بلدیاتی انتخابات کے بعد یک نکاتی ایجنڈا
بلدیاتی انتخابات کے تیسرے اور آخری مرحلے کا اختتام مجموعی اعتبار سے جمہوری عمل میں ایک خوش آیند پیش رفت ہے
KARACHI:
بلدیاتی انتخابات کے تیسرے اور آخری مرحلے کا اختتام مجموعی اعتبار سے جمہوری عمل میں ایک خوش آیند پیش رفت ہے، اسے بجا طور پر جمہوریت کے بنیادی آدرش سے کمٹمنٹ کے ضمن میں ایک سنگ میل کا درجہ دیا جاسکتا ہے کیونکہ ایک طویل وقفہ کے بعد عدالت عظمیٰ کی ہدایات کے تحت جمہوری دور حکومت میں نہ صرف یہ الیکشن ہوئے بلکہ سیاسی جماعتوں اور رائے دہندگان نے اس میں بھرپور دلچسپی لی اور جمہوریت کی بنیادی نرسریز کی آبیاری ، ان کے فروغ اور استحکام کے لیے اپنا حصہ ڈالا۔ سب سے اہم بات یہ کہ بلدیاتی الیکشن کے کراچی کے سیاسی اور سماجی موسم پر خوشگوار اثرات مرتب ہونگے۔
الیکشن کمیشن کے ریٹرننگ افسران نے کراچی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے غیرسرکاری و غیرحتمی نتائج جاری کرنے کا آغاز کردیا ہے جس کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ نے50 یونین کمیٹیز اور پیپلزپارٹی نے ایک یونین کمیٹی میں چیئرمین وائس چیئرمین کی نشست جیت لی ، اسے برتری حاصل رہی، پنجاب میں مسلم لیگ (ن) نے 12 اضلاع کی 2497 نشستوں میں سے 1040 حاصل کیں، آزاد امیدوار 1021 سیٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے، تحریک انصاف 264 سیٹوں کے ساتھ تیسرے اور پیپلز پارٹی 110سیٹوں کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہی۔ پیپلز پارٹی کو جنوبی پنجاب میں اپ سیٹ شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جماعت اسلامی، مسلم لیگ ق، عوامی تحریک اور دیگر جماعتیں اس بار بھی کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکیں۔
مسلم لیگ (ن) نے اپ سیٹ کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو پیچھے چھوڑ دیا اور تیسری پوزیشن حاصل کی۔ کراچی میں اس نے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی سے زیادہ یعنی 16 نشستیں حاصل کیں۔ اگرچہ فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے کہا ہے کہ پنجاب اور سندھ میں تیسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات پہلے دو مرحلوں کے مقابلے میں زیادہ بدنظمی اور انتشار کا شکار دکھائی دیے۔ تاہم بلدیاتی انتخابات کے مقاصد اور جمہوری تقاضوں کے پیش نظر انتخابی بے قاعدگیوں کے اکا دکا واقعات سے قطع نظر قوم نے ان انتخابات کے انعقاد کو احسن نظروں سے دیکھا اور یہ کوئی کم کامیابی نہیں ہے۔
دنیا بھر کے شہری ،کاؤنٹی یا مقامی حکومتوں کے انتخابات شہریوں کی روزمرہ ضروریات اور ان کے شہری مسائل کے حل کے ممکنہ مضبوط نظام سے مربوط ہوتے ہیں، ان الیکشنز میں کوئی ہار جیت نہیں ہوتی شہری فتح یاب ہوتے ہیں اور شہری حکومتیں حقوق و فرائض کے نظریے کے محور پر حکومتی فنڈز کے بہتر استعمال سے شہر کا مقدر سنوارتی ہیں،اور یہی انتخابات ان کی حسن کارکردگی کا ثبوت بن کر انھیں اگلی نمایندگیوں کے لیے اہلیت کی سند دیتے ہیں۔ متحدہ کی جیت کراچی کے لیے نہایت اہم ہے،اب تمام اسٹیک ہولڈرز ہر قسم کے اختلافات سے بالاتر ہوکر کر شہر قائد اور پاکستان کے استحکام اور ترقی کے لیے مل جل کر کام کریں۔ یہی سب کا یک نکاتی ایجنڈا ہونا چاہیے۔
