بندوق جی اور کارتوس جی کی داستان
لیکن یہ میرا کم بخت شوہر ایک مرتبہ شروع کرتا ہے تو پھر بس نہیں کرتا ایسی پٹائی کرتا ہے
''بندوق جی کارتوس جی'' کوئی تجارتی کمپنی نہیں ہے بلکہ دو بھائی ہیں جو اپنے قد و قامت یا شیپ کی وجہ سے بندوق جی، کارتوس جی کہلاتے ہیں اگر وزن کے لحاظ سے دیکھا جائے تو دونوں میں برابر کا ''مٹیریل'' استعمال کیا گیا ہے لیکن ایک کو دونوں طرف سے کھینچ کر ایک طویل فاصلے تک پھیلایا گیا جو ہر کھینچی جانے والی چیز جسے ربڑ پلاسٹک لوہے وغیرہ کو جتنا کھینچا جائے اتنی ہی پتلی ہوتی چلی جاتی ہے اسی طرح بندوق جی باقاعدہ ایک بندوق کی طرح لمبے ہیں وہ بھی دو نالی بندوق کی طرح یعنی
نقش کو اپنے مصور پر بھی کیا کیا ناز
کھینچتا ہے جس قدر اتنا ہی کھنچتا جائے ہے
چھوٹے بھائی کارتوس جی پر بھی اتنا ہی مٹیریل صرف ہوا ہے لیکن ممکن حد تک چاروں اطراف سے دبانے پر اس کا ہر ایک زاویہ ایک مختصر سی جگہ میں سمٹ کر رہ گیا ہے اور ہو بہو ایک کارتوس کی طرح لگتے ہیں، دونوں کسی ایسے نامعلوم جد امجد کی نسل سے ہیں جنہوں نے ''عبادت و زہد'' میں اپنی عمر عزیز صرف کی ہو گی اگرچہ ان کو اپنی عبادتوں کا صلہ جنت اور حوران خوش ادا کی صورت میں مل گیا ہو گا لیکن اس کی آنے والی نسلوں کے لیے بھی کمائی کا ذریعہ اپنے مزار اقدس کی شکل میں چھوڑ گئے ہیں جسے بعض لوگ بغیر سرمایہ کاری کی انڈسٹری بھی کہتے ہیں وہ بھی کسی خرچ یا ٹیکس یا دوسرے اخراجات سے قطعی مستثنیٰ اور بغیر نقصان کے ہمیشہ منافع میں چلنے والی، گویا عبادتوں کا ثواب تو جد امجد کو پہنچا اور ''خرما'' ان دونوں بھائیوں کی قسمت میں آیا
کیا زہد کو مانوں کہ نہ ہو گرچہ رہائی
پاداش عمل کی طمع خام بہت ہے
خیر اس ''ہم ثواب وہم خرما'' والے مسئلے پر تو ہم کچھ زیادہ روشنی نہیں ڈال سکتے کہ آج کل اس انڈسٹری کا بڑا زور ہے دین کی خدمت کے ساتھ دنیا سنوارنے کا کاروبار بڑے عروج پر ہے بلکہ اب تو ایک تیر سے ایک دو نہیں بلکہ تین تین چار چار شکار کرنے کا زمانہ چل رہا ہے، ثواب بھی، خرما بھی، تحفظات بھی اور ''وغیرہ وغیرہ'' بھی، بعض چیزیں ہوتی ہی ایسی ہیں جو ھمہ جہت فوائد کی حامل ہوتی ہیں جیسے گندم، گنا اور تمباکو کو لے لیجیے کہ کھیتوں سے لے کر کتنے بے شمار لوگوں کے دھندے فوائد اور منافعے ان سے وابستہ ہوتے ہیں۔
