عالمی اردو کانفرنس

یہ کانفرنس حسب روایت بہت سی خوبیوں اور خامیوں کا مرقع ہے۔

muqtidakhan@hotmail.com

کراچی میں قائم آرٹس کونسل آف پاکستان علم و ادب اور فنون لطیفہ کی سرپرستی اور فروغ کا ایک قابل ذکر و قابل احترام ادارہ ہے۔ گزشتہ آٹھ برسوں سے تسلسل کے ساتھ اردو کانفرنس کا اہتمام کر کے اپنی علم دوستی اور قومی زبان سے محبت کا اظہار کر رہا ہے۔ اس کانفرنس میں دنیا بھر سے اہل قلم شرکت کرتے ہیں۔ اس سال بھی یہ کانفرنس 8 دسمبر سے 11 دسمبر تک چار دن جاری رہی۔ کانفرنس کے متنوع موضوعات اور بے مثال انتظام و انصرام اس کی کامیابی کا مظہر ہیں۔

امسال جن موضوعات پر کانفرنس میں اظہار خیال کیا گیا، ان میں نفاذ اردو، مسائل و امکانات، اردو کا نصاب تعلیم، اردو کا نعتیہ ادب، اردو تنقید کا معاصر منظرنامہ، اردو ڈرامہ اور فلم، اردو کے پاکستان کی دیگر زبانوں سے رشتے، اردو شاعری: روایت اور نئے امکانات، اردو کی نئی بستیاں اور نئے لسانی رشتے، افسانوی ادب، بچوں کا ادب اور ذرایع ابلاغ اور زبان شامل تھے۔ اس کے علاوہ عبداللہ حسین کی ادبی خدمات پر مکالمہ، عصمت اور بیدی صد سالہ جشن پر مذاکرہ، معروف کلاسیکل موسیقار استاد رئیس خان اور ضیا محی الدین کی پرفارمنس، انور مسعود اور انور مقصود کے نام شامیں، خطے میں امن کے مسائل، منٹو پر تحریک نسواں کا ڈرامہ اور یادرفتگان جیسے پروگراموں نے کانفرنس کی رنگارنگی کو چار چاند لگا دیے۔

اردو برصغیر میں جنم لینے والی وہ لشکری زبان ہے، جس کے لب و لہجہ میں فارسی کی شیرینی اور اس دھرتی کی تہذیبوں کی خوشبو اور مہک پائی جاتی ہے۔ اس زبان پر شمالی ہند کے کھڑی بولی، پوربیا اور بھوج پوری بولنے والوں سے زیادہ حق اہل پنجاب کا ہے، جنھوں نے اس زبان کے دامن کو وسیع کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ اس پر اہل سندھ کا بھی اتنا ہی حق ہے، جتنا کہ اہل اتر پردیش اور مدھیہ پردیش اور بہار کے لوگوں کا ہے۔ خیبر پختونخوا کے شاعروں اور ادیبوں کی خدمات کسی طور بھی دکن کے اہل دانش سے کم نہیں۔ بلوچستان کے ادیبوں، شاعروں اور کہانی کاروں کا کردار اردو کی ترقی و ترویج میں انتہائی قابل قدر ہے۔

معروف دانشور اور شاعر پروفیسر سحر انصاری نے بالکل درست نشاندہی کی ہے کہ بعض حلقوں نے دانستہ بابائے قوم کی 1948ء میں ڈھاکا میں کی جانے اس تقریر کو متنازع بنانے کی کوشش کی تھی، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ اردو اور صرف اردو قومی زبان ہو گی۔ مگر ان کی تقریر کے وہ حصے ہدف کر دیے گئے، جن میں انھوں نے علاقائی زبانوں کی ترویج اور ترقی کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ یہ اسی سوچے سمجھے منصوبے کا تسلسل تھا، جس کے تحت ان کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کو سنسر کیا گیا تھا۔ دراصل بیوروکریسی اپنے نوآبادیاتی مفادات کی تکمیل اور ریاستی اقتدار پر اپنے مکمل اختیار کے تسلسل کی خاطر انگریزی کو جاری رکھنے پر اصرار کرتی رہی ہے، جس کی وجہ سے اردو کے نفاذ میں مسلسل رکاوٹیں ڈالتی رہی ہے اور آج بھی ڈال رہی ہے۔ اس نے بانی پاکستان کی تقریر کو توڑمروڑ کر پیش کر کے ایک طرف بنگالی عوام کے ساتھ نا ختم ہونے والے اختلافات کی بنیاد رکھی، دوسری طرف اردو اور سندھی زبان کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی۔ پنجابی زبان کو محض اس لیے پنپنے نہیں دیا کیونکہ اس کی شاعری کا تیکھاپن سیکولر رنگ رکھتا ہے، جو بیوروکریٹک مفادات سے متصادم ہے۔


