تعصب کا زہر
ظلم جو بھی کرے اسے ظالم ہی سمجھنا چاہیئے لیکن بدقسمتی سے عصبیت کا زہر ایسا کرنے سے ہمیں روک دیتا ہے۔
تعصب ایک ایسا زہر ہے جو انسان کے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو محدود کردیتا ہے یا پھر بالکل ہی ختم کردیتا ہے۔ اس کے زیرِ اثر آنے والا سب کچھ دیکھ کر بھی کچھ نہیں دیکھ پاتا اور سب کچھ سننے کے باوجود کچھ نہیں سمجھ پاتا۔ دنیا میں پھیلی ہوئی تباہی اسی زہر کا نتیجہ دکھائی دیتی ہے۔
دنیا میں موجود خطے بھی اسی تعصب کے نتیجہ میں وجود میں آئے ہیں۔ کسی کو یہودی ہونے پر فخر ہے تو کسی کو عیسائی ہونے پر اور کسی کو مسلمان ہونے پر، کسی کو گورا ہونے پر فخر ہے تو کسی کو کالا ہونے پر۔ کسی کو زبان پر فخر ہے تو کسی کو قومیت پر فخر ہے، کسی کو ایک فرقہ ہونے پر فخر ہے تو کسی کو ایک مسلک ہونے پر۔ کسی کو اپنی ذات پر فخر ہے تو کسی کو اپنے علاقہ پر، یہ تقسیم در تقسیم کا عمل ہے جسے اگر پھیلاتے جائیں تو ایک نہ رکنے والا سلسلہ ہے جو انسان کو محدود کرکے اِس وسیع کائنات سے تعصب کے تنگ و تاریک خول میں بند کردے گا۔
دنیا کے بڑے بڑے مفکرین، دانشور، سیاستدان اور علماء دین اِسی تعصب کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ جان بوجھ کر اپنے مقاصد کیلئے اور کچھ انجانے میں اس زہر کے پیالے کو آب حیات سمجھ کر پیتے ہیں۔ لیکن یہ بات تو طے ہے کہ جس نے بھی اِس زہر کو پیا وہ تعصب کے ان تنگ و تاریک گلیوں کی بھول بھلیوں میں اس طرح بھٹک گیا کہ پھر اِسے واپسی کا راستہ نہیں ملا۔
آج دہشت گردی کو اسلام کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ جبکہ دنیا بھر میں دہشت گردی غیر مذہب کے لوگ بھی کر رہے ہیں۔ جو تعصب کی سب سے اعلیٰ مثال ہے۔ اگر ایک عیسائی کسی کو قتل کرے تو وہ دہشت گردی نہیں ہے لیکن اگر ایک مسلمان یہی کام کرے تو دہشت گردی میں شمار کیا جاتا ہے۔ پھر اس پر بھی بس نہیں کیا جاتا بلکہ اس کی قوم بھی دیکھی جاتی ہے۔ دہشت گردی کرنے والا پاکستانی ہو تو عالمی دہشت گردی لیکن اگر ایک امریکی یہی کام سر انجام دے تو یہ اس کا انفرادی فعل تصور کیا جاتا ہے۔ ماضی میں ریمنڈ ڈیوس نے جس طرح دو پاکستانیوں کوسرعام قتل کیا، کیا وہ دہشت گردی نہیں تھا؟ خود امریکہ میں ایسے بے شمار واقعات رونما ہوچکے ہیں جن میں ایک شخص نے اسکول کے بچوں کو بلا وجہ قتل کردیا یا طیش میں آکر ٹی وی رپورٹر کو لائیو کوریج کے دوران شوٹ کر دیا گیا۔
ہٹلر نے بے شمار یہودیوں کا قتل عام کیا تو وہ دہشت گرد کہلایا۔ لیکن اسرائیلی مسلمانوں کا روز و شب قتل عام کرتے رہیں تو اسے ان کا حق تصور کیا جائے۔ حال ہی میں ہونے والی بھارت میں تازہ بے شمار مثالیں عصبیت کا شاخسانہ دکھائی دیتی ہیں۔ اگر میں تاریخ سے آپ کے سامنے یہاں مثالیں پیش کرنے لگوں تو شاید مجھے پوری ایک کتاب لکھنی پڑے لیکن یہ مثالیں ختم نہ ہوں۔ اگر آپ عصبیت کی مثالیں دیکھیں گے تو آپ کے رونگھٹے کھڑے ہوجائیں گے کہ کس طرح ایک انسان نے وحشی جانور کی طرح دوسرے انسان کا ناحق خون کیا ہے۔ لیکن میرا مقصد کسی کو دہشت گرد یا معصوم ثابت کرنا ہرگز نہیں ہے۔ صرف عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ ظلم جو بھی کرے اسے ظالم ہی سمجھنا چاہیئے لیکن بدقسمتی سے عصبیت کا زہر ایسا کرنے سے ہمیں روک دیتا ہے۔
