وہ ایک آدمی اور ’’زرداری آئین‘‘

ڈاکٹر عاصم کو میں ایک عام ملزم سمجھتا رہا لیکن۔۔۔۔ ہفتے کے دن احساس ہو ا کہ کوئی ایک آدمی بھی کتنا اہم ہوسکتا ہے۔

ayazkhan@express.com.pk

FREMONT, CA, US:
ڈاکٹر عاصم کو میں ایک عام ملزم سمجھتا رہا لیکن۔۔۔۔ ہفتے کے دن احساس ہو ا کہ کوئی ایک آدمی بھی کتنا اہم ہوسکتا ہے۔ اس دن میں نے یہ بھی جانا کہ ایک آدمی یا ملزم اتنا بھی اہم ہو سکتا ہے کہ اس کے لیے سب کچھ داؤ پر لگایا جا سکتا ہے۔ اس ملزم سے پہلے کسی کو اتنی اہمیت ملی تو وہ ماڈل ایان علی تھی۔ اس کے بارے میں کیا کہا جائے۔

5لاکھ ڈالر بیرون ملک لے جاتے ہوئے وہ پکڑی گئی اور پھر ہم نے دیکھا کہ تاریخ پہ تاریخ پڑتی رہی اور آخر کار وہ ضمانت پر جیل سے باہر آ گئی، آگے کیا ہو گا یہ ایان علی جانے اور اس ملک کا قانون۔ جہاں تک ڈاکٹر عاصم کا تعلق ہے تو موصوف کی وجہ سے وفاق اور سندھ حکومت آمنے سامنے آنے پر مجبور ہو گئے۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار میڈیا سے زیادہ بات نہیں کرتے مگر جب بات کرنے پر آئیں تو طویل گفتگو کرتے ہیں۔ اس بار وہ میڈیا کے سامنے آئے تو ان کے لہجے میں تلخی بھی تھی۔ دبنگ وزیر داخلہ نے کچھ رازوں سے پردہ اٹھایا اور کچھ راز افشا کرنے کی دھمکی بھی دی۔ ڈاکٹر عاصم کی اہمیت پر بھی انھوں نے خوب روشنی ڈالی۔

وزیر داخلہ کی میڈیا ٹاک کے بعد سندھ کے مشیر اطلاعات مولا بخش چانڈیو بھی خوب گرجے برسے۔ انھوں نے کہا کہ چوہدری نثار دھمکیاں نہ دیں، ان کے پاس ویڈیوز سمیت جتنے ثبوت ہیں وہ سامنے لے آئیں۔ سچی بات ہے مجھے تو وہ مولا بخش سے زیادہ مولا جٹ لگ رہے تھے۔ نثار نے کہا رینجرز کو متنازع بنانے کی ا جازت نہیں دیں گے۔ مولا جٹ نے فرمایا ہم نے کبھی رینجرز کے خلاف بات نہیں کی۔ مشیر اطلاعات نے وزیر داخلہ کے جواب میں جو کچھ کہا وہ ان کا حق تھا۔

ان کی ایک بات نے البتہ ضرور حیرت میں مبتلا کیا۔ موصوف نے کہا کہ رینجرز کے اختیارات کی مدت میں توسیع کا معاملہ آئینی ذمے داری ہے۔ آئینی ذمے داریاں پوری کرنا سیاسی حکومتوں کا فرض ہے۔ اسمبلی میں معاملہ لے کر آنا بھی اچھی روایت ہے لیکن پچھلی بار جب رینجرز کے اختیارات کی مدت میں توسیع کی گئی تو نہ آئینی ذمے داری پوری کرنے کا خیال آیا اور نہ اسمبلی کے سامنے یہ معاملہ رکھنے کی زحمت کی گئی۔ چانڈیو صاحب! کیا یہ بتانا پسند کریں گے کہ پچھلی بار انھیں یا ان کی حکومت کو یہ سب یاد نہیں تھا یا تب ''زرداری آئین'' کے تحت توسیع دے دی گئی۔ قائم علی شاہ محض وزیر اعلی ہیں ورنہ سندھ میں ''زرداری آئین'' ہی چلتا ہے۔ اب تو سائیں نے خود بھی اعتراف کر لیا ہے کہ وہ بے اختیار ہیں۔

''زرداری آئین'' کے ہوتے ہوئے ان کے انتہائی قریبی ساتھ ڈاکٹر عاصم کو کچھ ہو جائے یہ بہت بڑا ''ظلم'' ہو گا۔ ڈاکٹر عاصم جب تک رینجرز کی تحویل میں رہے وہ ملکی آئین کی وجہ سے سارے اعتراف کرتے چلے گئے۔ وہ جیسے ہی پولیس کی ''حفاظت'' میں آئے انھیں ''زرداری آئین'' نے سہارا دے دیا اور انھوں نے سارے الزامات مسترد کر دیے۔

