حالیہ بلدیاتی انتخابات اورکراچی کے مسائل…
کراچی میں ہونیوالے بلدیاتی انتخابات پرامن رہے جس کا کریڈٹ سیکیورٹی اداروں خصوصاً رینجرزکو جاتا ہے
KARACHI:
ملک کے سب سے بڑے شہرکراچی میں ہونیوالے بلدیاتی انتخابات پرامن رہے جس کا کریڈٹ سیکیورٹی اداروں خصوصاً رینجرزکو جاتا ہے، جنھوں نے بروقت کارروائی کرکے شہر میں کسی بڑے ناخوشگوار واقعے کو رونما ہونے سے روکا۔ اگرچہ ان بلدیاتی انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ انتہائی کم تقریباً 25 فی صد رہا۔ جوکہ یقینا قابل تشویش ہے لیکن بہرحال ان انتخابات کے انعقاد نے بلدیاتی اداروں کی داغ بیل ڈال دی جوکہ انتہائی طویل عرصے سے صرف ایک خواب ہی نظر آتا تھا، صوبائی حکومت کی طرف سے لیت ولعل کے باوجود ان انتخابات کا بالآخر انعقاد ملک میں جمہوریت کے لیے ایک نیک شگون ہے۔
توقعات کے عین مطابق متحدہ قومی موومنٹ نے ایک بار پھر اپنا میئر بنانے کے لیے واضح اکثریت حاصل کرلی۔ جب کہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کا اتحاد کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کرسکا۔ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ ان انتخابات میں کم ووٹر ٹرن آؤٹ نے تحریک انصاف کو نقصان پہنچایا،کیونکہ نیوٹرل ووٹرز کے بارے میں عمومی تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ تحریک انصاف کے خاموش سپورٹرزہیں۔
جب کہ متحدہ کے روایتی ووٹرز نے باہرآکر اپنی جماعت کو سپورٹ کیا۔سندھ کی حکمران جماعت لیاری کے علاقے میں زیادہ سیٹیں تو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی لیکن اب اس علاقے کو حکمران جماعت کا مضبوط گڑھ نہیں گردانا جاسکتا، حیرت انگیز طور پر پاکستان مسلم لیگ (ن) نے بھی شہر میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا اور اس جماعت نے بغیر کسی انتخابی مہم کے باوجود تحریک انصاف سے زیادہ سیٹیں حاصل کیں۔ جوکہ کئی ماہرین کے نزدیک ایک حیرت انگیز امر مانا جارہا ہے۔ اس وقت ملک کا سب سے بڑا شہر ایک احساس محرومی میں مبتلا ہے، شہرکو بے پناہ مسائل کا سامنا ہے اور سندھ کی سائیں سرکارکی توجہ حاصل کرنے میں بالکل ناکام رہا ہے۔
ملک کے دوسرے بڑے شہر لاہور سے اس کا موازنہ کیا جائے تو کراچی کی بہت ہی اجڑی ہوئی تصویر نظر آتی ہے۔ مشرف دور میں سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کی قابل قدرکاوشوں نے اس شہر میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھا لیا تھا لیکن اس دورکے بعد سے تو اس شہر کا توکوئی والی وارث نہیں رہا۔ شہر کو اس وقت اپنی ضرورت کے صرف 50 سے 60 فی صد تک پانی فراہم کیا جارہا ہے اور لوگ پینے کے پانی کی شدید قلت سے دوچار ہیں۔ یعنی تقریباً2 کروڑ آبادی والے شہر کو جو دنیا کے کئی ملکوں سے بڑا ہے۔
اس وقت بنیادی سہولتوں کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ تقریباً 1 کروڑ انسان پانی جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہیں اور ٹینکر مافیا اور زیرزمین پانی کے رحم وکرم پر ہیں۔ مطلوبہ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے زیرزمین پانی کی سطح بھی کافی کم ہوگئی ہے جس کی وجہ سے لوگ ایک شدید ذہنی اذیت کا سامنا ہے۔کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ مختلف مالی مسائل کی وجہ سے، عضو معطل بن چکا ہے شہرکی سڑکوں اور شاہراہوں پر جگہ جگہ گٹر ابلتے نظر آتے ہیں اور سیوریج کے پانی نے لوگوں کی زندگی اجیرن کردی ہے، شہر میں قائم نکاسی آب کا نظام بالکل مفلوج ہے اور اکثر نالے تجاوزات کی وجہ سے یا پھر مناسب صفائی نہ ہونے کے باعث بند پڑے ہیں۔
