ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس
افغان حکومت اور طالبان گروپوں کے مذاکرات کے لیے حوصلہ افزائی کی ضرورت پر زور دیا جائے گا۔
LONDON:
پانچویں ''ہارٹ آف ایشیا۔ استنبول پراسس'' سربراہ کانفرنس جس کا افتتاح وزیر اعظم محمد نواز شریف اور افغان صدر اشرف غنی نے 9 دسمبر کو اسلام آباد میں کیا اس کو خارجہ پالیسی کی ایک اہم اور بڑی کامیاب قرار دیا جا رہا ہے۔
مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورت حال اور اس کے ملحقہ علاقوں میں پیدا ہونیوالے مسائل کے تناظر میں متذکرہ کانفرنس کا انعقاد انتہائی بروقت ہے جس میں افغانستان کی صورت حال پر روشنی ڈالی جائے گی جو کہ وقت کا اصولی تقاضا ہے۔ اس حوالے سے افغان حکومت اور طالبان تنظیموں کے مابین ہونے والے مذاکرات کو ازسرنو بحال کرنے کی کوشش بھی شامل ہے ۔
جس مقصد کے لیے افغان حکومت اور طالبان گروپوں کے مذاکرات کے لیے حوصلہ افزائی کی ضرورت پر زور دیا جائے گا۔ اس کانفرنس میں7 وزرائے خارجہ شرکت کر رہے ہیں جن میں پاکستان کے 4 پڑوسی ممالک کے وزرائے خارجہ بھی شامل ہیں جو اس سال میں دوسری مرتبہ پاکستان آئے ہیں۔
چینی وزیر خارجہ وانگ ژی' افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی اور بھارتی وزیر خارجہ مس سشما سوراج' ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف جن کا گزشتہ 4 مہینے میں اسلام آباد کا تیسرا دورہ ہے جب کہ 14 شریک ممالک کے اعلیٰ سطح کے وفود بھی شرکت کر رہے ہیں جن میں 17 ممالک کے حمایت کنندگان (سپورٹرز) اور 12 بین الاقوامی اور علاقائی تنظیمیں جن میں پاکستان کے لیے امریکا کے سابق سفیر رچرڈ اولسن (جو کہ اب پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمایندے ہیں) جب کہ روس' سعودی عرب' ترکمانستان' آذر بائیجان' ترکی' قازقستان' کرغزستان اور متحدہ عرب امارات کے سینئر نمایندے شامل ہیں۔
افغانستان اور ترکی نے مشترکہ طور پر پیشرفت کرتے ہوئے ''استنبول پراسیس'' شروع کیا تا کہ ''ہارٹ آف ایشیا'' کے ممالک کے ساتھ مل کر افغانستان کے لیے تعاون حاصل کیا جائے اور افغانستان کو ایک پرامن' مستحکم اور ترقی پذیر ملک بنایا جا سکے۔ اس مقصد کی خاطر سیاسی پیشرفت ضروری ہے جو چاروں طرف سے خشکی میں گھرے افغانستان اور اس کے قریبی اور بعیدی پڑوسی ممالک میں باہمی طور پر مستقل اور موثر ڈائیلاگ جاری رہنا چاہیے جس میں مشترکہ دلچسپی اور اہمیت کے تمام معاملات اور مسائل کو زیر بحث لایا جائے۔
''استنبول پراسیس'' میں اعتماد سازی یعنی (سی بی ایمز) کے اقدامات تمام علاقائی ممالک میں اٹھائے جانے کی تجویز شامل ہے۔ اس معاملے میں موجودہ علاقائی تنظیمیں اقتصادی تعاون اور یک جہتی اور سلامتی کے بہتر انتظامات کے حوالے سے عوام سے عوام کے تعلقات کے فروغ کے لیے نمایاں کردار ادا کر سکتی ہیں۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس حوالے سے پہلے سے ہی جو کوششیں کی جا رہی ہیں موجودہ تجاویز کا مقصد ان کوششوں کا متبادل تلاش کرنے کی کوشش نہیں بلکہ انھی کوششوں کو زیادہ مفید اور زیادہ نتیجہ خیز بنانے کے لیے کردار ادا کرنا ہے بالخصوص افغانستان کے حوالے سے۔
