سولہ دسمبر بنگلہ دیش کی کہانی
جب متحدہ ہندوستان میں انگریزوں کی حکمرانی تھی، بنگال میں قحط پڑا تھا،
جب متحدہ ہندوستان میں انگریزوں کی حکمرانی تھی، بنگال میں قحط پڑا تھا، اس موقع پر انقلابی اور کمیونسٹ نظریات کے حامل شاعر ساحر لدھیانوی نے اپنی 'بنگال' نامی نظم میں یہ شعر کہا تھاکہ ''یہ شاہراہیں اسی واسطے بنی تھیں کیا؟ کہ ان پہ دیس کی جنتا سسک سسک کے مرے''۔ اس قحط میں بنگال میں لاکھوں عوام لقمہ اجل بن گئے تھے اور انگریز حکمرانوں نے اس کے سدباب کے لیے کوئی مثبت قدم نہیں اٹھایا تھا۔ ہر طرف احتجاج امڈ آیا تھا۔ جب کہ اسی بنگال سے برطانوی سامراج ریشم، پٹ سن، چائے اور دیگر زرعی پیداوار دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا تھا۔
بہرحال 1947 میں ہندوستان تقسیم ہوکر پاکستان وجود میں آیا۔ اس عمل میں 28 لاکھ انسان (مسلمان، ہندو، سکھ) جان سے جاتے رہے۔ بنگال واحد علاقہ تھا جہاں نوے فیصد ووٹ لے کر مسلم لیگ پاکستان بننے کے ریفرنڈم میں جیتی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد 1948 میں پاکستان (مغربی) کے ایک رہنما نے ڈھاکا پلٹن میدان میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'ایک اللہ، ایک رسول، ایک ملک اور ایک زبان اور وہ ہے اردو'۔ جب کہ مشرقی پاکستان کی پچپن فیصد آبادی بنگلہ بولتی ہے اور اردو مغربی پاکستان کی رابطے کی زبان تھی اور ہے۔ یہاں پنجابی، سرائیکی، ہندکو، پشتو، سندھی، براہوی، کوہستانی، شنہا، گلگت، بلتی اور کشمیری وغیرہ بولی جاتی ہیں۔ پلٹن میدان کے اجتماع سے ایک نوجوان طالب علم نے کھڑے ہو کر کہا کہ 'ایک زبان نہیں، دو زبانیں ہیں، یہاں بنگلہ بھی ہے'۔
1951 میں پاکستان میں عام انتخاب میں مسلم لیگ صرف 19 نشستیں حاصل کرپائی، باقی ساری نشستیں جوکتو فرنٹ نے حاصل کی۔ اس جوکتو فرنٹ میں 80 فیصدکامیاب امیدوار کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے تھے۔ ان نتائج کو دیکھتے ہوئے پاکستان کی اسٹبلشمنٹ نے دوسری جماعتوں کی پشت پناہی کرنی شروع کردی۔ مسلم لیگ سے ایک دھڑا الگ ہوکر عوامی مسلم لیگ اور بعد ازاں عوامی لیگ بن گئی۔ 1954 میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی لگادی گئی۔ پارٹی کے چئیرمین کامریڈ مونی سنگھ، جن کا مشرقی پاکستان سے تعلق تھا، گرفتار کرلیے گئے، جب کہ مغربی پاکستان کے بیشتر رہنماؤں کو گرفتار کرلیا گیا، باقی اراکین زیر زمین چلے گئے۔
بنگال کے ساتھ قومی استحصال کی وجہ سے عوامی لیگ کو طبقاتی مسائل سے ہٹا کر قوم پرستی میں تبدیل کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ مثال کے طور پر چائے مشرقی پاکستان میں پیدا ہوتی تھی جب کہ 1968 میں چائے مغربی پاکستان میں ڈھائی روپے پاؤنڈ اور مشرقی پاکستان میں تین روپے پاؤنڈ بکتی تھی، کاغذ مشرقی پاکستان میں پیدا ہوتا تھا جب کہ وہاں سوا رو پیہ دستہ اور مغربی پاکستان میں دس آنہ دستہ تھا، انگور مغربی پاکستان میں تین روپے پاؤنڈ اور مشرقی پاکستان میں تین روپے چھٹانک، نار یل مشرقی پا کستان میں پیدا ہو تا تھا جو کہ وہاں بھی پچاس پیسے کا اور یہاں بھی پچاس پیسے کا بکتا تھا۔ 372 چائے کے باغات میں سے تین باغات میں بنگالی زرعی مینجر مقرر تھے۔ ادیب اور شاعر کسی بھی زبان کا کیوں نہ ہو اس کی سرحدیں نہیں ہوتیں، وہ نسل انسانی کا ادب تخلیق کرتا ہے۔ علامہ اقبال پاکستان کے قومی شاعر ہیں، چونکہ انھوں نے 80 فیصد شاعری فارسی میں کی ہے، اس لیے ایران بھی انھیں اپنا قومی شا عر سمجھتا ہے۔
