فاٹا کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں کا نیامرحلہ
قبائلی علاقہ جات کو قرارداد کی بنیاد پر خیبرپختونخو ااسمبلی میں...
خیبرپختونخوااسمبلی نے 7 مئی کوقبائلی عوام کو صوبائی اسمبلی میں نمائندگی دینے سے متعلق قرارداد منظورکی تھی۔ اس قرارداد کی جے یو آئی (ف)نے بھی حمایت کی تھی جس کی وجہ سے یہ قرارداد کثرت رائے کے بجائے متفقہ طور پر منظور ہوئی تھی۔ اس قرارداد کی متفقہ منظوری کے باعث اے این پی نے اس کی بنیاد پر صدر مملکت کے ساتھ بھی ملاقات میں ان سے مطالبہ کیا کہ قبائلی علاقہ جات کو قرارداد کی بنیاد پر خیبرپختونخو ااسمبلی میں نمائندگی دی جائے۔
صدر نے بھی اتفاق کیا تاہم ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اس بارے میں قبائلی عوام سے رائے لی جائے گی۔ قرارداد کی متفقہ منظوری کی وجہ سے اے این پی نے اپنے طور پر پورا ڈرافٹ بھی تیار کرلیا ہے کہ کس قبائلی ایجنسی کے کتنے نمائندوں کو صوبائی اسمبلی میں نمائندگی دی جائے گی۔ تاہم اب عام انتخابات قریب آگئے ہیں، قبائلی علاقہ جات تک پولیٹیکل پارٹیز آرڈر کی توسیع سے سیاسی جماعتوں کو وہاں کام کرنے کی بھی پوری آزادی حاصل ہے۔ جے یو آئی نے صوبائی اسمبلی میں جس قرارداد کی حمایت کی تھی، اسی کے برخلاف قبائلی عوام کو اکھٹا کرنابھی شروع کردیا ہے۔ ایک جرگہ تشکیل دیا گیا ہے جس کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن ہوں گے ۔
ہوسکتا ہے کہ جے یو آئی کو اس بات کا خدشہ ہو کہ اے این پی اور پیپلز پارٹی میں دوستی کا رشتہ بدستور قائم ہے اس لیے کہیں ایسا نہ ہو کہ صدر اے این پی کے مطالبہ کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی ایسا اقدام نہ کریں جس سے سیاسی طور پر جے یو آئی کو فاٹا میں نقصان ہو اسی لیے جے یو آئی نے پشاو رمیں قبائلی ایجنسیوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا جرگہ کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں فاٹا کو نمائندگی دینے سے متعلق جو قرارداد پاس کی گئی تھی وہ قبائلیوں کی آواز نہیں ہے اس لیے کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل قبائلی عوام کی رائے لینی ضروری ہے۔
یہ رائے کسی حد تک اس جرگہ میں سامنے آبھی گئی ہے۔ فاٹا کے پارلیمنٹرینز کے پارلیمانی لیڈر منیر اورکزئی سمیت ہر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے نمائندوں نے اپنے خطاب میں یہی مطالبہ کیا کہ فاٹا کو خیبرپختونخوا میں شامل کرنے یا صوبائی اسمبلی میں نمائندگی دینے کی بجائے اسے الگ صوبہ کی حیثیت دی جائے تاکہ فاٹا بھی ملک کے دیگر حصوں کی طرح ترقی کرسکے۔ مذکورہ جرگے میں فاٹا کے مستقبل کے حوالے سے کوئی بھی حتمی رائے اختیار کرنے کی غرض سے جو جرگہ تشکیل دیا گیا ہے وہ بھی انہی خطوط پر اپنا کام کرے گا۔اس سے یہ واضح ہوگیا کہ اے این پی جن خطوط پر چل رہی تھی اب اس میں رکاوٹیں آئیں گی۔ قبائلی علاقوں میں جے یو آئی کا اثر روسوخ ایک حقیقت ہے۔
آنے والے دنوں میں فاٹا سے متعلق اہم فیصلے ہونے جارہے ہیں، اسی لیے جے یو آئی یہ دیکھتے ہوئے متحرک ہوئی ہے اور اسی مقصد کے لیے مولانا فضل الرحمٰن نے قبائلی اجتماع میں تشکیل دیئے جانے والے جرگہ کی سربراہی اپنے پاس رکھی ہے تاکہ وہ اسی بنیاد پر فاٹا کے حوالے سے کیے جانے والے فیصلوں میں پوری طرح شامل رہ سکیں۔ حکومت فاٹا میں بلدیاتی نظام کو بھی نافذ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس کیلئے ریگولیشنز تیار کرلی گئی ہیں جن کے حوالے سے عوامی رائے لی جارہی ہے، جلد ہی انھیں حتمی شکل دیتے ہوئے ا ن کا اجراء کردیاجائے گا۔