ایک مرتبہ ایک نائی اور ملا کا ٹاکرا ہو گیا ملا جی نے اپنے تقدس کی حوالے سے بے چارے نائی کو کمی کمین کہا تو نائی بولا، ملا جی منہ مت کھلاؤ میں تو اپنی محنت کر کے روزی روٹی کماتا ہوں اور تم نے ''دین'' کی گائے اپنے گھر باندھ رکھی ہے جس سے دودھ، دہی اور مکھن لسی جو چاہو حاصل کرو پھر دودھ کا جو کچھ دل چاہے بناؤ، کھیر، حلوہ، پنیر، بالائی، کھویا۔ دہی کو بھی کڑی میں استعمال کرو چٹنی میں یا یونہی، مکھن چاہے کھاؤ یا داڑھی مونچھ چمکاؤ ... اور پھر بالائی سے بھی کیا نہیں بنتا، صرف یہ ہی نہیں بلکہ پیدائش پر اذان، جوانی میں نکاح، مرے تو جنازے سقاط اور جمعہ جمعرات اور مجھے صرف شادی پر کچھ ملتا ہے جب کہ تمہیں موت سے بھی آمدنی ہو جاتی ہے۔
خیر یہ تو بات دوسری طرف پھسل گئی قصہ بڑے صاحب بندوق جی اور چھوٹے صاحب کارتوس جی کی ہو رہی تھی جسے بجا طور پر ایسا لگتا ہے کہ اس کہاوت کی تصدیق کے لیے پیدا کیا گیا ہے کہ بڑے جی تو بڑے جی چھوٹے جی سبحان اللہ، جس طرح بندوق اور کارتوس الگ بے کار ہو جاتے ہیں اور دونوں مل کر ہی دھماکہ کرتے ہیں اسی طرح بندوق جی اور کارتوس جی کا دھندہ بھی ایک دوسرے کے تعاون سے چلتا ہے، مثلاً کوئی چھوٹے جی کارتوس کے پاس آکر ''تعویذ حب'' کے لیے کہتا تو وہ کہتے وہ تو میں لکھ دوں گا لیکن تمہارے ستارے کچھ ٹھیک نہیں چل رہے ہیں اور ستاروں کا ڈیپارٹمنٹ بڑے بھیا کے پاس ہے اس لیے تم پہلے اس کے پاس جا کر اپنے ستاروں کا ''چال چلن'' ٹھیک کر دو پھر میں تمہاری معشوقہ کا چال چلن اتنا ''بگاڑ'' دوں گا کہ وہ تمہارے پیچھے دیوانی ہو جائے گی۔
اس طرح بالغرض اگر کوئی بڑے میاں جی کے پاس مقدمہ جیتنے کے لیے آتا ہے تو وہ کارتوس کی طرف اشارہ کر کے کہتے کہ تمہارے مخالف نے جج پر بڑا خطرناک عمل کیا ہوا ہے اور عمل توڑنے پر چھوٹے میاں جی اتھارٹی ہیں اس لیے پہلے جا کر اس سے اس عمل کو تڑواؤ پھر میرے پاس آنا ایسا تعویذ دوں گا کہ جج اور وکیلوں سب کو تمہاری طرف پھیر دے گا، انتخابات کے دنوں میں بھی سائل کو دو طرفہ مار پڑتی تھی، بندوق میاں جی خود اس کے ستارے ٹھیک کرتے اور کارتوس میاں جی مخالف کی قسمت کو بٹہ لگاتے، لیکن ماننا پڑے گا کہ دونوں چھوٹے بڑے یعنی میاں جی بندوق اور میاں جی کارتوس کا دھندہ کسی حد تک ذہانت پر بھی قائم تھا صرف عقیدت کا دیا نہیں کھاتے تھے۔
مثلاً ایک دن عورت نے آکر شکایت کی کہ میرا شوہر مجھے پیٹتا بہت ہے اگر دو چار لات گھونسوں کی بات ہوتی تو میں سہہ بھی لیتی کیوں کہ شوہر کی مار دراصل اس کی ''ہار'' کی علامت ہوتی ہے، بیوی کے مقابلے میں خود کو کمتر محسوس کرنے والے مرد اکثر بیوی کو پیٹ کر اپنی خفت مٹاتے ہیں اور اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ شکل و صورت میں، خاندان میں، تعلیم میں یا کسی دوسرے میدان میں عورت اس سے بہتر ہوتی ہے۔