اس ''آئین'' کو وفاقی وزیر داخلہ نے چیلنج کیا تو پھر قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کو بھی کہنا پڑا کہ ''ہم نے چوڑیاں نہیں پہن رکھیں''۔ قمر زمان کائرہ نے چوہدری صاحب کی میڈیا ٹاک کو سندھ کو دھمکیاں دینے کے مترادف قرار دیا۔ سندھ کے اندر سے ہی کچھ آوازیں اس ''آئین'' کے خلاف بھی اٹھی ہیں۔ زرداری صاحب کے سابق دوست اور قریبی ساتھی ذوالفقار مرزا نے رینجرز کے اختیارات کی مدت میں توسیع کے لیے تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔

پیر پگارا بھی رینجرز کے حق میں بولے ہیں۔ ایم کیو ایم کے خواجہ اظہار الحسن رینجرز کی مدت میں توسیع کی حمایت کر چکے ہیں۔ کراچی کا کاروباری طبقہ بھی آپریشن جاری رکھنے کے حق میں ہے۔ اس طبقے کی بھتے سے بڑی مشکل سے جان چھوٹی ہے۔ ادھر آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن نے بھی احتجاج اور ہڑتال کی دھمکی دے دی ہے۔کراچی میں سیاستدان اور شہری ریلیاں نکال رہے ہیں ، کل کی ریلی میں شرکاء نے آرمی چیف کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں۔


ڈاکٹر عاصم پر اگر سارے الزامات غلط تھے تو پھر ان کے تفتیشی افسر کو کیوں تبدیل کیا گیا۔ ان کے سابق تفتیشی افسر کیا کہتے ہیں، اپنی ہی زبانی سنیے۔ ''تحقیقاتی رپورٹ میں تمام تفصیلات لکھی تھیں کہ ان کے اسپتال میں کن کن دہشتگردوں کا علاج ہوتا رہا ہے۔

میرے سینئرز نے مجھے انویسٹی گیشن دی جو چھ سے سات روز تک میرے پاس رہی اس کے بعد آرڈر آیا کہ اب تفتیش دوسرے افسر الطاف حسین کو دیدی گئی ہے' میں نے حکم کی تعمیل کی۔ میری تحقیقات کے مطابق القاعدہ اور لیاری وار کے دہشتگرد ان کے اسپتال میں علاج کرانے کے لیے آتے رہے اور وہ ان کے اسپتال میں داخل رہے۔ان میں آٹھ ایسے لوگ تھے جن کی ہیڈمنی تھی جن میں عمر کھچی کے سر کی دس لاکھ قیمت تھی، ظفربلوچ تھا، زاہد لاڈلہ تھا جو بابا لاڈلہ کا بھائی ہے''۔

جے آئی ٹی رپورٹ یہ کہتی ہے کہ اس کے سامنے ڈاکٹر عاصم حسین نے دہشتگردوں کو علاج کی سہولت فراہم کرنے اور اس کے عوض رقوم لینے کے ساتھ زمینوں پر قبضے اور اسپتالوں کے غلط استعمال کا بھی اعتراف کیا۔ جس کے بعد جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کے تمام ساتوں اراکین نے انھیں ''بلیک'' کیٹگری میں شامل کیا۔

باخبر ذرایع کے مطابق ڈاکٹر عاصم کے خلاف مختلف کیسز ہیں جن میں دہشتگردوں کی مالی معاونت اور زخمی دہشتگردوں کو اپنے اسپتال میں علاج و معالجے کی سہولت کی فراہمی وغیرہ شامل ہیں جس کا اعتراف خود ان کے اسپتال کے ایڈمنسٹریٹر بھی کر چکے ہیں۔ ذرایع کے مطابق دیگر کیسز میں زمینوں پر غیر قانونی قبضہ، اسپتال کا ناجائز استعمال، سرکاری پوزیشن کا ناجائز استعمال، میڈیکل کالجز کے لائسنسز کے اجراء میں کمیشن اور کک بیکس کی وصولی وغیرہ شامل ہیں۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ رینجرز کی توسیع کے معاملے پر ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں لڑائی شروع ہو گئی ہے۔ میں اس سے متفق نہیں ہوں، یہ لڑائی آپریشن کے حامیوں، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار اورڈاکٹر عاصم حسین کے سرپرستوں کے درمیان ہے۔ رینجرز کے اختیارات کا معاملہ آج نہیں تو کل طے ہو جانا ہے۔

وزیر داخلہ وفاق کے پاس موجود آپشنز کا ذکر کر چکے ہیں۔ معاملہ جلد حل ہوجائے تو بہتر ہے کیونکہ جتنا زیادہ وقت لگے گا اتنا نقصان ہو گا۔ رینجرز کے اختیارات کا دائرہ کراچی سے آگے اندرون سندھ تک وسیع ہو جائے گا۔ دہشتگردی اور کرپشن کے خلاف آپریشن کے اسٹیک ہولڈرز کے لیے اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ اندرون سندھ ہی نہیں پنجاب میں بھی کارروائیوں کا آغاز کیا جائے۔

آپ یقین رکھیں اس میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ کل آرمی پبلک اسکول پشاور کے شہداء کی پہلی برسی ہے۔ اس طرح کے کسی سانحہ سے مستقبل میں محفوظ رہنا ہے تو پیچھے ہٹنے کا آپشن نہیں ہے، آپریشن منطقی انجام تک جاری رہنا ہے، یہ بات جتنی جلدی سمجھ آ جائے اتنا بہتر ہے۔ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔
Load Next Story