برابری پر مبنی انسانی حقوق کا عالمی منشور خود عدم مساوات کا شکار
بڑے ممالک کا دوہرا معیارانسانی حقوق کے عالمی منشور کی افادیت کو مزیدکم کررہا ہے
''انسانی حقوق'' جب بھی یہ لفظ کہیں سننے کو آتا ہے تو دیکھا یہ گیا ہے کہ ہماری اکثریت اس لفظ کو سننا گوارہ نہیں کرتی۔ ان کے نزدیک یہ لفظ شاید کسی اچنبے سے کم نہیں ۔ غریب یہ کہتا ہے کہ اس کی خوراک،تعلیم، صحت اور رہائش کی ضروریات پوری ہوتی نہیں اور لوگ انسانی حقوق کی باتیں کرتے پھرتے ہیں۔
امیر اس لفظ سے اس لئے ڈرتا ہے کہ معاشرے کا ایک صاحب حیثیت فرد ہونے کے ناطے خود سے وابستہ لوگوں کے حقوق کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔ معاشرہ اس اصطلاح سے اس لئے گھبراتا ہے کہ اسے اپنی فرسودہ روایات اور نظریات کی قیود سے اپنے افراد کو آزاد کرنا پڑتا ہے۔
حکومتیں اس لفظ سے اس لئے کتراتی ہیں کہ وہ مجموعی طور پر اپنی عوام کے حقوق کی ادائیگی کی ذمہ دار ہیں اور جواب دہ بھی۔ یعنی انفرادی سے لے کر اجتماعی سطح پر ہر کوئی ''انسانی حقوق'' کی اصطلاح سے یوں بھاگتا ہے کہ جیسے اُسے کوئی کرنٹ لگا ہو۔ جس کی صرف اور صرف ایک وجہ ان حقوق کی ادائیگی اور دستیابی ہے۔ لیکن اس کے برعکس جب کوئی خود کسی حق کا طلب گار ہوتا ہے تو پھر ''انسانی حقوق'' کی اصطلاح اُس کا اوڑنا بچھونا بن جاتی ہے۔
انسانی حقوق کی تکمیل کے حوالے سے تیسری دنیا کی صورتحال آج بھی قدرے مخدوش ہے کیونکہ جہالت و کم علمی کی وجہ سے ترقی پذیرممالک کی اکثر آبادی کو اس چیز کا احساس ہی نہیں کہ بطور انسان ان کے معاشرے اور حکومتوں پر کیا حقوق ہیں؟کیونکہ کارخانہ حیات میں وہ اس قدر الجھ چکے ہیں کہ ان کی اکثریت کو اپنے حقوق کے بارے میں شعور ہی نہیں جس کی وجہ سے اس کی طلب کے حوالے سے انہیں خیال ہی نہیں آتا ہے اور جن کو آتا بھی ہے تو ہر اُس حق جو بطور انسان، مذہب اور دنیاوی قوانین اُسے فراہم کرتے ہیں ،کے حصول کے لئے اُسے تگ ودوکرنی پڑتی ہے لیکن اس کے باوجود اکثرانھیں وہ حاصل نہیں ہوتے۔
کیونکہ انہیں فراہم کرنے والے ادارے اپنے فرائض منصبی سے لاپرواہ ہیں اور حکومتیں بے حس۔ اداروں کی اس بے پرواہی اور حکومتوں کی عدم دلچسپی کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں میں اپنے حقوق کے شعور کو اجاگر کرنے کے سلسلے میں ہر سال دنیا بھر میں10دسمبر کو''حقوق انسانی'' کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد10دسمبر1948 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اختیار کردہ انسانی حقوق کے عالمی منشور جو ان حقوق کی تعریف اور ان کو اجاگر کرنے کے حوالے سے عالمی معیار ہے پر عملدرآمد کی تجدید کرنا ہے۔
دنیا بھر میں آج بنیادی ضروریات کی عدم دستیابی انسانی حقوق کی سنگین خلاف وزری تصور ہوتی ہے اور یہ سب کسی ادارے یا حکومت کی جانب سے لوگوں کے حقوق کی بد ترین غصبی کے باعث رو نما ہوتی ہے اس کے علاوہ حکومتیں (خاص کر ترقی پذیر ممالک کی) عوام کو اُن کے بنیادی حقوق کی فراہمی میں کس قدر کامیاب ہیں ؟
