میں اے پی ایس کا غازی ولید گلزار ہوں
سولہ دسمبر کو میرا جگرگوشہ ولید گلزار حسب معمول تیار ہو کر آرمی پبلک اسکول جانے لگا
میں ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا گلزار خان ہوں!
سولہ دسمبر کو میرا جگرگوشہ ولید گلزار حسب معمول تیار ہو کر آرمی پبلک اسکول جانے لگا،سردی اوردھند نے اہل پشاورکو آگھیرلیا تھا اس دن ولید نے کوٹ پتلون پہن رکھی تھی، مجھ سے رہا نہ گیا اور اسے اپنا سوئیٹر دے دیا !
ولید اسکول روانہ ہوا تو میں بھی شعبہ بازار میں اپنی دکان پر چلا گیا،اس وقت سب کچھ معمول کے مطابق تھا ،ولید کی آنکھوں میں ہمیشہ کی طرح ایک خاص چمک تھی،کچھ کر دکھانے کا حوصلہ اور ہمت تھی، نجانے ایک لمحے کے لیے مجھے ایسا کیوں محسوس ہوا ؟حالانکہ ہر روز ہی ولید اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ اسکول جایا کرتا تھا لیکن آج کچھ خاص بات ضرور تھی،میں نے تو کل ہی ولید سے کہا تھا کہ بخار ہے چھٹی کر لو مگر وہ نہیں مانا۔
ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی دکان پر پہنچے ہوئے کہ خبر ملی کہ آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا ہے۔پشاور میں اتنے دھماکے ہوئے تھے کہ شاید ہی کوئی جگہ محفوظ رہی ہو مگر اسکول پر حملے کی خبر بجلی بن کر گری ۔ولید اورمیرا چھوٹا بیٹا اعزازتو ٹھیک ہوں گے ۔سوچا اسکول بھی خاصی محفوظ جگہ پر ہے اگر دہشت گردوں نے حملہ کر بھی دیا ہے تو اس حملے کو ناکام بنا دیا جائے گا۔پتہ نہیں کیوں میرا دل بیٹھاجا رہا تھا،مجھ سے رہا نہ گیا اور دیوانہ وار اسکول کی طرف دوڑ پڑا، وہاں توبس قیامت تھی۔ایمبولینسز کے ذریعے بچوں کو لیڈی ریڈنگ اور سی ایم ایچ منتقل کیا جا رہا تھا۔اف میرے خدا یہ کیا ہو گیا ؟دہشت گردوں نے کیا قیامت ڈھا دی معصوم بچوں پر؟
ولید کا کچھ پتا نہیں چل رہا تھا میرے سارے بھائی ولید کو تلاش کرنے اسپتالوں کی طرف دوڑ پڑے۔اطلاع ملی کہ چھوٹا بیٹا اعزازاسکول سے باہر آ گیا ہے اور کسی ٹیلی وژن پر اس نے انٹرویو بھی دیا ہے لیکن ولید کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔زخمیوںکی تعداد بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی۔معصوم کلیوں کے جسم گولیوں سے چھلنی چھلنی تھے۔میں سی ایم ایچ میں تھا متعدد طالب علم شہید ہو چکے تھے ان کے جسد خاکی اسپتال کے لان میں پڑے تھے۔ہر گزرتے لمحے کے ساتھ شہیدوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا تھا ۔ڈاکٹر ،نرسیں اور اسپتال کا سارا عملہ ان بچوں کو چادروں میں لپیٹ رہا تھا جن کی سانسیں تھم چکی تھیں، جو شدید زخمی تھے انھیں آپریشن کے لیے آپریشن تھیٹر منتقل کیا جا رہا تھا۔
اور میں ولید کو تلاش کر رہا تھا!
میرا ولید کہاں ہے اسی پریشانی میںکئی گھنٹے گزر گئے جو ہم میں نہ رہے تھے ان کے چہروں سے چادر ہٹا کر دیکھتا اور آگے بڑھ جاتا ! اے میرے رب کائنات، ولیدکہاں ہے؟سولہ دسمبر کا سورج یہ قیامت خیز منظر دیکھنے کے بعد ہمیں اندھیروں کے حوالے کر کے ڈوب رہا تھا!شام ہونے لگی تھی، نہ چاند کی چاندنی اور نہ ہی میرا چاند کہیں دکھائی دے رہا تھا!میں کبھی آپریشن تھیٹر، کبھی آئی ٹی سی اور کبھی لان کی طرف لپکتا ۔دو بار بے ہوش بھی ہوا ۔مجھے کچھ سجھائی نہیں دے رہا ،ولید کہیں نہیں مل رہا تھا اس دوران میتوں میں بھی اضافہ ہوتاجا رہا تھا اور زخمیوں سے اسپتال بھرتا ہی چلا جا رہا تھا کہ اتنے میں ایک بچے پرنظرپڑی اس کا چہرہ پٹیوں سے ڈھک چکا تھا خون ہی خون تھا میں نے پہچان لیا یہی میرا ولید ہے کیوںکہ اس نے وہی سوئیٹر پہن رکھا تھا جو آج صبح میں نے اسے دیا تھا!
