اِدھر کنواں اُدھر کھائی
کاروبار کے لیے ہی سہی پرائیویٹ اسپتالوں میں مریض کی دیکھ بھال بہت بہتر انداز میں ہوتی ہے
خراب اور خراب تر صورت حال کے اظہار کے لیے ہر زبان میں اس عنوان سے ملتے جلتے کچھ محاورے اور ضرب الامثال موجود ہیں مگر ان کے اطلاق کی جو صورت گزشتہ کچھ دنوں میں میرے تجربے میں آئی ہے اس کا بیانیہ چشم کشا بھی ہے اور افسوس ناک بھی۔ سرکاری اسپتالوں بالخصوص چھوٹے شہروں اور قصبوں کے سرکاری اسپتالوں کی ناگفتہ بہ حالت پر بہت کچھ لکھا جاتا ہے کہ یہاں عام طور پر انسانوں کو ڈھور ڈنگروں کی طرح رکھا اور سمجھا جاتا ہے ہر طرف گندگی' بے ترتیبی، اوپر سے لے کر نیچے تک رشوت کا بازار گرم ہے۔
انفرادی طور پر یہاں بھی کچھ اچھے لوگ مل جاتے ہیں مگر اجتماعی تاثر اور ماحول ہر گز ہر گز کسی ''شفاخانے'' کا نہیں، ایسا کیوں اور کیسے ہوا، یہ ایک طویل اور بہت حد تک بے معنی بحث ہے، امر واقعہ یہی ہے کہ ان اسپتالوں میں غریب آدمی اور اس کے لواحقین کو جن عذابوں سے گزرنا پڑتا ہے وہ کسی بھی مہذب' انسان دوست اور رب کریم کو مالک کل ماننے والے معاشرے کے لیے شرم کا باعث ہے۔
عام طور پر یہ تصور پایا جاتا ہے کہ کاروبار کے لیے ہی سہی پرائیویٹ اسپتالوں میں مریض کی دیکھ بھال بہت بہتر انداز میں ہوتی ہے اور وہ اگر کمائی کرتے ہیں تو کچھ ڈلیور بھی کرتے ہیں، لاہور کے کئی مہنگے اور بڑے پرائیویٹ اسپتالوں کی صفائی ستھرائی اور چمک دمک دیکھ کر اس خیال کو مزید تقویت ملتی ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے بلاشبہ ان کے پاس بہت مستند ڈاکٹر اور سرجن موجود ہوتے ہیں اور میڈیکل مشنری اور مطلوبہ ایکوپمنٹ بھی مہیا ہوتا ہے لیکن ان کی انتظامیہ بالعموم مریض اور اس کے لواحقین کو ''آسامی'' یا ''شکار'' کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
ہر وہ چھوٹی سے چھوٹی سہولت بھی جس کو بنیادی خدمات کا حصہ ہونا چاہیے آپ کو یہاں نقد ادائیگی پر ملتی ہے یہاں تک کہ نرسیں دوائی کی گولیاں ہاتھ میں لے کر اور مریض کا منہ کھلوا کر لواحقین سے کہتی ہیں نیچے شاپ سے پانی لے کر آئیے ''اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ پرائیویٹ کمرے کا بھاری بل ادا کر رہے ہیں لیکن وہاں دوائی کھانے کے لیے پانی تک موجود نہیں ہر چیز آپ کو متذکرہ اسپتال سے ہی خریدنا پڑتی ہے اور ایسی ایسی مدوں میں وصولی کی جاتی ہے جن کی بیک وقت افسوسناک اور مضحکہ خیز تفصیل بیان سے باہر ہے۔
اس سارے اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ میرے والد صاحب کو اتوار کو ہارٹ اٹیک ہوا میں اس وقت اسلام آباد سے لاہور واپسی کے سفر میں تھا (غایت اس سفر کی جمیل الدین عالی مرحوم کے ریفرنس میں شرکت تھی جس کا اہتمام ان کے بچوں بالخصوص مراد عالی نے کیا تھا) ان کو فوراً ایک قریبی بڑے اسپتال میں لے جایا گیا جہاں نوجوان ڈاکٹر ڈیوٹی پر تھے کچھ ابتدائی ٹیسٹوں کے بعد انھوں نے بتایا کہ دورہ خاصا شدید تھا اور اب آیندہ علاج کے طریق کار کا فیصلہ اگلے دن صبح ان کے سینئرز کریں گے۔
آئی سی یو میں کمرہ لے لیا گیا اور پے در پے ٹیسٹوں کا سلسلہ شروع ہو گیا جو ابھی تک جاری ہے (والد صاحب کی عمر تقریباً 95 برس ہے اور اپنی عمر کے اعتبار سے اس اٹیک سے پہلے تک وہ خاصے صحت مند اور چاک و چوبند تھے قارئین سے التماس ہے کہ ان کی صحت کے لیے دعا ضرور فرمائیں)۔
