داعش پاکستان میں ایک حقیقت آخری حصہ
اب پاکستان کی بات کریں تو پاکستان میں پہلے سے ہی داعش جیسی ذہنیت یا شاید اس سے بھی خطرناک ذہنیت موجود ہے
KARACHI:
اب پاکستان کی بات کریں تو پاکستان میں پہلے سے ہی داعش جیسی ذہنیت یا شاید اس سے بھی خطرناک ذہنیت موجود ہے،آرمی پبلک اسکول پشاورکا واقعہ ہو یا پھرکراچی میں سانحہ صفورا جیسی ہولناک دہشت گردی ہو، معصوم بچوں کے قتل سے لے کر خواتین اورجوانوں سمیت بزرگوں کو قتل کیا گیا ہے اور صرف یہ نہیں کہ قتل کیا گیا بلکہ انتہائی بربریت کی مثالیں رقم کی گئیں اور اس پر فخرکیا جاتا رہا، افسوس کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کے کچھ مذہبی حلقے بھی ان کارروائیوں پر پردہ ڈالنے کی کوششیں کرتے ہیں اور اس طرح کی سفاکانہ کارروائیوں کو جواز فراہم کرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔
کہا جارہاہے کہ داعش افغانستان کے بعد پاکستان میں بھی موجود ہے اور یہ صرف قیاس آرائیاں ہی نہیں بلکہ داعش کی وال چاکنگ پاکستان کے بڑے شہروں کراچی سمیت لاہور، ملتان اور اسلام آباد میں بھی دیکھی گئی ہے اور اسی طرح داعش کے جھنڈے بھی مذہبی جماعتوں کی ریلیوں اور جلسے جلوسوں میں نمایاں دیکھے جاتے رہے ہیں ، لیکن حال ہی میں حکومت کی جانب سے اس بات کی تردید کی گئی ہے کہ داعش پاکستان میں وجود نہیں رکھتی ، جی ہاں شاید یہاں پر عرب زبان بولنے والے اور انگلش، فرنچ ، اسپینش اورجرمن اور اٹالین زبان بولنے والے دہشت گرد نہ ملیں لیکن یہ بات مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں موجود طالبان دہشت گرد گروہ کے سرغنہ کہ جو پاکستانی ہیں۔
افغانی ہیں، تاجکستانی، ازبک، اوراس طرح دیگر زبانوںبشمول اردو، سرائیکی، پنجابی، پشتوسمیت دیگر زبانوں اور قومیتوں کے حامل ہیں، وہ بہر حال یہاں پر موجود ہیں اور انھوںنے اپنے مغربی اور عربی سمیت یورپی آقاؤں کی ایماء پر سرگرمیاں شروع کر دی ہیں اور اپنے وجود کا اعلان کردیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر حکومت کیوں اس بات سے انکار پر تلی ہوئی ہے کہ پاکستان میں داعش کے عناصر موجود ہیں؟ کیاحکومت پاکستان اس بات کو فراموش کررہی ہے کہ پاکستان سے داعش کی مدد کے لیے افراد ایندھن کے طور پر شام بھیجے جاتے رہے ہیں اور بڑی تعداد میں طالبان اور اسی ذہنیت کے لوگوں نے اس کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔
ہم سندھ اور پنجاب کو بطور مثال دیکھتے ہیں کہ آیا یہاں داعش کا وجود ہے یا نہیں، خود پنجاب کے اعلیٰ وزراء متعدد مرتبہ اس بات کا اعلان کرچکے ہیں کہ پنجاب میں داعش سے منسلک گروہ موجود ہیں اور پنجابی طالبان کی ٹرم بھی مشاہدے میں رہی ہے آخر ان پنجابی طالبان کا مطلب جنوبی پنجاب میں موجود وہ تربیتی مراکز اورگروہ تو نہیں جو حکومت پاکستان کی طرف سے کالعدم ہیں، یا پھر حال قریب کی ہی بات ہے کہ کچھ دہشتگردوں کو قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے پنجاب میں ہی ایک مقابلے کے دوران ہلاک کیا تھا۔