اور میں ولید گلزار ہوں!اے پی ایس کا غازی ولید گلزار!
آرمی پبلک اسکول میں اس وقت آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا
سولہ دسمبرکو بخار تھا، مما نے کہا کہ چھٹی کر لو لیکن جب میں چھٹی کرتا تو چھوٹا بھائی اعزاز بھی چھٹی کرتا اس لیے سوچا کہ اسکول ہی چلا جاؤں تو بہتر ہے۔چنانچہ اسکول کے لیے روانہ ہوا! اپنے مقررہ وقت پر اسکول پہنچ گیا !
میں پراکٹربھی تھا اس لیے کلاس ٹیچر نے کہا کہ سب اسٹوڈنٹس کو آڈیٹوریم لے کے جاؤ۔
بہت خوش تھا دو روز قبل اسپورٹس ڈے پر مجھے گولڈ میڈل ملا تھا اور آج میں فرسٹ ایڈ سے متعلق لیکچر سن رہا تھا۔ ایک میجر صاحب تشریف لائے تھے۔طلباء آڈیٹوریم میں جمع تھے۔تقریب ابھی شروع ہی ہوئی تھی کہ دور سے فائرنگ کی آواز سنائی دی، ٹیچرز نے کہا کہ کچھ نہیں ہے لیکن آوازیں قریب ہونے لگیں اگلے ہی لمحے ایک شخص دائیں جانب سے دروازہ توڑتے ہوئے اور اللہ اکبر کے نعرے لگاتا ہوا نمودار ہوا ۔کم عمر نوجوان تھا ! اس نے اندھادھند فائرنگ شروع کر دی ۔بچے گرنے لگے جو تڑپتا اسے وہ دہشت گرد مزید گولیاں مارتا حتیٰ کے لمحوں میں اس کی روح ننھی جان سے پروازکرجاتی، ایک گولی میرے چہرے کو چیرتی ہوئی گزر گئی! ایک اور دہشت گرد آڈیٹوریم میں داخل ہو چکا تھا وہ بھی اندھادھند فائرنگ کر رہا تھا۔میں نے سنا وہ پشتو میں دوسرے ساتھی کو کہہ رہا تھا کہ بڑے بچوں کے سروں میں گولیاں مارو۔وہ گولیاں مارتے رہے اور معصوم بچے سروں کے بل گرتے رہے ۔میں زمین پر گر چکا تھا ،اس دوران چھ مزید گولیاں میرے جسم کے مختلف حصوں کو چیرتی ہوئیں گزر گئیں ۔میں ہوش میں تھا ،اٹھنے کی کوشش کی پھر گر گیاجب دہشت گردوں کو یقین ہو گیا کہ ہم سب شہید ہوچکے ہیں تو وہ کالج ونگ کی طرف بڑھنے لگے،میں درد سے بلبلارہا تھا، ہمت کی اور اٹھ کر آڈیٹوریم سے باہر نکل آیا اب محسوس ہوا کہ زندگی کے چند لمحے باقی رہ گئے ہیں!
