پارا چنار میں دہشت گردی
پاکستان کےقبائلی علاقوں میں دہشت گردی کی وارداتیں کوئی نئی بات نہیں ہےیہ علاقےعرصےسےدہشت گردی کا شکار چلے آ رہے ہیں
فاٹا میں کرم ایجنسی کے ہیڈ کوارٹر پارا چنار میں بم دھماکے کے نتیجے میں 25 افراد شہید اور 70 سے زائد زخمی ہو گئے ، تمام افراد کا تعلق مقامی طوری بنگش قبائل سے ہے ،مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے تین روزہ سوگ کا اعلان کر دیا گیا ، پولٹیکل ایجنٹ کرم ایجنسی امجد علی خان کے حوالے سے اخباری خبر کے مطابق دھماکا اتوار کی صبح پارا چنار شہر کے انٹری پوائنٹ پر عید گاہ مارکیٹ کے قریب لنڈا بازار میں اس وقت ہوا جب بڑی تعداد میں لوگ خریداری میں مصروف تھے، دہشت گردوں نے دھماکا خیز مواد نصب کر رکھا تھا۔ اسی وجہ سے زیادہ تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں اور مرنے والے بھی عام شہری ہیں۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کی وارداتیں کوئی نئی بات نہیں ہے' یہ علاقے عرصے سے دہشت گردی کا شکار چلے آ رہے ہیں۔بلکہ ایک وقت تو ایسا بھی تھا کہ ان علاقوں میں دہشت گردوں کا باقاعدہ کنٹرول قائم ہو گیا تھااور انھوں نے یہاں نام نہاد عدالتیں تک قائم کر لی تھیں۔پھر پاک فوج نے جنوبی وزیرستان 'مہمند ایجنسی اور باجوڑ وغیرہ میں آپریشن کیا۔بہر حال جب سے شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب شروع ہوا ہے۔
ملک بھر میں دہشت گردی کی وارداتوں میں خاصی کمی آئی ہے اور دہشت گردوں کی اہم پناہ گاہیں ختم کر دی گئی ہیں تاہم اس دوران بھی دہشت گرد عناصر کہیں نہ کہیں وارداتیں کرتے رہتے ہیں' کبھی وہ ملک کے بڑے شہروں میں کارروائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی قبائلی علاقوں میں۔اب کرم ایجنسی کے ہیڈ کوارٹر پارا چنار میں بم دھماکا ہوا ہے' اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گرد کمزور تو ہوئے ہیں تاہم ابھی تک فعالبھی ہیں۔ اصل بات وہی ہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے وطن عزیز کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک صفحہ پر ہونا چاہیے' دہشت گردی ایک ایسا معاملہ ہے۔
جس کو فوج یا حکومتی مشینری پوری طرح ختم نہیں کر سکتی' اس مقصد کے لیے تمام سیاسی جماعتوں و تنظیموں' تمام مذہبی جماعتوں' علماء کرام و مشائخ عظام' کاروباری طبقوں اور اہل علم کو بھی ایک صفحے پر ہونا پڑے گا۔ انھیں دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرنس کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔دہشت گرد عناصر ہمارے معاشرے میں اس لیے زندہ اور متحرک ہیں کہ انھیں معاشرے ہی سے غذا مل ہی ہے'اگر یہ غذا بند ہو جائے تو دہشت گرد بھی ختم ہو جائیں گے۔ادھر حکمران طبقات میں بھی مفاداتی ٹکراؤ جاری ہے اور اپنے اپنے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے ریاستی مشینری کو کمزور کیا جا رہا ہے۔
قوانین کے نفاذ میں زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہا۔ ادارہ جاتی سطح پر بھی عدم توجہی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ عوام کو ایسا تاثر دیاجا رہا ہے جیسے کہ دہشت گردی کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔اس وجہ سے دہشت گردی پر توجہ کم ہو رہی ہے' سانحہ اے پی ایس کے بعد جو فضا پیدا ہوئی تھی' اس میں بھی کمی آ رہی ہے جو ملک و قوم کے لیے انتہائی خطرناک ہو سکتی ہے۔ جہاں تک قبائلی علاقہ جات خصوصاً کرم ایجنسی اور وزیرستان وغیرہ کا تعلق ہے تو یہاں ریاستی رٹ عرصے سے کمزوری کا شکار ہے' فاٹا ایڈمنسٹریشن اتنی فعال نہیں رہی جتنی وہ انگریز کے دور میں تھی۔