اس کا کچھ اندازہ اقوام متحدہ کے مختلف اداروں کے ان اعدادوشمار سے لگا یا جاسکتا ہے کہ آج بھی دنیا کے 79 کروڑ5لاکھ افراد کو صرف اتنی خوراک ملتی ہے کہ ان کی روح اور جسم کا تعلق برقرار رہے کیا خوراک ہر انسان کا بنیادی حق نہیں تو پھر ایسا کیوں ہے؟ پینے کا صاف پانی تمام انسانوں کا بنیادی حق ہے لیکن اس کے باوجود 66کروڑ30 لاکھ افراد کو یہ دستیاب نہیں۔ اسی طرح نکاسی آب سے محروم 2.4ارب افراد اپنے اس حق کے طلب گار ہیں اور تعلیم کے بنیادی حق سے اس وقت یونیسکو کے مطابق83 کروڑ 84لاکھ بچے اور بڑے محروم ہیں جبکہ مکان سے محروم آبادی 10 کروڑسے زائد ہے ۔
روزگار جو تمام انسانوں کا بنیادی حق ہے لیکن اس حق تلفی کے نتیجے میں عالمی ادارہ محنت کے مطابق دنیا کے20 کروڑ10لاکھ افراد بے روزگار ہیں ۔جب کہا یہ جاتا ہے کہ دولت کی مساو یانہ تقسیم ہونی چاہیے اور سب کو ان کی اہلیت کے مطابق معاشی مواقع ملنے چاہئیں تو پھر دنیا کے 70کروڑ 20 لاکھ افراد غریب ترین کیوں ہیں؟ اسی طرح دنیا میں آنے والے ہر بچے کو جینے کا حق ہے تو پھر ہر سال59لاکھ بچے اپنی پانچویں سالگرہ سے پہلے کیوں مر جاتے ہیں؟ کیوںدنیا میں16کروڑ80لاکھ بچے تعلیم کی بجائے محنت مشقت کر رہے ہیں؟
خواتین کو تشدد سے پاک ماحول فراہم ہونا ان کا حق ہے تو پھر کیوںدنیا میں ہر تین میں سے ایک خاتون اپنی زندگی میںGender based abuse کے تلخ تجربے سے گزرتی ہیں؟جب آزاد،خود مختار اور ہر طرح کے خوف سے مبرا رہنا ہرانسان کا حق ہے تو پھرغاصبانہ قبضہ، دہشت گردی، مسلح تصادم اور جنگیں کیوں ہوتی ہیں؟ان تمام سوالات کے جوابات اپنی جگہ تو موجود ہی ہیںلیکن بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کے حوالے سے اکثر بڑے ممالک کا دوہرا معیار بھی اس عالمی منشور کی افادیت کو مزیدکم کررہا ہے۔ کیونکہ آج ترقی یافتہ ممالک اپنے عوام کے حقوق کا تو ہر ممکن خیال رکھتے ہیں لیکن جب بات عالمی سطح پر مفادات کے حصول کی ہو تو پھر یہی بڑی طاقتیں چھوٹے اور کمزور ممالک کے انسانی حقوق کو نا صرف پامال کردیتی ہیں۔
بلکہ بعض اوقات انہی حقوق کو بنیاد بنا کر دیگر ممالک پر پابندیاں بھی عائد کر دی جاتی ہیں یا پھراُن پر اپنے مفاد کے فیصلے مسلط کر دیئے جاتے ہیں۔اس دوہرے معیار کی کئی ایک صورتیں فلسطین، عراق، مقبوضہ جموں وکشمیر، افغانستان، میانمار، سوڈان، ایسٹ تیمور اور پاکستان میں دیکھی جا سکتی ہیں۔کیا عجب حقیقت ہے کہ انسانی مساوات کے لئے بنایا گیا انسانی حقوق کا عالمی چارٹر ہی عملدرآمد (تکمیل) کے حوالے سے خود عدم مساوات کا شکار ہے۔
دنیا کی اقوام میں کشمیر، فلسطین اور افغانستان کے عوام زیادہ مظلوم ہیں جن کے حقوق کو بری طرح پامال کیا جا رہا ہے، کشمیریوں کو ان کے آزادی کے جائز حق سے محروم رکھنے کے لئے مقبوضہ کشمیر پر غاصب بھارتی افواج اور پولیس نے جنوری1989ء سے 31 اکتوبر2015ء تک94 ہزار سے زائد عام شہریوں کو شہید کیا جبکہ7ہزار38 کشمیریوں کو حراست کے دوران شہید کیا گیا، مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے کشمیر میڈیا سروس کے یہ اعداد و شمار کشمیریوں کے انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کی واضح دلیل ہیں جسے مزید تقویت ان ا ندوہناک اعداد و شمار سے ملتی ہے۔