اب یہ شہر کی بد قسمتی یا خوش قسمتی کہ بارش سالوں میں اپنی شکل اس شہر کو دکھاتی ہیں ورنہ تو ہر شہر پانی کے سیلاب میں ہی بہہ جائے۔ سڑکوں کی زبوں حالی اور ٹوٹ پھوٹ ٹریفک کے نظام میں سنگین خلل کا سبب ہے۔ شہر میں بڑھتی آبادی اور تجاوزات کی بھرمار نے سڑکوں کا نظام بالکل تباہ وبرباد کردیا ہے۔
شہر میں ٹرانسپورٹ کا کوئی مناسب انتظام نہ ہونے کے باعث شہری ٹوٹی پھوٹی بسوں کی چھتوں پر سفرکرنے پر مجبور ہے، سرکلر ریلوے کے بحال نہ ہونے کے باعث شہریوں کو ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچنے کے لیے کئی جتن کرنے پڑتے ہیں، کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کرپشن اور بدانتظامی کی وجہ سے زوال پذیر ہے اور شہر میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر موجود ہیں جن سے تعفن اٹھنا اور بیماریوں کا ظہور پذیر ہونا اب معمول بن گیا ہے، شہر میں جگہ جگہ آوارہ کتوں کے غول خواتین اور بچوں کے لیے بالخصوص اور شہریوں کے لیے بالعموم درد سر بن گئے ہیں۔
چنگ چی رکشوں کی بندش کے بعد شہری گھنٹوں اپنی منزل پر پہنچنے کے لیے شہر میں ناپید ہونے والی پبلک ٹرانسپورٹ کی راہ تکتے نظر آتے ہیں جس پر ان سے صرف ہمدردی کی جاسکتی ہے، شہر میں موجودہ لوکل گورنمنٹ اسپتال اور اسکول حکومتی بے حسی کا مظہر ہیں اور وہاں انسانوں کے لیے اب کوئی سہولت باقی نہیں، شہر میں بڑھتی ہوئی ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لیے پچھلے 7 سے 8 سال میں کوئی قابل ذکر منصوبہ نہیں بنا جب کہ اس کے لیے کئی پل اور انڈر پاسز کی شدید ضرورت تھی۔
لیکن اس مقصد کے لیے کوئی فنڈز ہی مختص نہیں کیے گئے پچھلے دنوں جب ٹریفک پولیس نے ڈرائیونگ لائسنس چیک کرنے کی مہم شروع کی تو اس میں یہ پتہ چلاکر شہر میں چلنے والی 35 لاکھ گاڑیوں میں سے کثیر تعداد کے پاس یا تو لائسنس سرے سے ہی نہیں یا پھر وہ جعلی لائسنس پرگزارہ کررہے ہیں اور جب اس سلسلے میں ایک ڈیڈ لائن دی گئی تو شہریوں کا ایک سیلاب لائسنس بنوانے کے لیے پورے شہر میں قائم صرف 3 لائسنس برانچوں پر امڈ آیا اور ایک افراتفری کی صورتحال رونما ہوگئی جس کی وجہ سے حکمرانوں کو اس ڈیڈ لائن میں توسیع کرنا پڑی۔ سوال یہ ہے کہ دو کروڑ آبادی والے شہر میں کیا صرف 3 برانچیں لائسنس کے اجراکے لیے کافی ہیں۔
لیکن کون ان مسائل کا ادراک کرے؟ اس کے علاوہ شہر میں قبضہ مافیا کا راج، منشیات فروشی کے اڈے، چائنا کٹنگ اورغیر قانونی اور بے ہنگم تعمیرات کے مسائل بھی اب سنگین نوعیت اختیار کرچکے ہیں۔
شہر میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کے بعد کیا یہاں کے شہری اپنے لیے کسی حکومتی ریسکیو سروس یا ایمبولینس سروس اور ناپید ہوتی ہوئی فائر بریگیڈ کی گاڑیاں حاصل کر پائیں گے؟ اس سوال کا جواب تو ابھی بہت دور ہے برسوں سے جمع ہوئے یہ مسائل ایک بے اختیار میئر حل کرسکے گا؟ کیوں کہ ان انتخابات سے پہلے ہی حکومت نے ضروری اختیارات اپنے ہاتھ میں مرتکز کرلیے تھے اور اب ایک ڈمی میئر کیا شہر کے مسائل کو حل کرسکے گا؟