میں شہادت کے بہت قریب تھا،کلمہ شہادت کا ورد شروع کر دیا !بس ایک خواہش تھی کہ کاش اپنی ماں سے اس آخری لمحے مل لیتا ۔اپنی عظیم ماں سے، وہی ماں جس نے مجھے جنم دیا میرا بہت خیال رکھا، ہاں وہی ماں جو اب بھی مجھے اپنے سینے سے لگا کر رکھتی ہے جو میرے سارے غم خود میں سمولینا چاہتی ہے ۔اس لمحے بس صرف یہی خواہش تھی۔سارا جسم لہو لہان ہو چکا تھا ۔میں پہلے ایڈمنسٹریشن بلاک کی طرف جانا چاہتا تھا مگر اچانک باہر کی طرف نکل آیا۔پھر ایسا لگا کہ ملک و قوم اور اپنی دھرتی کے لیے میری جان کام آ گئی۔سامنے فوجی جوان نظر آئے جو ہمیں دیکھ دیکھ کر زارو قطار رو رہے تھے مجھے ایک فوجی جوان نے ہاتھوں میں اٹھا لیا اور ایمبولینس کی جانب لیجانے لگا کہ اس نے سامنے ایک خود کش کو بچوں کی طرف بڑھتے دیکھا مجھے دوسرے فوجی کے ہاتھوں میں پھینکا اور کہا کہ تم اسے ایمبولینس میں لے جاؤ یہ زندہ ہے خود اس نے تیزی سے قدم بڑھائے اور خود کش کو دبوچ لیا پھر زوردار دھماکہ ہوا ۔اس عظیم فوجی جوان نے اسکول سے باہر کی جانب بھاگتے بہت سے بچوں کی جان بچا لی اور خود شہادت کے عظیم مرتبہ پر فائز ہو گیا۔مجھے سی ایم ایچ کے لان میں پہنچا دیا گیا۔شاید سب سمجھے کہ سانسیں ختم ہو گئی ہیں لیکن میری سانسوں کی ڈوریں ابھی باقی تھیں اتنے میں ایک نرس نے دیکھا اور چیختی ہوئی مجھے آپریشن تھیٹر میں لے گئی ۔
آٹھ دن بے ہوش رہا لیکن مجھے میرے رب نے بچا لیا!میری ٹانگ سے ہڈی کاٹ کر میرا جبڑا بنا دیا گیا ہے کچھ عرصے بعد دانت لگیں گے اور میں واپس زندگی کی خوشیوں کی جانب لوٹ آؤں گا۔میں پاکستان آرمی جوائن کروں گا اور دہشت گردوں کو بتاؤں گا جب تم نے مجھے گولیاں ماریں تو میں بچہ تھا اورتمھیں شرم بھی نہیں آئی، بچوں کو مارتے ہوئے۔اور ہاں میں تمھیں ماروں گا نہیں تمھیں سمجھاؤں گا کہ تم بھی کسی ماں کی اولاد ہو اور تمھیں کسی کو مارنے کا حق نہیں کیوں یہی تو تم میں اور مجھ میں فرق ہے کیوںکہ
میں اے پی ایس کا غازی ولید گلزار ہوں!
سولہ دسمبر کو میرا جگرگوشہ ولید گلزار حسب معمول تیار ہو کر آرمی پبلک اسکول جانے لگا،سردی اوردھند نے اہل پشاورکو آگھیرلیا تھا اس دن ولید نے کوٹ پتلون پہن رکھی تھی، مجھ سے رہا نہ گیا اور اسے اپنا سوئیٹر دے دیا !
ولید اسکول روانہ ہوا تو میں بھی شعبہ بازار میں اپنی دکان پر چلا گیا،اس وقت سب کچھ معمول کے مطابق تھا ،ولید کی آنکھوں میں ہمیشہ کی طرح ایک خاص چمک تھی،کچھ کر دکھانے کا حوصلہ اور ہمت تھی، نجانے ایک لمحے کے لیے مجھے ایسا کیوں محسوس ہوا ؟حالانکہ ہر روز ہی ولید اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ اسکول جایا کرتا تھا لیکن آج کچھ خاص بات ضرور تھی،میں نے تو کل ہی ولید سے کہا تھا کہ بخار ہے چھٹی کر لو مگر وہ نہیں مانا۔
ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی دکان پر پہنچے ہوئے کہ خبر ملی کہ آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا ہے۔پشاور میں اتنے دھماکے ہوئے تھے کہ شاید ہی کوئی جگہ محفوظ رہی ہو مگر اسکول پر حملے کی خبر بجلی بن کر گری ۔ولید اورمیرا چھوٹا بیٹا اعزازتو ٹھیک ہوں گے ۔سوچا اسکول بھی خاصی محفوظ جگہ پر ہے اگر دہشت گردوں نے حملہ کر بھی دیا ہے تو اس حملے کو ناکام بنا دیا جائے گا۔پتہ نہیں کیوں میرا دل بیٹھاجا رہا تھا،مجھ سے رہا نہ گیا اور دیوانہ وار اسکول کی طرف دوڑ پڑا، وہاں توبس قیامت تھی۔ایمبولینسز کے ذریعے بچوں کو لیڈی ریڈنگ اور سی ایم ایچ منتقل کیا جا رہا تھا۔اف میرے خدا یہ کیا ہو گیا ؟دہشت گردوں نے کیا قیامت ڈھا دی معصوم بچوں پر؟
ولید کا کچھ پتا نہیں چل رہا تھا میرے سارے بھائی ولید کو تلاش کرنے اسپتالوں کی طرف دوڑ پڑے۔اطلاع ملی کہ چھوٹا بیٹا اعزازاسکول سے باہر آ گیا ہے اور کسی ٹیلی وژن پر اس نے انٹرویو بھی دیا ہے لیکن ولید کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔زخمیوںکی تعداد بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی۔معصوم کلیوں کے جسم گولیوں سے چھلنی چھلنی تھے۔میں سی ایم ایچ میں تھا متعدد طالب علم شہید ہو چکے تھے ان کے جسد خاکی اسپتال کے لان میں پڑے تھے۔ہر گزرتے لمحے کے ساتھ شہیدوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا تھا ۔ڈاکٹر ،نرسیں اور اسپتال کا سارا عملہ ان بچوں کو چادروں میں لپیٹ رہا تھا جن کی سانسیں تھم چکی تھیں، جو شدید زخمی تھے انھیں آپریشن کے لیے آپریشن تھیٹر منتقل کیا جا رہا تھا۔
اور میں ولید کو تلاش کر رہا تھا!
میرا ولید کہاں ہے اسی پریشانی میںکئی گھنٹے گزر گئے جو ہم میں نہ رہے تھے ان کے چہروں سے چادر ہٹا کر دیکھتا اور آگے بڑھ جاتا ! اے میرے رب کائنات، ولیدکہاں ہے؟سولہ دسمبر کا سورج یہ قیامت خیز منظر دیکھنے کے بعد ہمیں اندھیروں کے حوالے کر کے ڈوب رہا تھا!شام ہونے لگی تھی، نہ چاند کی چاندنی اور نہ ہی میرا چاند کہیں دکھائی دے رہا تھا!میں کبھی آپریشن تھیٹر، کبھی آئی ٹی سی اور کبھی لان کی طرف لپکتا ۔دو بار بے ہوش بھی ہوا ۔مجھے کچھ سجھائی نہیں دے رہا ،ولید کہیں نہیں مل رہا تھا اس دوران میتوں میں بھی اضافہ ہوتاجا رہا تھا اور زخمیوں سے اسپتال بھرتا ہی چلا جا رہا تھا کہ اتنے میں ایک بچے پرنظرپڑی اس کا چہرہ پٹیوں سے ڈھک چکا تھا خون ہی خون تھا میں نے پہچان لیا یہی میرا ولید ہے کیوںکہ اس نے وہی سوئیٹر پہن رکھا تھا جو آج صبح میں نے اسے دیا تھا!
اور میں ولید گلزار ہوں!اے پی ایس کا غازی ولید گلزار!
آرمی پبلک اسکول میں اس وقت آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا
سولہ دسمبرکو بخار تھا، مما نے کہا کہ چھٹی کر لو لیکن جب میں چھٹی کرتا تو چھوٹا بھائی اعزاز بھی چھٹی کرتا اس لیے سوچا کہ اسکول ہی چلا جاؤں تو بہتر ہے۔چنانچہ اسکول کے لیے روانہ ہوا! اپنے مقررہ وقت پر اسکول پہنچ گیا !