ممکنہ طور پر آئندہ عام انتخابات سے قبل فاٹا کو صوبہ میں نمائندگی دینے ،الگ صوبہ کی حیثیت دینے یا اس کا موجودہ سٹیٹس ہی برقراررکھنے کے حوالے سے بھی کوئی فیصلہ کیاجائے گا۔ مولانا فضل الرحمن یہ میدان اے این پی کے لیے خالی نہیں چھوڑنا چاہتے اس لیے وہ خم ٹھونک کر میدان میں نکل آئے ہیں۔ آنے والے دنوں میں وہ قبائلی نمائندوں کے جرگوں کے ذریعے حکومت پر یہ واضح کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے کہ اگر جے یو آئی کو نظر انداز کرتے ہوئے فاٹا کے حوالے سے کوئی فیصلہ کیاگیا تو اس سے مسائل میں اضافہ ہوگا۔
نیٹو سپلائی کی بحالی کے خلاف جے یو آئی (ف) زیادہ مضبوط انداز میں احتجاج نہیں کرسکی اور جے یو آئی کا احتجاج خانہ پری کی حد تک ہی محدود رہا۔ تاہم دوسری جانب جماعت اسلامی ملک کے دیگر حصوں کی طرح خیبر پختونخوا میں بھی پوری طرح متحرک ہوچکی ہے۔ دھرنا ،مارچ اور جلسے کرتے ہوئے جماعت اسلامی اس سلسلے میں سبقت لے گئی ہے۔ جماعت اسلامی ایک جانب دفاع پاکستان کونسل کے پلیٹ فارم پر بھی نیٹو سپلائی کی فراہمی کے خلاف میدان میں ہے۔ وہ اس لانگ مارچ کا حصہ تھی جو لاہور سے اسلام آباد تک کیا گیا۔
اب شاید دفاع پاکستان کونسل کے احتجاج کے پشاور سے شروع ہونے والے اگلے مرحلے میں بھی جماعت اسلامی شامل ہوگی لیکن اس سے ہٹ کربھی جماعت اسلامی نے اپنے طور پر بھی بھرپور احتجاج کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ دوسری جانب جے یو آئی نے یوم احتجاج تو ضرور منایا ہے تاہم جس قسم کے احتجاج کی جے یو آئی سے توقع کی جارہی تھی، اس انداز میں جے یو آئی نے احتجاج نہیں کیا۔
یہ ممکنہ طور پراس اسٹیبلشمنٹ کے لیے پیغام ہوسکتا ہے جسے مولانا فضل الرحمن اپنی ہر پریس کانفرنس اور پریس ٹاک میں لتاڑتے ہوئے یہ پیغام دیتے نظر آتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ،جے یو آئی کا راستہ چھوڑ دے کیونکہ انتہائی شفاف انتخابات کرانے کے اعلانات کے باوجود اپنے نظام کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی سیاسی جماعتوں کو فیصلے کرنے ہیں اور فیصلہ سازی میں بہرکیف مولانا فضل الرحمن کو ملکہ حاصل ہے ۔
بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور نیٹو سپلائی کی بحالی کے خلاف تحریک انصاف سے جس دبنگ انداز میں پشاور میں مظاہرہ اور ریلی کی توقع کی جارہی تھی، وہ سائونڈ سسٹم کی وجہ سے پوری نہ ہوسکی۔ جلسہ نما ریلی میں شریک کئی افراد عمران خان کی تقریر سننے سے محروم رہے جبکہ اسی وجہ سے ریلی کو جلسہ ہی کی صورت میں ختم کردیا گیا تاہم عمران خان نے پشاور میں اپنی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اے این پی پر تنقید کرتے ہوئے دل کی بھڑاس نکالی اور ساتھ ہی ستمبر کے مہینہ میں وزیرستان تک امن ریلی لے جانے کا بھی اعلان کردیا۔
وزیرستان ہی وہ قبائلی علاقہ ہے جو سب سے زیادہ فوکس رہا ہے۔ اب بھی اس پر سب کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔ ایسے میں اگر عمران خان وزیرستان تک امن ریلی لے جانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ یقینی طور پر دیگر جماعتوںکیلئے قابل تقلید ہوگا۔ یہ اقدام ملک کی دو بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن)کو بھی مجبور کرے گا کہ وہ بھی وزیرستان سمیت مختلف قبائلی علاقہ جات میں اپنی سیاسی سرگرمیاں شروع کریں جو وقت اور حالات کا تقاضا بھی ہے اور فاٹا میں موجودہ صورت حال میں تبدیلی لانے کیلئے ضروری بھی۔ تاہم اگر یہ جماعتیں فاٹا میں اپنی سرگرمیاں شروع نہ کرسکیں تو اس صورت میں ممکنہ طور پر میدان روایتی طور پر مذہبی جماعتوں ہی کے ہاتھ میں رہے اورشاید کچھ حصہ تحریک انصاف کو بھی مل جائے ۔