بلدیاتی انتخابات کے تیسرے اور آخری مرحلے کا اختتام مجموعی اعتبار سے جمہوری عمل میں ایک خوش آیند پیش رفت ہے، اسے بجا طور پر جمہوریت کے بنیادی آدرش سے کمٹمنٹ کے ضمن میں ایک سنگ میل کا درجہ دیا جاسکتا ہے کیونکہ ایک طویل وقفہ کے بعد عدالت عظمیٰ کی ہدایات کے تحت جمہوری دور حکومت میں نہ صرف یہ الیکشن ہوئے بلکہ سیاسی جماعتوں اور رائے دہندگان نے اس میں بھرپور دلچسپی لی اور جمہوریت کی بنیادی نرسریز کی آبیاری ، ان کے فروغ اور استحکام کے لیے اپنا حصہ ڈالا۔ سب سے اہم بات یہ کہ بلدیاتی الیکشن کے کراچی کے سیاسی اور سماجی موسم پر خوشگوار اثرات مرتب ہونگے۔
الیکشن کمیشن کے ریٹرننگ افسران نے کراچی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے غیرسرکاری و غیرحتمی نتائج جاری کرنے کا آغاز کردیا ہے جس کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ نے50 یونین کمیٹیز اور پیپلزپارٹی نے ایک یونین کمیٹی میں چیئرمین وائس چیئرمین کی نشست جیت لی ، اسے برتری حاصل رہی، پنجاب میں مسلم لیگ (ن) نے 12 اضلاع کی 2497 نشستوں میں سے 1040 حاصل کیں، آزاد امیدوار 1021 سیٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے، تحریک انصاف 264 سیٹوں کے ساتھ تیسرے اور پیپلز پارٹی 110سیٹوں کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہی۔ پیپلز پارٹی کو جنوبی پنجاب میں اپ سیٹ شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جماعت اسلامی، مسلم لیگ ق، عوامی تحریک اور دیگر جماعتیں اس بار بھی کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکیں۔
مسلم لیگ (ن) نے اپ سیٹ کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو پیچھے چھوڑ دیا اور تیسری پوزیشن حاصل کی۔ کراچی میں اس نے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی سے زیادہ یعنی 16 نشستیں حاصل کیں۔ اگرچہ فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے کہا ہے کہ پنجاب اور سندھ میں تیسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات پہلے دو مرحلوں کے مقابلے میں زیادہ بدنظمی اور انتشار کا شکار دکھائی دیے۔ تاہم بلدیاتی انتخابات کے مقاصد اور جمہوری تقاضوں کے پیش نظر انتخابی بے قاعدگیوں کے اکا دکا واقعات سے قطع نظر قوم نے ان انتخابات کے انعقاد کو احسن نظروں سے دیکھا اور یہ کوئی کم کامیابی نہیں ہے۔
دنیا بھر کے شہری ،کاؤنٹی یا مقامی حکومتوں کے انتخابات شہریوں کی روزمرہ ضروریات اور ان کے شہری مسائل کے حل کے ممکنہ مضبوط نظام سے مربوط ہوتے ہیں، ان الیکشنز میں کوئی ہار جیت نہیں ہوتی شہری فتح یاب ہوتے ہیں اور شہری حکومتیں حقوق و فرائض کے نظریے کے محور پر حکومتی فنڈز کے بہتر استعمال سے شہر کا مقدر سنوارتی ہیں،اور یہی انتخابات ان کی حسن کارکردگی کا ثبوت بن کر انھیں اگلی نمایندگیوں کے لیے اہلیت کی سند دیتے ہیں۔ متحدہ کی جیت کراچی کے لیے نہایت اہم ہے،اب تمام اسٹیک ہولڈرز ہر قسم کے اختلافات سے بالاتر ہوکر کر شہر قائد اور پاکستان کے استحکام اور ترقی کے لیے مل جل کر کام کریں۔ یہی سب کا یک نکاتی ایجنڈا ہونا چاہیے۔