میں پراکٹربھی تھا اس لیے کلاس ٹیچر نے کہا کہ سب اسٹوڈنٹس کو آڈیٹوریم لے کے جاؤ۔
بہت خوش تھا دو روز قبل اسپورٹس ڈے پر مجھے گولڈ میڈل ملا تھا اور آج میں فرسٹ ایڈ سے متعلق لیکچر سن رہا تھا۔ ایک میجر صاحب تشریف لائے تھے۔طلباء آڈیٹوریم میں جمع تھے۔تقریب ابھی شروع ہی ہوئی تھی کہ دور سے فائرنگ کی آواز سنائی دی، ٹیچرز نے کہا کہ کچھ نہیں ہے لیکن آوازیں قریب ہونے لگیں اگلے ہی لمحے ایک شخص دائیں جانب سے دروازہ توڑتے ہوئے اور اللہ اکبر کے نعرے لگاتا ہوا نمودار ہوا ۔کم عمر نوجوان تھا ! اس نے اندھادھند فائرنگ شروع کر دی ۔بچے گرنے لگے جو تڑپتا اسے وہ دہشت گرد مزید گولیاں مارتا حتیٰ کے لمحوں میں اس کی روح ننھی جان سے پروازکرجاتی، ایک گولی میرے چہرے کو چیرتی ہوئی گزر گئی! ایک اور دہشت گرد آڈیٹوریم میں داخل ہو چکا تھا وہ بھی اندھادھند فائرنگ کر رہا تھا۔میں نے سنا وہ پشتو میں دوسرے ساتھی کو کہہ رہا تھا کہ بڑے بچوں کے سروں میں گولیاں مارو۔وہ گولیاں مارتے رہے اور معصوم بچے سروں کے بل گرتے رہے ۔میں زمین پر گر چکا تھا ،اس دوران چھ مزید گولیاں میرے جسم کے مختلف حصوں کو چیرتی ہوئیں گزر گئیں ۔میں ہوش میں تھا ،اٹھنے کی کوشش کی پھر گر گیاجب دہشت گردوں کو یقین ہو گیا کہ ہم سب شہید ہوچکے ہیں تو وہ کالج ونگ کی طرف بڑھنے لگے،میں درد سے بلبلارہا تھا، ہمت کی اور اٹھ کر آڈیٹوریم سے باہر نکل آیا اب محسوس ہوا کہ زندگی کے چند لمحے باقی رہ گئے ہیں!
میں شہادت کے بہت قریب تھا،کلمہ شہادت کا ورد شروع کر دیا !بس ایک خواہش تھی کہ کاش اپنی ماں سے اس آخری لمحے مل لیتا ۔اپنی عظیم ماں سے، وہی ماں جس نے مجھے جنم دیا میرا بہت خیال رکھا، ہاں وہی ماں جو اب بھی مجھے اپنے سینے سے لگا کر رکھتی ہے جو میرے سارے غم خود میں سمولینا چاہتی ہے ۔اس لمحے بس صرف یہی خواہش تھی۔سارا جسم لہو لہان ہو چکا تھا ۔میں پہلے ایڈمنسٹریشن بلاک کی طرف جانا چاہتا تھا مگر اچانک باہر کی طرف نکل آیا۔پھر ایسا لگا کہ ملک و قوم اور اپنی دھرتی کے لیے میری جان کام آ گئی۔سامنے فوجی جوان نظر آئے جو ہمیں دیکھ دیکھ کر زارو قطار رو رہے تھے مجھے ایک فوجی جوان نے ہاتھوں میں اٹھا لیا اور ایمبولینس کی جانب لیجانے لگا کہ اس نے سامنے ایک خود کش کو بچوں کی طرف بڑھتے دیکھا مجھے دوسرے فوجی کے ہاتھوں میں پھینکا اور کہا کہ تم اسے ایمبولینس میں لے جاؤ یہ زندہ ہے خود اس نے تیزی سے قدم بڑھائے اور خود کش کو دبوچ لیا پھر زوردار دھماکہ ہوا ۔اس عظیم فوجی جوان نے اسکول سے باہر کی جانب بھاگتے بہت سے بچوں کی جان بچا لی اور خود شہادت کے عظیم مرتبہ پر فائز ہو گیا۔مجھے سی ایم ایچ کے لان میں پہنچا دیا گیا۔شاید سب سمجھے کہ سانسیں ختم ہو گئی ہیں لیکن میری سانسوں کی ڈوریں ابھی باقی تھیں اتنے میں ایک نرس نے دیکھا اور چیختی ہوئی مجھے آپریشن تھیٹر میں لے گئی ۔
آٹھ دن بے ہوش رہا لیکن مجھے میرے رب نے بچا لیا!میری ٹانگ سے ہڈی کاٹ کر میرا جبڑا بنا دیا گیا ہے کچھ عرصے بعد دانت لگیں گے اور میں واپس زندگی کی خوشیوں کی جانب لوٹ آؤں گا۔میں پاکستان آرمی جوائن کروں گا اور دہشت گردوں کو بتاؤں گا جب تم نے مجھے گولیاں ماریں تو میں بچہ تھا اورتمھیں شرم بھی نہیں آئی، بچوں کو مارتے ہوئے۔اور ہاں میں تمھیں ماروں گا نہیں تمھیں سمجھاؤں گا کہ تم بھی کسی ماں کی اولاد ہو اور تمھیں کسی کو مارنے کا حق نہیں کیوں یہی تو تم میں اور مجھ میں فرق ہے کیوںکہ
میں اے پی ایس کا غازی ولید گلزار ہوں!