اس کی وجوہات کا سب کو علم ہے' اب وقت آ گیا ہے کہ قبائلی علاقہ جات کے حوالے سے مضبوط فیصلے کیے جائیں' کیا وجہ ہے کہ انگریز کے دور میں قبائلی علاقہ جات پرامن تھے' یہاں انتظامیہ کا کنٹرول بھی تھا لیکن آزادی کے بعد صورت حال میں تبدیلی آتی گئی' اب ان علاقوں میں فوج امن بحال کر رہی ہے لیکن سویلین انتظامیہ کا کنٹرول پوری طرح قائم نہیں ہو سکا' انٹیلی جنس سسٹم بھی کمزور ہوا ہے' اس کا فائدہ اٹھا کر دہشت گرد عناصر ان علاقوں میں مضبوط ہوئے' ملک کی سیاسی جماعتوں کو اس حوالے سے غور کرنا چاہیے۔ سارے کام سیکیورٹی اداروں کے سپرد کرنے سے معاملات حل نہیں ہوں گے۔
فاٹا کے اسٹیٹس کے حوالے سے بھی اہم فیصلوں کی ضرورت ہے اور یہ فیصلے کرنا پارلیمان کا کام ہے۔ ملک میں جمہوری ادارے فعال ہیں' بلاشبہ ملک میں مختلف قسم کے ترقیاتی منصوبے شروع ہو رہے ہیں لیکن یہ حقیقت بھی ماننا پڑے گی کہ دہشت گردی اور کرپشن کے حوالے سے معاملات سست روی کا شکار ہیں' قبائلی علاقہ جات کے حوالے سے پارلیمان اور حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ یہاں آئینی تبدیلیاں لائے اور نئے قوانین وضع کرے تاکہ یہ علاقے ملک کے دیگر حصوں کے برابر کر سکیں اور یہاں کے غریب عوام آزادی محسوس کر سکیں' اگر فاٹا کو ملک کے دیگر علاقوں کے برابر لایا جاتا ہے اور یہاں کاروباری مواقع پیدا کیے جاتے ہیں تو ان علاقوں سے آبادی کا انخلا بھی رک جائے گا۔
یہ کام حکومت اور پارلیمان کے کرنے کا ہے' اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے بھی جرات مندی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا' صرف دہشت گردوں یا جرائم پیشہ عناصر کو مارنے یا انھیں گرفتار کر کے سزائیں دینا مسئلے کا مکمل حل نہیں ہے بلکہ ان کے سہولت کاروں اور مدد گاروں کو بھی سبق سکھانے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ آئین و قانون میں موجود خامیوں کو دور کرنے اور نصاب تعلیم میں تبدیلیاں بھی کرنا ضروری ہے۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کی وارداتیں کوئی نئی بات نہیں ہے' یہ علاقے عرصے سے دہشت گردی کا شکار چلے آ رہے ہیں۔بلکہ ایک وقت تو ایسا بھی تھا کہ ان علاقوں میں دہشت گردوں کا باقاعدہ کنٹرول قائم ہو گیا تھااور انھوں نے یہاں نام نہاد عدالتیں تک قائم کر لی تھیں۔پھر پاک فوج نے جنوبی وزیرستان 'مہمند ایجنسی اور باجوڑ وغیرہ میں آپریشن کیا۔بہر حال جب سے شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب شروع ہوا ہے۔
ملک بھر میں دہشت گردی کی وارداتوں میں خاصی کمی آئی ہے اور دہشت گردوں کی اہم پناہ گاہیں ختم کر دی گئی ہیں تاہم اس دوران بھی دہشت گرد عناصر کہیں نہ کہیں وارداتیں کرتے رہتے ہیں' کبھی وہ ملک کے بڑے شہروں میں کارروائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی قبائلی علاقوں میں۔اب کرم ایجنسی کے ہیڈ کوارٹر پارا چنار میں بم دھماکا ہوا ہے' اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گرد کمزور تو ہوئے ہیں تاہم ابھی تک فعالبھی ہیں۔ اصل بات وہی ہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے وطن عزیز کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک صفحہ پر ہونا چاہیے' دہشت گردی ایک ایسا معاملہ ہے۔
