ڈھونڈئیے چراغ رخ زیبا لے کر

آج کا دن تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ آج ہم دنیا کو دکھا دیں گے کہ ایک عام آدمی واقعی وجود رکھتا ہے۔

اب ہمیں آٹے دال اور سبزی کی قیمت بڑھنے سے بھی فرق نہیں پڑتا، بلکہ کسی بھی حکومت کے آنے جانے سے بھی فرق نہیں پڑتا۔ فوٹو:فائل

کل صبح سے میری بائیں آنکھ رہ رہ کر پھڑک رہی تھی۔ میں حیران ہوں کہ موضع مٹھن پور میں کیا آفت آنے والی ہے پر مجھے زیادہ فکر کی ضرورت نہیں کیونکہ میں مٹھن پور کا اکلوتا رہائشی نہیں۔ مٹھن پور میاں مٹھو کے مبارک نام پر آباد ہوا تھا۔ میاں مٹھو کا کسی دوسرے کے میاں یا کسی بھی دوسرے میاں سے کوئی تعلق نہیں۔ محکمہ خودستائشی یعنی کہ اطلاعات و ابلاغیات میں نہایت اعلٰی مقام پر فائز تھے۔ اِس اعلیٰ مقام میں اُن کے ذاتی لیاقت سے زیادہ اُن کے دفتر کے محل وقوع کا دخل تھا کیونکہ اُن کا کام دوسری منزل پر واقع بڑے صاحب کے دفتر تک عوام کی رسائی نا ممکن بنانا تھا۔

جس طرح کلی چٹخ کر پھول بن جاتی ہے اُسی طرح مٹھو میاں قاصد کے عہدہ سے ترقی کرتے کرتے اُسی دفتر میں آگئے جہاں کبھی وہ دربان ہوا کرتے تھے۔ اِس ترقی کی داستان میں ان کے اسم بامسمیٰ ہونے کے ساتھ ساتھ انکی زوجہ کا کردار بھی فعال رہا۔ موضع مٹھن پور ضلع ڈیرہ غازی خان کی متعدد بستیوں میں ایک غیر نمایاں اور دور افتادہ گاؤں ہے۔ نام سے ویسے بھی کونسا فرق پڑنا ہے پھر چاہے رحیم یار خان ہو، راجن پور، ہری پور یا منٹگمری۔ سب مذاہب کے ماننے والوں نے دھرتی ماں کے ساتھ یکساں برتاؤ کیا ہے۔

گاؤں کا نقشہ آبادی مملکتِ خداداد کے سن آزادی کی یادگار ہے۔ پچھلے سال ہمارے سائیں نے جب یہاں کا دورہ کیا تھا تو انہوں نے خصوصی ہدایت کی تھی۔ خبردار وطن کے تاریخی ورثہ کی جی جان سے حفاظت کی جائے اور گاؤں میں کسی بھی ناگوار تبدیلی جیسے کہ اسپتال، اسکول اور سڑک وغیرہ سے مکمل اجتناب کیا جائے۔ چنانچہ ماشاءاللہ اب 2015ء میں بھی ہمارا مٹھن پور ایسا ہی ہے جیسا 14 اگست 1947 کے دن تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فون کی گھنٹی بیزار صاحب کی طبیعت پر بہت ناگوار گذرتی ہے۔ لیکن جب کئی سیکنڈ کا انتظار بھی فون کرنے والے کے لئے ناگوار خاطر نہ ہوا تو بیزار صاحب کو فون اٹھانا ہی پڑا۔ لیکن بات کرنے والے نے ان کی توجہ فوراً مبذول کرالی۔
''آپکو یقین ہے کہ یہ وہی ہے؟ ہماری مطلوبہ شخصیت''؟ جناب سو فیصد، دوسری جانب سے آواز آئی''۔