جن کے بارے میں بعد میں حقائق کھل کر سامنے آئے کہ ان تمام افراد کے داعش نامی دہشت گرد گروہ کے سرغنہ افراد کے ساتھ روابط تھے یا حال ہی میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے مزید کچھ دہشتگردوں کو دبئی سے گرفتارکیے گئے دہشتگردوں کو بھی ان کے منطقی انجام تک پہنچا دیا گیا ہے جو کہ واضح طور پر اس بات کی دلیل ہے کہ داعش سے تعلق رکھنے والے عناصر ملک بھر میں موجود ہیں۔ سندھ کی بات کریں تو یہاں بھی صورتحال ایسی ہی ہے یہاں پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعلیٰ اہلکار اپنی پریس کانفرنسوں میں اس بات کا اظہارکر چکے ہیں کہ کراچی سمیت اندرون سندھ میں داعش کا نیٹ ورک موجود ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخریہ کون لوگ ہیں؟ یقینا یہ وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو کالعدم گروہوں کے لیے کام کرتے ہیں اور اب موقع ملتے ہی ایک نئی دہشت گرد تنظیم کو وجود بخشنے کے لیے متحد ہوچکے ہیں ۔
2015 میں سندھ بھر میں اور بالخصوص کراچی جیسے شہر میں بھی داعش سے منسلک دہشت گردوں کی بڑی کارروائیوں میں سانحہ صفورا، Lobo's shooting، سبینہ محمود کا قتل ، پاکستان رینجرزکے اعلیٰ آفیسر بریگیڈ (ر) باسط پرخودکش حملہ ، مقناطیسی بم نصب کرکے نیوی اہلکاروں کا قتل، پرائیویٹ اسکولوں میں بم حملے، بوہری برادری پر بم حملوں سمیت ٹارگٹ کلنگ، پولیس گاڑیوں پرکریکر حملے، شکار پور دھماکہ، جیکب آباد دھماکا و دیگر شامل ہیں کہ جو واضح طور پر اشارہ ہے کہ کس طرح کالعدم گروہ داعش میں تبدیل ہورہے ہیں۔
2010میں کالعدم ٹی ٹی پی کے ایک دہشت گرد ابوخلیل نے ایک غیر ملکی خبررساں ادارے سے گفتگوکرتے ہوئے، اس بات کا انکشاف کیاکہ ان کے پاس 0.2ملین دہشت گرد موجود ہیں اور وہ کسی بھی وقت کراچی شہر سمیت کسی بھی اہم مقام کو اپنے قبضے میں لے سکتے ہیں،اپنے اسی انکشاف میں ابوخلیل نے اعتراف کیا کہ تحریک طالبان پاکستان اورداعش کے درمیان باہم تعلقات اور ہم آہنگی موجود ہے اورداعش نے ہمیں بہت سے موقعوں پر رہنمائی فراہم کی ہے تا کہ دنیا میں اسلامی حکومت قائم کی جائے۔
ابوخلیل نے داعش اور طالبان کے لوکل گروہوں کے مابین کسی قسم کا کوئی اختلاف موجود نہیں ہے، ہماری شوریٰ اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ کس وقت پاکستان میں داعش کے باقاعدہ وجودکا اعلان کرنا ہے اورکراچی کو اپنے قبضے میں لینا ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ سانحہ صفوراکراچی میں واضح طور پر داعش کے ملوث ہونے کے امکانات موجود رہے ہیں کیونکہ اس سانحے کی تحقیقات کرنے والے پولیس کے اعلیٰ آفیسر نے خود اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ سانحہ صفورا میں داعش ملوث ہے۔آئی جی سندھ نے اپنی بریفنگ میں کہا تھا کہ پاکستان میں موجود دہشت گرد گروہ شام میں موجود داعش کے سرغنہ عبد العزیز نامی دہشت گرد سے ہدایات وصول کرتے ہیں۔
