پیرس کانفرنس میں پاکستان کے صرف 350 الفاظ
ہمارے ملک کو بدلتے موسموں اور قدرتی آفات سے اربوں کا نقصان اور مختصر ترین دستاویز!
فرانس کے دارالحکومت پیرس میں اقوام متحدہ کے زیراہتمام بدلتے موسموں (Climate change) پر اکیس ویں عالمی کانفرنس (COP21) 30 نومبر تا11 دسمبر کو منعقد کی گئی۔ ڈیڑھ سو سے زائد سربراہان مملکت، فیصلہ ساز اداروں سے وابستہ عمائدین، غیرسرکاری تنظیموں کے نمائندے اور ذرائع ابلاغ کے عالمی ادارے سبھی موجود تھے۔ یہ کانفرنس اگرچہ ہر سال منعقد ہوتی ہے لیکن اس بار ذرائع ابلاغ نے اسے بھر پور توجہ دی اور ہر ہر پہلو سے اس کی رپورٹنگ ہوتی رہی۔
اس کانفرنس کے انعقاد سے بہت پہلے ہر ملک سے کہا گیا تھا کہ وہ بدلتے موسموں کے حوالے سے اپنا تفصیلی لائحہ عمل اقوام متحدہ کو پیش کرے کہ بدلتے موسموں کے حوالے سے اس ملک کی کیا صورت حال ہے اور یہ کہ وہ کاربن اور دیگر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے کیا کرے گا اور کیا کرنا چاہتا ہے اور یہ کہ اسے دیگر ممالک سے کس قسم کی مدد کی ضرورت ہے۔
ہمارے قارئین کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ پاکستان نے اپنا لائحہ عمل صرف 350 کی مختصر دستاویز میں 6 ہفتوں کی تاخیر سے پیش کیا۔ ''شان دار انگلش'' پر مبنی اس تحریر (Pakistan - Intended Nationally Determined Contributions (INDCs)) میں کوئی اعدادوشمار نہیں ہیں۔ کاربن کی کمی کا کوئی ہدف نہیں ہے اور نہ ترقیاتی رفتار کے لیے کوئی سنگ میل مقرر کیا گیا ہے۔
اس تحریر سے ماہرین بھی سمجھ نہیں پارہے ہیں کہ حکومت کہنا کیا چاہتی ہے سوائے اس کے کہ وہ کچھ کرنا نہیں چاہتی۔ نہ اس میں پاکستان کے آبی مسائل اور بڑھتی ہوئی توانائی کی ضرورت کا ذکر ہے اور نہ ہی یہ کہ بدلتے موسم کس طرح اس کی معیشت پر اثر انداز ہورہے ہیں اور جی ڈی پی کی سالانہ شرح گھٹ رہی ہے۔ خراب ہوتی ہوئی صحت کی صورت کے ضمن میں کس طرح اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑرہا ہے۔
پچھلے دس سالوں کے اعدادو شمار ظاہر کررہے ہیں کہ پاکستان جو بدلتے موسموں کے حوالے سے قدرتی آفات کا شکار ہے ۔ اس کی معیشت جانی اور مالی نقصان کی صورت میں اربوں ڈالرز کا نقصان اٹھا چکی ہے۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ عالمی صنعتی ممالک میں ہماری صنعتی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یعنی کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ہمارا نمبر بہت نیچے ہے لیکن ان مضر گیسوں سے بے ترتیب ہوتے موسموں کے خطرات کا شکار یعنی بھگتنے والوں میں ہمارا نمبر بہت اوپر ہے۔ یہی نکتہ ہمارا وہ مضبوط کیس ہے جسے ہم عالمی فورم پر ڈنکے کی چوٹ پر پیش کرسکتے تھے۔