یہ وہ ایک بہت بڑا سوال ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے اقتدار کی رسہ کشی کے اس کھیل میں صوبائی حکومت نے قوانین میں تبدیلی کرتے ہوئے اختیارات اپنے پاس منتقل کرلیے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ کراچی کے لوگوں کو ان انتخابات سے شاید بہت زیادہ امیدیں نہیں جس کی وجہ سے ووٹر ٹرن آؤٹ بہت کم رہا، آنیوالے دنوں میں مقامی حکومت اور سائیں سرکار کے درمیان کھینچا تانی اب بالکل عیاں نظر آتی ہے،کیونکہ مقامی حکومتوں کے عہدیدار اور میئر اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود سندھ حکومت کی طرف سے فنڈز ریلیزکرانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔
کراچی کے بلدیاتی مسائل بہت سنگین ہیں ان کو حل کرنا اتنا آسان نہ ہوگا اگر متحدہ کے منتخب میئر اور عہدیدار ان تمام تر مشکلات کے باوجود شہر کے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور وہ یقیناً تحسین کے مستحق ہوں گے فی الحال یہ اتنا آسان نظر نہیں آتا یقیناً شہر کی میئر شپ متحدہ کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہوگی جس میں کامیاب ہونے کے بعد اختیارات کی جنگ مسائل کے حل میں ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہوسکتی ہے۔
امید کی جانی چاہیے کہ صوبائی حکومت اس کو انا کا مسئلہ بنانے کے بجائے منتخب شہری حکومت کے ساتھ پورا تعاون کرے گی، اس تعاون کے بغیرشہر کے بڑھتے ہوئے ان گنت مسائل کا حل ناممکن ہے اس میں شہر اور ملک کی فلاح مضمر ہے۔ کاش کہ سارے اسٹیک ہولڈرز متحد ہوکر اس شہرکا احساس محرومی ختم کرنے کے لیے ایک صفحے پر آجائیں اور اس شہرکو دوبارہ روشنیوں کا آشیانہ بنادیں۔
ملک کے سب سے بڑے شہرکراچی میں ہونیوالے بلدیاتی انتخابات پرامن رہے جس کا کریڈٹ سیکیورٹی اداروں خصوصاً رینجرزکو جاتا ہے، جنھوں نے بروقت کارروائی کرکے شہر میں کسی بڑے ناخوشگوار واقعے کو رونما ہونے سے روکا۔ اگرچہ ان بلدیاتی انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ انتہائی کم تقریباً 25 فی صد رہا۔ جوکہ یقینا قابل تشویش ہے لیکن بہرحال ان انتخابات کے انعقاد نے بلدیاتی اداروں کی داغ بیل ڈال دی جوکہ انتہائی طویل عرصے سے صرف ایک خواب ہی نظر آتا تھا، صوبائی حکومت کی طرف سے لیت ولعل کے باوجود ان انتخابات کا بالآخر انعقاد ملک میں جمہوریت کے لیے ایک نیک شگون ہے۔
توقعات کے عین مطابق متحدہ قومی موومنٹ نے ایک بار پھر اپنا میئر بنانے کے لیے واضح اکثریت حاصل کرلی۔ جب کہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کا اتحاد کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کرسکا۔ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ ان انتخابات میں کم ووٹر ٹرن آؤٹ نے تحریک انصاف کو نقصان پہنچایا،کیونکہ نیوٹرل ووٹرز کے بارے میں عمومی تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ تحریک انصاف کے خاموش سپورٹرزہیں۔
