ایک ماٹھے شاعر کا بیٹا
لوگ اکثر ہم سے پوچھتے ہیں کہ آفتاب صاحب آخر کیا وجہ ہے کہ ظفر اقبال کا بیٹا ہونے کے باوجود آپ نے شاعری نہیں کی؟
WASHINGTON:
لوگ اکثر ہم سے پوچھتے ہیں کہ آفتاب صاحب آخر کیا وجہ ہے کہ ظفر اقبال کا بیٹا ہونے کے باوجود آپ نے شاعری نہیں کی؟ تو جناب ہم نے کوشش تو بہت کی مگر اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ہم نے تیسری سے چوتھی جماعت میں قدم رکھا ہی تھا کہ سرپر شاعر بننے کی دُھن سوار ہوگئی تاہم لاکھ کوشش کے باوصف طبیعت کچھ موزوں نہ ہو پائی۔
ظفر صاحب کو چونکہ ہم بچپن ہی سے جانتے تھے چنانچہ اگلی جماعت تک جاتے جاتے ہم نے ہر کام میں انکی تقلید شروع کر دی۔ ہم زیادہ تر خاموش رہنے لگے، اکثر خلا میں گھورتے اور چھت پر توجہ مرکوز کرتے پائے جانے لگے۔ پہلا باضابطہ عشق بھی انہی دنوں ہوا ۔ بے محل مسکرانے کی عادت بھی پڑ گئی۔والدہ سمجھیں کہ ہم یا تو بیمار ہیں اور یا پھر کوئی نشہ وغیرہ کرنے لگے ہیں۔ ہماری ایک بزرگ عزیزہ جو مستقل بنیادوں پر ہمارے ہاں براجمان تھیں، ہمیں ہر وقت مشکوک نظروں سے تاڑتی اور نگرانی کرتی پائی جاتیں ۔ایک بد نیت قسم کی ملازمہ نے یہ بیان بھی دے ڈالا کہ ہمارا ایک کلاس فیلو ہمارے کمرے میں باقاعدہ سگریٹ بھی پیتا دیکھا گیا ہے۔ حالانکہ پانچویں جماعت کا معصوم طالب علم زیادہ سے زیادہ کتنی باقاعدگی سے سگریٹ پی سکتا تھا ۔اس بیچارے کے ہمارے گھر داخلے پر سخت پابندی عائد کر دی گئی۔ ہمارے بستے سے لیکر بیڈ روم تک کی صبح شام تلاشی کا بیہودہ سا عمل شروع ہو گیا۔ حتیٰ کے ہماری کلاس ٹیچر کے کان بھی بھرے گئے اور وہ بھی آتے جاتے ہمیں چرس طلب نظروں سے دیکھنے لگیں۔
اس اداسی اور بے بسی کے ماحول میں طبیعت کچھ موزوں ہوئی اور شاعری کا دیوتا ہم پر اچانک مہربان ہو گیا۔ آٹھ دس غزلیں مکمل ہوئیں اور نظموں کا تو خیر شمار ہی نہیں۔ سوچا کہ والد محترم سے سند حاصل کرتے ہی اپنا دیوان چھپوائیں گے ۔عشقیہ سا انتساب تک سوچ لیا مگر پھر والدہ کے پُر تشدد مزاج کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اسے تبدیل کر دیا ۔ہمارا حلقہ ٔ احباب جس میںمحلے کے چند اوباش طالب علم، 2 عدد خوفزدہ ملازمین اور ایک عدد چھوٹا بھائی شامل تھے ،ہمیں ظفر اقبال صاحب سے بہتر نہیں تو کم ازکم انکا ہم پلہ ضرور قرار دینے لگا ،بلکہ اگر ہم تھوڑی سختی مزید کرتے تو شاید ہم غالبؔ اور میرؔ کے ہم پلہ بھی قرار دے دیے جاتے۔
ایک روز ظفر صاحب کی خدمت ِاقدس میں حاضر ہو کر شعر سنانے کی اجازت طلب کی۔ آپ سمجھے شاید ہم مذاق کر رہے ہیں حالانکہ ہم بے حد سنجیدہ تھے ۔البتہ شعر سنانے کے بعد جو ماحول برپا ہوا، اس کو مدِنظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ظفر صاحب ٹھیک ہی سمجھے تھے۔شعر تو درکنار ہر ہر مصرعے بلکہ ہر ہر لفظ پر باقاعدہ لعن طعن شروع ہوگئی۔
ہمیں بڑی حیرت ہوئی کہ جس شاعری پر ہم نے اس قدر محنت کی، لاتعداد غم سہے اور بیشمار الزامات کا سامنا کیا اسے کس بے دردی کے ساتھ پامال کر دیا گیا۔ پس ثابت ہو گیا کہ شاعر خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، اندر سے حاسد اور ڈرپوک ہی ہوتا ہے اور پھر والد شاعر تو برداشت ہی نہیں کرسکتا کہ بیٹا بھی بڑا شاعر بن جائے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی بڑے شاعر کابیٹا بڑا شاعر نہیں بن سکا۔ البتہ ہر ماٹھے شاعر نے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی اولاد کو شاعری کی طرف راغب کیا اور شاعری کی دنیا میں بڑے بڑے ناموں کا اضافہ کیا ۔بس یہ خیال آتا ہے تو ہم آج بھی سوچتے ہیں کہ کاش ظفر اقبال صاحب بھی ایک ماٹھے شاعر ہوتے!!
