پاک بھارت کرکٹ روابط کی بحالی
پاک بھارت سیریز بند دروازے کھولنے میں اہم پیشرفت ہے ۔
بھارت نے بالآخر 5 سال کے طویل وقفے کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم کو اپنی سرزمین پر سیریز کھیلنے کی دعوت دے دی ہے اس طرح پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں نمایاں بہتری کے واضح آثار سامنے آئے ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ پاکستانی ٹیم اپنے اس مختصر دورے میں 3ون ڈے اور 2 ٹوئنٹی ٹوئنٹی میچ کھیلے گی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ذکا اشرف نے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ پاک بھارت سیریز کی بحالی بڑا بریک تھرو ہے۔
یہ اس حوالے سے ایک اچھی پیش رفت ہے کہ اس طرح نہ صرف دونوں پڑوسی ممالک کے تعلقات میں مزید استحکام آئے گا بلکہ ممکن ہے پاکستان پر انٹرنیشنل کرکٹ کے بند دروازے کھولنے میں بھی اس سے کچھ مدد ملے۔ اگرچہ پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات گزشتہ کچھ عرصے سے ٹھیک جا رہے ہیں اور تجارت کے فروغ کے بعد کشیدگی میں کافی کمی آئی ہے ویزوں کے حصول میں سہولت کے بعد جس میں مزید بہتری پیدا ہونے کی امید بھی کی جا رہی ہے تاہم سرحد کے دونوں اطراف ایسے کسی بریک تھرو کی ضرورت بھی شدت سے محسوس کی جا رہی تھی جو بالآخر مل گیا ہے اور توقع کی جا سکتی ہے کہ اس سے بہرحال آگے بڑھنے کا موقع میسر آئے گا۔ کرکٹ تعلقات کی بحالی اس حقیقت کا واضح اظہار ہے کہ بھارت دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں بہتری لانے کے سلسلے میں پاکستان کی جانب سے اب تک کیے گئے اقدامات سے پوری طرح مطمئن ہے جس سے یہ حوصلہ میسر آئے گا کہ مستقبل میں ان باہمی تعلقات کو مزید بڑھایا جا سکے گا اور بات چیت کے اس عمل کا رُخ ان دیرینہ مسائل کی جانب بھی موڑا جا سکے گا جن کے حل کی ضرورت ایک عرصے سے محسوس کی جا رہی ہے۔
اس ضرورت کو محض پاکستان اور بھارت کے عوام ہی نہیں محسوس کر رہے ہیں بلکہ اس خطے کے دیگر ممالک بھی دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کے خواہاں ہیں خاص طور وہ ممالک جو پاکستان کے دوست ہیں اور اس کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اس کا ثبوت وزیر اعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف کے دورئہ سعودی عرب کے دوران پیر کو ان کی خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے ساتھ ملاقات میں ہونے والی گفتگو سے لگایا جا سکتا ہے جس میں جہاں دوطرفہ تعلقات سمیت علاقے کی صورتحال اور عالمی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا وہاں سعودی شاہ نے پاک بھارت تعلقات کے بارے میں بھی استفسار کیا جس پر وزیر اعظم نے بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان مذاکراتی عمل کے تسلسل سے ان تعلقات میں بہتری آرہی ہے۔ شاہ عبداللہ نے پاک بھارت تعلقات میں بہتری کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس کے نتیجے میں دونوں ممالک کو فائدہ ہو گا۔
کرکٹ رابطے کی اس بحالی کو مذاکراتی عمل کا نتیجہ قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا کیونکہ ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ چند روز پہلے سیکریٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی نے اپنے دورئہ بھارت میں دونوں ملکوں میں کرکٹ کی بحالی پر بھی بات چیت کی تھی اور بھارتی کرکٹ بورڈ کے صدر سری نواسن نے بھی کہا ہے کہ پاک بھارت کرکٹ روابط کی بحالی 6 ماہ کے مذاکرات کا نتیجہ ہے۔ اب جب کہ یہ تعلق بحال ہو رہا ہے تو ضروری ہے کہ اس عمل کو مثبت معنوں میں لیا جائے اور ان میچوں کو پاک بھارت یُدھ سمجھنے کے بجائے کھیل کو کھیل سمجھا جائے جس میں جیت اس کے حصے میں آتی ہے جو اچھا کھیلتا ہے اور شکست اس کا مقدر بنتی ہے جو مناسب نہ کھیلے کیونکہ کھیل کوئی بھی ہو بہرحال اس میں جیتنا ایک ٹیم کو ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان نے آخری مرتبہ 2007 میں شعیب ملک کی قیادت میں بھارت کا دورہ کیا تھا۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق جنوری 2009 میں بھارتی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کرنا تھا مگر سیکیورٹی وجوہات کے سبب یہ دورہ منسوخ کر دیا گیا۔ اس کے بعد خیرسگالی کے طور پر سری لنکا کی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا تھا لیکن 3 مارچ کو لاہور میں دہشت گردوں نے ٹیم کو نشانہ بنایا' اس سانحہ کے بعد سے کسی بھی بیرونی ٹیم نے پاکستان کا دورہ نہیں کیا اور پاکستان کو اپنی کئی ہوم سیریز نیوٹرل مقامات پر کرانا پڑیں۔
گزشتہ برس ہونے والے ورلڈ کپ کے جو میچ پاکستان میں ہونے تھے وہ بھی سیکیورٹی کے خدشات کی بنا پر دوسرے ممالک میں کرائے گئے۔ اب پاک بھارت کرکٹ بحال ہونے جا رہی ہے تو ضروری ہے کہ ہماری قیادت ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر اور اطمینان بخش بنانے پر توجہ دے تاکہ اس سیریز کے بعد پاکستان بھی بھارت کو یہاں آ کر کھیلنے کی دعوت دینے کے قابل ہو سکے۔ پی سی بی کے چیئرمین کا یہ کہنا قابل غور بلکہ ایک طرح سے چیلنج ہے کہ صوبائی حکومتیں اگر سیکیورٹی کی ذمے داری لیں تو غیرملکی ٹیمیں پاکستان آکر کھیلنے کو تیار ہیں۔
تو چاروں صوبائی حکومتوں میں سے کوئی ہے جو پاکستان میں کرکٹ کی بحالی کے عظیم تر کاز کے لیے اس چیلنج کو قبول کرے اور یہ دعویٰ کر کے اسے پورا بھی کر سکے کہ وہ کسی بھی غیرملکی ٹیم کو پاکستان میں مکمل تحفظ فراہم کر سکتی ہے؟۔ یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان میں ایک کامیاب کرکٹ سیریز آیندہ کے لیے یہاں کرکٹ میچوں کے انعقاد کے در کھول دے گی اور یوں ہمارے کرکٹ کے میدانوں کی رونقیں بحال ہو سکتی ہیں۔ ہمارا مشورہ یہ ہے کہ اگر کوئی ایک صوبائی حکومت اس چیلنج کو قبول نہیں کر سکتی تو پھر وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں کو مشترکہ طور یہ چیلنج قبول کرنا چاہیے کیونکہ یہ پاکستان میں کرکٹ کی بحالی کے لیے بہت ضروری ہے۔
بتایا گیا ہے کہ پاکستانی ٹیم اپنے اس مختصر دورے میں 3ون ڈے اور 2 ٹوئنٹی ٹوئنٹی میچ کھیلے گی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ذکا اشرف نے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ پاک بھارت سیریز کی بحالی بڑا بریک تھرو ہے۔
یہ اس حوالے سے ایک اچھی پیش رفت ہے کہ اس طرح نہ صرف دونوں پڑوسی ممالک کے تعلقات میں مزید استحکام آئے گا بلکہ ممکن ہے پاکستان پر انٹرنیشنل کرکٹ کے بند دروازے کھولنے میں بھی اس سے کچھ مدد ملے۔ اگرچہ پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات گزشتہ کچھ عرصے سے ٹھیک جا رہے ہیں اور تجارت کے فروغ کے بعد کشیدگی میں کافی کمی آئی ہے ویزوں کے حصول میں سہولت کے بعد جس میں مزید بہتری پیدا ہونے کی امید بھی کی جا رہی ہے تاہم سرحد کے دونوں اطراف ایسے کسی بریک تھرو کی ضرورت بھی شدت سے محسوس کی جا رہی تھی جو بالآخر مل گیا ہے اور توقع کی جا سکتی ہے کہ اس سے بہرحال آگے بڑھنے کا موقع میسر آئے گا۔ کرکٹ تعلقات کی بحالی اس حقیقت کا واضح اظہار ہے کہ بھارت دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں بہتری لانے کے سلسلے میں پاکستان کی جانب سے اب تک کیے گئے اقدامات سے پوری طرح مطمئن ہے جس سے یہ حوصلہ میسر آئے گا کہ مستقبل میں ان باہمی تعلقات کو مزید بڑھایا جا سکے گا اور بات چیت کے اس عمل کا رُخ ان دیرینہ مسائل کی جانب بھی موڑا جا سکے گا جن کے حل کی ضرورت ایک عرصے سے محسوس کی جا رہی ہے۔