صدر نے بھی اتفاق کیا تاہم ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اس بارے میں قبائلی عوام سے رائے لی جائے گی۔ قرارداد کی متفقہ منظوری کی وجہ سے اے این پی نے اپنے طور پر پورا ڈرافٹ بھی تیار کرلیا ہے کہ کس قبائلی ایجنسی کے کتنے نمائندوں کو صوبائی اسمبلی میں نمائندگی دی جائے گی۔ تاہم اب عام انتخابات قریب آگئے ہیں، قبائلی علاقہ جات تک پولیٹیکل پارٹیز آرڈر کی توسیع سے سیاسی جماعتوں کو وہاں کام کرنے کی بھی پوری آزادی حاصل ہے۔ جے یو آئی نے صوبائی اسمبلی میں جس قرارداد کی حمایت کی تھی، اسی کے برخلاف قبائلی عوام کو اکھٹا کرنابھی شروع کردیا ہے۔ ایک جرگہ تشکیل دیا گیا ہے جس کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن ہوں گے ۔
ہوسکتا ہے کہ جے یو آئی کو اس بات کا خدشہ ہو کہ اے این پی اور پیپلز پارٹی میں دوستی کا رشتہ بدستور قائم ہے اس لیے کہیں ایسا نہ ہو کہ صدر اے این پی کے مطالبہ کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی ایسا اقدام نہ کریں جس سے سیاسی طور پر جے یو آئی کو فاٹا میں نقصان ہو اسی لیے جے یو آئی نے پشاو رمیں قبائلی ایجنسیوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا جرگہ کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں فاٹا کو نمائندگی دینے سے متعلق جو قرارداد پاس کی گئی تھی وہ قبائلیوں کی آواز نہیں ہے اس لیے کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل قبائلی عوام کی رائے لینی ضروری ہے۔
یہ رائے کسی حد تک اس جرگہ میں سامنے آبھی گئی ہے۔ فاٹا کے پارلیمنٹرینز کے پارلیمانی لیڈر منیر اورکزئی سمیت ہر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے نمائندوں نے اپنے خطاب میں یہی مطالبہ کیا کہ فاٹا کو خیبرپختونخوا میں شامل کرنے یا صوبائی اسمبلی میں نمائندگی دینے کی بجائے اسے الگ صوبہ کی حیثیت دی جائے تاکہ فاٹا بھی ملک کے دیگر حصوں کی طرح ترقی کرسکے۔ مذکورہ جرگے میں فاٹا کے مستقبل کے حوالے سے کوئی بھی حتمی رائے اختیار کرنے کی غرض سے جو جرگہ تشکیل دیا گیا ہے وہ بھی انہی خطوط پر اپنا کام کرے گا۔اس سے یہ واضح ہوگیا کہ اے این پی جن خطوط پر چل رہی تھی اب اس میں رکاوٹیں آئیں گی۔ قبائلی علاقوں میں جے یو آئی کا اثر روسوخ ایک حقیقت ہے۔
آنے والے دنوں میں فاٹا سے متعلق اہم فیصلے ہونے جارہے ہیں، اسی لیے جے یو آئی یہ دیکھتے ہوئے متحرک ہوئی ہے اور اسی مقصد کے لیے مولانا فضل الرحمٰن نے قبائلی اجتماع میں تشکیل دیئے جانے والے جرگہ کی سربراہی اپنے پاس رکھی ہے تاکہ وہ اسی بنیاد پر فاٹا کے حوالے سے کیے جانے والے فیصلوں میں پوری طرح شامل رہ سکیں۔ حکومت فاٹا میں بلدیاتی نظام کو بھی نافذ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس کیلئے ریگولیشنز تیار کرلی گئی ہیں جن کے حوالے سے عوامی رائے لی جارہی ہے، جلد ہی انھیں حتمی شکل دیتے ہوئے ا ن کا اجراء کردیاجائے گا۔