دہلی سے آئے ہوئے معروف دانشور اور نقاد شمیم حنفی نے بتایا کہ برصغیر میں چھ سو کے قریب بولیاں بولی جاتی ہیں۔ جو ایک دوسرے کے ذخیرہ الفاظ میں اضافے کا باعث ہیں۔ جہاں تک اردو ہندی قضیہ کا معاملہ ہے تو بعض اہل دانش کا کہنا ہے کہ اس کی بنیاد فورٹ ولیم کالج کے ذریعے ایسٹ انڈیا کمپنی نے رکھی، جس کی وجہ سے رسم الخط کا تنازع شروع ہوا۔ ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری کے خیال میں اردو ہندی جھگڑے نے سیاسی رنگ 1942ء میں انڈین نیشنل کانگریس کے اجلاس منعقدہ ناگپور میں اس وقت حاصل کیا، جب گاندھی جی نے اردو کو قرآنی رسم الخط میں ہونے کی وجہ سے رد کیا۔ حالانکہ عصمت چغتائی اور راہی معصوم رضا سمیت اردو کے کئی نامور اہل قلم اردو کو دیوناگری یا رومن رسم الخط میں لکھے جانے کے حق میں تھے۔ جب کہ اہل دانش کا ایک بہت بڑا حلقہ یہ سمجھتا تھا اور آج بھی سمجھتا ہے کہ اردو کا حسن اس کے فارسی رسم الخط کی وجہ سے ہے۔ ان کا یہ خیال بالکل درست ہے کہ اردو شاعری کا حسن کسی دوسرے رسم الخط میں لکھے جانے سے ماند پڑ جائے گا۔

معاملہ یہ ہے کہ رسم الخط کی اس چپقلش کے نتیجے میں برصغیر کی ایک بہت بڑی آبادی جو معمولی سے فرق کے ساتھ تقریباً ایک ہی بولی بولتی ہے، ایک دوسرے کی تحریروں اور نگارشات کو پڑھنے سے محروم ہے۔ ہندی میں کیا ادب تخلیق ہو رہا ہے؟ وہاں کا قلمکار اور شاعر کیا سوچ رہا ہے؟ ہم اس سے قطعی بے بہرہ ہیں۔ اسی طرح ہم جو کچھ لکھ رہے ہیں، اس سے بھارت کا قاری ناواقف ہے۔ یہ اس دھرتی کا المیہ ہے، جہاں کے باسیوں نے 8 سو برس ایک ساتھ گزارے۔ یہ تو خیر دو ممالک کے سیاسی معاملات کا مسئلہ ہے۔ ہم خود اپنے ملک میں وفاقی یا صوبائی سطح پر ایک ایسا دارالترجمہ قائم کرنے میں ناکام ہیں، جہاں کم از کم مقامی زبانوں میں تخلیق کیے ادب کو ایک دوسرے کے قالب میں ڈھالنے کا کوئی اہتمام ہو۔ کتنے پنجابیوں کو سندھی، بلوچی اور پشتو میں تخلیق ہونے والے ادب کے بارے میں آگہی ہے۔ اسی طرح سندھی، بلوچ اور پختون پنجابی میں تخلیق ہونے والے ادب سے ناواقف ہیں۔ اس صورتحال کا ایک اور المناک پہلو یہ بھی ہے کہ سرکاری سطح پر اردو میں مقامی زبانوں کے بعض خوبصورت اور شیریں الفاظ اور محاوروں کو شامل کر کے اسے دھرتی سے جوڑنے کی کوئی عملی کوشش نہیں کی گئی، جس کی وجہ سے اردو اور مقامی زبانوں میں کسی حد تک دوری پائی جاتی ہے، حالانکہ اس وقت اردو عملاً پورے ملک میں رابطے کی واحد زبان ہے۔