سینٹر کے مطابق مذکورہ عرصہ کے دوران اب تک مقبوضہ کشمیر میں 1لاکھ6 ہزار50 مکانات اور دکانوں کو نذر آتش کیا جا چکا ہے۔22 ہزار8سو6 خواتین کو بیوہ جبکہ1لاکھ7ہزار5 سو 45 بچوںکو یتیم اور10ہزار 1سو 59 خواتین کی اجتماعی آبرویزی کی جا چکی ہے ۔ ان اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور پامالی کرنے میں بھارت دنیا بھر میں سب سے آگے ہے۔ بھارت کے بعد دوسرے نمبر پر انسانی حقوق کی دھجیاں اڑانے والا ملک اسرائیل ہے ۔
جس کی افواج نے فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں پہلی انتفادہ تحریک کے دوران1551فلسطینی شہید کئے جبکہ دوسری انتفادہ تحریک کے دوران 6 ہزار 8 سو90 فلسطینیوں نے جام شہادت نوش کیا۔ ان تحاریک کے دوران بچے، بوڑھے اور خواتین کے علاوہ طبی عملہ اور سہولتیں بھی اسرائیل کے ظلم و زیادتیوں کا نشانہ بنیں۔ امریکہ کا عراق میں کردار بھی انسانی حقوق کی واضح پامالی کی علامت ہے جبکہ افغانستان میں اتحادی افواج بھی انسانی حقوق کی پامالی کی مرتکب ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ میانمار میں مسلمانوں کا قتلِ عام بھی انسانی حقوق کے علمبرداروں کی دورخی کو جھنجھوڑ رہا ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ اگر ہم انسانی حقوق کی فراہمی کے حوالے سے صورتحال کو اس تناظر میں دیکھیںکہ جن ممالک کی حکومتیں اپنے عوام کی سماجی، معاشی، سیاسی اور دیگر حقوق کی پاسداری کے حوالے سے جتنا زیادہ کام کرتی ہیں وہاں کے عوام اتنی ہی زیادہ پُر آسائش زندگی گزارتے ہیں اور وہاں انسانی حقوق کی صورتحال بہترشمار کی جاتی ہے۔اس حوالے سے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقی کی ہیومن ڈیویلپمنٹ رپورٹ 2014ء میں انسانی ترقی کے حوالے سے دنیا کے187ممالک کی عالمی درجہ بندی کی گئی ہے۔
جس میں لوگوں کو صحت، تعلیم،خوراک، روزگار،تحفظ اور دیگر سہولیات کی فراہمی کے پہلوؤں کو مد نظر رکھا گیا ہے چونکہ ان تمام پہلوؤں کا شمار انسانی حقوق میں ہوتا ہے اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان پہلوؤں میں بہتری دراصل کسی بھی ملک میں انسانی حقوق کی بہتر صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔انسانی ترقی کی مرتب شدہ اس عالمی درجہ بندی میں پاکستان دنیا کے187ممالک میں146ویں نمبر پر ہے۔
پاکستان کی یہ رینکنگ اس تکلیف دہ حقیقت کو سامنے لا رہی ہے کہ جنوبی ایشیاء میں پاکستان انسانی ترقی کے حوالے سے صرف افغانستان سے اوپر ہے جبکہ باقی ممالک سری لنکا 73 ویں، مالدیپ 103 ، بھارت135ویں، بھوٹان 136 ویں، بنگلہ دیش 142 ویں اور نیپال145 ویں نمبر پر ہے جبکہ افغانستان169 ویں نمبر پر ہے۔ اوپر سے نیچے آنے والی انسانی ترقی کی اس عالمی درجہ بندی میں پاکستان کا جنوبی ایشیاء میں ساتواں درجہ ہمارے پالیسی سازوں اور ارباب اختیار کی توجہ کا طالب ہے۔ جبکہ صنفی ترقی کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان145ویں نمبر پر ہے، اوپر سے نیچے کی طرف آنے والی اس عالمی درجہ بندی میں سری لنکا 66 ویں، مالدیپ 90 ویں، نیپال 102ویں، بنگلہ دیش 107ویں، انڈیا 132ویں اور افغانستان 148 ویں نمبر پر ہے ۔