حکومت کی تحریر (Pakistan - Intended Nationally Determined Contributions (INDCs)) کو آسان زبان میں سمجھنے کے لیے ہم نے کئی ماہرین کی رائے لی لیکن وہ سب اسے سمجھنے سے قاصر ہیں کہ دراصل حکومت چاہتی کیا ہے۔ ماہرماحولیات اور وزیراعظم کی کلائمٹ چینج ٹاسک فورس کے رکن ڈاکٹر پرویز امیر کے مطابق،''انتہائی اہم موقع اور عالمی فورم پر حکومت کی جانب سے جو مختصر تحریر پیش کی گئی ہے وہ انتہائی شرم ناک ہے۔
اس سے کہیں بہتر تھا کہ آپ کچھ بھی نہ پیش کرتے۔ چھے ہفتے تاخیر سے جمع کروائی جانے والی یہ تحریر انتہائی گول مول نکات پر مبنی ہے۔ ہمارا ملک کس طرح قدرتی آفات کا شکار ہے، اس کا کوئی ذکر نہیں اور نہ ہی اس میں کوئی کمٹمنٹ ہے کہ کس طرح کاربن کے اخراج کو کم کیا جاسکے گا اور اس کا مطلب یہی ہے کہ ہم نہ کچھ کررہے ہیں اور نہ کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ آپ بنگلادیش کو دیکھیں وہ کس طرح بدلتے موسموں کے حوالے سے اپنے ملک کا کیس مدلل انداز میں پیش کرکے عالمی اداروں سے فنڈ حاصل کررہا ہے۔
بنگلادیش کو صرف سیلابوں کا خطرہ لاحق ہے، جب کہ پاکستان کو کئی حوالوں سے خطرات لاحق ہیں۔ سیلاب، گلیشیئر کا پگھلاؤ، خشک سالی، لینڈ سلائیڈنگ وغیرہ۔ ہم تو انتہائی خطرے کی زد میں ہیں ایسے میں حکومت کی یہ کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔''
بہت سے لوگ اس پر بھی حیران ہیں کہ جب حکومت کے پاس ایک جامع کلائمٹ چینج پالیسی اور عمل درآمد کے لیے ایکشن پلان موجود ہے تو پھر اس حوالے سے کوئی منصوبہ بندی یا اہداف مقرر کرتے ہوئے کیسی ہچکچاہٹ ہے۔
ایک اور ماہرماحولیات کا کہنا ہے کہ یہ یک صفحی دستاویز جمع کروانے سے بہتر تھا کہ جمع نہ کروائی جاتی۔ تمام ممالک سے یہ دستاویز اس لیے مانگی گئی تھی کہ دیکھا جاسکے کہ وہ ملک بدلتے موسموں کے حوالے سے کن مسائل کا سامنا کررہا ہے اور ان کے حل کے لیے وہ کیا کرسکتا ہے اور کب تک؟
دنیا بھر میں بدلتے موسموں پر بحث جاری ہے۔ ان کے اثرات اور متوقع نقصانات کا تخمینہ لگایا جارہا ہے اور ساتھ ہی روک تھام اور مطابقت کے اقدامات پر تحقیق جاری ہے، لیکن ہمارے ہاں طوفان سے پہلے بند باندھنے کا رواج ہرگز نہیں ہے، جبھی تو 2010 اور پھر 2011 کا سیلاب ہمارے لیے اب تک قصۂ پارینہ بن چکا ہے۔
پچھلی دہائی سے ماہرین مسلسل خبردار کررہے ہیں کہ بدلتے موسم اب ایک حقیقت بن کر سامنے آچکے ہیں اور پچھلے سالوں کے سیلاب ہمیں یہ بتا چکے ہیں کہ پاکستان بدلتے موسموں کی زد میں آچکا ہے۔ ہمیں فوراً سے پیشتر بچاؤ کی حکمت عملی تیار کرلینا چاہیے۔
گذشتہ حکومت جس کی ''بیڈ گورنس'' کی مثال شاید ہی تاریخ میں مل سکے، چند اچھے کام بھی کر گئی ہے۔ اس کے ان چند اچھے کاموں میں بدلتے موسموں کے خطرات سے نمٹنے کے لیے تیار کردہ ''نیشنل کلائمٹ چینج پالیسی'' کی منظوری بھی ہے۔ آئیے! اس پالیسی کا جائزہ لیتے ہیں کہ یہ کتنی قابل عمل ہے!