ظاہر ہے اس طرح کے اسپتالوں کو کامیابی سے چلانا کوئی بچوں کا کھیل نہیں اور اس کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ایک خاص حد تک ''مہنگائی'' بھی سمجھ میں آتی ہے لیکن اگر مقصد محض کاروبار ہو اور اس پر اصول بھی خالص نفع اندوزی کے لاگو کیے جائیں تو نہ صرف ''خدمت خلق'' والا معاملہ خارج از بحث ہو جاتا ہے بلکہ مالکوں کی کاروباری یعنی سیٹھ ذہنیت اس میں ایسی بدصورتیاں پیدا کر دیتی ہے کہ مریض بیماری سے تو شاید بچ جائے مگر اس کے لواحقین بری طرح سے ذہنی' نفسیاتی اور ناجائز مالی دباؤ میں آ جاتے ہیں بالخصوص متوسط اور نچلے متوسط طبقے کے لوگوں کے لیے یہ اسپتال اژدھے کے کھلے ہوئے منہ کی مثال بن جاتے ہیں جس کو سوائے اپنا پیٹ بھرنے کے کوئی غرض نہیں ہوتی۔
اب مشکل یہ ہے کہ دوسری طرف سرکاری اسپتالوں کی حالت ایسی دگرگوں ہے کہ وہاں مالی دباؤ تو شاید بہت حد تک کم ہو جائے مگر مریض سے زیادہ لواحقین کا اعتبار انسانیت سے اٹھ جاتا ہے بدبو دار بستروں' گندے برآمدوں اور مچھلی بازار جیسی وارڈوں میں نرسوں اور ڈاکٹروں کے پیچھے جھڑکیاں کھاتے اور بھاگتے ہوئے لوگ نفسانفسی اور لوٹ مار کا ایک ایسا عبرتناک منظر قدم قدم پر دیکھتے ہیں کہ اچھے بھلے صحت مند آدمی کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ اور بار بار ایک ہی خیال ذہن میں گردش کرنے لگتا ہے کہ
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں!
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری
یہ دونوں طرح کے اسپتال یقیناً کسی نہ کسی ممکنہ حفظان صحت کے ماتحت آتے ہوں گے جیسے مثال کے طور پر الیکٹرانک میڈیا لاگو کیے گئے قوانین کے تحت کام کرتا ہے۔ معافی چاہتا ہوں مثال کچھ غلط ہو گئی لیکن شاید اتنی غلط بھی نہیں کہ ان شعبوں پر سرکاری اور قانونی کنٹرول کی حالت اگر بالکل ایک جیسی نہیں تو کوئی بہت زیادہ مختلف بھی نہیں ہے دونوں پر سیٹھ کلچر کا قبضہ ہے اور بقول شخصے یہ کلچر صرف ہندسوں کی زبان جانتا اور سمجھتا ہے۔ اقبال نے شاید ایسی ہی کسی صورت حال میں کہا تھا کہ
دنیا ہے تری منتظر روز مکافات!
انفرادی طور پر یہاں بھی کچھ اچھے لوگ مل جاتے ہیں مگر اجتماعی تاثر اور ماحول ہر گز ہر گز کسی ''شفاخانے'' کا نہیں، ایسا کیوں اور کیسے ہوا، یہ ایک طویل اور بہت حد تک بے معنی بحث ہے، امر واقعہ یہی ہے کہ ان اسپتالوں میں غریب آدمی اور اس کے لواحقین کو جن عذابوں سے گزرنا پڑتا ہے وہ کسی بھی مہذب' انسان دوست اور رب کریم کو مالک کل ماننے والے معاشرے کے لیے شرم کا باعث ہے۔
عام طور پر یہ تصور پایا جاتا ہے کہ کاروبار کے لیے ہی سہی پرائیویٹ اسپتالوں میں مریض کی دیکھ بھال بہت بہتر انداز میں ہوتی ہے اور وہ اگر کمائی کرتے ہیں تو کچھ ڈلیور بھی کرتے ہیں، لاہور کے کئی مہنگے اور بڑے پرائیویٹ اسپتالوں کی صفائی ستھرائی اور چمک دمک دیکھ کر اس خیال کو مزید تقویت ملتی ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے بلاشبہ ان کے پاس بہت مستند ڈاکٹر اور سرجن موجود ہوتے ہیں اور میڈیکل مشنری اور مطلوبہ ایکوپمنٹ بھی مہیا ہوتا ہے لیکن ان کی انتظامیہ بالعموم مریض اور اس کے لواحقین کو ''آسامی'' یا ''شکار'' کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