ٹھیک ہے میں نکلتا ہوں اور دورانِ سفر آپ سے رابطے میں رہوں گا۔ یہ کہہ کر بیزار صاحب نے فون رکھ دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بیزار صاحب کی بیزارگی کو دوآتشہ کرنے والی ان کی استقبالی ٹولی تھی جو حسبِ روایت ایک قابل رشک توند کے مالک حوالدار سوتے خان اور نتھو لال جیسی مونچھ والے سپاہی جارا خان کی جوڑی پر مشتمل تھی۔ جو بیزار صاحب کی آمد پر ان سے زیادہ بیزار دکھائی دے رہے تھے۔ ساتھ میں میڈیا کے نامی گرامی آتش صاحب کی گھومتی ہوئی آنکھیں ان کو مزید مضطرب کئے جارہی تھیں۔ جو حسبِ روایت گمنام اطلاع پر کسی خبر کو سونگھتے ہوئے وہاں آپہنچے تھے۔ کیا بریفنگ کا کوئی انتظام ہے؟ انہوں نے پوچھا تو حوالدار صاحب نے دیوار پر ٹنگے ہوئے نقشہ پر اپنی چھڑی جسے ڈنڈا کہنا زیادہ مناسب ہوگا، رکھتے ہوئے کہا، جیسا کہ ہم جانتےہیں کہ ''مجرم'' ہمارے مطلوبہ شخص پر ابھی تک کچھ بھی ثابت نہیں ہوا لہٰذا انہیں مجرم نہیں بلکہ ملزم کہنا زیادہ مناسب ہوگا، آتش صاحب نے مداخلت کرتے ہوئے کہا۔

سر جی یہ پولیس نہیں بلکہ آپ جیسے میڈیا خصوصاً سوشل میڈیا کے جغا دری مجرم، بےغیرت، غدار وغیرہ کےالقاب عطا فرمانے کا مبارک کام کرتے ہیں۔ حوالدار صاحب نے جوابی چوٹ کی۔ وعظ فرمانے کی بجائے سبجیکٹ کے بارے میں تفصیلی بات کیجئے۔ بیزار صاحب نے اپنے بیزار کن لہجےمیں کہا، مجرم میرا مطلب ہے ملزم، حوالدار نے دوبارہ سلسلہ کلام جوڑا، ملزم گذشتہ کئی سال سے ایک پرانے مکان میں رہتا آیا ہے۔ لیکن بنیادی طور پر یہاں کا باسی نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ سرحد پار سےاسکا تعلق ہو۔ ہمارا بندہ اس کی چوکس نگرانی کر رہا ہے اور اطلاع کے مطابق اب بھی وہیں موجود ہے۔ توچلئے، پھر دیر کس بات کی؟ بیزار صاحب نے اٹھتے ہوئے کہا تو باقی لوگ بھی اٹھ گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اچانک دستک نے مجھے ہڑبڑا دیا۔ یہ وقت مٹھن پور میں عوام کے استراحت فرمانے کا ہے۔ لہٰذا مجھے تشویش ہونے لگی لیکن دروازے کی خستہ حالت اور اُس پر جاری گولہ باری جیسی تیز دستک کے پیشِ نظر مجھے فوراً ہی دروازہ کھولنا پڑا۔ جس کے کھلتے ہی میں نے اپنی چھٹی حس اور نظر آنے والی مخلوق کو دل میں کوسنے دئیے لیکن اب بھاگنے کی کوئی صورت نہ تھی۔ بن بلائے مہمان فوراً ہی اندر در آئے اور میرے گرد گھیرا ڈال لیا۔ جیسے میں کوئی عجوبہ ہوں۔ ''ہونہہ، لگتا تو وہی ہے''۔ حوالدار صاحب نے اپنے سپاہی کو ٹہوکا دیا۔ مٹھن پور کی روایت کے مطابق سپاہی نے افسر اعلیٰ کی بات سے 100 فیصد اتفاق کیا۔