پاکستان بدلتے موسموں کی زد میں آئے ہوئے ممالک میں سرفہرست آچکا ہے اور وہ قدرتی آفات کے مقابلے میں جانی اور مالی نقصان کی صورت ایک بھاری قیمت ادا کررہا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق یہ قیمت پاکستان میں سالانہ 6 سے 14 ارب ڈالرز کے درمیان ہے۔ اگر صرف 2010 کے سیلابِ بلاخیز کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان کی معیشت 2010 میں 10ارب ڈالرز کا نقصان اٹھاچکی ہے۔ اب جب کہ ہم نے ''نیشنل کلائمٹ چینج پالیسی'' تیار اور کابینہ سے منظور کرواہی لی ہے، تو یقیناً پہلی ترجیح اس نقصان کو روکنا یعنی قدرتی آفات سے نمٹنے کی پیش بندی ہے۔
یہ پالیسی بدلتے موسموں کے مضر اثرات کا مقابلہ (Mitigation)اور ان اثرات سے ہم آہنگی یا مطابقت (Adaptation) دونوں کا احاطہ کرتی ہے۔ بدلتے موسموں سے مطابقت (Adaptation) کے حوالے سے اگر جائزہ لیا جائے توعالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ بہت کم، لیکن ان کے نقصانات بھگتنے والوں میں اس کا نمبر سرفہرست ہے۔ مالی وسائل اور جدید تیکنیک کی عدم دست یابی اور کم تر صلاحیتوں کے باعث ہم اس بلا کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہرگز نہیں ہیں جس کا نام کلائمٹ چینج ہے۔
پلاننگ کمیشن کی دستاویز ''وژن2030'' میں متعین کیے گئے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے ترقیاتی راہ پر گام زن رہنے کے لیے لازمی ہے کہ وہ اس نئے چیلینج کا سامنا کرنے کے لیے میدان تیار کرے۔ مطابقت پیدا کرنے کے لیے مناسب اقدامات وضع کرنے اور ان کے نفاذ کے ذریعے ہی ملک کے لیے آبی، غذائی اور توانائی کے تحفظ کو یقینی بنانا ممکن ہوسکے گا نیز انسانی زندگی، صحت اور املاک پر قدرتی سانحات کے اثر کو کم سے کم کیا جاسکتا ہے، جب کہ بدلتے موسموں کے مضر اثرات سے بچاؤ(Mitigation) کے ضمن میں پاکستان کا گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج بین الاقوامی معیارات سے خاصا کم ہے۔
2008 میں پاکستان کا کل اخراج 310 ملین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے برابر تھا۔ اس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ 54%، میتھین36%، نائٹرس آکسائیڈ9%، کاربن مونو آکسائیڈ 0.7% وغیرہ شامل تھا۔
پاکستان میں توانائی کا شعبہ پاکستان میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا سب سے بڑا ذریعہ ہے جو تقریباً 51% اخراج کا سبب ہے اور اس کے بعد زرعی شعبہ 39% ، صنعتی عمل 6%، اراضی کا استعمال، اراضی کے استعمال میں تبدیلی اور جنگلات کی کٹائی 3% اور ایک فی صد فضلہ شامل ہے۔ لہٰذا اگر دیکھا جائے تو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی کے لیے بنیادی اہداف توانائی اور زراعت کے شعبے ہیں۔