اس کانفرنس کے افتتاح کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے بڑی جرات مندی سے اس تاریخی دورے میں جی ایچ کیو کا وزٹ بھی کیا۔ اس حوالے سے کچھ زیادہ ہی توقعات وابستہ کر لی گئیں۔ یہاں مجھے اپنا 20 نومبر 2014ء کا کالم عنوان The Making of History (تاریخ کی تشکیل) یاد آ رہا ہے جس میں لکھا گیا تھا کہ مروجہ سفارتی اصول و ضوابط کو ایک طرف رکھتے ہوئے افغان صدر نے اسلام آباد اترتے ہی سب سے پہلے جی ایچ کیو کا دورہ کیا۔ ایک غیر ملکی سربراہ کا سیدھا فوج کے ہیڈ کوارٹر پہنچ جانا محض ایک رسمی کارروائی سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ افغان صدر ٹھوس کارروائی چاہتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ علاقائی سیکیورٹی کی اصل طاقت کہاں پر موجود ہے۔ بعدازاں گزشتہ روز صدر اشرف غنی نے پاکستانی وزیر اعظم کے ساتھ اپنی بات چیت پر ان الفاظ سے روشنی ڈالی کہ ''ہارٹ آف ایشیا کے بارے میں ہمارا ویژن مشترک ہے۔ جنوبی ایشیاء اور وسطیٰ ایشیا کو توانائی' گیس اور تیل کی پائپ لائنوں کے ذریعے مربوط کر کے اقتصادی یکجہتی کی ضمانت دی جائے گی اور یہ کام اب محض خواب و خیال نہیں رہے گا بلکہ حقیقت بن جائے گا۔
مستقبل کے منظرنامے میں ہمارے بے حد نظر انداز کیے جانے والے عوام کو بھی ''سٹیک ہولڈرز'' کے طور پر شامل کیا جانا چاہیے تا کہ ان کو بھی مستحکم اور پرامن ممالک کی اقتصادی ترقی سے کچھ حصہ میسر آ سکے۔ ہمارے اعتماد متزلزل ہیں کیونکہ دہشت گردی کی کوئی حدود نہیں ہیں۔ ہم نے تیرہ (13) سال کی رکاوٹوں پر صرف تین دن میں قابو پا لیا ہے اور ہم کسی صورت ماضی کو اپنے مستقبل کی تباہی کی اجازت نہیں دے سکتے''۔
جب طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کی راہ ہموار کی گئی تو عین آخری وقت میں ان مذاکرات کو خراب کرنے کی خاطر طالبان کے روحانی سربراہ ملا عمر کی وفات کی خبر لیک (ظاہر) کر دی گئی جس سے نہ صرف یہ کہ مذاکرات کا عمل ناکام ہو گیا بلکہ پاکستان کے بارے میں شکوک و شبہات بھی پیدا ہو گئے کہ ان کی نیت درست نہیں۔
اتنی بڑی ناکامی کے بعد ظاہر ہے کہ مذاکرات کا سلسلہ نہ صرف تعطل کا شکار ہو گیا بلکہ کابل میں دہشت گردی کے انتہائی خطرناک حملے بھی ہوئے جس کے نتیجے میں صدر اشرف غنی کو اپنا امن منصوبہ ترک کرنا پڑا اور ان کی طرف سے یہ کہا گیا کہ صرف اس صورت میں بات کی جائے گی جب پاکستان ''دیانتداری'' سے افغانستان سے قیام امن کے لیے تیار ہو گا۔
اس ہفتے ہونے والی کانفرنس سے دونوں ملکوں کو حقیقی طور پر یہ موقع ملا ہے کہ وہ بات چیت کے ذریعے اپنے اختلافات کو طے کریں۔ اس موقع پر ہم افغان حکومت کے ایک سابقہ افسر (جو کہ اب کنسلٹنٹ ہیں) حبیب ویاند (Habib Wayand) کا حوالہ دیتے ہیں ''یہ کانفرنس دونوں جانب سے حالات کو خراب کرنے کی کوشش کرنیوالوں کا راستہ بند کر دے گی تا کہ علاقے کے لیے ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے ۔