کسی بات پر فخر کرنا کسی بھی درجہ میں غلط نہیں ہے لیکن دوسروں کو حقیر جاننا دراصل بیماری کی اصل جڑ ہے۔ جہاں فخر ہوگا وہیں غرور بھی پایا جائے گا۔ اسی غرور نے ابلیس کو شیطان بنا دیا اور وہ جانتے بوجھتے بھی یہ کہہ بیٹھا کہ ''میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے۔'' پھر ایک انسان سے پیدا ہونے والی نسل خود کو ایک دوسرے سے افضل کیونکر سمجھنے لگی۔
حضرت فسیلہ رحمتہ اللہ علیہا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے والد کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآل وسلم سے دریافت کیا، کیا اپنی قوم سے محبت کرنا بھی عصبیت میں داخل ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآل وسلم نے ارشاد فرمایا، اپنی قوم سے محبت کرنا عصبیت نہیں بلکہ عصبیت یہ ہے کہ قوم کے ناحق پر ہونے کے باوجود آدمی اپنی قوم کی مدد کرے۔ (مسنداحمد)
ایک اور روایت حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآل وسلم نے ارشاد فرمایا، جو عصبیت کی دعوت دے وہ ہم میں سے نہیں، جو عصبیت کی بناء پر لڑے وہ ہم میں سے نہیں اور جو عصبیت (کے جذبے) پر مرے وہ ہم میں سے نہیں۔ (ابوداؤد)
آج ہمارے ملک پاکستان میں بھی عصبیت کا زہر تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے اور اسے روکنے کی اشد ضرورت ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب آپ کو اس زہر کے نقصانات کا علم ہوگا۔ صرف علم ہی اس زہر کا توڑ ہے کیونکہ علم ہی اصل میں انسان کو انسان بناتا ہے ورنہ انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں۔
[poll id="827"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
دنیا میں موجود خطے بھی اسی تعصب کے نتیجہ میں وجود میں آئے ہیں۔ کسی کو یہودی ہونے پر فخر ہے تو کسی کو عیسائی ہونے پر اور کسی کو مسلمان ہونے پر، کسی کو گورا ہونے پر فخر ہے تو کسی کو کالا ہونے پر۔ کسی کو زبان پر فخر ہے تو کسی کو قومیت پر فخر ہے، کسی کو ایک فرقہ ہونے پر فخر ہے تو کسی کو ایک مسلک ہونے پر۔ کسی کو اپنی ذات پر فخر ہے تو کسی کو اپنے علاقہ پر، یہ تقسیم در تقسیم کا عمل ہے جسے اگر پھیلاتے جائیں تو ایک نہ رکنے والا سلسلہ ہے جو انسان کو محدود کرکے اِس وسیع کائنات سے تعصب کے تنگ و تاریک خول میں بند کردے گا۔
دنیا کے بڑے بڑے مفکرین، دانشور، سیاستدان اور علماء دین اِسی تعصب کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ جان بوجھ کر اپنے مقاصد کیلئے اور کچھ انجانے میں اس زہر کے پیالے کو آب حیات سمجھ کر پیتے ہیں۔ لیکن یہ بات تو طے ہے کہ جس نے بھی اِس زہر کو پیا وہ تعصب کے ان تنگ و تاریک گلیوں کی بھول بھلیوں میں اس طرح بھٹک گیا کہ پھر اِسے واپسی کا راستہ نہیں ملا۔