نیشنل کلائمٹ چینج پالیسی کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو یہ دستاویز یقیناً بدلتے موسموں کے حوالے سے بیشتر موضوعات کا احاطہ کرتی ہے اور تفصیلی طور پر ہر موضوع پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہاں برسبیل تذکرہ ہم یہ بتاتے چلیں کہ ہمارے ہاں اس حوالے سے بہترین دماغ موجود ہیں جو اس قسم کی دستاویزات کی تیاری میں کمال مہارت کے حامل ہے۔ یہ مذاق یا طنز نہیں ہے بل کہ ایک حقیقت ہے۔
ہماری بنائی گئی پالیسیوں کو کئی ممالک نے اپنایا اور عمل درآمد کیا مثلاً جنوبی کوریا وغیرہ۔ یہ اور بات ہے کہ وہ ان پالیسیوں پر عمل درآمد کرکے ہم سے بہت آگے بڑھ چکے ہیں۔ گویا دستاویزات کی حد تک تو یہ پالیسی بھی بہت شان دار اور مفصل ہے لیکن عمل درآمد کے حوالے سے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان موجود ہے۔
نیشنل کلائمٹ چینج پالیسی میں پاکستان میں جاری بھیانک لوڈ شیڈنگ، پانی کی کمی کے پیش نظر خصوصی توجہ کے شعبے میں پانی، خوراک اور توانائی کا تحفظ شامل ہے۔ بدلتے موسم جس طرح آب وہوا تبدیل کر رہے ہیں ان میں گلیشیئروں کا پگھلاؤ بھی ایک اہم مظہر ہے۔ اس حوالے سے اس پالیسی میں تھرڈ پول یعنی ہندوکش، قراقرم کے علاقے کے گلیشیئرز کا بھی تذکرہ موجود ہے۔ واضح رہے کہ ہمارے شمالی علاقہ جات میں موجود گلیشیئرز دریائے سندھ کے طاس کے کل بہاؤ کے 50% کا سبب ہیں، جو پاکستان کے کسانوں کے لیے زندگی کی حیثیت رکھتا ہے۔
ذرائع کے مطابق زراعت جی ڈی پی کے 23% اور کل روزگار کے 44% کی حامل ہے۔ گلیشیئرز کے پگھلاؤ اور آبی وسائل پر بدلتے موسموں کے منفی اثرات کو کم کرنا اور ان سے مطابقت پیدا کرنا اسی وقت ممکن ہوسکے گا جب ان اثرات اور اسباب کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے اور یہ تبھی ممکن ہوسکے گا جب ہم اس حوالے سے سائنسی انداز کی تحقیق اور جدید ٹیکنالوجی استعمال کریں۔
بدلتے موسموں کی شدت بدترین قدرتی آفات کی صورت ہمارے خطے میں رونما ہورہی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کا2010 کا سیلاب بلاخیز جنوبی ایشیا میں ایک بدترین مثال بن چکا ہے۔ نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی اس 2010 کے سیلاب کے بعد رونما ہونے والے متاثرین پر بدترین اثرات اور اس قسم کی قدرتی آفات میں کمی پر بھی بحث کرتی ہے۔ اس طرح کی تباہی سے معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچتا ہے۔
ایسے واقعات نہ صرف ماحولیاتی، انسانی، معاشی اور سماجی دباؤ پیدا کرتے ہیں بل کہ یہ ملک کو ترقیاتی اہداف کے حصول میں بھی ناکامی سے دوچار کردیتے ہیں۔ پاکستان میں بالکل یہی صورت حال درپیش ہے اور ہمارے کم زور ترقیاتی اشارے اس بات کا واضح ثبوت ہیں۔
عالمی بینک کی ایک رپورٹ جنوبی ایشیائی خطے میں واقع تمام مالک کے لیے جس کا پاکستان بھی ایک حصہ ہے ایک اور خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ '' جنوبی ایشیائی خطے میں فی سال آنے والی تباہیوں کی تعداد چار عشروں کے دوران چار گنا ہوچکی ہے ۔ پچھلے صرف پانچ سالوں میں مجموعی نقصانات 25 ارب امریکی ڈالر ہوا۔ جنوبی ایشیائی خطے میں تباہی کے بڑھتے ہو خطرات کے باوجود افراد اور حکومتوں کے درمیان اس خطرے کی آگہی اور سمجھ بہت کم ہے۔