(ظفر اقبال صاحب کے ساتھ ایک ادبی نشست میں پڑھا گیا)
لوگ اکثر ہم سے پوچھتے ہیں کہ آفتاب صاحب آخر کیا وجہ ہے کہ ظفر اقبال کا بیٹا ہونے کے باوجود آپ نے شاعری نہیں کی؟ تو جناب ہم نے کوشش تو بہت کی مگر اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ہم نے تیسری سے چوتھی جماعت میں قدم رکھا ہی تھا کہ سرپر شاعر بننے کی دُھن سوار ہوگئی تاہم لاکھ کوشش کے باوصف طبیعت کچھ موزوں نہ ہو پائی۔
ظفر صاحب کو چونکہ ہم بچپن ہی سے جانتے تھے چنانچہ اگلی جماعت تک جاتے جاتے ہم نے ہر کام میں انکی تقلید شروع کر دی۔ ہم زیادہ تر خاموش رہنے لگے، اکثر خلا میں گھورتے اور چھت پر توجہ مرکوز کرتے پائے جانے لگے۔ پہلا باضابطہ عشق بھی انہی دنوں ہوا ۔ بے محل مسکرانے کی عادت بھی پڑ گئی۔والدہ سمجھیں کہ ہم یا تو بیمار ہیں اور یا پھر کوئی نشہ وغیرہ کرنے لگے ہیں۔ ہماری ایک بزرگ عزیزہ جو مستقل بنیادوں پر ہمارے ہاں براجمان تھیں، ہمیں ہر وقت مشکوک نظروں سے تاڑتی اور نگرانی کرتی پائی جاتیں ۔ایک بد نیت قسم کی ملازمہ نے یہ بیان بھی دے ڈالا کہ ہمارا ایک کلاس فیلو ہمارے کمرے میں باقاعدہ سگریٹ بھی پیتا دیکھا گیا ہے۔ حالانکہ پانچویں جماعت کا معصوم طالب علم زیادہ سے زیادہ کتنی باقاعدگی سے سگریٹ پی سکتا تھا ۔اس بیچارے کے ہمارے گھر داخلے پر سخت پابندی عائد کر دی گئی۔ ہمارے بستے سے لیکر بیڈ روم تک کی صبح شام تلاشی کا بیہودہ سا عمل شروع ہو گیا۔ حتیٰ کے ہماری کلاس ٹیچر کے کان بھی بھرے گئے اور وہ بھی آتے جاتے ہمیں چرس طلب نظروں سے دیکھنے لگیں۔
اس اداسی اور بے بسی کے ماحول میں طبیعت کچھ موزوں ہوئی اور شاعری کا دیوتا ہم پر اچانک مہربان ہو گیا۔ آٹھ دس غزلیں مکمل ہوئیں اور نظموں کا تو خیر شمار ہی نہیں۔ سوچا کہ والد محترم سے سند حاصل کرتے ہی اپنا دیوان چھپوائیں گے ۔عشقیہ سا انتساب تک سوچ لیا مگر پھر والدہ کے پُر تشدد مزاج کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اسے تبدیل کر دیا ۔ہمارا حلقہ ٔ احباب جس میںمحلے کے چند اوباش طالب علم، 2 عدد خوفزدہ ملازمین اور ایک عدد چھوٹا بھائی شامل تھے ،ہمیں ظفر اقبال صاحب سے بہتر نہیں تو کم ازکم انکا ہم پلہ ضرور قرار دینے لگا ،بلکہ اگر ہم تھوڑی سختی مزید کرتے تو شاید ہم غالبؔ اور میرؔ کے ہم پلہ بھی قرار دے دیے جاتے۔
ایک روز ظفر صاحب کی خدمت ِاقدس میں حاضر ہو کر شعر سنانے کی اجازت طلب کی۔ آپ سمجھے شاید ہم مذاق کر رہے ہیں حالانکہ ہم بے حد سنجیدہ تھے ۔البتہ شعر سنانے کے بعد جو ماحول برپا ہوا، اس کو مدِنظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ظفر صاحب ٹھیک ہی سمجھے تھے۔شعر تو درکنار ہر ہر مصرعے بلکہ ہر ہر لفظ پر باقاعدہ لعن طعن شروع ہوگئی۔
ہمیں بڑی حیرت ہوئی کہ جس شاعری پر ہم نے اس قدر محنت کی، لاتعداد غم سہے اور بیشمار الزامات کا سامنا کیا اسے کس بے دردی کے ساتھ پامال کر دیا گیا۔ پس ثابت ہو گیا کہ شاعر خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، اندر سے حاسد اور ڈرپوک ہی ہوتا ہے اور پھر والد شاعر تو برداشت ہی نہیں کرسکتا کہ بیٹا بھی بڑا شاعر بن جائے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی بڑے شاعر کابیٹا بڑا شاعر نہیں بن سکا۔ البتہ ہر ماٹھے شاعر نے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی اولاد کو شاعری کی طرف راغب کیا اور شاعری کی دنیا میں بڑے بڑے ناموں کا اضافہ کیا ۔بس یہ خیال آتا ہے تو ہم آج بھی سوچتے ہیں کہ کاش ظفر اقبال صاحب بھی ایک ماٹھے شاعر ہوتے!!
(ظفر اقبال صاحب کے ساتھ ایک ادبی نشست میں پڑھا گیا)