آج دہشت گردی کو اسلام کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ جبکہ دنیا بھر میں دہشت گردی غیر مذہب کے لوگ بھی کر رہے ہیں۔ جو تعصب کی سب سے اعلیٰ مثال ہے۔ اگر ایک عیسائی کسی کو قتل کرے تو وہ دہشت گردی نہیں ہے لیکن اگر ایک مسلمان یہی کام کرے تو دہشت گردی میں شمار کیا جاتا ہے۔ پھر اس پر بھی بس نہیں کیا جاتا بلکہ اس کی قوم بھی دیکھی جاتی ہے۔ دہشت گردی کرنے والا پاکستانی ہو تو عالمی دہشت گردی لیکن اگر ایک امریکی یہی کام سر انجام دے تو یہ اس کا انفرادی فعل تصور کیا جاتا ہے۔ ماضی میں ریمنڈ ڈیوس نے جس طرح دو پاکستانیوں کوسرعام قتل کیا، کیا وہ دہشت گردی نہیں تھا؟ خود امریکہ میں ایسے بے شمار واقعات رونما ہوچکے ہیں جن میں ایک شخص نے اسکول کے بچوں کو بلا وجہ قتل کردیا یا طیش میں آکر ٹی وی رپورٹر کو لائیو کوریج کے دوران شوٹ کر دیا گیا۔
ہٹلر نے بے شمار یہودیوں کا قتل عام کیا تو وہ دہشت گرد کہلایا۔ لیکن اسرائیلی مسلمانوں کا روز و شب قتل عام کرتے رہیں تو اسے ان کا حق تصور کیا جائے۔ حال ہی میں ہونے والی بھارت میں تازہ بے شمار مثالیں عصبیت کا شاخسانہ دکھائی دیتی ہیں۔ اگر میں تاریخ سے آپ کے سامنے یہاں مثالیں پیش کرنے لگوں تو شاید مجھے پوری ایک کتاب لکھنی پڑے لیکن یہ مثالیں ختم نہ ہوں۔ اگر آپ عصبیت کی مثالیں دیکھیں گے تو آپ کے رونگھٹے کھڑے ہوجائیں گے کہ کس طرح ایک انسان نے وحشی جانور کی طرح دوسرے انسان کا ناحق خون کیا ہے۔ لیکن میرا مقصد کسی کو دہشت گرد یا معصوم ثابت کرنا ہرگز نہیں ہے۔ صرف عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ ظلم جو بھی کرے اسے ظالم ہی سمجھنا چاہیئے لیکن بدقسمتی سے عصبیت کا زہر ایسا کرنے سے ہمیں روک دیتا ہے۔
کسی بات پر فخر کرنا کسی بھی درجہ میں غلط نہیں ہے لیکن دوسروں کو حقیر جاننا دراصل بیماری کی اصل جڑ ہے۔ جہاں فخر ہوگا وہیں غرور بھی پایا جائے گا۔ اسی غرور نے ابلیس کو شیطان بنا دیا اور وہ جانتے بوجھتے بھی یہ کہہ بیٹھا کہ ''میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے۔'' پھر ایک انسان سے پیدا ہونے والی نسل خود کو ایک دوسرے سے افضل کیونکر سمجھنے لگی۔
''ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا ،پھر تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔"(حجرات: 13)
حضرت فسیلہ رحمتہ اللہ علیہا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے والد کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآل وسلم سے دریافت کیا، کیا اپنی قوم سے محبت کرنا بھی عصبیت میں داخل ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآل وسلم نے ارشاد فرمایا، اپنی قوم سے محبت کرنا عصبیت نہیں بلکہ عصبیت یہ ہے کہ قوم کے ناحق پر ہونے کے باوجود آدمی اپنی قوم کی مدد کرے۔ (مسنداحمد)
ایک اور روایت حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآل وسلم نے ارشاد فرمایا، جو عصبیت کی دعوت دے وہ ہم میں سے نہیں، جو عصبیت کی بناء پر لڑے وہ ہم میں سے نہیں اور جو عصبیت (کے جذبے) پر مرے وہ ہم میں سے نہیں۔ (ابوداؤد)
آج ہمارے ملک پاکستان میں بھی عصبیت کا زہر تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے اور اسے روکنے کی اشد ضرورت ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب آپ کو اس زہر کے نقصانات کا علم ہوگا۔ صرف علم ہی اس زہر کا توڑ ہے کیونکہ علم ہی اصل میں انسان کو انسان بناتا ہے ورنہ انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں۔
[poll id="827"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