بدلتے موسموں کے خطرات سے دوچار ممالک کی مدد کے لیے عالمی سطح پر 100 بلین ڈالرز کا فنڈ مختص کیا گیا ہے ۔ دیکھا جائے تو پاکستان گذشتہ دس سالوں سے قدرتی آفات کی زد میں ہے لہذا اس فنڈ کی پاکستان کو انتھائی ضرورت ہے، لیکن یہ فنڈ ریوڑیوں کی طرح نہیں بانٹا جاتا ہے بل کہ اس کے لیے آپ کو پروجیکٹ بنانے پڑتے ہیں، منصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے، پھر پروپوزل تیار ہوتا ہے۔ یہ پروپوزل انتہائی تیکنیکی اور ماہرانہ انداز میں لکھا ہونا چاہیے، لیکن جو حکومت غیرسنجیدگی سے چند سو الفاظ میں ساری کتھا سمیٹ دے اس سے کیسی مہارت کی توقع کی جاسکتی ہے۔
اس کانفرنس کے انعقاد سے بہت پہلے ہر ملک سے کہا گیا تھا کہ وہ بدلتے موسموں کے حوالے سے اپنا تفصیلی لائحہ عمل اقوام متحدہ کو پیش کرے کہ بدلتے موسموں کے حوالے سے اس ملک کی کیا صورت حال ہے اور یہ کہ وہ کاربن اور دیگر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے کیا کرے گا اور کیا کرنا چاہتا ہے اور یہ کہ اسے دیگر ممالک سے کس قسم کی مدد کی ضرورت ہے۔
ہمارے قارئین کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ پاکستان نے اپنا لائحہ عمل صرف 350 کی مختصر دستاویز میں 6 ہفتوں کی تاخیر سے پیش کیا۔ ''شان دار انگلش'' پر مبنی اس تحریر (Pakistan - Intended Nationally Determined Contributions (INDCs)) میں کوئی اعدادوشمار نہیں ہیں۔ کاربن کی کمی کا کوئی ہدف نہیں ہے اور نہ ترقیاتی رفتار کے لیے کوئی سنگ میل مقرر کیا گیا ہے۔
اس تحریر سے ماہرین بھی سمجھ نہیں پارہے ہیں کہ حکومت کہنا کیا چاہتی ہے سوائے اس کے کہ وہ کچھ کرنا نہیں چاہتی۔ نہ اس میں پاکستان کے آبی مسائل اور بڑھتی ہوئی توانائی کی ضرورت کا ذکر ہے اور نہ ہی یہ کہ بدلتے موسم کس طرح اس کی معیشت پر اثر انداز ہورہے ہیں اور جی ڈی پی کی سالانہ شرح گھٹ رہی ہے۔ خراب ہوتی ہوئی صحت کی صورت کے ضمن میں کس طرح اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑرہا ہے۔
پچھلے دس سالوں کے اعدادو شمار ظاہر کررہے ہیں کہ پاکستان جو بدلتے موسموں کے حوالے سے قدرتی آفات کا شکار ہے ۔ اس کی معیشت جانی اور مالی نقصان کی صورت میں اربوں ڈالرز کا نقصان اٹھا چکی ہے۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ عالمی صنعتی ممالک میں ہماری صنعتی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یعنی کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ہمارا نمبر بہت نیچے ہے لیکن ان مضر گیسوں سے بے ترتیب ہوتے موسموں کے خطرات کا شکار یعنی بھگتنے والوں میں ہمارا نمبر بہت اوپر ہے۔ یہی نکتہ ہمارا وہ مضبوط کیس ہے جسے ہم عالمی فورم پر ڈنکے کی چوٹ پر پیش کرسکتے تھے۔