دانتوں کا معائنہ کرنا پڑے گا، بال اور دیگر علامتیں تو میچ کررہی ہیں۔ گول عینک والے صاحب نے کہا، جو حلئے سے ان سب کا سرغنہ معلوم ہوتا تھا۔ بعد میں ان کا نام بیزار صاحب معلوم ہوا۔ لیکن سائیں مجھے بتاؤ، یہ سب کیا ہورہا ہے؟ میرا قصور کیا ہے؟ میں نے فریاد کی جس کے جواب ایک لات تھی، جسے مجھے اپنے نصیب اور ماضی کی ان گنت لاتوں کی طرح نظرا نداز کرنا پڑا۔

زیادہ مارنا نہیں کیونکہ اسے لوگوں کےسامنے بھی پیش کرنا ہے جو اس کی موجودگی کا انکار کررہے ہیں۔ مسٹر بیزار گویا ہوئے اور پھر میری جانب دیکھتے ہوئے کہا، تو تمہیں پتہ بھی نہیں کہ یہ سب کیا ہورہا ہے؟ اتنے بھولے نہ بنو۔ وزیرِ مملکت کی تقریر کے بعد گذشتہ کئی دنوں سے مسلسل تمہارا ہی ذکر ہورہا ہے۔ ہر چینل اور اخبار پر یہی بحث چھڑی ہوئی ہے۔ خود میں اس پر اب تک 3 پروگرام کرچکا ہوں اور اب یہ بریکنگ نیوز ہمارے چینل پر ایکسکلوزیو اسٹوری ہوگی۔ یہ آتش صاحب تھے۔ پتہ نہیں کیا کہے جا رہے ہیں۔ مجھے اخبار اور وزیر کےعلاوہ کسی بات کی سمجھ نہیں آئی۔ شاید یہ گذشتہ سیلاب کی بات کررہے ہیں کیونکہ تب ہمیں اپنے وزیرِ مملکت کی زیارت نصیب ہوئی تھی۔

اچانک جارا پہلوان نے میرے جبڑے پر زور ڈالا تو میں کراہنے پر مجبور ہوگیا اور میرے منہ کھلنے سے اچانک سب کے چہروں پر رونق آگئی۔
''یوریکا، یوریکا''۔

آج کا دن تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ آج ہم دنیا کو دکھا دیں گے کہ ایک عام آدمی واقعی وجود رکھتا ہے۔ اگرچہ اس کی تلاش میں آپ کو صحرا، سیلاب اور غربت کی تکون جہاں بھوک ڈیرے ڈالے ہوئے ہو، وہاں جانا پڑے گا۔ آتش صاحب پھولے نہیں سما رہے تھے۔ بیزار صاحب کی افسردگی بھی ہمارے اچھے مستقبل کی امیدوں کی مانند ہوچکی تھی۔ اچھا یہ تو بتاؤ کیا تمہیں واقعی صابن، شیمپو، ٹوتھ پیسٹ اورخوردنی تیل کی ضرورت نہیں پڑتی؟ شاید یہ تفتیش کا آغاز تھا۔

سائیں صابن، شیمپو، ٹوتھ پیسٹ کو پانی کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہمارے پاس پینے کو پانی نہیں، نہانے کا تو صرف تصور کرتے ہیں، سوکھی روٹی کے ساتھ پیاز کھا لیتے ہیں۔ تیل کہاں سے لائیں؟ گویا اس طرح سے ٹیکس بچا کر تم وطن کونقصان پہنچا رہے ہو؟ انہوں نے سگریٹ سلگاتے ہوئے ایک اور سوال داغا۔ ''سر یہ چیز تو صحت کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے''۔ حوالدار نےاعتراض کیا، یار تم وعظ بہت کرتے ہو۔ جو چیز وزیر صحت کے لئے فائدہ مند ہو وہ صحت کے لئے کیسے نقصان دہ ہوسکتی ہے؟ لیکن ڈبیہ کے اوپر درج ہے کہ یہ پھیپھڑوں کے سرطان کا باعث بن سکتی ہے۔ فکر نہ کرو، ہم نے سرطان کا علاج کرنے کے کئی نئے شفاخانوں کوچندہ دینے کی اپیل کی ہے۔ بیزارصاحب اپنےاصل روپ میں واپس لوٹ رہے تھے۔ سرجی لیکن چندہ کتنا دیا ہے؟ یار چندہ تو میں نے کبھی چندا کو بھی نہیں دیا جو بنا رہے ہیں انکا نہیں پتہ کہ انہوں نے اپنی جیب خاص سے کتنا دیا ہے۔ ہمارا کام تو صرف عوام کو پیغام دینا ہے۔ چندہ کتنا ہوا، قرضہ کتنا اترا؟ یہ تو بڑے لوگوں کے کام ہیں۔