ان دہشت گرد گروہوں بالخصوص داعش کے لیے کام کرنے والوں میں پاکستان کی بڑی اور معروف جامعات (یونیورسٹیوں) کے طلباء سرگرم عمل ہیں جن کے پاس اعلیٰ تعلیم کی ڈگریاں ہیں اور صفورا حملے سے قبل ایک سال سے یہی عناصر منصوبہ بندی میں بھی ملوث رہے ہیں، آئی جی سندھ کیمطابق سندھ پولیس نے ایک سال کے دورانیے میں القاعدہ نامی دہشت گرد گروہ سے تعلق رکھنے والے 167دہشت گردوں جب کہ دیگر کالعدم دہشت گرد گروہوں کے 644دہشت گردوں کوگرفتار کیا ہے جب کہ متعدد پولیس مقابلوں میں ہلاک بھی ہوئے ہیں۔
ایک اور اعلیٰ پولیس آفیسرکے مطابق داعش نے پاکستان میں بھی دوسرے ممالک کی طرح سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوانوں کی برین واشنگ کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ماضی قریب میں اخبارات میں شایع ہونے والی ایک خبر میں داعش کے ساتھ کام کرنیوالے پانچ دہشت گردوں کی گرفتاری ظاہرکی گئی تھی ۔دہشت گردوں نے انکشاف کیا کہ پاکستان میں داعش کو چلانیوالا شام میں بیٹھا عبدالعزیز نامی دہشت گرد ہے۔
اسی طرح پاکستان کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے بھی کچھ دہشتگردوں کوگرفتارکیا گیا تھا، جن کی تحقیق کے بعد علم ہوا تھا کہ داعش کے لیے سرگرم تھے،اسی طرح متحدہ قومی موومنٹ کے ڈاکٹر فاروق ستار نے اکتوبر میں وائس آف امریکا سے گفتگو کرتے ہوئے داعش کی پاکستان میں موجودگی کا خدشہ ظاہرکیا تھا جب کہ وائس آف امریکا اردو سروس سے بات چیت کرتے ہوئے فیض الرحمان ستار نے بھی یونیورسٹیوں میں نوجوانوں کی داعش کی طرف بڑھتی ہوئی رغبت کی طرف نشاندہی کی تھی۔
قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی متعدد رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ مختلف یونیورسٹیوں میں پروفیسرز اور اساتذہ بھی داعش کے لیے جوانوں کو بھرتی کرنے کے گھناؤنے فعل میں ملوث ہیں جب کہ دوسری جانب فیس بک اور ٹوئیٹر کے ذریعے نوجوانوں کی مکمل برین واشنگ کا عمل بھی جاری ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان میں موجود بہت سی کالعدم مذہبی جماعتیں اس وقت پاکستان میں داعش کو پروان چڑھانے کے لیے سرگرم عمل ہیں اورضرورت اس امرکی ہے کہ افواج پاکستان کی جانب سے جاری ضرب عضب کو مزید تیزہونا چاہیے تا کہ ان ملک دشمن اور اسلام دشمن داعش یا طالبان یا کوئی اور نام ہی سہی،ان سب سے ہمیں چھٹکارا حاصل ہو اور پاکستان کو امن وسکون میسرآئے۔
یہاں پھر سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور جیسے واقعات بھی نہ ہوں، یہاں مذہبی اجتماعات بھی پر امن ہوں، یہاں پھر ہمیں سانحہ صفورا جیسی ہولناک دہشتگردی کا سامنا نہ ہو، یہاں معماران پاکستان کی ٹارگٹ کلنگ نہ ہو، یہاں ایک ایسا پاکستان ہوکہ جس میں امن و سکون، محبت،اخوت وبھائی چارہ، ہم آہنگی، دوستی ، محبت وآشتی موجود ہو تاکہ پاکستان ترقی کرے آگے بڑھے اور یہاں کے عوام خوش حال ہوں۔