حکومت کی تحریر (Pakistan - Intended Nationally Determined Contributions (INDCs)) کو آسان زبان میں سمجھنے کے لیے ہم نے کئی ماہرین کی رائے لی لیکن وہ سب اسے سمجھنے سے قاصر ہیں کہ دراصل حکومت چاہتی کیا ہے۔ ماہرماحولیات اور وزیراعظم کی کلائمٹ چینج ٹاسک فورس کے رکن ڈاکٹر پرویز امیر کے مطابق،''انتہائی اہم موقع اور عالمی فورم پر حکومت کی جانب سے جو مختصر تحریر پیش کی گئی ہے وہ انتہائی شرم ناک ہے۔
اس سے کہیں بہتر تھا کہ آپ کچھ بھی نہ پیش کرتے۔ چھے ہفتے تاخیر سے جمع کروائی جانے والی یہ تحریر انتہائی گول مول نکات پر مبنی ہے۔ ہمارا ملک کس طرح قدرتی آفات کا شکار ہے، اس کا کوئی ذکر نہیں اور نہ ہی اس میں کوئی کمٹمنٹ ہے کہ کس طرح کاربن کے اخراج کو کم کیا جاسکے گا اور اس کا مطلب یہی ہے کہ ہم نہ کچھ کررہے ہیں اور نہ کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ آپ بنگلادیش کو دیکھیں وہ کس طرح بدلتے موسموں کے حوالے سے اپنے ملک کا کیس مدلل انداز میں پیش کرکے عالمی اداروں سے فنڈ حاصل کررہا ہے۔
بنگلادیش کو صرف سیلابوں کا خطرہ لاحق ہے، جب کہ پاکستان کو کئی حوالوں سے خطرات لاحق ہیں۔ سیلاب، گلیشیئر کا پگھلاؤ، خشک سالی، لینڈ سلائیڈنگ وغیرہ۔ ہم تو انتہائی خطرے کی زد میں ہیں ایسے میں حکومت کی یہ کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔''
بہت سے لوگ اس پر بھی حیران ہیں کہ جب حکومت کے پاس ایک جامع کلائمٹ چینج پالیسی اور عمل درآمد کے لیے ایکشن پلان موجود ہے تو پھر اس حوالے سے کوئی منصوبہ بندی یا اہداف مقرر کرتے ہوئے کیسی ہچکچاہٹ ہے۔
ایک اور ماہرماحولیات کا کہنا ہے کہ یہ یک صفحی دستاویز جمع کروانے سے بہتر تھا کہ جمع نہ کروائی جاتی۔ تمام ممالک سے یہ دستاویز اس لیے مانگی گئی تھی کہ دیکھا جاسکے کہ وہ ملک بدلتے موسموں کے حوالے سے کن مسائل کا سامنا کررہا ہے اور ان کے حل کے لیے وہ کیا کرسکتا ہے اور کب تک؟
دنیا بھر میں بدلتے موسموں پر بحث جاری ہے۔ ان کے اثرات اور متوقع نقصانات کا تخمینہ لگایا جارہا ہے اور ساتھ ہی روک تھام اور مطابقت کے اقدامات پر تحقیق جاری ہے، لیکن ہمارے ہاں طوفان سے پہلے بند باندھنے کا رواج ہرگز نہیں ہے، جبھی تو 2010 اور پھر 2011 کا سیلاب ہمارے لیے اب تک قصۂ پارینہ بن چکا ہے۔
پچھلی دہائی سے ماہرین مسلسل خبردار کررہے ہیں کہ بدلتے موسم اب ایک حقیقت بن کر سامنے آچکے ہیں اور پچھلے سالوں کے سیلاب ہمیں یہ بتا چکے ہیں کہ پاکستان بدلتے موسموں کی زد میں آچکا ہے۔ ہمیں فوراً سے پیشتر بچاؤ کی حکمت عملی تیار کرلینا چاہیے۔
گذشتہ حکومت جس کی ''بیڈ گورنس'' کی مثال شاید ہی تاریخ میں مل سکے، چند اچھے کام بھی کر گئی ہے۔ اس کے ان چند اچھے کاموں میں بدلتے موسموں کے خطرات سے نمٹنے کے لیے تیار کردہ ''نیشنل کلائمٹ چینج پالیسی'' کی منظوری بھی ہے۔ آئیے! اس پالیسی کا جائزہ لیتے ہیں کہ یہ کتنی قابل عمل ہے!