اس ضرورت کو محض پاکستان اور بھارت کے عوام ہی نہیں محسوس کر رہے ہیں بلکہ اس خطے کے دیگر ممالک بھی دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کے خواہاں ہیں خاص طور وہ ممالک جو پاکستان کے دوست ہیں اور اس کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اس کا ثبوت وزیر اعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف کے دورئہ سعودی عرب کے دوران پیر کو ان کی خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے ساتھ ملاقات میں ہونے والی گفتگو سے لگایا جا سکتا ہے جس میں جہاں دوطرفہ تعلقات سمیت علاقے کی صورتحال اور عالمی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا وہاں سعودی شاہ نے پاک بھارت تعلقات کے بارے میں بھی استفسار کیا جس پر وزیر اعظم نے بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان مذاکراتی عمل کے تسلسل سے ان تعلقات میں بہتری آرہی ہے۔ شاہ عبداللہ نے پاک بھارت تعلقات میں بہتری کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس کے نتیجے میں دونوں ممالک کو فائدہ ہو گا۔
کرکٹ رابطے کی اس بحالی کو مذاکراتی عمل کا نتیجہ قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا کیونکہ ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ چند روز پہلے سیکریٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی نے اپنے دورئہ بھارت میں دونوں ملکوں میں کرکٹ کی بحالی پر بھی بات چیت کی تھی اور بھارتی کرکٹ بورڈ کے صدر سری نواسن نے بھی کہا ہے کہ پاک بھارت کرکٹ روابط کی بحالی 6 ماہ کے مذاکرات کا نتیجہ ہے۔ اب جب کہ یہ تعلق بحال ہو رہا ہے تو ضروری ہے کہ اس عمل کو مثبت معنوں میں لیا جائے اور ان میچوں کو پاک بھارت یُدھ سمجھنے کے بجائے کھیل کو کھیل سمجھا جائے جس میں جیت اس کے حصے میں آتی ہے جو اچھا کھیلتا ہے اور شکست اس کا مقدر بنتی ہے جو مناسب نہ کھیلے کیونکہ کھیل کوئی بھی ہو بہرحال اس میں جیتنا ایک ٹیم کو ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان نے آخری مرتبہ 2007 میں شعیب ملک کی قیادت میں بھارت کا دورہ کیا تھا۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق جنوری 2009 میں بھارتی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کرنا تھا مگر سیکیورٹی وجوہات کے سبب یہ دورہ منسوخ کر دیا گیا۔ اس کے بعد خیرسگالی کے طور پر سری لنکا کی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا تھا لیکن 3 مارچ کو لاہور میں دہشت گردوں نے ٹیم کو نشانہ بنایا' اس سانحہ کے بعد سے کسی بھی بیرونی ٹیم نے پاکستان کا دورہ نہیں کیا اور پاکستان کو اپنی کئی ہوم سیریز نیوٹرل مقامات پر کرانا پڑیں۔
گزشتہ برس ہونے والے ورلڈ کپ کے جو میچ پاکستان میں ہونے تھے وہ بھی سیکیورٹی کے خدشات کی بنا پر دوسرے ممالک میں کرائے گئے۔ اب پاک بھارت کرکٹ بحال ہونے جا رہی ہے تو ضروری ہے کہ ہماری قیادت ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر اور اطمینان بخش بنانے پر توجہ دے تاکہ اس سیریز کے بعد پاکستان بھی بھارت کو یہاں آ کر کھیلنے کی دعوت دینے کے قابل ہو سکے۔ پی سی بی کے چیئرمین کا یہ کہنا قابل غور بلکہ ایک طرح سے چیلنج ہے کہ صوبائی حکومتیں اگر سیکیورٹی کی ذمے داری لیں تو غیرملکی ٹیمیں پاکستان آکر کھیلنے کو تیار ہیں۔
تو چاروں صوبائی حکومتوں میں سے کوئی ہے جو پاکستان میں کرکٹ کی بحالی کے عظیم تر کاز کے لیے اس چیلنج کو قبول کرے اور یہ دعویٰ کر کے اسے پورا بھی کر سکے کہ وہ کسی بھی غیرملکی ٹیم کو پاکستان میں مکمل تحفظ فراہم کر سکتی ہے؟۔ یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان میں ایک کامیاب کرکٹ سیریز آیندہ کے لیے یہاں کرکٹ میچوں کے انعقاد کے در کھول دے گی اور یوں ہمارے کرکٹ کے میدانوں کی رونقیں بحال ہو سکتی ہیں۔ ہمارا مشورہ یہ ہے کہ اگر کوئی ایک صوبائی حکومت اس چیلنج کو قبول نہیں کر سکتی تو پھر وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں کو مشترکہ طور یہ چیلنج قبول کرنا چاہیے کیونکہ یہ پاکستان میں کرکٹ کی بحالی کے لیے بہت ضروری ہے۔