ہر وہ چھوٹی سے چھوٹی سہولت بھی جس کو بنیادی خدمات کا حصہ ہونا چاہیے آپ کو یہاں نقد ادائیگی پر ملتی ہے یہاں تک کہ نرسیں دوائی کی گولیاں ہاتھ میں لے کر اور مریض کا منہ کھلوا کر لواحقین سے کہتی ہیں نیچے شاپ سے پانی لے کر آئیے ''اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ پرائیویٹ کمرے کا بھاری بل ادا کر رہے ہیں لیکن وہاں دوائی کھانے کے لیے پانی تک موجود نہیں ہر چیز آپ کو متذکرہ اسپتال سے ہی خریدنا پڑتی ہے اور ایسی ایسی مدوں میں وصولی کی جاتی ہے جن کی بیک وقت افسوسناک اور مضحکہ خیز تفصیل بیان سے باہر ہے۔
اس سارے اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ میرے والد صاحب کو اتوار کو ہارٹ اٹیک ہوا میں اس وقت اسلام آباد سے لاہور واپسی کے سفر میں تھا (غایت اس سفر کی جمیل الدین عالی مرحوم کے ریفرنس میں شرکت تھی جس کا اہتمام ان کے بچوں بالخصوص مراد عالی نے کیا تھا) ان کو فوراً ایک قریبی بڑے اسپتال میں لے جایا گیا جہاں نوجوان ڈاکٹر ڈیوٹی پر تھے کچھ ابتدائی ٹیسٹوں کے بعد انھوں نے بتایا کہ دورہ خاصا شدید تھا اور اب آیندہ علاج کے طریق کار کا فیصلہ اگلے دن صبح ان کے سینئرز کریں گے۔
آئی سی یو میں کمرہ لے لیا گیا اور پے در پے ٹیسٹوں کا سلسلہ شروع ہو گیا جو ابھی تک جاری ہے (والد صاحب کی عمر تقریباً 95 برس ہے اور اپنی عمر کے اعتبار سے اس اٹیک سے پہلے تک وہ خاصے صحت مند اور چاک و چوبند تھے قارئین سے التماس ہے کہ ان کی صحت کے لیے دعا ضرور فرمائیں)۔
ظاہر ہے اس طرح کے اسپتالوں کو کامیابی سے چلانا کوئی بچوں کا کھیل نہیں اور اس کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ایک خاص حد تک ''مہنگائی'' بھی سمجھ میں آتی ہے لیکن اگر مقصد محض کاروبار ہو اور اس پر اصول بھی خالص نفع اندوزی کے لاگو کیے جائیں تو نہ صرف ''خدمت خلق'' والا معاملہ خارج از بحث ہو جاتا ہے بلکہ مالکوں کی کاروباری یعنی سیٹھ ذہنیت اس میں ایسی بدصورتیاں پیدا کر دیتی ہے کہ مریض بیماری سے تو شاید بچ جائے مگر اس کے لواحقین بری طرح سے ذہنی' نفسیاتی اور ناجائز مالی دباؤ میں آ جاتے ہیں بالخصوص متوسط اور نچلے متوسط طبقے کے لوگوں کے لیے یہ اسپتال اژدھے کے کھلے ہوئے منہ کی مثال بن جاتے ہیں جس کو سوائے اپنا پیٹ بھرنے کے کوئی غرض نہیں ہوتی۔
اب مشکل یہ ہے کہ دوسری طرف سرکاری اسپتالوں کی حالت ایسی دگرگوں ہے کہ وہاں مالی دباؤ تو شاید بہت حد تک کم ہو جائے مگر مریض سے زیادہ لواحقین کا اعتبار انسانیت سے اٹھ جاتا ہے بدبو دار بستروں' گندے برآمدوں اور مچھلی بازار جیسی وارڈوں میں نرسوں اور ڈاکٹروں کے پیچھے جھڑکیاں کھاتے اور بھاگتے ہوئے لوگ نفسانفسی اور لوٹ مار کا ایک ایسا عبرتناک منظر قدم قدم پر دیکھتے ہیں کہ اچھے بھلے صحت مند آدمی کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ اور بار بار ایک ہی خیال ذہن میں گردش کرنے لگتا ہے کہ
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں!
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری
یہ دونوں طرح کے اسپتال یقیناً کسی نہ کسی ممکنہ حفظان صحت کے ماتحت آتے ہوں گے جیسے مثال کے طور پر الیکٹرانک میڈیا لاگو کیے گئے قوانین کے تحت کام کرتا ہے۔ معافی چاہتا ہوں مثال کچھ غلط ہو گئی لیکن شاید اتنی غلط بھی نہیں کہ ان شعبوں پر سرکاری اور قانونی کنٹرول کی حالت اگر بالکل ایک جیسی نہیں تو کوئی بہت زیادہ مختلف بھی نہیں ہے دونوں پر سیٹھ کلچر کا قبضہ ہے اور بقول شخصے یہ کلچر صرف ہندسوں کی زبان جانتا اور سمجھتا ہے۔ اقبال نے شاید ایسی ہی کسی صورت حال میں کہا تھا کہ
دنیا ہے تری منتظر روز مکافات!