لیکن یہ میرا کم بخت شوہر ایک مرتبہ شروع کرتا ہے تو پھر بس نہیں کرتا ایسی پٹائی کرتا ہے جیسے نہایت تسلی سے کوئی ضروری کام کر رہاہو، سائیلہ چھوٹے میاں کارتوس جی کے پاس آئی تھی کیوں کہ ازدواجیات کا قلم دان اسی کے پاس تھا بڑے میاں بندوق میاں جی کے پاس سیاسیات اور معاشیات کا پورٹ فولیو تھا یہ الگ بات ہے کہ دونوں محکموں میں رشک ہم دیگر کی جگہ ستائش باہمی کی فضاء تھی، کارتوس جی نے عورت کی پوری کہانی کچھ آہوں کچھ آنسوؤں اور ناک سکڑنے کے ساتھ سن لی تو بولے ... اس کا تو ایک ہی مطلب نکلتا ہے کہ تمہارے شوہر کی آنکھ کہیں اور جا لڑی ہے اور آنکھ لڑنے کے معاملات بڑے بھائی کے پاس ہیں اس لیے پہلے جا کر ان سے اس کا توڑ کرا لیجیے، تب تک میں ''حب شوہر'' کا عمل کر کے تعویذ تیار کرتا ہوں۔
عورت بندوق میاں جی سے توڑ کروانے کے بعد کارتوس میاں جی کے پاس آئی تو دھماکہ ہوا، کارتوس میاں جی نے اسے ایک تعویذ دیتے ہوئے کہا کہ جب بھی شوہر کو غصہ آنے لگے اور وہ اپنا روزمرہ کا عمل دہرانے پر مائل ہو تو اس تعویذ کو اپنے دائیں جبڑے میں دانتوں تلے دبانا اور جتنا ہو سکے اس پر زور ڈالنا، تعویذ نے کمال کا کام کیا چند روز بعد وہ عورت کچھ انڈے اور ایک موذن مرغ لے کر شکریہ ادا کرنے آئی کہ اب مجھے وہ بالکل بھی نہیں پیٹتا ... اور اس کے ساتھ عورت نے بندوق میاں جی اور کارتوس میاں جی کی زبردست پبلسٹی شروع کی وہ بھی بالکل مفت ۔۔۔۔ خود میاں جی بندوق کو حیرت ہوئی کارتوس سے پوچھا ... ارے کارتوس میاں ... تم نے اس تعویذ میں ایسا کیا لکھا تھا کہ اتنا بڑا دھماکہ ہو گیا ۔
کچھ بھی نہیں میں نے تو صرف یہ الفاظ لکھے تھے کہ اگر میاں بیوی لڑے تو مجھے کیا اور اگر نہ لڑے تو کیا؟ تو پھر یہ اتنا بڑا دھماکہ ؟ کارتوس میاں جی نے مسکرا کر بندوق میاں جی سے کہا دھماکہ تعویذ میں نہیں بلکہ اس ہدایت میں تھا جو میں نے اس عورت کو کی تھی، ہدایت کیسی ہدایت ؟ میں نے اسے سمجھایا تھا کہ جب بھی شوہر کو غصہ آنے لگے تم اسی وقت تعویذ کو اپنے جبڑے تلے زور سے دبا دینا، تعویذ پر دباؤ ڈالنے کے لیے ظاہر ہے کہ اس کی زبان کو رک جانا چاہیے تھا جو اصل فساد کی جڑ تھی جب تعویذ دبانے میں مصروف ہو کر وہ چپ ہو جاتی تھی تو شوہر کیا پاگل تھا جو اسے پیٹتا کیوں کہ ساری مار تو اسے زبان درازی پر پڑتی تھی۔
بندوق میاں جی کے دل گرہ سی پڑ گئی کہ کارتوس جی نے اتنا زبردست فارمولا اس کے ساتھ شیئر نہیں کیا تھا کہیں کارتوس جی اپنی پتنگ الگ سے اڑانے کے موڈ میں تو نہیں ہے یعنی بغیر بندوق کے دھماکے کرنے کا ارادہ تو نہیں رکھتا، ظاہر ہے کہ گرہ جب پڑ جاتی ہے تو وہ روز بروز سخت ہوتی چلی جاتی ہے، یہیں سے دونوں میں پہلے شک و شبے بعد میں مخاصمت اور آخر میں باقاعدہ مخالفت کا سلسلہ شروع ہوا، اب دونوں دبے الفاظ میں ایک دوسرے کی تعریف کرنے یا سائل کو دوسرے کی طرف راغب کرنے کے بجائے نفی کرنے لگے... اور ظاہر ہے کہ بندوق اور کارتوس کے درمیان اگر فاصلہ آجائے تو پھر دھماکوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