جس کے نتیجے میں پائدار امن اور ترقی کی راہیں کھل جائیں۔ اس مقصد کی خاطر افغانستان کو غیرذمے دارانہ اور پاکستان دشمن ایجنڈے کو ترک کرنا ہو گا، نا کہ دہشت گردی کے کسی بھی واقعے کا پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا جائے۔ کابل حکومت کو چاہیے کہ وہ افغان نوجوانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ روز گار کے مواقع فراہم کرے تا کہ ان افغان نوجوانوں کو بھاری تعداد میں ملک چھوڑنے یا تخریب کاروں کے ساتھ شامل ہونے کی ضرورت ہی نہ رہے۔ افغانستان میں امن قائم ہو جائے تو اس سے وسطیٰ ایشیاء اور جنوبی ایشیا کے مابین زیادہ بہتر اور وسیع تر اقتصادی تعلقات قائم ہو سکیں۔
افغانستان کی بیرونی تجارت کا زیادہ تر انحصار پاکستان پر ہے جب کہ پرامن افغانستان کی صورت میں پاکستان بھی وسط ایشیائی ممالک تک محفوظ رسائی حاصل کر سکے گا اور اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ تاجکستان' ترکمانستان اور ازبکستان سے بجلی اور گیس جنوبی ایشیا کے ممالک تک لائی جا سکے گی۔ یہاں میں پھر اپنے 12 دسمبر 2014ء کے ایک آرٹیکل بعنوان ''افغانستان سے دوبارہ رابطے استوار کرنا'' کا حوالہ دوں گا جس میں کہا گیا تھا کہ خشکی میں گھرے ہوئے ممالک کو ایسی سہولتیں دی جانی چاہئیں۔
جن کے ذریعے وہ اپنی تجارت کو جاری رکھ سکیں۔ نیو یارک میں ایک بڑا معروف تھنک ٹینک جس کا نام ایسٹ ویسٹ انسٹیٹوٹ (EWI) ہے۔ مسٹر روس پیروٹ جونیئر (Mr.Ross Perot jr) اس کے سربراہ ہیں جنہوں نے ابوظہبی ''پراسیس'' کو شروع کیا۔ یہ ایک کثیر المالکی تجارتی ڈائیلاگ ہے جس کے بانیوں میں ابوظہبی اور جرمنی شامل ہیں۔ استنبول میں ہونے والی کانفرنس میں بھی اس منصوبے کا ذکر کیا گیا جسے افغانستان کی اقتصادی ترقی کے لیے ایک ٹھوس بنیاد قرار دیا گیا۔
پانچویں ''ہارٹ آف ایشیا۔ استنبول پراسس'' سربراہ کانفرنس جس کا افتتاح وزیر اعظم محمد نواز شریف اور افغان صدر اشرف غنی نے 9 دسمبر کو اسلام آباد میں کیا اس کو خارجہ پالیسی کی ایک اہم اور بڑی کامیاب قرار دیا جا رہا ہے۔
مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورت حال اور اس کے ملحقہ علاقوں میں پیدا ہونیوالے مسائل کے تناظر میں متذکرہ کانفرنس کا انعقاد انتہائی بروقت ہے جس میں افغانستان کی صورت حال پر روشنی ڈالی جائے گی جو کہ وقت کا اصولی تقاضا ہے۔ اس حوالے سے افغان حکومت اور طالبان تنظیموں کے مابین ہونے والے مذاکرات کو ازسرنو بحال کرنے کی کوشش بھی شامل ہے ۔
جس مقصد کے لیے افغان حکومت اور طالبان گروپوں کے مذاکرات کے لیے حوصلہ افزائی کی ضرورت پر زور دیا جائے گا۔ اس کانفرنس میں7 وزرائے خارجہ شرکت کر رہے ہیں جن میں پاکستان کے 4 پڑوسی ممالک کے وزرائے خارجہ بھی شامل ہیں جو اس سال میں دوسری مرتبہ پاکستان آئے ہیں۔
چینی وزیر خارجہ وانگ ژی' افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی اور بھارتی وزیر خارجہ مس سشما سوراج' ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف جن کا گزشتہ 4 مہینے میں اسلام آباد کا تیسرا دورہ ہے جب کہ 14 شریک ممالک کے اعلیٰ سطح کے وفود بھی شرکت کر رہے ہیں جن میں 17 ممالک کے حمایت کنندگان (سپورٹرز) اور 12 بین الاقوامی اور علاقائی تنظیمیں جن میں پاکستان کے لیے امریکا کے سابق سفیر رچرڈ اولسن (جو کہ اب پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمایندے ہیں) جب کہ روس' سعودی عرب' ترکمانستان' آذر بائیجان' ترکی' قازقستان' کرغزستان اور متحدہ عرب امارات کے سینئر نمایندے شامل ہیں۔