بات ہو رہی تھی آٹھویں عالمی اردو کانفرنس کی۔ یہ کانفرنس حسب روایت بہت سی خوبیوں اور خامیوں کا مرقع ہے۔ بعض خامیاں ایسی ہیں، جو سالہائے گزشتہ سے چلی آ رہی ہیں، مگر ان سے نجات پانے کی کوشش نہیں کی جا رہی۔ مثال کے طور پر ہر سیشن کا تاخیر سے شروع ہونا اور پھر منتظمین کا مقالہ نگاروں کے سر پر سوار ہو کر جلدی اختتام کا مطالبہ کرنا۔ ہر سیشن میں مقالہ نگاروں اور مقررین کی بھرمار، جب کہ بیشتر مقالہ نگار بغیر تیاری محض طویل تقریر جھاڑتے ہیں۔ آرٹس کونسل میں بڑی تعداد میں اہل دانش کی موجودگی کے باوجود چند مخصوص افراد کو بار بار پروگراموں کی نظامت کی ذمے داریاں سونپنا وغیرہ۔ اگر پروگرام ترتیب دیتے وقت ہر سیشن کے دورانیہ، اس میں مقررین کی تعداد اور تاخیر سے شروع ہونے کے نتائج وغیرہ کو مدنظر رکھ لیا جائے تو کوئی بھی سیشن اس طرح آپادھاپی میں ختم نہ ہو۔

اگر بدحواسیوں کا جائزہ لیں، تو پہلے روز افتتاحی اجلاس ڈیڑھ گھنٹے سے تاخیر سے شروع ہوا۔ چلیے ہو گیا، مگر اردو کے نصاب جیسے اہم موضوع پر گفتگو کو محض اس لیے مختصر کرنے پر اصرار کیا گیا کہ ضیامحی الدین کی پرفارمنس وقت پر ہونا تھی۔ اس طرز عمل نے اس اہم سیشن کی افادیت کو ملیامیٹ کر دیا۔ اسی طرح اردو ڈرامہ اور فلم کے سیشن میں شرکا ماضی اور آج کے ڈرامہ کا حقائق کی بنیاد پر موازنہ کرنے میں ناکام رہے۔ وہ اپنے اچھے دور کی ڈفلی بجاتے رہے۔ کسی بھی شریک گفتگو نے یہ سمجھانے کی کوشش نہیں کی کہ آج ڈرامہ تکنیکی اعتبار سے کس مقام پر پہنچ چکا ہے؟ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ تمام شرکائے گفتگو دو سے تین دہائی قبل کی مقبول شخصیات تھے۔ اس گفتگو میں آج کے قلمکاروں اور مقبول اداکاروں کی شرکت اس سیشن کو مزید دلچسپ اور معلوماتی بنا سکتی تھی۔ خطے میں امن کے مسائل والے سیشن کو بھی محض ٹرخایا گیا۔ اول تو اس سیشن میں اصل موضوع پر گفتگو نہیںکی گئی۔ اس سیشن میں ان مسائل پر بھی سیر حاصل بحث سے گریز کیا گیا جو خطے میں امن کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ اس کی وجہ شرکائے گفتگو کا نامناسب انتخاب تھا، جو گفتگو ہوئی وہ سطحی نوعیت کی ہونے کے باعث تشنگی ختم نہیں کر سکی۔

بہر حال یہ آرٹس کونسل کے سیکریٹری احمد شاہ، صدر پروفیسر اعجاز فاروقی، نائب صدر پروفیسر سحر انصاری اور ان کی ٹیم میں موجود فعال اور متحرک اراکین کی کاوشوں اور محنت کا نتیجہ ہے کہ جب سے انھوں نے آرٹس کونسل کی ذمے داریاں سنبھالی ہیں، ہر سال تواتر کے ساتھ یہ کانفرنس کرا رہے ہیں۔ معمولی سی خامیاں اور نقائص اپنی جگہ، مگر اس کانفرنس نے عوام کے ایک بہت بڑے حلقے کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ پورے ملک، بلکہ عالمی سطح پر ہر سال منعقد ہونے والے اس کانفرنس کی دھوم ہے۔ دنیا بھر سے شاعر اور ادیب اس کانفرنس میں شرکت کے متمنی رہتے ہیں، جو اس کی کامیابی کی اہم دلیل ہے۔ اس کے تذکرے سال بھر چہار سو جاری رہتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ یہ کانفرنس مختلف زبانوں کے اہل دانش کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کا ذریعہ ہے، جو اس ملک میں ان دوریوں کا ختم کرنے کا باعث بن رہی ہے، جو نوکرشاہی نے اپنے مخصوص مفادات کی خاطر اردو اور مقامی زبانوں کے درمیان پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ آرٹس کونسل اردو کے ساتھ سندھی، بلوچی، پشتو، براہوی، سرائیکی، پنجابی، ہندکو اور کشمیری زبانوں پر بھی خواہ ایک روزہ ہی سہی کانفرنسوں کا سلسلہ شروع کر کے محبت و یگانگت کو مزید پروان چڑھانے کی کوشش کرے گا۔ ہماری نیک تمنائیں ان تمام دوستوں کے لیے ہیں، جو شجر سایہ دار لگا رہے ہیں۔
Load Next Story