مرزا اسداللہ غالب برصغیر میں اردو کے اول درجے کے شاعر ہیں جب کہ وہ ازبکستان کے قومی شاعر ہیں۔ اسی طرح رابندر ناتھ ٹیگور ایشیا کی پہلی شخصیت ہیں جنھیں نوبل انعام سے نوازا گیا مگر جب جلیانوالہ باغ پنجاب میں جنرل ڈائر کے حکم پر دس ہزار انسانوں کا قتل ہوا تو رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنا نوبل انعام واپس کردیا تھا۔ جنرل ایوب خان نے اپنے اقتدار میں رابندرناتھ کے گانے جسے 'رابندر سنگیت' کہا جاتا ہے، پر پابندی لگادی۔ اس پابندی کے خلاف مشرقی پاکستان کے تمام دانشور، شعرا، ادیب اور مصنف سراپا احتجاج بن گئے اور آخرکار ایوب خان کو یہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔ 1952میں بنگلہ زبان کو قومی زبان کا درجہ دلوانے کے لیے طلبا نے تحریک چلائی، جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کے نورالامین کے حکم پر طلبا پر گولیاں چلادی گئیں، نتیجتاً طلبا رہنما موتیا، برکت اور سلام سمیت متعدد طلبا جان سے جاتے رہے۔ بعد ازاں 1954 میں بنگلہ زبان کو پاکستان کے حکمرانوں نے قومی زبان کے طور پر تسلیم کرلیا۔
1971 میں جنرل یحییٰ خان نے عام انتخابات کروائے، جس میں عوامی لیگ اکثریت سے جیت گئی۔ اقتدار عوامی لیگ کو منتقل کرنے کے بجائے 25 مارچ 1971 رات آٹھ بجے ان کے خلاف آپریشن شروع کردیا گیا۔ اس کے بعد بنگال میں جوکتو فرنٹ (یونائیڈ اسٹرگل کمیٹی) تشکیل پائی جو کہ 8 جماعتوں پر مشتمل تھا، کی مختلف اقدامات کے لیے 8 شاخیں قائم ہوئی تھیں، جس میں سے ایک مکتی باہنی (فوج آزادی) تھی۔ آخری اوقات میں مکتی باہنی خودمختار ہوتی گئی اور ہر گاؤں، شہر، کھیتوں، کھلیانوں اور کارخانوں میں عوامی اور محلہ کمیٹیاں تشکیل دینے لگی۔ عوامی لیگ نے اسے اپنے خلاف خطرہ سمجھتے ہوئے ہندوستانی فوج اور امریکی بحری بیڑے کا سہارا لیا، ورنہ آج بنگلہ دیش میں کمیونزم نافذ ہوجاتا۔ اس لیے بھی کہ عوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب الرحمن نے انتخابات میں جیتنے کے بعد فرانس کے اخبار 'لاموندے' کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ 'پاکستان کے حکمران نالائق ہیں، ہم نے کمیونزم کو کور دیا'۔
ان تمام تقسیم کے باوجود ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے 70 فیصد عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ہندوستان کی ایک ارب پچیس کروڑ کی آبادی میں 34 بے روزگار، بنگلہ دیش کی 18 کروڑ کی آبادی میں 3 کروڑ، جب کہ پاکستان کی 20 کروڑ کی آبادی میں ساڑھے چار کروڑ لوگ بے روزگار ہیں۔ تینوں ملکوں میں زچگی کے دوران فی لاکھ چار سے پانچ سو خواتین اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ بھوک، افلاس، غربت، کرپشن اور اموات اسی خطے میں ہوتی ہیں۔ یہاں کے مسائل کا حل ملکوں کو جوڑنے یا توڑنے میں مضمر نہیں ہے، بلکہ اس جبر کے طبقاتی نظام کے خاتمے میں مضمر ہے۔ ہندوستان میں 49، پاکستان میں 16 اور بنگلہ دیش میں 11 ارب پتی (ڈالروں میں) ہیں۔ اور دوسری جانب صرف بھوک سے ہزاروں انسان روز لقمہ اجل ہورہے ہیں۔ جب اس خطے اور دنیا سے جنگ، سرحدیں، اسلحہ، ملکیت، جائیداد، فوج، اسمبلی اور مالیاتی اداروں کا خاتمہ کرکے ایک فطری کمیونسٹ نظام قائم نہیں ہوگا، اس وقت تک غربت کا خا تمہ ہوگا اور نہ لوگ آزاد ہوں گے۔ وہ دن جلد آنے والا ہے، جب ایک آسمان تلے ایک خاندان ہوگا، کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔
بہرحال 1947 میں ہندوستان تقسیم ہوکر پاکستان وجود میں آیا۔ اس عمل میں 28 لاکھ انسان (مسلمان، ہندو، سکھ) جان سے جاتے رہے۔ بنگال واحد علاقہ تھا جہاں نوے فیصد ووٹ لے کر مسلم لیگ پاکستان بننے کے ریفرنڈم میں جیتی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد 1948 میں پاکستان (مغربی) کے ایک رہنما نے ڈھاکا پلٹن میدان میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'ایک اللہ، ایک رسول، ایک ملک اور ایک زبان اور وہ ہے اردو'۔ جب کہ مشرقی پاکستان کی پچپن فیصد آبادی بنگلہ بولتی ہے اور اردو مغربی پاکستان کی رابطے کی زبان تھی اور ہے۔ یہاں پنجابی، سرائیکی، ہندکو، پشتو، سندھی، براہوی، کوہستانی، شنہا، گلگت، بلتی اور کشمیری وغیرہ بولی جاتی ہیں۔ پلٹن میدان کے اجتماع سے ایک نوجوان طالب علم نے کھڑے ہو کر کہا کہ 'ایک زبان نہیں، دو زبانیں ہیں، یہاں بنگلہ بھی ہے'۔
1951 میں پاکستان میں عام انتخاب میں مسلم لیگ صرف 19 نشستیں حاصل کرپائی، باقی ساری نشستیں جوکتو فرنٹ نے حاصل کی۔ اس جوکتو فرنٹ میں 80 فیصدکامیاب امیدوار کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے تھے۔ ان نتائج کو دیکھتے ہوئے پاکستان کی اسٹبلشمنٹ نے دوسری جماعتوں کی پشت پناہی کرنی شروع کردی۔ مسلم لیگ سے ایک دھڑا الگ ہوکر عوامی مسلم لیگ اور بعد ازاں عوامی لیگ بن گئی۔ 1954 میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی لگادی گئی۔ پارٹی کے چئیرمین کامریڈ مونی سنگھ، جن کا مشرقی پاکستان سے تعلق تھا، گرفتار کرلیے گئے، جب کہ مغربی پاکستان کے بیشتر رہنماؤں کو گرفتار کرلیا گیا، باقی اراکین زیر زمین چلے گئے۔
بنگال کے ساتھ قومی استحصال کی وجہ سے عوامی لیگ کو طبقاتی مسائل سے ہٹا کر قوم پرستی میں تبدیل کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ مثال کے طور پر چائے مشرقی پاکستان میں پیدا ہوتی تھی جب کہ 1968 میں چائے مغربی پاکستان میں ڈھائی روپے پاؤنڈ اور مشرقی پاکستان میں تین روپے پاؤنڈ بکتی تھی، کاغذ مشرقی پاکستان میں پیدا ہوتا تھا جب کہ وہاں سوا رو پیہ دستہ اور مغربی پاکستان میں دس آنہ دستہ تھا، انگور مغربی پاکستان میں تین روپے پاؤنڈ اور مشرقی پاکستان میں تین روپے چھٹانک، نار یل مشرقی پا کستان میں پیدا ہو تا تھا جو کہ وہاں بھی پچاس پیسے کا اور یہاں بھی پچاس پیسے کا بکتا تھا۔ 372 چائے کے باغات میں سے تین باغات میں بنگالی زرعی مینجر مقرر تھے۔ ادیب اور شاعر کسی بھی زبان کا کیوں نہ ہو اس کی سرحدیں نہیں ہوتیں، وہ نسل انسانی کا ادب تخلیق کرتا ہے۔ علامہ اقبال پاکستان کے قومی شاعر ہیں، چونکہ انھوں نے 80 فیصد شاعری فارسی میں کی ہے، اس لیے ایران بھی انھیں اپنا قومی شا عر سمجھتا ہے۔
