نگران سیٹ اپ کی تیاری شروع ہوگئی

پیپلز پارٹی ایک اور وزیراعظم کی قربانی دینے کے لیے تیار

پیپلز پارٹی ایک اور وزیراعظم کی قربانی دینے کے لیے تیار. فائل فوٹو

حکمران جماعت پیپلزپارٹی اور حزب اختلاف کی بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے قائدین کے درمیان ایک غیر جانبدار اور شفاف نگران سیٹ اپ کے قیام کے تناظر میں مبینہ رابطوں کی بابت قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) کے بعض قائدین نے نگران سیٹ اپ کے حوالے سے حکومت کے ساتھ مذاکرات کی اطلاعات کی تصدیق نہیں کی ہے، تاہم وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے باخبر سیاسی ذرائع نے اِس امر کی تصدیق کی ہے کہ آئندہ نگران سیٹ اپ میں غیر متنازعہ اور شفاف کردار کے حامل افراد کو شامل کرنے کے حوالے سے دونوں جماعتوں کے درمیان ابتدائی بات چیت ہوئی ہے۔ موجودہ جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت کی تکمیل کی جانب رواں دواں ہے، موجودہ سال کو انتخابی سال قرار دیا جا رہا ہے۔

تمام سیاسی جماعتوں نے انتخابی مہم کا غیر اعلانیہ آغاز کر رکھا ہے۔ ملک کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق رائے سے ایک انتہائی قابل احترام غیر متنازعہ اور اچھی ساکھ کے حامل شخصیت سابق وزیر قانون قمرالدین جی ابراہیم کو متفقہ طورپر چیف الیکشن کمشنر نامزد کیا ہے۔ اسے سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ کی مشترکہ اہم کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کی طرح نگران وزیراعظم اور نگران کابینہ کے معاملہ پر سیاسی قوتوں کے درمیان اتفاق رائے جمہوری نظام اور جمہوری اداروں کے لیے نیک شگون ہو گا اور اس سے جمہوری اقدار کو فروغ ملے گا اور سیاسی پختگی بڑھے گی۔

نئے چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کی سربراہی میں عام انتخابات کے انعقاد کی تیاریاں جلد شروع ہو جائیں گی۔ سیاسی مبصرین اس بات پر اطمینان ظاہر کر رہے ہیں کہ ہر دبائو کا سامنا کرنے اور ماضی میں قابل فخر روایات قائم رکھنے والے نامور آئینی ماہر فخر الدین جی ابراہیم کی سربراہی میں عام انتخابات میں دھاندلی نہیں ہو سکے گی اور انتخابات شفاف اور غیر جانبدارانہ ماحول میں ہو سکیں گے۔

بلاشبہ نئے چیف الیکشن کمشنر کے لیے آزادانہ اور منصفانہ الیکشن کا انعقاد ایک بڑا چیلنج ہے اور انہیں تمام سیاسی جماعتوں کا اعتماد حاصل ہے۔ یہ قیاس آرائیاں بھی گردش کر رہی ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے درمیان آئندہ عام انتخابات اسی سال نومبر میں کرانے پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ ابھی تک ان قیاس آرائیوں کی صداقت ثابت نہیں ہو سکی۔ حکومتی شخصیات یہ کہہ رہی ہیں کہ عام انتخابات آئندہ سال کے شروع میں ہوں گے، قبل از وقت انتخابات نہیں ہوں گے، ٹیکنو کریٹ سیٹ اپ کی بابت افواہیں اب پرانی ہو گئی ہیں۔

حکومت کے سیاسی مخالفین بھی اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ ہر جمہوری منتخب حکومت کو 5 سالہ آئینی مدت پوری کرنی چاہیے تاکہ جمہوریت اور جمہوری ادارے جڑیں پکڑ سکیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اسلام آباد میں پھیلائی گئی افواہوں کے تناظر میں کہا ہے کہ کوئی خوش فہمی میں نہ رہے کہ کسی غیر آئینی اقدام کی اجازت دی جائے گی۔


چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے راولپنڈی میں نئے تعمیر شدہ جوڈیشل کمپلیکس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کے دوران ان قیاس آرائیوں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں بنگلہ دیش طرز کا ماڈل نہیں آ سکتا۔ ایک عرصہ سے مختلف حلقوں کی جانب سے یہ کہا جا رہا تھا کہ پاکستان میں بنگلہ دیشی ماڈل آئے گا اور بعض اہل دانش اس نظام کے حق میں یہ دلائل دے رہے تھے کہ یہ نظام پاکستان میں بنگلہ دیش کی طرح کامیاب ہو سکتا ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے ان قیاس آرائیوں کو نہ صرف مسترد کر دیا ہے بلکہ واضح کر دیا ہے کہ ایسا نظام یہاں نہیں آ سکتا۔ انہوں نے جمہوریت اور جمہوری اداروں کی حمایت میں ایک زوردار بیان دے کر دراصل سیاسی جماعتوں کی ڈھارس بندھائی ہے۔

موجودہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کئی بار واضح کیا ہے کہ وہ جمہوریت کے حامی ہیں اور فوج کبھی سیاست میں نہیں آئے گی۔ جنرل کیانی کو قریب سے جاننے والے اکثر کہتے ہیں کہ وہ ایک پروفیشنل سولجر ہیں اور بدترین حالات میں فوج کو ماضی کی طرح سیاست میں نہیں گھسیٹیں گے۔

اس بات میں صداقت کی عکاسی اس لیے ہوتی ہے کہ ماضی میں عدلیہ بحالی اور بعض دیگر بدترین حالات میں فوج کے پاس اقتدار پر قابض ہونے کا جواز بھی تھا تاہم اس کے باوجود فوج پیشہ ورانہ امور تک محدود رہی۔ عدلیہ میڈیا اور سول سوسائٹی کے متحرک کردار نے معاشرے میں شعور و آگہی کی نئی رفعتوں کو تخلیق کیا ہے اور یہ متحرک کردار جمہوری نظام کے ساتھ ساتھ ملکی ترقی اور استحکام کے لیے لازم ہے۔

عدالت عظمیٰ نے موجودہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو سوئس حکام کو خط لکھنے کی 25 جولائی تک ڈیڈ لائن دے رکھی ہے۔ پیپلز پارٹی ایک اور وزیراعظم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف صدر مملکت آصف علی زرداری کے خلاف سوئس حکام کو کسی قیمت پر خط نہیں لکھیں گے۔

راجہ پرویز اشرف کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے تجزیے اور تبصرے جاری ہیں۔ راجہ پرویز اشرف ابھی تک محتاط انداز میں آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ قومی اسمبلی اور سینٹ نے توہین عدالت بل کی منظوری دے دی ہے اور یہ بل عدالت میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ نیا قانون وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو متوقع عدالتی کارروائی سے بچا سکے گا یا نہیں، عدلیہ اور حکومت کے درمیان محاذ آرائی کے ختم ہونے کے امکانات ختم ہو گئے ہیں۔
Load Next Story