اسی طرح ورلڈ بنک کی رپورٹ ورلڈ ڈیویلپمنٹ انڈیکیٹرز 2014ء کے مطابق دنیا کے120 ممالک( جن کے اعدادوشمار دستیاب ہیں ) کی غربت کے حوالے سے مرتب کردہ عالمی درجہ بندی میں پاکستان46 ویں نمبر پر ہے۔ اوپر سے نیچے آنے والی اس عالمی درجہ بندی میں بنگلہ دیش25 ویں، بھارت 31 ویں، نیپال 41 ویں، سری لنکا 80 ویں، بھوٹان 86 ویں اورمالدیپ 103نمبر پر ہے۔ مذکورہ عالمی درجہ بندیوں میں پاکستان کا کم تر درجوں کا حامل ہونا اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ ملک میں انسانی حقوق پر توجہ کی کس قدرضرورت ہے۔
کیونکہ ملک کے طول و عرض میں انسانی ترقی کی صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ اس سلسلے میں جلد از جلد عملی کو ششوں کا آغاز بڑے پیمانے پر کیا جائے تاکہ انسانی ترقی کی صورتحال کو مزید بہتر کیا جاسکے، کیونکہ صوبوںکے مابین انسانی ترقی کے حوالے سے وسیع خلیج پائی جاتی ہے جس کا اندازہ آکسفورڈ یو نیورسٹی کے بین الاقوامی ترقی کے شعبہ کے مرتب کردہ Multidimensional Poverty Index 2015 جو لوگوں کے معیار زندگی، تعلیم اور صحت کے شعبوں کے دس Indicators کی کارکردگی کی بنیاد پر مرتب کیا گیا ہے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔اس انڈکس کے مطابق پاکستان کی 44.2 فیصد آبادی کثیر الجہت غربت یعنی تعلیم، صحت اور معیار زندگی کے بنیادی انسانی حقوق کی عدم تکمیل کا شکار ہے۔
غربت ماپنے کے اس جدید پیمانے کے مطابق بلوچستان کی 70.6 فیصد آبادی، خیبرپختونخوا کی 50.1 فیصد، سندھ کی 53.2 فیصد,پنجاب کی 36.6 فیصد آبادی، شمالی علاقہ جات کی46.9 اور اسلام آباد کی 9.2 فیصد آباد ی کثیر الجہت غربت کا شکار ہے۔
جبکہ بلوچستان کی مزید 12.7 فیصد، خیبرپختونخوا کی 19.1فیصد، پنجاب کی 17.2 فیصد اور سندھ کی 8.3 فیصد، شمالی علاقہ جات کی 22.8 فیصد اور اسلام آباد کی 7.1 فیصد مزیدآبادی کثیر الجہت غربت کے حوالے سے Vulnerable ہے۔ملک میں کثیر الجہت غربت کی یہ صورتحال دراصل ہم وطنوں کو حاصل بنیادی انسانی حقوق کی کم تر سہولیات کے باعث ہے جس کی وجہ سے صوبہ بلوچستان ملک میں انسانی ترقی کے حوالے سے یقیناً زیادہ پسماندگی کا شکار ہے جس پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی رپورٹ اسٹیٹ آف دی ہیومن رائٹس 2014 کے مطابق 2014 کے دوران ملک میں غیرت کے نام پر1005خواتین اور بچیوں کو مارا گیا۔
خواتین کے ساتھ بد سلوکیوں کی وجہ سے مذکورہ سال 894 خواتین نے خودکشی اور 357 نے کوشش کی ۔جبکہ597 خواتین اور لڑکیوں کی اجتماعی آبروریزی اور828 کی عصمت دری کے کیسز رپورٹ ہوئے۔60 خواتین کو جلا کر ہلاک کیا گیا۔اس کے علاوہ 650 بچے تھر پارکر میں غذائی قلت کے باعث ہلاک ہوئے۔انسانی حقوق کی صورتحال کے تناظر میں صحافی بھی مختلف طرح کے واقعات کا شکار ہوئے اور14صحافی 2014 میںہلاک ہوئے۔
اس وقت کمیشن کے مطابق پاکستان کی97جیلوں میں قیدیوں کی گنجائش45ہزار 2 سو 10ہے جبکہ ان جیلوں میں78ہزار2 سو سے زائد قیدی مقید ہے، ملک میں انصاف کی ترسیل کی صورتحال بھی قدرے مخدوش ہے کیونکہ ملک کی عدالتوں میں ابھی بھی17 لاکھ 93 ہزار کیسز التواء کا شکار ہیں۔
