اسٹیٹ بینک نے پاکستان میں تفریط زر کا امکان مسترد کر دیا
درآمدی اشیا کے دام گرنے سے پاکستان میں ہول سیل نرخ عالمی رجحان کے مطابق مسلسل11 ماہ سے منفی ہیں
KARACHI:
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ملک میں قیمتوں کی تقلیل (تفریط زر) کا امکان مسترد کردیا ہے۔
سالانہ جائزہ رپورٹ سال 2014-15کے خصوصی باب میں اسٹیٹ بینک نے اس امکان کا جائزہ لیا کہ اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی شرح کم ہوتے ہوتے صفر کی سطح پر آجائیں تو معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ واضح رہے کہ اشیا و خدمات کی قیمتوں میں عمومی کمی کو ''قیمتوں کی تقلیل (تفریط زر یا ڈیفلیشن) کہا جاتا ہے، آئی ایم ایف نے 2003 میں اس کی تشریح کرتے ہوئے اسے قیمتوں کے کسی مجموعی پیمانے میں مستحکم کمی ممکنہ طور پر صارف اشاریہ یا جی ڈی پی کا تفریط کنندہ قرار دیا تھا۔
اس وقت دنیا کے کئی ترقی یافتہ ملکوں میں گرانی کی شرح بہت پست ہے اور بعض معاشی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ سلسلہ آخر کار چند ماہ میں قیمتوں کی تقلیل پر جاکر ختم ہوگا، قیمتوں کی تقلیل کا دباؤ عارضی بھی ہو سکتا ہے اور مستقل بھی، یہ دباؤ طلب اور رسد دونوں کے عوامل کی طرف سے آ سکتا ہے، قیمتوں کی تقلیل سے بالواسطہ ٹیکس محاصل اور نامیہ جی ڈی پی کم ہو سکتی ہے، کاروباری اداروں کو فروخت میں کمی کا سامنا ہو سکتا ہے۔
اگر یہ سلسلہ طول پکڑ جائے تو صارفین اپنی خریداری کے فیصلے ملتوی کرنے لگتے ہیں، حکومتوں کو ٹیکس وصولیوں کے لیے شرح بڑھانا پڑتی ہے، کاروباری ادارے اپنے ملازمین کی چھانٹیوں پر مجبور ہو جاتے ہیں، اس طرح ایک معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خوش قسمتی سے اسٹیٹ بینک نے پاکستان کے لیے قیمتوں کی تقلیل کا امکان رد کردیا ہے۔
اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ گرانی کے عالمی رجحانات سے پاکستان بھی محفوظ نہیں ہے، پاکستان میں تھوک اشاریہ قیمت (ہول سیل پرائس انڈیکس) میں مئی 2014 سے کمی کا رجحان دکھا رہا ہے اور اس کا سال بہ سال فرق دسمبر 2014سے متواتر 11 ماہ سے منفی حد میں ہے، یہ اشاریہ عالمی نرخوں سے قریب ہے کیونکہ درآمدی اشیا اس میں کافی زیادہ موجود ہیں، تھوک اشاریہ قیمت میں کمی کے موجودہ رجحان میں اہم محرک تیل کے نرخ ہیں جن کی عکاسی ذرائع نقل و حمل اور ایندھن سے منسلک گروپ میں 8.1 فیصد کمی سے ہوتی ہے تاہم گرانی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت (کنزیومرپرائس انڈیکس) ستمبر 2014سے متواتر گرنے کے باوجود اب بھی مثبت ہے۔
پاکستان میں قیمتوں میں تقلیل بلحاظ صارف اشاریہ مالی سال 1962-63سے اب تک دیکھنے میں نہیں آئی، اس وقت بہتر رسد اور نرخوں کے ڈی کنٹرول کے باعث ملک میں عمومی قیمتیں پستی کی طرف چلی گئی تھیں۔ مرکزی بینک کے مطابق مستقبل میں بھی گرانی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت (سی پی آئی) صفر فیصد سے نیچے جانے کی توقع نہیں ہے، خواہ تھوک اشاریہ قیمت منفی حد ہی میں رہے۔
اسٹیٹ بینک کے جائزے کے مطابق ملک میں سرکاری انفرااسٹرکچر کے طے شدہ اخراجات، زری نرمی، ترسیلات کی نمو میں مسلسل اضافے، ملک میں امن و امان کی بہتری اور 2015-16کے بجٹ میں ترغیبات کی بنا پر پرامید تعمیراتی صنعت کی وجہ سے مجموعی ملکی طلب کے امکانات حوصلہ افزا ہیں نیز تیل کی بین الاقوامی قیمتیں 49 ڈالر فی بیرل کی قیمت پر آنے کے باوجود گزشتہ سال کی طرح تیزی سے مزید گرنے کی توقع نہیں ہے۔
حکومت کی جانب سے عائد کیے جانے والے ٹیکسز پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس، بجلی کے نرخ پر نیلم جہلم سرچارج جیسے سرچارجز اور گیس کے نرخ میں اضافے کی بنا پر قیمتوں میں عمومی اضافہ جاری رہے گا، گیس انفرااسٹرکچر سرچارج کی وصولی اور مینوفیکچررز کی جانب سے اس کی لاگت صارفین کو منتقل کیے جانے سے بھی کنزیومر پرائس انڈیکس میں اضافہ ہو گا۔
مکانات کے کرایوں میں اضافہ بھی تقلیل کے امکانات کو محدود کرتا ہے، اسی طرح اس بات کا بھی بہت کم خدشہ ہے کہ پاکستان صارف اشاریہ باسکٹ میں اپنے تجارتی شرکا سے پست گرانی درآمد کرلے گا کیونکہ پاکستانی روپے کی قدر اپنے بڑے تجارتی شرکا یعنی امریکا اور چین کے مقابلے میں کم و بیش مستحکم رہے گی۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ملک میں قیمتوں کی تقلیل (تفریط زر) کا امکان مسترد کردیا ہے۔