پاکستان بدلتے موسموں کی زد میں آئے ہوئے ممالک میں سرفہرست آچکا ہے اور وہ قدرتی آفات کے مقابلے میں جانی اور مالی نقصان کی صورت ایک بھاری قیمت ادا کررہا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق یہ قیمت پاکستان میں سالانہ 6 سے 14 ارب ڈالرز کے درمیان ہے۔ اگر صرف 2010 کے سیلابِ بلاخیز کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان کی معیشت 2010 میں 10ارب ڈالرز کا نقصان اٹھاچکی ہے۔ اب جب کہ ہم نے ''نیشنل کلائمٹ چینج پالیسی'' تیار اور کابینہ سے منظور کرواہی لی ہے، تو یقیناً پہلی ترجیح اس نقصان کو روکنا یعنی قدرتی آفات سے نمٹنے کی پیش بندی ہے۔
یہ پالیسی بدلتے موسموں کے مضر اثرات کا مقابلہ (Mitigation)اور ان اثرات سے ہم آہنگی یا مطابقت (Adaptation) دونوں کا احاطہ کرتی ہے۔ بدلتے موسموں سے مطابقت (Adaptation) کے حوالے سے اگر جائزہ لیا جائے توعالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ بہت کم، لیکن ان کے نقصانات بھگتنے والوں میں اس کا نمبر سرفہرست ہے۔ مالی وسائل اور جدید تیکنیک کی عدم دست یابی اور کم تر صلاحیتوں کے باعث ہم اس بلا کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہرگز نہیں ہیں جس کا نام کلائمٹ چینج ہے۔
پلاننگ کمیشن کی دستاویز ''وژن2030'' میں متعین کیے گئے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے ترقیاتی راہ پر گام زن رہنے کے لیے لازمی ہے کہ وہ اس نئے چیلینج کا سامنا کرنے کے لیے میدان تیار کرے۔ مطابقت پیدا کرنے کے لیے مناسب اقدامات وضع کرنے اور ان کے نفاذ کے ذریعے ہی ملک کے لیے آبی، غذائی اور توانائی کے تحفظ کو یقینی بنانا ممکن ہوسکے گا نیز انسانی زندگی، صحت اور املاک پر قدرتی سانحات کے اثر کو کم سے کم کیا جاسکتا ہے، جب کہ بدلتے موسموں کے مضر اثرات سے بچاؤ(Mitigation) کے ضمن میں پاکستان کا گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج بین الاقوامی معیارات سے خاصا کم ہے۔
2008 میں پاکستان کا کل اخراج 310 ملین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے برابر تھا۔ اس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ 54%، میتھین36%، نائٹرس آکسائیڈ9%، کاربن مونو آکسائیڈ 0.7% وغیرہ شامل تھا۔
پاکستان میں توانائی کا شعبہ پاکستان میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا سب سے بڑا ذریعہ ہے جو تقریباً 51% اخراج کا سبب ہے اور اس کے بعد زرعی شعبہ 39% ، صنعتی عمل 6%، اراضی کا استعمال، اراضی کے استعمال میں تبدیلی اور جنگلات کی کٹائی 3% اور ایک فی صد فضلہ شامل ہے۔ لہٰذا اگر دیکھا جائے تو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی کے لیے بنیادی اہداف توانائی اور زراعت کے شعبے ہیں۔
نیشنل کلائمٹ چینج پالیسی کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو یہ دستاویز یقیناً بدلتے موسموں کے حوالے سے بیشتر موضوعات کا احاطہ کرتی ہے اور تفصیلی طور پر ہر موضوع پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہاں برسبیل تذکرہ ہم یہ بتاتے چلیں کہ ہمارے ہاں اس حوالے سے بہترین دماغ موجود ہیں جو اس قسم کی دستاویزات کی تیاری میں کمال مہارت کے حامل ہے۔ یہ مذاق یا طنز نہیں ہے بل کہ ایک حقیقت ہے۔