نقش کو اپنے مصور پر بھی کیا کیا ناز
کھینچتا ہے جس قدر اتنا ہی کھنچتا جائے ہے
چھوٹے بھائی کارتوس جی پر بھی اتنا ہی مٹیریل صرف ہوا ہے لیکن ممکن حد تک چاروں اطراف سے دبانے پر اس کا ہر ایک زاویہ ایک مختصر سی جگہ میں سمٹ کر رہ گیا ہے اور ہو بہو ایک کارتوس کی طرح لگتے ہیں، دونوں کسی ایسے نامعلوم جد امجد کی نسل سے ہیں جنہوں نے ''عبادت و زہد'' میں اپنی عمر عزیز صرف کی ہو گی اگرچہ ان کو اپنی عبادتوں کا صلہ جنت اور حوران خوش ادا کی صورت میں مل گیا ہو گا لیکن اس کی آنے والی نسلوں کے لیے بھی کمائی کا ذریعہ اپنے مزار اقدس کی شکل میں چھوڑ گئے ہیں جسے بعض لوگ بغیر سرمایہ کاری کی انڈسٹری بھی کہتے ہیں وہ بھی کسی خرچ یا ٹیکس یا دوسرے اخراجات سے قطعی مستثنیٰ اور بغیر نقصان کے ہمیشہ منافع میں چلنے والی، گویا عبادتوں کا ثواب تو جد امجد کو پہنچا اور ''خرما'' ان دونوں بھائیوں کی قسمت میں آیا
کیا زہد کو مانوں کہ نہ ہو گرچہ رہائی
پاداش عمل کی طمع خام بہت ہے
خیر اس ''ہم ثواب وہم خرما'' والے مسئلے پر تو ہم کچھ زیادہ روشنی نہیں ڈال سکتے کہ آج کل اس انڈسٹری کا بڑا زور ہے دین کی خدمت کے ساتھ دنیا سنوارنے کا کاروبار بڑے عروج پر ہے بلکہ اب تو ایک تیر سے ایک دو نہیں بلکہ تین تین چار چار شکار کرنے کا زمانہ چل رہا ہے، ثواب بھی، خرما بھی، تحفظات بھی اور ''وغیرہ وغیرہ'' بھی، بعض چیزیں ہوتی ہی ایسی ہیں جو ھمہ جہت فوائد کی حامل ہوتی ہیں جیسے گندم، گنا اور تمباکو کو لے لیجیے کہ کھیتوں سے لے کر کتنے بے شمار لوگوں کے دھندے فوائد اور منافعے ان سے وابستہ ہوتے ہیں۔
ایک مرتبہ ایک نائی اور ملا کا ٹاکرا ہو گیا ملا جی نے اپنے تقدس کی حوالے سے بے چارے نائی کو کمی کمین کہا تو نائی بولا، ملا جی منہ مت کھلاؤ میں تو اپنی محنت کر کے روزی روٹی کماتا ہوں اور تم نے ''دین'' کی گائے اپنے گھر باندھ رکھی ہے جس سے دودھ، دہی اور مکھن لسی جو چاہو حاصل کرو پھر دودھ کا جو کچھ دل چاہے بناؤ، کھیر، حلوہ، پنیر، بالائی، کھویا۔ دہی کو بھی کڑی میں استعمال کرو چٹنی میں یا یونہی، مکھن چاہے کھاؤ یا داڑھی مونچھ چمکاؤ ... اور پھر بالائی سے بھی کیا نہیں بنتا، صرف یہ ہی نہیں بلکہ پیدائش پر اذان، جوانی میں نکاح، مرے تو جنازے سقاط اور جمعہ جمعرات اور مجھے صرف شادی پر کچھ ملتا ہے جب کہ تمہیں موت سے بھی آمدنی ہو جاتی ہے۔