تمہیں کیا تکلیف ہے؟ تم تو ساڈے نال ہوناں، پھر میری طرف دیکھ کرغرائے، تم نے ابھی تک زبان نہیں کھولی۔ کیوں نہیں دیتے ٹیکس؟ سائیں وطن کوجب بھی دیا ہے ہم لوگوں نے ہی دیا ہے۔ کیا قربانی، ٹیکس، صبر کا امتحان، قرض اتارنے سے لے کر سیلاب زدگان، زلزلہ زدگان، آئی ڈی پیز کی بحالی کے لئے موجود ''وزیراعظم کےخصوصی فنڈ'' میں چندہ، انتخابات اور ریفرنڈم میں جبراً ڈالے گئے ووٹ، انقلاب اور تبدیلی کےنام پر منعقد دھرنا، ماچس کی ڈبیا پر سیلز ٹیکس، نہ بننے والے ڈیموں کا ڈیویلپمنٹ ٹیکس، سائیں ہمارے پاس تو اب دینے کوصرف کھال اور یا یہ جان ناتواں بچی ہے، جو آپ کے تو کسی کام کی نہیں۔

اور گستاخی معاف یہ باتوں پر اور آکسیجن پر ٹیکس لگانے والےخود کتنا ٹیکس دیتے ہیں؟ پچھلےسال کے ذاتی گوشوارے تو ذرا ہمیں دکھائیں۔ مجھے بھی بولنا پڑا کیونکہ مسٹر جارا کی تیز نگاہیں مجھے گھور رہی تھیں اور مزید تھپڑ کھانے کی تاب نہیں تھی۔ سر جی یہ بندہ کمیونسٹ اور پڑوسی ملک کا ایجنٹ لگتا ہے۔ آپ میرے حوالے کردیں یہ سب کچھ فرفر بک دے گا۔ انہوں نے اپنے حاکم بالا سے عرض کی۔

سائیں یہاں تو رواج یہی ہے کہ سارے مہاجر، پنجابی، پٹھان، بلوچی، سندھی ہیں پاکستانی کوئی نہیں۔ پہلے بنگالیوں کی باری تھی اب تو غدار، ملک دشمن اور پرائے ایجنٹ بکثرت ہیں۔ اپنے ایجنٹ تو صرف اسٹیٹ ایجنٹ اور کمیشن ایجنٹ ہیں۔ عام آدمی تو ہر جگہ ہے لیکن صرف قربانی اور قومی فریضہ کی ادائیگی کے وقت نظر آتا ہے۔ باقی دنوں میں وہ پیر سائیں، منسٹر صاحب، اسپیکر صاحب، صاحبان کے بندوں کے جھنڈ میں دکھائی نہیں دیتا اور آخری بات کہ اب ہمیں آٹے دال اور سبزی کی قیمت بڑھنے سے بھی فرق نہیں پڑتا، بلکہ کسی بھی حکومت اور کسی بات سے بھی نہیں پڑتا۔ اب فرق پڑے گا تو آپ صاحبان کو پڑے گا اور آپ کے بندوں کو پڑے گا کیونکہ اب آپ کی باری ہے۔ خدا کے بندے تو اب خدا کے پاس چلے۔
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں بندوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو، خدا کےبندوں سے پیار ہوگا

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story