سالانہ جائزہ رپورٹ سال 2014-15کے خصوصی باب میں اسٹیٹ بینک نے اس امکان کا جائزہ لیا کہ اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی شرح کم ہوتے ہوتے صفر کی سطح پر آجائیں تو معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ واضح رہے کہ اشیا و خدمات کی قیمتوں میں عمومی کمی کو ''قیمتوں کی تقلیل (تفریط زر یا ڈیفلیشن) کہا جاتا ہے، آئی ایم ایف نے 2003 میں اس کی تشریح کرتے ہوئے اسے قیمتوں کے کسی مجموعی پیمانے میں مستحکم کمی ممکنہ طور پر صارف اشاریہ یا جی ڈی پی کا تفریط کنندہ قرار دیا تھا۔
اس وقت دنیا کے کئی ترقی یافتہ ملکوں میں گرانی کی شرح بہت پست ہے اور بعض معاشی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ سلسلہ آخر کار چند ماہ میں قیمتوں کی تقلیل پر جاکر ختم ہوگا، قیمتوں کی تقلیل کا دباؤ عارضی بھی ہو سکتا ہے اور مستقل بھی، یہ دباؤ طلب اور رسد دونوں کے عوامل کی طرف سے آ سکتا ہے، قیمتوں کی تقلیل سے بالواسطہ ٹیکس محاصل اور نامیہ جی ڈی پی کم ہو سکتی ہے، کاروباری اداروں کو فروخت میں کمی کا سامنا ہو سکتا ہے۔
اگر یہ سلسلہ طول پکڑ جائے تو صارفین اپنی خریداری کے فیصلے ملتوی کرنے لگتے ہیں، حکومتوں کو ٹیکس وصولیوں کے لیے شرح بڑھانا پڑتی ہے، کاروباری ادارے اپنے ملازمین کی چھانٹیوں پر مجبور ہو جاتے ہیں، اس طرح ایک معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خوش قسمتی سے اسٹیٹ بینک نے پاکستان کے لیے قیمتوں کی تقلیل کا امکان رد کردیا ہے۔
اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ گرانی کے عالمی رجحانات سے پاکستان بھی محفوظ نہیں ہے، پاکستان میں تھوک اشاریہ قیمت (ہول سیل پرائس انڈیکس) میں مئی 2014 سے کمی کا رجحان دکھا رہا ہے اور اس کا سال بہ سال فرق دسمبر 2014سے متواتر 11 ماہ سے منفی حد میں ہے، یہ اشاریہ عالمی نرخوں سے قریب ہے کیونکہ درآمدی اشیا اس میں کافی زیادہ موجود ہیں، تھوک اشاریہ قیمت میں کمی کے موجودہ رجحان میں اہم محرک تیل کے نرخ ہیں جن کی عکاسی ذرائع نقل و حمل اور ایندھن سے منسلک گروپ میں 8.1 فیصد کمی سے ہوتی ہے تاہم گرانی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت (کنزیومرپرائس انڈیکس) ستمبر 2014سے متواتر گرنے کے باوجود اب بھی مثبت ہے۔
پاکستان میں قیمتوں میں تقلیل بلحاظ صارف اشاریہ مالی سال 1962-63سے اب تک دیکھنے میں نہیں آئی، اس وقت بہتر رسد اور نرخوں کے ڈی کنٹرول کے باعث ملک میں عمومی قیمتیں پستی کی طرف چلی گئی تھیں۔ مرکزی بینک کے مطابق مستقبل میں بھی گرانی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت (سی پی آئی) صفر فیصد سے نیچے جانے کی توقع نہیں ہے، خواہ تھوک اشاریہ قیمت منفی حد ہی میں رہے۔
اسٹیٹ بینک کے جائزے کے مطابق ملک میں سرکاری انفرااسٹرکچر کے طے شدہ اخراجات، زری نرمی، ترسیلات کی نمو میں مسلسل اضافے، ملک میں امن و امان کی بہتری اور 2015-16کے بجٹ میں ترغیبات کی بنا پر پرامید تعمیراتی صنعت کی وجہ سے مجموعی ملکی طلب کے امکانات حوصلہ افزا ہیں نیز تیل کی بین الاقوامی قیمتیں 49 ڈالر فی بیرل کی قیمت پر آنے کے باوجود گزشتہ سال کی طرح تیزی سے مزید گرنے کی توقع نہیں ہے۔
حکومت کی جانب سے عائد کیے جانے والے ٹیکسز پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس، بجلی کے نرخ پر نیلم جہلم سرچارج جیسے سرچارجز اور گیس کے نرخ میں اضافے کی بنا پر قیمتوں میں عمومی اضافہ جاری رہے گا، گیس انفرااسٹرکچر سرچارج کی وصولی اور مینوفیکچررز کی جانب سے اس کی لاگت صارفین کو منتقل کیے جانے سے بھی کنزیومر پرائس انڈیکس میں اضافہ ہو گا۔
مکانات کے کرایوں میں اضافہ بھی تقلیل کے امکانات کو محدود کرتا ہے، اسی طرح اس بات کا بھی بہت کم خدشہ ہے کہ پاکستان صارف اشاریہ باسکٹ میں اپنے تجارتی شرکا سے پست گرانی درآمد کرلے گا کیونکہ پاکستانی روپے کی قدر اپنے بڑے تجارتی شرکا یعنی امریکا اور چین کے مقابلے میں کم و بیش مستحکم رہے گی۔