افغانستان اور ترکی نے مشترکہ طور پر پیشرفت کرتے ہوئے ''استنبول پراسیس'' شروع کیا تا کہ ''ہارٹ آف ایشیا'' کے ممالک کے ساتھ مل کر افغانستان کے لیے تعاون حاصل کیا جائے اور افغانستان کو ایک پرامن' مستحکم اور ترقی پذیر ملک بنایا جا سکے۔ اس مقصد کی خاطر سیاسی پیشرفت ضروری ہے جو چاروں طرف سے خشکی میں گھرے افغانستان اور اس کے قریبی اور بعیدی پڑوسی ممالک میں باہمی طور پر مستقل اور موثر ڈائیلاگ جاری رہنا چاہیے جس میں مشترکہ دلچسپی اور اہمیت کے تمام معاملات اور مسائل کو زیر بحث لایا جائے۔
''استنبول پراسیس'' میں اعتماد سازی یعنی (سی بی ایمز) کے اقدامات تمام علاقائی ممالک میں اٹھائے جانے کی تجویز شامل ہے۔ اس معاملے میں موجودہ علاقائی تنظیمیں اقتصادی تعاون اور یک جہتی اور سلامتی کے بہتر انتظامات کے حوالے سے عوام سے عوام کے تعلقات کے فروغ کے لیے نمایاں کردار ادا کر سکتی ہیں۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس حوالے سے پہلے سے ہی جو کوششیں کی جا رہی ہیں موجودہ تجاویز کا مقصد ان کوششوں کا متبادل تلاش کرنے کی کوشش نہیں بلکہ انھی کوششوں کو زیادہ مفید اور زیادہ نتیجہ خیز بنانے کے لیے کردار ادا کرنا ہے بالخصوص افغانستان کے حوالے سے۔
اس کانفرنس کے افتتاح کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے بڑی جرات مندی سے اس تاریخی دورے میں جی ایچ کیو کا وزٹ بھی کیا۔ اس حوالے سے کچھ زیادہ ہی توقعات وابستہ کر لی گئیں۔ یہاں مجھے اپنا 20 نومبر 2014ء کا کالم عنوان The Making of History (تاریخ کی تشکیل) یاد آ رہا ہے جس میں لکھا گیا تھا کہ مروجہ سفارتی اصول و ضوابط کو ایک طرف رکھتے ہوئے افغان صدر نے اسلام آباد اترتے ہی سب سے پہلے جی ایچ کیو کا دورہ کیا۔ ایک غیر ملکی سربراہ کا سیدھا فوج کے ہیڈ کوارٹر پہنچ جانا محض ایک رسمی کارروائی سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ افغان صدر ٹھوس کارروائی چاہتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ علاقائی سیکیورٹی کی اصل طاقت کہاں پر موجود ہے۔ بعدازاں گزشتہ روز صدر اشرف غنی نے پاکستانی وزیر اعظم کے ساتھ اپنی بات چیت پر ان الفاظ سے روشنی ڈالی کہ ''ہارٹ آف ایشیا کے بارے میں ہمارا ویژن مشترک ہے۔ جنوبی ایشیاء اور وسطیٰ ایشیا کو توانائی' گیس اور تیل کی پائپ لائنوں کے ذریعے مربوط کر کے اقتصادی یکجہتی کی ضمانت دی جائے گی اور یہ کام اب محض خواب و خیال نہیں رہے گا بلکہ حقیقت بن جائے گا۔
مستقبل کے منظرنامے میں ہمارے بے حد نظر انداز کیے جانے والے عوام کو بھی ''سٹیک ہولڈرز'' کے طور پر شامل کیا جانا چاہیے تا کہ ان کو بھی مستحکم اور پرامن ممالک کی اقتصادی ترقی سے کچھ حصہ میسر آ سکے۔ ہمارے اعتماد متزلزل ہیں کیونکہ دہشت گردی کی کوئی حدود نہیں ہیں۔ ہم نے تیرہ (13) سال کی رکاوٹوں پر صرف تین دن میں قابو پا لیا ہے اور ہم کسی صورت ماضی کو اپنے مستقبل کی تباہی کی اجازت نہیں دے سکتے''۔