یہ چند اعداد و شمارملک میں انسانی حقوق کی صورتحال کی صرف ایک جھلک ہیں جو ارباب اختیار کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا رہے ہیں کہ ملک میں انسانی حقوق کی پامالی کس حد تک پہنچ چکی ہے جس کی بر وقت اصلاح ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے تاکہ ہم بھی ترقی یافتہ ممالک کی طرح ترقی کے ثمرات حاصل کرپائیں۔
امیر اس لفظ سے اس لئے ڈرتا ہے کہ معاشرے کا ایک صاحب حیثیت فرد ہونے کے ناطے خود سے وابستہ لوگوں کے حقوق کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔ معاشرہ اس اصطلاح سے اس لئے گھبراتا ہے کہ اسے اپنی فرسودہ روایات اور نظریات کی قیود سے اپنے افراد کو آزاد کرنا پڑتا ہے۔
حکومتیں اس لفظ سے اس لئے کتراتی ہیں کہ وہ مجموعی طور پر اپنی عوام کے حقوق کی ادائیگی کی ذمہ دار ہیں اور جواب دہ بھی۔ یعنی انفرادی سے لے کر اجتماعی سطح پر ہر کوئی ''انسانی حقوق'' کی اصطلاح سے یوں بھاگتا ہے کہ جیسے اُسے کوئی کرنٹ لگا ہو۔ جس کی صرف اور صرف ایک وجہ ان حقوق کی ادائیگی اور دستیابی ہے۔ لیکن اس کے برعکس جب کوئی خود کسی حق کا طلب گار ہوتا ہے تو پھر ''انسانی حقوق'' کی اصطلاح اُس کا اوڑنا بچھونا بن جاتی ہے۔
انسانی حقوق کی تکمیل کے حوالے سے تیسری دنیا کی صورتحال آج بھی قدرے مخدوش ہے کیونکہ جہالت و کم علمی کی وجہ سے ترقی پذیرممالک کی اکثر آبادی کو اس چیز کا احساس ہی نہیں کہ بطور انسان ان کے معاشرے اور حکومتوں پر کیا حقوق ہیں؟کیونکہ کارخانہ حیات میں وہ اس قدر الجھ چکے ہیں کہ ان کی اکثریت کو اپنے حقوق کے بارے میں شعور ہی نہیں جس کی وجہ سے اس کی طلب کے حوالے سے انہیں خیال ہی نہیں آتا ہے اور جن کو آتا بھی ہے تو ہر اُس حق جو بطور انسان، مذہب اور دنیاوی قوانین اُسے فراہم کرتے ہیں ،کے حصول کے لئے اُسے تگ ودوکرنی پڑتی ہے لیکن اس کے باوجود اکثرانھیں وہ حاصل نہیں ہوتے۔
کیونکہ انہیں فراہم کرنے والے ادارے اپنے فرائض منصبی سے لاپرواہ ہیں اور حکومتیں بے حس۔ اداروں کی اس بے پرواہی اور حکومتوں کی عدم دلچسپی کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں میں اپنے حقوق کے شعور کو اجاگر کرنے کے سلسلے میں ہر سال دنیا بھر میں10دسمبر کو''حقوق انسانی'' کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد10دسمبر1948 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اختیار کردہ انسانی حقوق کے عالمی منشور جو ان حقوق کی تعریف اور ان کو اجاگر کرنے کے حوالے سے عالمی معیار ہے پر عملدرآمد کی تجدید کرنا ہے۔
دنیا بھر میں آج بنیادی ضروریات کی عدم دستیابی انسانی حقوق کی سنگین خلاف وزری تصور ہوتی ہے اور یہ سب کسی ادارے یا حکومت کی جانب سے لوگوں کے حقوق کی بد ترین غصبی کے باعث رو نما ہوتی ہے اس کے علاوہ حکومتیں (خاص کر ترقی پذیر ممالک کی) عوام کو اُن کے بنیادی حقوق کی فراہمی میں کس قدر کامیاب ہیں ؟
اس کا کچھ اندازہ اقوام متحدہ کے مختلف اداروں کے ان اعدادوشمار سے لگا یا جاسکتا ہے کہ آج بھی دنیا کے 79 کروڑ5لاکھ افراد کو صرف اتنی خوراک ملتی ہے کہ ان کی روح اور جسم کا تعلق برقرار رہے کیا خوراک ہر انسان کا بنیادی حق نہیں تو پھر ایسا کیوں ہے؟ پینے کا صاف پانی تمام انسانوں کا بنیادی حق ہے لیکن اس کے باوجود 66کروڑ30 لاکھ افراد کو یہ دستیاب نہیں۔ اسی طرح نکاسی آب سے محروم 2.4ارب افراد اپنے اس حق کے طلب گار ہیں اور تعلیم کے بنیادی حق سے اس وقت یونیسکو کے مطابق83 کروڑ 84لاکھ بچے اور بڑے محروم ہیں جبکہ مکان سے محروم آبادی 10 کروڑسے زائد ہے ۔