ممکنہ طور پر آئندہ عام انتخابات سے قبل فاٹا کو صوبہ میں نمائندگی دینے ،الگ صوبہ کی حیثیت دینے یا اس کا موجودہ سٹیٹس ہی برقراررکھنے کے حوالے سے بھی کوئی فیصلہ کیاجائے گا۔ مولانا فضل الرحمن یہ میدان اے این پی کے لیے خالی نہیں چھوڑنا چاہتے اس لیے وہ خم ٹھونک کر میدان میں نکل آئے ہیں۔ آنے والے دنوں میں وہ قبائلی نمائندوں کے جرگوں کے ذریعے حکومت پر یہ واضح کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے کہ اگر جے یو آئی کو نظر انداز کرتے ہوئے فاٹا کے حوالے سے کوئی فیصلہ کیاگیا تو اس سے مسائل میں اضافہ ہوگا۔
نیٹو سپلائی کی بحالی کے خلاف جے یو آئی (ف) زیادہ مضبوط انداز میں احتجاج نہیں کرسکی اور جے یو آئی کا احتجاج خانہ پری کی حد تک ہی محدود رہا۔ تاہم دوسری جانب جماعت اسلامی ملک کے دیگر حصوں کی طرح خیبر پختونخوا میں بھی پوری طرح متحرک ہوچکی ہے۔ دھرنا ،مارچ اور جلسے کرتے ہوئے جماعت اسلامی اس سلسلے میں سبقت لے گئی ہے۔ جماعت اسلامی ایک جانب دفاع پاکستان کونسل کے پلیٹ فارم پر بھی نیٹو سپلائی کی فراہمی کے خلاف میدان میں ہے۔ وہ اس لانگ مارچ کا حصہ تھی جو لاہور سے اسلام آباد تک کیا گیا۔
اب شاید دفاع پاکستان کونسل کے احتجاج کے پشاور سے شروع ہونے والے اگلے مرحلے میں بھی جماعت اسلامی شامل ہوگی لیکن اس سے ہٹ کربھی جماعت اسلامی نے اپنے طور پر بھی بھرپور احتجاج کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ دوسری جانب جے یو آئی نے یوم احتجاج تو ضرور منایا ہے تاہم جس قسم کے احتجاج کی جے یو آئی سے توقع کی جارہی تھی، اس انداز میں جے یو آئی نے احتجاج نہیں کیا۔
یہ ممکنہ طور پراس اسٹیبلشمنٹ کے لیے پیغام ہوسکتا ہے جسے مولانا فضل الرحمن اپنی ہر پریس کانفرنس اور پریس ٹاک میں لتاڑتے ہوئے یہ پیغام دیتے نظر آتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ،جے یو آئی کا راستہ چھوڑ دے کیونکہ انتہائی شفاف انتخابات کرانے کے اعلانات کے باوجود اپنے نظام کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی سیاسی جماعتوں کو فیصلے کرنے ہیں اور فیصلہ سازی میں بہرکیف مولانا فضل الرحمن کو ملکہ حاصل ہے ۔
بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور نیٹو سپلائی کی بحالی کے خلاف تحریک انصاف سے جس دبنگ انداز میں پشاور میں مظاہرہ اور ریلی کی توقع کی جارہی تھی، وہ سائونڈ سسٹم کی وجہ سے پوری نہ ہوسکی۔ جلسہ نما ریلی میں شریک کئی افراد عمران خان کی تقریر سننے سے محروم رہے جبکہ اسی وجہ سے ریلی کو جلسہ ہی کی صورت میں ختم کردیا گیا تاہم عمران خان نے پشاور میں اپنی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اے این پی پر تنقید کرتے ہوئے دل کی بھڑاس نکالی اور ساتھ ہی ستمبر کے مہینہ میں وزیرستان تک امن ریلی لے جانے کا بھی اعلان کردیا۔
وزیرستان ہی وہ قبائلی علاقہ ہے جو سب سے زیادہ فوکس رہا ہے۔ اب بھی اس پر سب کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔ ایسے میں اگر عمران خان وزیرستان تک امن ریلی لے جانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ یقینی طور پر دیگر جماعتوںکیلئے قابل تقلید ہوگا۔ یہ اقدام ملک کی دو بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن)کو بھی مجبور کرے گا کہ وہ بھی وزیرستان سمیت مختلف قبائلی علاقہ جات میں اپنی سیاسی سرگرمیاں شروع کریں جو وقت اور حالات کا تقاضا بھی ہے اور فاٹا میں موجودہ صورت حال میں تبدیلی لانے کیلئے ضروری بھی۔ تاہم اگر یہ جماعتیں فاٹا میں اپنی سرگرمیاں شروع نہ کرسکیں تو اس صورت میں ممکنہ طور پر میدان روایتی طور پر مذہبی جماعتوں ہی کے ہاتھ میں رہے اورشاید کچھ حصہ تحریک انصاف کو بھی مل جائے ۔