب کے رونما ہونے سے پہلے کا درجہ حرارت حاصل کرے گی کیونکہ یہ صنعتی انقلاب ہی ہے جس نے ماحولیات کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ چند دن پیشتر چین کے دارالحکومت بیجنگ میں ڈیڑھ سو فیکٹریوں کو بند کر دیا گیا کیونکہ ان سے نکلنے والے دھوئیں نے پورے شہر کو اس طرح ڈھانپ لیا تھا کہ سانس لینا تک دشوار ہو گیا تھا۔ یہ ہے صنعتی انقلاب کی برکت جو زمین انسان اور اوزون کو تباہ کر رہی ہے۔
اوزون قدرت کا وہ تحفہ ہے جو ڈھال کی شکل میں ہمیں کاربن اور زہریلی گیسوں سے بچاتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کے غریب ترین 48 ملکوں کو ماحولیات کی خرابی سے نمٹنے کے لیے سالانہ سو بلین ڈالر چاہئیں جو انھیں دنیا کے امیر ترین ملکوں نے فراہم کرنے ہیں۔ پیرس کانفرنس کے آغاز پر پوری دنیا میں 5 لاکھ لوگوں نے ماحولیات کی درستگی کے لیے مظاہرے کیے لیکن پاکستان میں ہمیں کوئی بڑی سرگرمی نظر نہیں آئی۔ پاکستانیوں پر عجیب بے حسی کا عالم ہے کہ بڑی سے بڑی آفت آ جائے یہ گھروں سے ہی باہر نہیں نکلتے۔ حکومت سے تو گلہ ہی فضول ہے۔ چند رسمی اقدامات اور بس۔ پاکستانیوں کی اکثریت کو نہیں پتہ کہ ہم کتنے بڑے خطرے کی لپیٹ میں آ چکے ہیں جس نے ہمیں خاموشی سے دبوچ لیا ہے۔
میڈیا کی اس حوالے سے بہت بڑی ذمے داری بنتی ہے کہ ماحولیات کے حوالے سے پاکستانی عوام کو مسلسل اور باقاعدگی سے ایجوکیٹ کرے نہ کہ چند مضامین اور ٹاک شوز پر ہی اکتفا کر لی جائے۔ دنیا کو جب ہم گھر جیسا سمجھیں گے تو تبھی حالات میں ہر طرح کی بہتری آئے گی۔ لیکن ہمارے گھروں کے باہر تو دشمن کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔ باشعور اور اپنے وطن سے محبت کرنے والی قومیں کون ہوتی ہیں اس کی مثال جرمنی ہے جہاں آج سے تیس سال پہلے ماحولیات کے مسئلے پر ہی گرین پارٹی وجود میں آئی اور جرمن عوام نے ماحولیات کے تحفظ کے لیے اسے پارلیمنٹ میں پہنچا دیا۔ انھیں اسی وقت شدت سے احساس ہو گیا تھا کہ صنعتی انقلاب کے نتیجے میں پیدا ہونے والی زہریلی گیس کاربن وغیرہ جنگلات آب و ہوا اور پانی کو زہر آلود کر رہے ہیں۔
یہ عجیب بات ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں کی ترقی غریب ملکوں کی ماحولیات کی تباہی کا باعث بن رہی ہے۔ امریکی صدر اوباما نے کہا ہے کہ موجودہ نسل آخری نسل ہے جو ماحولیات کی تباہی کو روکنے کے لیے کچھ کر سکتی ہے'... ورنہ تو اس زمین پر ہر طرح کی زندگی کا خاتمہ یقینی ہے۔ سوچنے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں سردی کئی دہائیوں سے دیر سے آ رہی ہے اور اس کا دورانیہ بھی مختصر سے مختصر ہوتا جا رہا ہے۔ وہ سردی جس کے اثرات ستمبر میں شروع ہو جاتے تھے اس کے لیے پچھلے تیس سالوں سے دسمبر کے آخر کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
2017-2016 ء آنے والے دو سال اب تک کے گرم ترین سال ہوں گے۔