روزگار جو تمام انسانوں کا بنیادی حق ہے لیکن اس حق تلفی کے نتیجے میں عالمی ادارہ محنت کے مطابق دنیا کے20 کروڑ10لاکھ افراد بے روزگار ہیں ۔جب کہا یہ جاتا ہے کہ دولت کی مساو یانہ تقسیم ہونی چاہیے اور سب کو ان کی اہلیت کے مطابق معاشی مواقع ملنے چاہئیں تو پھر دنیا کے 70کروڑ 20 لاکھ افراد غریب ترین کیوں ہیں؟ اسی طرح دنیا میں آنے والے ہر بچے کو جینے کا حق ہے تو پھر ہر سال59لاکھ بچے اپنی پانچویں سالگرہ سے پہلے کیوں مر جاتے ہیں؟ کیوںدنیا میں16کروڑ80لاکھ بچے تعلیم کی بجائے محنت مشقت کر رہے ہیں؟
خواتین کو تشدد سے پاک ماحول فراہم ہونا ان کا حق ہے تو پھر کیوںدنیا میں ہر تین میں سے ایک خاتون اپنی زندگی میںGender based abuse کے تلخ تجربے سے گزرتی ہیں؟جب آزاد،خود مختار اور ہر طرح کے خوف سے مبرا رہنا ہرانسان کا حق ہے تو پھرغاصبانہ قبضہ، دہشت گردی، مسلح تصادم اور جنگیں کیوں ہوتی ہیں؟ان تمام سوالات کے جوابات اپنی جگہ تو موجود ہی ہیںلیکن بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کے حوالے سے اکثر بڑے ممالک کا دوہرا معیار بھی اس عالمی منشور کی افادیت کو مزیدکم کررہا ہے۔ کیونکہ آج ترقی یافتہ ممالک اپنے عوام کے حقوق کا تو ہر ممکن خیال رکھتے ہیں لیکن جب بات عالمی سطح پر مفادات کے حصول کی ہو تو پھر یہی بڑی طاقتیں چھوٹے اور کمزور ممالک کے انسانی حقوق کو نا صرف پامال کردیتی ہیں۔
بلکہ بعض اوقات انہی حقوق کو بنیاد بنا کر دیگر ممالک پر پابندیاں بھی عائد کر دی جاتی ہیں یا پھراُن پر اپنے مفاد کے فیصلے مسلط کر دیئے جاتے ہیں۔اس دوہرے معیار کی کئی ایک صورتیں فلسطین، عراق، مقبوضہ جموں وکشمیر، افغانستان، میانمار، سوڈان، ایسٹ تیمور اور پاکستان میں دیکھی جا سکتی ہیں۔کیا عجب حقیقت ہے کہ انسانی مساوات کے لئے بنایا گیا انسانی حقوق کا عالمی چارٹر ہی عملدرآمد (تکمیل) کے حوالے سے خود عدم مساوات کا شکار ہے۔
دنیا کی اقوام میں کشمیر، فلسطین اور افغانستان کے عوام زیادہ مظلوم ہیں جن کے حقوق کو بری طرح پامال کیا جا رہا ہے، کشمیریوں کو ان کے آزادی کے جائز حق سے محروم رکھنے کے لئے مقبوضہ کشمیر پر غاصب بھارتی افواج اور پولیس نے جنوری1989ء سے 31 اکتوبر2015ء تک94 ہزار سے زائد عام شہریوں کو شہید کیا جبکہ7ہزار38 کشمیریوں کو حراست کے دوران شہید کیا گیا، مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے کشمیر میڈیا سروس کے یہ اعداد و شمار کشمیریوں کے انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کی واضح دلیل ہیں جسے مزید تقویت ان ا ندوہناک اعداد و شمار سے ملتی ہے۔
سینٹر کے مطابق مذکورہ عرصہ کے دوران اب تک مقبوضہ کشمیر میں 1لاکھ6 ہزار50 مکانات اور دکانوں کو نذر آتش کیا جا چکا ہے۔22 ہزار8سو6 خواتین کو بیوہ جبکہ1لاکھ7ہزار5 سو 45 بچوںکو یتیم اور10ہزار 1سو 59 خواتین کی اجتماعی آبرویزی کی جا چکی ہے ۔ ان اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور پامالی کرنے میں بھارت دنیا بھر میں سب سے آگے ہے۔ بھارت کے بعد دوسرے نمبر پر انسانی حقوق کی دھجیاں اڑانے والا ملک اسرائیل ہے ۔