خیر یہ تو بات دوسری طرف پھسل گئی قصہ بڑے صاحب بندوق جی اور چھوٹے صاحب کارتوس جی کی ہو رہی تھی جسے بجا طور پر ایسا لگتا ہے کہ اس کہاوت کی تصدیق کے لیے پیدا کیا گیا ہے کہ بڑے جی تو بڑے جی چھوٹے جی سبحان اللہ، جس طرح بندوق اور کارتوس الگ بے کار ہو جاتے ہیں اور دونوں مل کر ہی دھماکہ کرتے ہیں اسی طرح بندوق جی اور کارتوس جی کا دھندہ بھی ایک دوسرے کے تعاون سے چلتا ہے، مثلاً کوئی چھوٹے جی کارتوس کے پاس آکر ''تعویذ حب'' کے لیے کہتا تو وہ کہتے وہ تو میں لکھ دوں گا لیکن تمہارے ستارے کچھ ٹھیک نہیں چل رہے ہیں اور ستاروں کا ڈیپارٹمنٹ بڑے بھیا کے پاس ہے اس لیے تم پہلے اس کے پاس جا کر اپنے ستاروں کا ''چال چلن'' ٹھیک کر دو پھر میں تمہاری معشوقہ کا چال چلن اتنا ''بگاڑ'' دوں گا کہ وہ تمہارے پیچھے دیوانی ہو جائے گی۔
اس طرح بالغرض اگر کوئی بڑے میاں جی کے پاس مقدمہ جیتنے کے لیے آتا ہے تو وہ کارتوس کی طرف اشارہ کر کے کہتے کہ تمہارے مخالف نے جج پر بڑا خطرناک عمل کیا ہوا ہے اور عمل توڑنے پر چھوٹے میاں جی اتھارٹی ہیں اس لیے پہلے جا کر اس سے اس عمل کو تڑواؤ پھر میرے پاس آنا ایسا تعویذ دوں گا کہ جج اور وکیلوں سب کو تمہاری طرف پھیر دے گا، انتخابات کے دنوں میں بھی سائل کو دو طرفہ مار پڑتی تھی، بندوق میاں جی خود اس کے ستارے ٹھیک کرتے اور کارتوس میاں جی مخالف کی قسمت کو بٹہ لگاتے، لیکن ماننا پڑے گا کہ دونوں چھوٹے بڑے یعنی میاں جی بندوق اور میاں جی کارتوس کا دھندہ کسی حد تک ذہانت پر بھی قائم تھا صرف عقیدت کا دیا نہیں کھاتے تھے۔
مثلاً ایک دن عورت نے آکر شکایت کی کہ میرا شوہر مجھے پیٹتا بہت ہے اگر دو چار لات گھونسوں کی بات ہوتی تو میں سہہ بھی لیتی کیوں کہ شوہر کی مار دراصل اس کی ''ہار'' کی علامت ہوتی ہے، بیوی کے مقابلے میں خود کو کمتر محسوس کرنے والے مرد اکثر بیوی کو پیٹ کر اپنی خفت مٹاتے ہیں اور اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ شکل و صورت میں، خاندان میں، تعلیم میں یا کسی دوسرے میدان میں عورت اس سے بہتر ہوتی ہے۔
لیکن یہ میرا کم بخت شوہر ایک مرتبہ شروع کرتا ہے تو پھر بس نہیں کرتا ایسی پٹائی کرتا ہے جیسے نہایت تسلی سے کوئی ضروری کام کر رہاہو، سائیلہ چھوٹے میاں کارتوس جی کے پاس آئی تھی کیوں کہ ازدواجیات کا قلم دان اسی کے پاس تھا بڑے میاں بندوق میاں جی کے پاس سیاسیات اور معاشیات کا پورٹ فولیو تھا یہ الگ بات ہے کہ دونوں محکموں میں رشک ہم دیگر کی جگہ ستائش باہمی کی فضاء تھی، کارتوس جی نے عورت کی پوری کہانی کچھ آہوں کچھ آنسوؤں اور ناک سکڑنے کے ساتھ سن لی تو بولے ... اس کا تو ایک ہی مطلب نکلتا ہے کہ تمہارے شوہر کی آنکھ کہیں اور جا لڑی ہے اور آنکھ لڑنے کے معاملات بڑے بھائی کے پاس ہیں اس لیے پہلے جا کر ان سے اس کا توڑ کرا لیجیے، تب تک میں ''حب شوہر'' کا عمل کر کے تعویذ تیار کرتا ہوں۔