جب طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کی راہ ہموار کی گئی تو عین آخری وقت میں ان مذاکرات کو خراب کرنے کی خاطر طالبان کے روحانی سربراہ ملا عمر کی وفات کی خبر لیک (ظاہر) کر دی گئی جس سے نہ صرف یہ کہ مذاکرات کا عمل ناکام ہو گیا بلکہ پاکستان کے بارے میں شکوک و شبہات بھی پیدا ہو گئے کہ ان کی نیت درست نہیں۔
اتنی بڑی ناکامی کے بعد ظاہر ہے کہ مذاکرات کا سلسلہ نہ صرف تعطل کا شکار ہو گیا بلکہ کابل میں دہشت گردی کے انتہائی خطرناک حملے بھی ہوئے جس کے نتیجے میں صدر اشرف غنی کو اپنا امن منصوبہ ترک کرنا پڑا اور ان کی طرف سے یہ کہا گیا کہ صرف اس صورت میں بات کی جائے گی جب پاکستان ''دیانتداری'' سے افغانستان سے قیام امن کے لیے تیار ہو گا۔
اس ہفتے ہونے والی کانفرنس سے دونوں ملکوں کو حقیقی طور پر یہ موقع ملا ہے کہ وہ بات چیت کے ذریعے اپنے اختلافات کو طے کریں۔ اس موقع پر ہم افغان حکومت کے ایک سابقہ افسر (جو کہ اب کنسلٹنٹ ہیں) حبیب ویاند (Habib Wayand) کا حوالہ دیتے ہیں ''یہ کانفرنس دونوں جانب سے حالات کو خراب کرنے کی کوشش کرنیوالوں کا راستہ بند کر دے گی تا کہ علاقے کے لیے ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے ۔
جس کے نتیجے میں پائدار امن اور ترقی کی راہیں کھل جائیں۔ اس مقصد کی خاطر افغانستان کو غیرذمے دارانہ اور پاکستان دشمن ایجنڈے کو ترک کرنا ہو گا، نا کہ دہشت گردی کے کسی بھی واقعے کا پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا جائے۔ کابل حکومت کو چاہیے کہ وہ افغان نوجوانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ روز گار کے مواقع فراہم کرے تا کہ ان افغان نوجوانوں کو بھاری تعداد میں ملک چھوڑنے یا تخریب کاروں کے ساتھ شامل ہونے کی ضرورت ہی نہ رہے۔ افغانستان میں امن قائم ہو جائے تو اس سے وسطیٰ ایشیاء اور جنوبی ایشیا کے مابین زیادہ بہتر اور وسیع تر اقتصادی تعلقات قائم ہو سکیں۔
افغانستان کی بیرونی تجارت کا زیادہ تر انحصار پاکستان پر ہے جب کہ پرامن افغانستان کی صورت میں پاکستان بھی وسط ایشیائی ممالک تک محفوظ رسائی حاصل کر سکے گا اور اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ تاجکستان' ترکمانستان اور ازبکستان سے بجلی اور گیس جنوبی ایشیا کے ممالک تک لائی جا سکے گی۔ یہاں میں پھر اپنے 12 دسمبر 2014ء کے ایک آرٹیکل بعنوان ''افغانستان سے دوبارہ رابطے استوار کرنا'' کا حوالہ دوں گا جس میں کہا گیا تھا کہ خشکی میں گھرے ہوئے ممالک کو ایسی سہولتیں دی جانی چاہئیں۔
جن کے ذریعے وہ اپنی تجارت کو جاری رکھ سکیں۔ نیو یارک میں ایک بڑا معروف تھنک ٹینک جس کا نام ایسٹ ویسٹ انسٹیٹوٹ (EWI) ہے۔ مسٹر روس پیروٹ جونیئر (Mr.Ross Perot jr) اس کے سربراہ ہیں جنہوں نے ابوظہبی ''پراسیس'' کو شروع کیا۔ یہ ایک کثیر المالکی تجارتی ڈائیلاگ ہے جس کے بانیوں میں ابوظہبی اور جرمنی شامل ہیں۔ استنبول میں ہونے والی کانفرنس میں بھی اس منصوبے کا ذکر کیا گیا جسے افغانستان کی اقتصادی ترقی کے لیے ایک ٹھوس بنیاد قرار دیا گیا۔