یہ میرے حکم ران

سولہ دسمبر کا دن اب قریب تر ہے،یہ دن ہرسال آتا رہے گا اور اہل پشاور کیا سارے وطن کو رلاتا رہے گا

amjad.aziz@express.com.pk

KARACHI:
سولہ دسمبر کا دن اب قریب تر ہے،یہ دن ہرسال آتا رہے گا اور اہل پشاور کیا سارے وطن کو رلاتا رہے گا لیکن شہداء کی اس عظیم قربانی پر فخر کرتے ہم نے آگے بھی بڑھنا ہے ،کچھ بھول جانا ہے اور کچھ یاد رکھنا ہے ،بھولنا یہ کہ ہمارے حکم ران ان شہداء کے خون کی عزت و توقیر نہ کر سکے!اربوں روپے لوٹنے والے میرے132 غازیوں کے علاج پر چند کروڑ روپے بھی نہ لگا سکے!اپنے خون کا ایک قطرہ بہنے سے پہلے روک دینے والے اب تک شہیدوں کے والدین کو ہی مطمئن نہیں کر سکے، خود کیا قربانیاں دیں گے !کسی نے سچ کہا ہے کہ وطن عزیز پر حکم رانی کرنے والوں نے اہل وطن کا خون چوسنے سے کبھی دریغ نہیں کیا،غیر ملکی بینک اپنی دولت کے انبار سے بھرنے والوں کو کیا معلوم کہ قربانی کیا ہوتی ہے؟مجھے تو اس پر بھی حیرت ہے کہ شہدائے سولہ دسمبر کے بارے میں اتنا کچھ لکھا جا چکا !میڈیا چیخ چیخ کر تھک گیا! شہید پھولوں جیسے بچوں کے ماں باپ پریس کانفرنسیں کر کر کے حیران ہیں کہ آخر ایسا کون سا مطالبہ ہے جو حکم رانوں پر گراں گزر رہا ہے اگر وہ شہدا کی یادگار کا کہتے ہیں تو کسی اسکول کے باہر پینا فلیکس لٹکا کر ان کے غیض و غضب کو دعوت دے دی جاتی ہے!وہ کہتے ہیں کہ بچوں کا علاج کروایا جائے تو کبھی میو اسپتال لاہور اور کبھی کراچی کے کسی اسپتال کے چکر لگوا کر ان کے زخموں پر مزید نمک چھڑک دیا جاتا ہے!وہ کہتے ہیں کہ حکومتیں چاہے صوبائی ہوں یا وفاقی ان کی بات سنیں مگر سنی ان سنی کر دی جاتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ تفصیلی ایف آئی آر درج کی جائے تو انھیں دھتکار دیا جاتا ہے؟وہ کہتے ہیں کہ جوڈیشل کمیشن بنایا جائے تو انھیں دھکے دیے جاتے ہیں۔ان میں سے چند کہتے ہیں کہ گھنٹہ گھر میں ایک شخص حکومت کی غلطی سے مر جاتا ہے اس کے لواحقین کوصوبائی حکومت بیس لاکھ روپے دیتی ہے اور اے پی ایس شہداء کے لواحقین کو پانچ لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا جاتا ہے، بعد میں اضافہ کر دیا جاتا ہے یہ تضاد کیوں ہے؟وہ یہ سوال کرتے ہیں کہ ان کے شہید بچوں کو اعلیٰ ترین سول ایوارڈ کیوں نہیں دیا جاتا تو کوئی جواب نہیں ملتا ۔ان سے نہ وزیر اعلیٰ ملتا ہے اور نہ انھیں گورنر وقت دیتا ہے۔صدر اور وزیر اعظم سے ملنا تو دور کی بات!ہمیں تو ان مطالبات میں کوئی ایسا بڑا مطالبہ دکھائی نہیں دیتا لیکن جب آپ دیکھ نہ سکیں،سن نہ پائیں، محسوس نہ کر سکیں ،تو پھر کسی کے لیے بھی سسکیاں لیتے چہرے، آنسوؤں اور بہت سے سوالات سے بھری آنکھیں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔پنڈی سرہال سے سردار افسر نے ایک نظم بھیجی ہے جس کے چند اشعار ملاحظہ ہوں