عورت بندوق میاں جی سے توڑ کروانے کے بعد کارتوس میاں جی کے پاس آئی تو دھماکہ ہوا، کارتوس میاں جی نے اسے ایک تعویذ دیتے ہوئے کہا کہ جب بھی شوہر کو غصہ آنے لگے اور وہ اپنا روزمرہ کا عمل دہرانے پر مائل ہو تو اس تعویذ کو اپنے دائیں جبڑے میں دانتوں تلے دبانا اور جتنا ہو سکے اس پر زور ڈالنا، تعویذ نے کمال کا کام کیا چند روز بعد وہ عورت کچھ انڈے اور ایک موذن مرغ لے کر شکریہ ادا کرنے آئی کہ اب مجھے وہ بالکل بھی نہیں پیٹتا ... اور اس کے ساتھ عورت نے بندوق میاں جی اور کارتوس میاں جی کی زبردست پبلسٹی شروع کی وہ بھی بالکل مفت ۔۔۔۔ خود میاں جی بندوق کو حیرت ہوئی کارتوس سے پوچھا ... ارے کارتوس میاں ... تم نے اس تعویذ میں ایسا کیا لکھا تھا کہ اتنا بڑا دھماکہ ہو گیا ۔
کچھ بھی نہیں میں نے تو صرف یہ الفاظ لکھے تھے کہ اگر میاں بیوی لڑے تو مجھے کیا اور اگر نہ لڑے تو کیا؟ تو پھر یہ اتنا بڑا دھماکہ ؟ کارتوس میاں جی نے مسکرا کر بندوق میاں جی سے کہا دھماکہ تعویذ میں نہیں بلکہ اس ہدایت میں تھا جو میں نے اس عورت کو کی تھی، ہدایت کیسی ہدایت ؟ میں نے اسے سمجھایا تھا کہ جب بھی شوہر کو غصہ آنے لگے تم اسی وقت تعویذ کو اپنے جبڑے تلے زور سے دبا دینا، تعویذ پر دباؤ ڈالنے کے لیے ظاہر ہے کہ اس کی زبان کو رک جانا چاہیے تھا جو اصل فساد کی جڑ تھی جب تعویذ دبانے میں مصروف ہو کر وہ چپ ہو جاتی تھی تو شوہر کیا پاگل تھا جو اسے پیٹتا کیوں کہ ساری مار تو اسے زبان درازی پر پڑتی تھی۔
بندوق میاں جی کے دل گرہ سی پڑ گئی کہ کارتوس جی نے اتنا زبردست فارمولا اس کے ساتھ شیئر نہیں کیا تھا کہیں کارتوس جی اپنی پتنگ الگ سے اڑانے کے موڈ میں تو نہیں ہے یعنی بغیر بندوق کے دھماکے کرنے کا ارادہ تو نہیں رکھتا، ظاہر ہے کہ گرہ جب پڑ جاتی ہے تو وہ روز بروز سخت ہوتی چلی جاتی ہے، یہیں سے دونوں میں پہلے شک و شبے بعد میں مخاصمت اور آخر میں باقاعدہ مخالفت کا سلسلہ شروع ہوا، اب دونوں دبے الفاظ میں ایک دوسرے کی تعریف کرنے یا سائل کو دوسرے کی طرف راغب کرنے کے بجائے نفی کرنے لگے... اور ظاہر ہے کہ بندوق اور کارتوس کے درمیان اگر فاصلہ آجائے تو پھر دھماکوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