جس کی افواج نے فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں پہلی انتفادہ تحریک کے دوران1551فلسطینی شہید کئے جبکہ دوسری انتفادہ تحریک کے دوران 6 ہزار 8 سو90 فلسطینیوں نے جام شہادت نوش کیا۔ ان تحاریک کے دوران بچے، بوڑھے اور خواتین کے علاوہ طبی عملہ اور سہولتیں بھی اسرائیل کے ظلم و زیادتیوں کا نشانہ بنیں۔ امریکہ کا عراق میں کردار بھی انسانی حقوق کی واضح پامالی کی علامت ہے جبکہ افغانستان میں اتحادی افواج بھی انسانی حقوق کی پامالی کی مرتکب ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ میانمار میں مسلمانوں کا قتلِ عام بھی انسانی حقوق کے علمبرداروں کی دورخی کو جھنجھوڑ رہا ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ اگر ہم انسانی حقوق کی فراہمی کے حوالے سے صورتحال کو اس تناظر میں دیکھیںکہ جن ممالک کی حکومتیں اپنے عوام کی سماجی، معاشی، سیاسی اور دیگر حقوق کی پاسداری کے حوالے سے جتنا زیادہ کام کرتی ہیں وہاں کے عوام اتنی ہی زیادہ پُر آسائش زندگی گزارتے ہیں اور وہاں انسانی حقوق کی صورتحال بہترشمار کی جاتی ہے۔اس حوالے سے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقی کی ہیومن ڈیویلپمنٹ رپورٹ 2014ء میں انسانی ترقی کے حوالے سے دنیا کے187ممالک کی عالمی درجہ بندی کی گئی ہے۔
جس میں لوگوں کو صحت، تعلیم،خوراک، روزگار،تحفظ اور دیگر سہولیات کی فراہمی کے پہلوؤں کو مد نظر رکھا گیا ہے چونکہ ان تمام پہلوؤں کا شمار انسانی حقوق میں ہوتا ہے اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان پہلوؤں میں بہتری دراصل کسی بھی ملک میں انسانی حقوق کی بہتر صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔انسانی ترقی کی مرتب شدہ اس عالمی درجہ بندی میں پاکستان دنیا کے187ممالک میں146ویں نمبر پر ہے۔
پاکستان کی یہ رینکنگ اس تکلیف دہ حقیقت کو سامنے لا رہی ہے کہ جنوبی ایشیاء میں پاکستان انسانی ترقی کے حوالے سے صرف افغانستان سے اوپر ہے جبکہ باقی ممالک سری لنکا 73 ویں، مالدیپ 103 ، بھارت135ویں، بھوٹان 136 ویں، بنگلہ دیش 142 ویں اور نیپال145 ویں نمبر پر ہے جبکہ افغانستان169 ویں نمبر پر ہے۔ اوپر سے نیچے آنے والی انسانی ترقی کی اس عالمی درجہ بندی میں پاکستان کا جنوبی ایشیاء میں ساتواں درجہ ہمارے پالیسی سازوں اور ارباب اختیار کی توجہ کا طالب ہے۔ جبکہ صنفی ترقی کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان145ویں نمبر پر ہے، اوپر سے نیچے کی طرف آنے والی اس عالمی درجہ بندی میں سری لنکا 66 ویں، مالدیپ 90 ویں، نیپال 102ویں، بنگلہ دیش 107ویں، انڈیا 132ویں اور افغانستان 148 ویں نمبر پر ہے ۔
اسی طرح ورلڈ بنک کی رپورٹ ورلڈ ڈیویلپمنٹ انڈیکیٹرز 2014ء کے مطابق دنیا کے120 ممالک( جن کے اعدادوشمار دستیاب ہیں ) کی غربت کے حوالے سے مرتب کردہ عالمی درجہ بندی میں پاکستان46 ویں نمبر پر ہے۔ اوپر سے نیچے آنے والی اس عالمی درجہ بندی میں بنگلہ دیش25 ویں، بھارت 31 ویں، نیپال 41 ویں، سری لنکا 80 ویں، بھوٹان 86 ویں اورمالدیپ 103نمبر پر ہے۔ مذکورہ عالمی درجہ بندیوں میں پاکستان کا کم تر درجوں کا حامل ہونا اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ ملک میں انسانی حقوق پر توجہ کی کس قدرضرورت ہے۔