جس کو فوج یا حکومتی مشینری پوری طرح ختم نہیں کر سکتی' اس مقصد کے لیے تمام سیاسی جماعتوں و تنظیموں' تمام مذہبی جماعتوں' علماء کرام و مشائخ عظام' کاروباری طبقوں اور اہل علم کو بھی ایک صفحے پر ہونا پڑے گا۔ انھیں دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرنس کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔دہشت گرد عناصر ہمارے معاشرے میں اس لیے زندہ اور متحرک ہیں کہ انھیں معاشرے ہی سے غذا مل ہی ہے'اگر یہ غذا بند ہو جائے تو دہشت گرد بھی ختم ہو جائیں گے۔ادھر حکمران طبقات میں بھی مفاداتی ٹکراؤ جاری ہے اور اپنے اپنے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے ریاستی مشینری کو کمزور کیا جا رہا ہے۔
قوانین کے نفاذ میں زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہا۔ ادارہ جاتی سطح پر بھی عدم توجہی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ عوام کو ایسا تاثر دیاجا رہا ہے جیسے کہ دہشت گردی کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔اس وجہ سے دہشت گردی پر توجہ کم ہو رہی ہے' سانحہ اے پی ایس کے بعد جو فضا پیدا ہوئی تھی' اس میں بھی کمی آ رہی ہے جو ملک و قوم کے لیے انتہائی خطرناک ہو سکتی ہے۔ جہاں تک قبائلی علاقہ جات خصوصاً کرم ایجنسی اور وزیرستان وغیرہ کا تعلق ہے تو یہاں ریاستی رٹ عرصے سے کمزوری کا شکار ہے' فاٹا ایڈمنسٹریشن اتنی فعال نہیں رہی جتنی وہ انگریز کے دور میں تھی۔
اس کی وجوہات کا سب کو علم ہے' اب وقت آ گیا ہے کہ قبائلی علاقہ جات کے حوالے سے مضبوط فیصلے کیے جائیں' کیا وجہ ہے کہ انگریز کے دور میں قبائلی علاقہ جات پرامن تھے' یہاں انتظامیہ کا کنٹرول بھی تھا لیکن آزادی کے بعد صورت حال میں تبدیلی آتی گئی' اب ان علاقوں میں فوج امن بحال کر رہی ہے لیکن سویلین انتظامیہ کا کنٹرول پوری طرح قائم نہیں ہو سکا' انٹیلی جنس سسٹم بھی کمزور ہوا ہے' اس کا فائدہ اٹھا کر دہشت گرد عناصر ان علاقوں میں مضبوط ہوئے' ملک کی سیاسی جماعتوں کو اس حوالے سے غور کرنا چاہیے۔ سارے کام سیکیورٹی اداروں کے سپرد کرنے سے معاملات حل نہیں ہوں گے۔
فاٹا کے اسٹیٹس کے حوالے سے بھی اہم فیصلوں کی ضرورت ہے اور یہ فیصلے کرنا پارلیمان کا کام ہے۔ ملک میں جمہوری ادارے فعال ہیں' بلاشبہ ملک میں مختلف قسم کے ترقیاتی منصوبے شروع ہو رہے ہیں لیکن یہ حقیقت بھی ماننا پڑے گی کہ دہشت گردی اور کرپشن کے حوالے سے معاملات سست روی کا شکار ہیں' قبائلی علاقہ جات کے حوالے سے پارلیمان اور حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ یہاں آئینی تبدیلیاں لائے اور نئے قوانین وضع کرے تاکہ یہ علاقے ملک کے دیگر حصوں کے برابر کر سکیں اور یہاں کے غریب عوام آزادی محسوس کر سکیں' اگر فاٹا کو ملک کے دیگر علاقوں کے برابر لایا جاتا ہے اور یہاں کاروباری مواقع پیدا کیے جاتے ہیں تو ان علاقوں سے آبادی کا انخلا بھی رک جائے گا۔
یہ کام حکومت اور پارلیمان کے کرنے کا ہے' اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے بھی جرات مندی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا' صرف دہشت گردوں یا جرائم پیشہ عناصر کو مارنے یا انھیں گرفتار کر کے سزائیں دینا مسئلے کا مکمل حل نہیں ہے بلکہ ان کے سہولت کاروں اور مدد گاروں کو بھی سبق سکھانے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ آئین و قانون میں موجود خامیوں کو دور کرنے اور نصاب تعلیم میں تبدیلیاں بھی کرنا ضروری ہے۔