جب کہ متحدہ کے روایتی ووٹرز نے باہرآکر اپنی جماعت کو سپورٹ کیا۔سندھ کی حکمران جماعت لیاری کے علاقے میں زیادہ سیٹیں تو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی لیکن اب اس علاقے کو حکمران جماعت کا مضبوط گڑھ نہیں گردانا جاسکتا، حیرت انگیز طور پر پاکستان مسلم لیگ (ن) نے بھی شہر میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا اور اس جماعت نے بغیر کسی انتخابی مہم کے باوجود تحریک انصاف سے زیادہ سیٹیں حاصل کیں۔ جوکہ کئی ماہرین کے نزدیک ایک حیرت انگیز امر مانا جارہا ہے۔ اس وقت ملک کا سب سے بڑا شہر ایک احساس محرومی میں مبتلا ہے، شہرکو بے پناہ مسائل کا سامنا ہے اور سندھ کی سائیں سرکارکی توجہ حاصل کرنے میں بالکل ناکام رہا ہے۔
ملک کے دوسرے بڑے شہر لاہور سے اس کا موازنہ کیا جائے تو کراچی کی بہت ہی اجڑی ہوئی تصویر نظر آتی ہے۔ مشرف دور میں سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کی قابل قدرکاوشوں نے اس شہر میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھا لیا تھا لیکن اس دورکے بعد سے تو اس شہر کا توکوئی والی وارث نہیں رہا۔ شہر کو اس وقت اپنی ضرورت کے صرف 50 سے 60 فی صد تک پانی فراہم کیا جارہا ہے اور لوگ پینے کے پانی کی شدید قلت سے دوچار ہیں۔ یعنی تقریباً2 کروڑ آبادی والے شہر کو جو دنیا کے کئی ملکوں سے بڑا ہے۔
اس وقت بنیادی سہولتوں کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ تقریباً 1 کروڑ انسان پانی جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہیں اور ٹینکر مافیا اور زیرزمین پانی کے رحم وکرم پر ہیں۔ مطلوبہ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے زیرزمین پانی کی سطح بھی کافی کم ہوگئی ہے جس کی وجہ سے لوگ ایک شدید ذہنی اذیت کا سامنا ہے۔کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ مختلف مالی مسائل کی وجہ سے، عضو معطل بن چکا ہے شہرکی سڑکوں اور شاہراہوں پر جگہ جگہ گٹر ابلتے نظر آتے ہیں اور سیوریج کے پانی نے لوگوں کی زندگی اجیرن کردی ہے، شہر میں قائم نکاسی آب کا نظام بالکل مفلوج ہے اور اکثر نالے تجاوزات کی وجہ سے یا پھر مناسب صفائی نہ ہونے کے باعث بند پڑے ہیں۔
اب یہ شہر کی بد قسمتی یا خوش قسمتی کہ بارش سالوں میں اپنی شکل اس شہر کو دکھاتی ہیں ورنہ تو ہر شہر پانی کے سیلاب میں ہی بہہ جائے۔ سڑکوں کی زبوں حالی اور ٹوٹ پھوٹ ٹریفک کے نظام میں سنگین خلل کا سبب ہے۔ شہر میں بڑھتی آبادی اور تجاوزات کی بھرمار نے سڑکوں کا نظام بالکل تباہ وبرباد کردیا ہے۔
شہر میں ٹرانسپورٹ کا کوئی مناسب انتظام نہ ہونے کے باعث شہری ٹوٹی پھوٹی بسوں کی چھتوں پر سفرکرنے پر مجبور ہے، سرکلر ریلوے کے بحال نہ ہونے کے باعث شہریوں کو ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچنے کے لیے کئی جتن کرنے پڑتے ہیں، کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کرپشن اور بدانتظامی کی وجہ سے زوال پذیر ہے اور شہر میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر موجود ہیں جن سے تعفن اٹھنا اور بیماریوں کا ظہور پذیر ہونا اب معمول بن گیا ہے، شہر میں جگہ جگہ آوارہ کتوں کے غول خواتین اور بچوں کے لیے بالخصوص اور شہریوں کے لیے بالعموم درد سر بن گئے ہیں۔
چنگ چی رکشوں کی بندش کے بعد شہری گھنٹوں اپنی منزل پر پہنچنے کے لیے شہر میں ناپید ہونے والی پبلک ٹرانسپورٹ کی راہ تکتے نظر آتے ہیں جس پر ان سے صرف ہمدردی کی جاسکتی ہے، شہر میں موجودہ لوکل گورنمنٹ اسپتال اور اسکول حکومتی بے حسی کا مظہر ہیں اور وہاں انسانوں کے لیے اب کوئی سہولت باقی نہیں، شہر میں بڑھتی ہوئی ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لیے پچھلے 7 سے 8 سال میں کوئی قابل ذکر منصوبہ نہیں بنا جب کہ اس کے لیے کئی پل اور انڈر پاسز کی شدید ضرورت تھی۔