اب پاکستان کی بات کریں تو پاکستان میں پہلے سے ہی داعش جیسی ذہنیت یا شاید اس سے بھی خطرناک ذہنیت موجود ہے،آرمی پبلک اسکول پشاورکا واقعہ ہو یا پھرکراچی میں سانحہ صفورا جیسی ہولناک دہشت گردی ہو، معصوم بچوں کے قتل سے لے کر خواتین اورجوانوں سمیت بزرگوں کو قتل کیا گیا ہے اور صرف یہ نہیں کہ قتل کیا گیا بلکہ انتہائی بربریت کی مثالیں رقم کی گئیں اور اس پر فخرکیا جاتا رہا، افسوس کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کے کچھ مذہبی حلقے بھی ان کارروائیوں پر پردہ ڈالنے کی کوششیں کرتے ہیں اور اس طرح کی سفاکانہ کارروائیوں کو جواز فراہم کرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔
کہا جارہاہے کہ داعش افغانستان کے بعد پاکستان میں بھی موجود ہے اور یہ صرف قیاس آرائیاں ہی نہیں بلکہ داعش کی وال چاکنگ پاکستان کے بڑے شہروں کراچی سمیت لاہور، ملتان اور اسلام آباد میں بھی دیکھی گئی ہے اور اسی طرح داعش کے جھنڈے بھی مذہبی جماعتوں کی ریلیوں اور جلسے جلوسوں میں نمایاں دیکھے جاتے رہے ہیں ، لیکن حال ہی میں حکومت کی جانب سے اس بات کی تردید کی گئی ہے کہ داعش پاکستان میں وجود نہیں رکھتی ، جی ہاں شاید یہاں پر عرب زبان بولنے والے اور انگلش، فرنچ ، اسپینش اورجرمن اور اٹالین زبان بولنے والے دہشت گرد نہ ملیں لیکن یہ بات مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں موجود طالبان دہشت گرد گروہ کے سرغنہ کہ جو پاکستانی ہیں۔
افغانی ہیں، تاجکستانی، ازبک، اوراس طرح دیگر زبانوںبشمول اردو، سرائیکی، پنجابی، پشتوسمیت دیگر زبانوں اور قومیتوں کے حامل ہیں، وہ بہر حال یہاں پر موجود ہیں اور انھوںنے اپنے مغربی اور عربی سمیت یورپی آقاؤں کی ایماء پر سرگرمیاں شروع کر دی ہیں اور اپنے وجود کا اعلان کردیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر حکومت کیوں اس بات سے انکار پر تلی ہوئی ہے کہ پاکستان میں داعش کے عناصر موجود ہیں؟ کیاحکومت پاکستان اس بات کو فراموش کررہی ہے کہ پاکستان سے داعش کی مدد کے لیے افراد ایندھن کے طور پر شام بھیجے جاتے رہے ہیں اور بڑی تعداد میں طالبان اور اسی ذہنیت کے لوگوں نے اس کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔
ہم سندھ اور پنجاب کو بطور مثال دیکھتے ہیں کہ آیا یہاں داعش کا وجود ہے یا نہیں، خود پنجاب کے اعلیٰ وزراء متعدد مرتبہ اس بات کا اعلان کرچکے ہیں کہ پنجاب میں داعش سے منسلک گروہ موجود ہیں اور پنجابی طالبان کی ٹرم بھی مشاہدے میں رہی ہے آخر ان پنجابی طالبان کا مطلب جنوبی پنجاب میں موجود وہ تربیتی مراکز اورگروہ تو نہیں جو حکومت پاکستان کی طرف سے کالعدم ہیں، یا پھر حال قریب کی ہی بات ہے کہ کچھ دہشتگردوں کو قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے پنجاب میں ہی ایک مقابلے کے دوران ہلاک کیا تھا۔