ہماری بنائی گئی پالیسیوں کو کئی ممالک نے اپنایا اور عمل درآمد کیا مثلاً جنوبی کوریا وغیرہ۔ یہ اور بات ہے کہ وہ ان پالیسیوں پر عمل درآمد کرکے ہم سے بہت آگے بڑھ چکے ہیں۔ گویا دستاویزات کی حد تک تو یہ پالیسی بھی بہت شان دار اور مفصل ہے لیکن عمل درآمد کے حوالے سے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان موجود ہے۔
نیشنل کلائمٹ چینج پالیسی میں پاکستان میں جاری بھیانک لوڈ شیڈنگ، پانی کی کمی کے پیش نظر خصوصی توجہ کے شعبے میں پانی، خوراک اور توانائی کا تحفظ شامل ہے۔ بدلتے موسم جس طرح آب وہوا تبدیل کر رہے ہیں ان میں گلیشیئروں کا پگھلاؤ بھی ایک اہم مظہر ہے۔ اس حوالے سے اس پالیسی میں تھرڈ پول یعنی ہندوکش، قراقرم کے علاقے کے گلیشیئرز کا بھی تذکرہ موجود ہے۔ واضح رہے کہ ہمارے شمالی علاقہ جات میں موجود گلیشیئرز دریائے سندھ کے طاس کے کل بہاؤ کے 50% کا سبب ہیں، جو پاکستان کے کسانوں کے لیے زندگی کی حیثیت رکھتا ہے۔
ذرائع کے مطابق زراعت جی ڈی پی کے 23% اور کل روزگار کے 44% کی حامل ہے۔ گلیشیئرز کے پگھلاؤ اور آبی وسائل پر بدلتے موسموں کے منفی اثرات کو کم کرنا اور ان سے مطابقت پیدا کرنا اسی وقت ممکن ہوسکے گا جب ان اثرات اور اسباب کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے اور یہ تبھی ممکن ہوسکے گا جب ہم اس حوالے سے سائنسی انداز کی تحقیق اور جدید ٹیکنالوجی استعمال کریں۔
بدلتے موسموں کی شدت بدترین قدرتی آفات کی صورت ہمارے خطے میں رونما ہورہی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کا2010 کا سیلاب بلاخیز جنوبی ایشیا میں ایک بدترین مثال بن چکا ہے۔ نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی اس 2010 کے سیلاب کے بعد رونما ہونے والے متاثرین پر بدترین اثرات اور اس قسم کی قدرتی آفات میں کمی پر بھی بحث کرتی ہے۔ اس طرح کی تباہی سے معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچتا ہے۔
ایسے واقعات نہ صرف ماحولیاتی، انسانی، معاشی اور سماجی دباؤ پیدا کرتے ہیں بل کہ یہ ملک کو ترقیاتی اہداف کے حصول میں بھی ناکامی سے دوچار کردیتے ہیں۔ پاکستان میں بالکل یہی صورت حال درپیش ہے اور ہمارے کم زور ترقیاتی اشارے اس بات کا واضح ثبوت ہیں۔
عالمی بینک کی ایک رپورٹ جنوبی ایشیائی خطے میں واقع تمام مالک کے لیے جس کا پاکستان بھی ایک حصہ ہے ایک اور خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ '' جنوبی ایشیائی خطے میں فی سال آنے والی تباہیوں کی تعداد چار عشروں کے دوران چار گنا ہوچکی ہے ۔ پچھلے صرف پانچ سالوں میں مجموعی نقصانات 25 ارب امریکی ڈالر ہوا۔ جنوبی ایشیائی خطے میں تباہی کے بڑھتے ہو خطرات کے باوجود افراد اور حکومتوں کے درمیان اس خطرے کی آگہی اور سمجھ بہت کم ہے۔
بدلتے موسموں کے خطرات سے دوچار ممالک کی مدد کے لیے عالمی سطح پر 100 بلین ڈالرز کا فنڈ مختص کیا گیا ہے ۔ دیکھا جائے تو پاکستان گذشتہ دس سالوں سے قدرتی آفات کی زد میں ہے لہذا اس فنڈ کی پاکستان کو انتھائی ضرورت ہے، لیکن یہ فنڈ ریوڑیوں کی طرح نہیں بانٹا جاتا ہے بل کہ اس کے لیے آپ کو پروجیکٹ بنانے پڑتے ہیں، منصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے، پھر پروپوزل تیار ہوتا ہے۔ یہ پروپوزل انتہائی تیکنیکی اور ماہرانہ انداز میں لکھا ہونا چاہیے، لیکن جو حکومت غیرسنجیدگی سے چند سو الفاظ میں ساری کتھا سمیٹ دے اس سے کیسی مہارت کی توقع کی جاسکتی ہے۔