لیکن اس مقصد کے لیے کوئی فنڈز ہی مختص نہیں کیے گئے پچھلے دنوں جب ٹریفک پولیس نے ڈرائیونگ لائسنس چیک کرنے کی مہم شروع کی تو اس میں یہ پتہ چلاکر شہر میں چلنے والی 35 لاکھ گاڑیوں میں سے کثیر تعداد کے پاس یا تو لائسنس سرے سے ہی نہیں یا پھر وہ جعلی لائسنس پرگزارہ کررہے ہیں اور جب اس سلسلے میں ایک ڈیڈ لائن دی گئی تو شہریوں کا ایک سیلاب لائسنس بنوانے کے لیے پورے شہر میں قائم صرف 3 لائسنس برانچوں پر امڈ آیا اور ایک افراتفری کی صورتحال رونما ہوگئی جس کی وجہ سے حکمرانوں کو اس ڈیڈ لائن میں توسیع کرنا پڑی۔ سوال یہ ہے کہ دو کروڑ آبادی والے شہر میں کیا صرف 3 برانچیں لائسنس کے اجراکے لیے کافی ہیں۔
لیکن کون ان مسائل کا ادراک کرے؟ اس کے علاوہ شہر میں قبضہ مافیا کا راج، منشیات فروشی کے اڈے، چائنا کٹنگ اورغیر قانونی اور بے ہنگم تعمیرات کے مسائل بھی اب سنگین نوعیت اختیار کرچکے ہیں۔
شہر میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کے بعد کیا یہاں کے شہری اپنے لیے کسی حکومتی ریسکیو سروس یا ایمبولینس سروس اور ناپید ہوتی ہوئی فائر بریگیڈ کی گاڑیاں حاصل کر پائیں گے؟ اس سوال کا جواب تو ابھی بہت دور ہے برسوں سے جمع ہوئے یہ مسائل ایک بے اختیار میئر حل کرسکے گا؟ کیوں کہ ان انتخابات سے پہلے ہی حکومت نے ضروری اختیارات اپنے ہاتھ میں مرتکز کرلیے تھے اور اب ایک ڈمی میئر کیا شہر کے مسائل کو حل کرسکے گا؟
یہ وہ ایک بہت بڑا سوال ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے اقتدار کی رسہ کشی کے اس کھیل میں صوبائی حکومت نے قوانین میں تبدیلی کرتے ہوئے اختیارات اپنے پاس منتقل کرلیے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ کراچی کے لوگوں کو ان انتخابات سے شاید بہت زیادہ امیدیں نہیں جس کی وجہ سے ووٹر ٹرن آؤٹ بہت کم رہا، آنیوالے دنوں میں مقامی حکومت اور سائیں سرکار کے درمیان کھینچا تانی اب بالکل عیاں نظر آتی ہے،کیونکہ مقامی حکومتوں کے عہدیدار اور میئر اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود سندھ حکومت کی طرف سے فنڈز ریلیزکرانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔
کراچی کے بلدیاتی مسائل بہت سنگین ہیں ان کو حل کرنا اتنا آسان نہ ہوگا اگر متحدہ کے منتخب میئر اور عہدیدار ان تمام تر مشکلات کے باوجود شہر کے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور وہ یقیناً تحسین کے مستحق ہوں گے فی الحال یہ اتنا آسان نظر نہیں آتا یقیناً شہر کی میئر شپ متحدہ کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہوگی جس میں کامیاب ہونے کے بعد اختیارات کی جنگ مسائل کے حل میں ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہوسکتی ہے۔
امید کی جانی چاہیے کہ صوبائی حکومت اس کو انا کا مسئلہ بنانے کے بجائے منتخب شہری حکومت کے ساتھ پورا تعاون کرے گی، اس تعاون کے بغیرشہر کے بڑھتے ہوئے ان گنت مسائل کا حل ناممکن ہے اس میں شہر اور ملک کی فلاح مضمر ہے۔ کاش کہ سارے اسٹیک ہولڈرز متحد ہوکر اس شہرکا احساس محرومی ختم کرنے کے لیے ایک صفحے پر آجائیں اور اس شہرکو دوبارہ روشنیوں کا آشیانہ بنادیں۔