کیونکہ ملک کے طول و عرض میں انسانی ترقی کی صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ اس سلسلے میں جلد از جلد عملی کو ششوں کا آغاز بڑے پیمانے پر کیا جائے تاکہ انسانی ترقی کی صورتحال کو مزید بہتر کیا جاسکے، کیونکہ صوبوںکے مابین انسانی ترقی کے حوالے سے وسیع خلیج پائی جاتی ہے جس کا اندازہ آکسفورڈ یو نیورسٹی کے بین الاقوامی ترقی کے شعبہ کے مرتب کردہ Multidimensional Poverty Index 2015 جو لوگوں کے معیار زندگی، تعلیم اور صحت کے شعبوں کے دس Indicators کی کارکردگی کی بنیاد پر مرتب کیا گیا ہے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔اس انڈکس کے مطابق پاکستان کی 44.2 فیصد آبادی کثیر الجہت غربت یعنی تعلیم، صحت اور معیار زندگی کے بنیادی انسانی حقوق کی عدم تکمیل کا شکار ہے۔
غربت ماپنے کے اس جدید پیمانے کے مطابق بلوچستان کی 70.6 فیصد آبادی، خیبرپختونخوا کی 50.1 فیصد، سندھ کی 53.2 فیصد,پنجاب کی 36.6 فیصد آبادی، شمالی علاقہ جات کی46.9 اور اسلام آباد کی 9.2 فیصد آباد ی کثیر الجہت غربت کا شکار ہے۔
جبکہ بلوچستان کی مزید 12.7 فیصد، خیبرپختونخوا کی 19.1فیصد، پنجاب کی 17.2 فیصد اور سندھ کی 8.3 فیصد، شمالی علاقہ جات کی 22.8 فیصد اور اسلام آباد کی 7.1 فیصد مزیدآبادی کثیر الجہت غربت کے حوالے سے Vulnerable ہے۔ملک میں کثیر الجہت غربت کی یہ صورتحال دراصل ہم وطنوں کو حاصل بنیادی انسانی حقوق کی کم تر سہولیات کے باعث ہے جس کی وجہ سے صوبہ بلوچستان ملک میں انسانی ترقی کے حوالے سے یقیناً زیادہ پسماندگی کا شکار ہے جس پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی رپورٹ اسٹیٹ آف دی ہیومن رائٹس 2014 کے مطابق 2014 کے دوران ملک میں غیرت کے نام پر1005خواتین اور بچیوں کو مارا گیا۔
خواتین کے ساتھ بد سلوکیوں کی وجہ سے مذکورہ سال 894 خواتین نے خودکشی اور 357 نے کوشش کی ۔جبکہ597 خواتین اور لڑکیوں کی اجتماعی آبروریزی اور828 کی عصمت دری کے کیسز رپورٹ ہوئے۔60 خواتین کو جلا کر ہلاک کیا گیا۔اس کے علاوہ 650 بچے تھر پارکر میں غذائی قلت کے باعث ہلاک ہوئے۔انسانی حقوق کی صورتحال کے تناظر میں صحافی بھی مختلف طرح کے واقعات کا شکار ہوئے اور14صحافی 2014 میںہلاک ہوئے۔
اس وقت کمیشن کے مطابق پاکستان کی97جیلوں میں قیدیوں کی گنجائش45ہزار 2 سو 10ہے جبکہ ان جیلوں میں78ہزار2 سو سے زائد قیدی مقید ہے، ملک میں انصاف کی ترسیل کی صورتحال بھی قدرے مخدوش ہے کیونکہ ملک کی عدالتوں میں ابھی بھی17 لاکھ 93 ہزار کیسز التواء کا شکار ہیں۔
یہ چند اعداد و شمارملک میں انسانی حقوق کی صورتحال کی صرف ایک جھلک ہیں جو ارباب اختیار کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا رہے ہیں کہ ملک میں انسانی حقوق کی پامالی کس حد تک پہنچ چکی ہے جس کی بر وقت اصلاح ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے تاکہ ہم بھی ترقی یافتہ ممالک کی طرح ترقی کے ثمرات حاصل کرپائیں۔