یاد علم کے پروانوں کی جب آتی ہے
جھڑی آنسوؤںکی پھر سے لگ جاتی ہے

کبھی بستہ اٹھا کے کبھی چوم کے
تصویر گلے ماںلگاتی ہے

بے رحم موت معصوم کلیوں کی
دکھی ماؤں سے بھلائی کب جاتی ہے


اب شنید ہے کہ صوبائی حکومت نے اس دکھ کا مداوا یہ تلاش کیا ہے کہ محترم عمران خان سولہ دسمبر کی صبح آرکائیوز لائبریری کو شہدائے آرمی پبلک اسکول سے منسوب کرنے کا اعلان فرمائیں گے اور اسی لائبریری کے احاطے میں شہداء کی ایک یادگار بنا دی جائے گی، اللہ کرے شہداء کی روح کو کچھ تو سکون ملے۔جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ کچھ باتیں یاد رکھنے کی ہیں اور وہ ان عظیم شہداء کی قربانی کے بعد پاکستان آرمی کی جانب سے آپریشن ضرب عضب ہے، میری کوشش اور خواہش تو تھی کہ پاکستان آرمی کے میڈیا سے متعلق ادارے انٹر سروسز پبلک ریلیشنز سے معلومات اکھٹی کی جاتیں لیکن پشاور میں سبھی مصروف تھے کہ سولہ دسمبر کو آرمی پبلک اسکول میں شہداء کو خراج تحسین پیش کرنے کی تقریب منعقد ہو رہی ہے۔وزیراعظم صاحب بھی تشریف لائیں گے اور جنرل راحیل شریف بھی ہوں گے ان کے ساتھ تیس سے زیادہ ممالک کے سفراء بھی اس تقریب میں شرکت کریں گے، خدا کرے کہ شہداء کو یاد رکھنے اور انھیں خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ وہ شہداء کے والدین کے دکھوں کا مداوا بھی کریں اور غازیوں کو فوری طور پر بیرون ملک علاج کے لیے بھیجنے کا اعلان بھی کریں۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ اس سانحہ کے بعد سیاست دانوں میںاتفاق و اتحاد کا مظاہرہ تو ہوگیا، کیا پاکستان آرمی نے بھی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنے اہداف حاصل کیے ؟یقینا سولہ دسمبر 2014ء کے بعدایک سال کے عرصے میں آرمی نے جس شدت کے ساتھ دہشت گردوں کا صفایا کیا وہ بلاشبہ لائق تحسین ہے، آرمی چیف کا خود افغانستان جانا اور مطلوب دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ اور افغانستان سمیت نیٹو کو یہ باور کروانا کہ اب پاکستان کی سرزمین دہشت گردوں پر تنگ کر دی گئی ہے، چنانچہ افغانستان بھی دہشت گردوں کو پناہ نہ دے اور جو چھپے ہوئے ہیںانھیں پاکستان کے حوالے کرے، اسی طرح پاکستان ائیر فورس نے فضائی بمباری سے بھی دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کبھی وہ شب و روز بھی تھے جب پشاور میں ایک دن میں تین تین دھماکے ہوا کرتے تھے اور آج کسی طور امن ہے جو بلاشبہ شہدائے اے پی ایس کی عظیم قربانیوں کا مرہون منت ہے۔

اس امن کو قائم رکھنے کی ضرورت ہے ایسا نہیں کہ اب امریکا اور اس کے اتحادیوں نے اپنے مقاصد حاصل کر لیے ہمیں بارود کی آگ میں جھونکے رکھا اور اب واپس جانے لگے ہیں تو یہ امن کہیںعارضی ثابت نہ ہو، پائیدار امن کے لیے ہمیں آج بھی دوسروں کی جنگ لڑنے اور پھر اسے اپنی جنگ بنانے سے گریز کرنے کی ضرورت ہے، یہ قطعی درست ہے کہ جب افغانستان میں امن ہو گا تو خطے میں امن ہو گا کیوں نہ افغانستان میں امن کے لیے ہاتھ بڑھایا جائے اور کیوں نہ اپنی سرحدوں کو محفوظ بنایا جائے کہ عقل مندی کا تقاضابھی یہی ہے۔صرف یہ ذہن میں رکھئے کہ 28 کلومیٹرپرمحیط پشاور شہر کا شاید ہی کوئی گلی کوچہ ایسا ہو جہاں بارہ سال کے دوران کوئی دھماکہ نہ ہوا ہو!کوئی شہادت نہ ہوئی ہو اور کوئی زخمی نہ ہوا ہو!اس شہر نے لاتعداد قربانیاں دی ہیں اور صلے میں صرف دادو تحسین کے چند الفاظ چاہیے ہیں وہ بھی نہ ملیں تو وقت گزر ہی جائے گا لیکن بقول احفاظ الرحمان!

ہری بھری امید رہے شاداب رہے

زنجیریں سب ٹوٹیںسکھ کا سانس ملے
پھر سے ان کی گلیوں کو اک آس ملے

ہنسی کی لہریں گلیوں میں دوڑیں بھاگیں
دہشت کے ہرکارے خاک میں مل جائیں
Load Next Story