مرزا اسداللہ غالب برصغیر میں اردو کے اول درجے کے شاعر ہیں جب کہ وہ ازبکستان کے قومی شاعر ہیں۔ اسی طرح رابندر ناتھ ٹیگور ایشیا کی پہلی شخصیت ہیں جنھیں نوبل انعام سے نوازا گیا مگر جب جلیانوالہ باغ پنجاب میں جنرل ڈائر کے حکم پر دس ہزار انسانوں کا قتل ہوا تو رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنا نوبل انعام واپس کردیا تھا۔ جنرل ایوب خان نے اپنے اقتدار میں رابندرناتھ کے گانے جسے 'رابندر سنگیت' کہا جاتا ہے، پر پابندی لگادی۔ اس پابندی کے خلاف مشرقی پاکستان کے تمام دانشور، شعرا، ادیب اور مصنف سراپا احتجاج بن گئے اور آخرکار ایوب خان کو یہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔ 1952میں بنگلہ زبان کو قومی زبان کا درجہ دلوانے کے لیے طلبا نے تحریک چلائی، جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کے نورالامین کے حکم پر طلبا پر گولیاں چلادی گئیں، نتیجتاً طلبا رہنما موتیا، برکت اور سلام سمیت متعدد طلبا جان سے جاتے رہے۔ بعد ازاں 1954 میں بنگلہ زبان کو پاکستان کے حکمرانوں نے قومی زبان کے طور پر تسلیم کرلیا۔
1971 میں جنرل یحییٰ خان نے عام انتخابات کروائے، جس میں عوامی لیگ اکثریت سے جیت گئی۔ اقتدار عوامی لیگ کو منتقل کرنے کے بجائے 25 مارچ 1971 رات آٹھ بجے ان کے خلاف آپریشن شروع کردیا گیا۔ اس کے بعد بنگال میں جوکتو فرنٹ (یونائیڈ اسٹرگل کمیٹی) تشکیل پائی جو کہ 8 جماعتوں پر مشتمل تھا، کی مختلف اقدامات کے لیے 8 شاخیں قائم ہوئی تھیں، جس میں سے ایک مکتی باہنی (فوج آزادی) تھی۔ آخری اوقات میں مکتی باہنی خودمختار ہوتی گئی اور ہر گاؤں، شہر، کھیتوں، کھلیانوں اور کارخانوں میں عوامی اور محلہ کمیٹیاں تشکیل دینے لگی۔ عوامی لیگ نے اسے اپنے خلاف خطرہ سمجھتے ہوئے ہندوستانی فوج اور امریکی بحری بیڑے کا سہارا لیا، ورنہ آج بنگلہ دیش میں کمیونزم نافذ ہوجاتا۔ اس لیے بھی کہ عوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب الرحمن نے انتخابات میں جیتنے کے بعد فرانس کے اخبار 'لاموندے' کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ 'پاکستان کے حکمران نالائق ہیں، ہم نے کمیونزم کو کور دیا'۔
ان تمام تقسیم کے باوجود ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے 70 فیصد عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ہندوستان کی ایک ارب پچیس کروڑ کی آبادی میں 34 بے روزگار، بنگلہ دیش کی 18 کروڑ کی آبادی میں 3 کروڑ، جب کہ پاکستان کی 20 کروڑ کی آبادی میں ساڑھے چار کروڑ لوگ بے روزگار ہیں۔ تینوں ملکوں میں زچگی کے دوران فی لاکھ چار سے پانچ سو خواتین اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ بھوک، افلاس، غربت، کرپشن اور اموات اسی خطے میں ہوتی ہیں۔ یہاں کے مسائل کا حل ملکوں کو جوڑنے یا توڑنے میں مضمر نہیں ہے، بلکہ اس جبر کے طبقاتی نظام کے خاتمے میں مضمر ہے۔ ہندوستان میں 49، پاکستان میں 16 اور بنگلہ دیش میں 11 ارب پتی (ڈالروں میں) ہیں۔ اور دوسری جانب صرف بھوک سے ہزاروں انسان روز لقمہ اجل ہورہے ہیں۔ جب اس خطے اور دنیا سے جنگ، سرحدیں، اسلحہ، ملکیت، جائیداد، فوج، اسمبلی اور مالیاتی اداروں کا خاتمہ کرکے ایک فطری کمیونسٹ نظام قائم نہیں ہوگا، اس وقت تک غربت کا خا تمہ ہوگا اور نہ لوگ آزاد ہوں گے۔ وہ دن جلد آنے والا ہے، جب ایک آسمان تلے ایک خاندان ہوگا، کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