جن کے بارے میں بعد میں حقائق کھل کر سامنے آئے کہ ان تمام افراد کے داعش نامی دہشت گرد گروہ کے سرغنہ افراد کے ساتھ روابط تھے یا حال ہی میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے مزید کچھ دہشتگردوں کو دبئی سے گرفتارکیے گئے دہشتگردوں کو بھی ان کے منطقی انجام تک پہنچا دیا گیا ہے جو کہ واضح طور پر اس بات کی دلیل ہے کہ داعش سے تعلق رکھنے والے عناصر ملک بھر میں موجود ہیں۔ سندھ کی بات کریں تو یہاں بھی صورتحال ایسی ہی ہے یہاں پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعلیٰ اہلکار اپنی پریس کانفرنسوں میں اس بات کا اظہارکر چکے ہیں کہ کراچی سمیت اندرون سندھ میں داعش کا نیٹ ورک موجود ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخریہ کون لوگ ہیں؟ یقینا یہ وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو کالعدم گروہوں کے لیے کام کرتے ہیں اور اب موقع ملتے ہی ایک نئی دہشت گرد تنظیم کو وجود بخشنے کے لیے متحد ہوچکے ہیں ۔
2015 میں سندھ بھر میں اور بالخصوص کراچی جیسے شہر میں بھی داعش سے منسلک دہشت گردوں کی بڑی کارروائیوں میں سانحہ صفورا، Lobo's shooting، سبینہ محمود کا قتل ، پاکستان رینجرزکے اعلیٰ آفیسر بریگیڈ (ر) باسط پرخودکش حملہ ، مقناطیسی بم نصب کرکے نیوی اہلکاروں کا قتل، پرائیویٹ اسکولوں میں بم حملے، بوہری برادری پر بم حملوں سمیت ٹارگٹ کلنگ، پولیس گاڑیوں پرکریکر حملے، شکار پور دھماکہ، جیکب آباد دھماکا و دیگر شامل ہیں کہ جو واضح طور پر اشارہ ہے کہ کس طرح کالعدم گروہ داعش میں تبدیل ہورہے ہیں۔
2010میں کالعدم ٹی ٹی پی کے ایک دہشت گرد ابوخلیل نے ایک غیر ملکی خبررساں ادارے سے گفتگوکرتے ہوئے، اس بات کا انکشاف کیاکہ ان کے پاس 0.2ملین دہشت گرد موجود ہیں اور وہ کسی بھی وقت کراچی شہر سمیت کسی بھی اہم مقام کو اپنے قبضے میں لے سکتے ہیں،اپنے اسی انکشاف میں ابوخلیل نے اعتراف کیا کہ تحریک طالبان پاکستان اورداعش کے درمیان باہم تعلقات اور ہم آہنگی موجود ہے اورداعش نے ہمیں بہت سے موقعوں پر رہنمائی فراہم کی ہے تا کہ دنیا میں اسلامی حکومت قائم کی جائے۔
ابوخلیل نے داعش اور طالبان کے لوکل گروہوں کے مابین کسی قسم کا کوئی اختلاف موجود نہیں ہے، ہماری شوریٰ اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ کس وقت پاکستان میں داعش کے باقاعدہ وجودکا اعلان کرنا ہے اورکراچی کو اپنے قبضے میں لینا ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ سانحہ صفوراکراچی میں واضح طور پر داعش کے ملوث ہونے کے امکانات موجود رہے ہیں کیونکہ اس سانحے کی تحقیقات کرنے والے پولیس کے اعلیٰ آفیسر نے خود اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ سانحہ صفورا میں داعش ملوث ہے۔آئی جی سندھ نے اپنی بریفنگ میں کہا تھا کہ پاکستان میں موجود دہشت گرد گروہ شام میں موجود داعش کے سرغنہ عبد العزیز نامی دہشت گرد سے ہدایات وصول کرتے ہیں۔
ان دہشت گرد گروہوں بالخصوص داعش کے لیے کام کرنے والوں میں پاکستان کی بڑی اور معروف جامعات (یونیورسٹیوں) کے طلباء سرگرم عمل ہیں جن کے پاس اعلیٰ تعلیم کی ڈگریاں ہیں اور صفورا حملے سے قبل ایک سال سے یہی عناصر منصوبہ بندی میں بھی ملوث رہے ہیں، آئی جی سندھ کیمطابق سندھ پولیس نے ایک سال کے دورانیے میں القاعدہ نامی دہشت گرد گروہ سے تعلق رکھنے والے 167دہشت گردوں جب کہ دیگر کالعدم دہشت گرد گروہوں کے 644دہشت گردوں کوگرفتار کیا ہے جب کہ متعدد پولیس مقابلوں میں ہلاک بھی ہوئے ہیں۔
ایک اور اعلیٰ پولیس آفیسرکے مطابق داعش نے پاکستان میں بھی دوسرے ممالک کی طرح سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوانوں کی برین واشنگ کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ماضی قریب میں اخبارات میں شایع ہونے والی ایک خبر میں داعش کے ساتھ کام کرنیوالے پانچ دہشت گردوں کی گرفتاری ظاہرکی گئی تھی ۔دہشت گردوں نے انکشاف کیا کہ پاکستان میں داعش کو چلانیوالا شام میں بیٹھا عبدالعزیز نامی دہشت گرد ہے۔
اسی طرح پاکستان کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے بھی کچھ دہشتگردوں کوگرفتارکیا گیا تھا، جن کی تحقیق کے بعد علم ہوا تھا کہ داعش کے لیے سرگرم تھے،اسی طرح متحدہ قومی موومنٹ کے ڈاکٹر فاروق ستار نے اکتوبر میں وائس آف امریکا سے گفتگو کرتے ہوئے داعش کی پاکستان میں موجودگی کا خدشہ ظاہرکیا تھا جب کہ وائس آف امریکا اردو سروس سے بات چیت کرتے ہوئے فیض الرحمان ستار نے بھی یونیورسٹیوں میں نوجوانوں کی داعش کی طرف بڑھتی ہوئی رغبت کی طرف نشاندہی کی تھی۔
قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی متعدد رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ مختلف یونیورسٹیوں میں پروفیسرز اور اساتذہ بھی داعش کے لیے جوانوں کو بھرتی کرنے کے گھناؤنے فعل میں ملوث ہیں جب کہ دوسری جانب فیس بک اور ٹوئیٹر کے ذریعے نوجوانوں کی مکمل برین واشنگ کا عمل بھی جاری ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان میں موجود بہت سی کالعدم مذہبی جماعتیں اس وقت پاکستان میں داعش کو پروان چڑھانے کے لیے سرگرم عمل ہیں اورضرورت اس امرکی ہے کہ افواج پاکستان کی جانب سے جاری ضرب عضب کو مزید تیزہونا چاہیے تا کہ ان ملک دشمن اور اسلام دشمن داعش یا طالبان یا کوئی اور نام ہی سہی،ان سب سے ہمیں چھٹکارا حاصل ہو اور پاکستان کو امن وسکون میسرآئے۔
یہاں پھر سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور جیسے واقعات بھی نہ ہوں، یہاں مذہبی اجتماعات بھی پر امن ہوں، یہاں پھر ہمیں سانحہ صفورا جیسی ہولناک دہشتگردی کا سامنا نہ ہو، یہاں معماران پاکستان کی ٹارگٹ کلنگ نہ ہو، یہاں ایک ایسا پاکستان ہوکہ جس میں امن و سکون، محبت،اخوت وبھائی چارہ، ہم آہنگی، دوستی ، محبت وآشتی موجود ہو تاکہ پاکستان ترقی کرے آگے بڑھے اور یہاں کے عوام خوش حال ہوں۔