انور سمیع کی یاد میں پہلاحصہ

پڑوس میں آگیا تھا،اس لیے ہفتے میں دو تین بار ملاقات ضرور ہوتی تھی

KARACHI:
وقت کے ساتھ بیتے دن دُھندلے ہوتے جاتے ہیں۔ بڑھاپے کا کرشمہ ہے، جسمانی زوال کے ساتھ تخیل کی پروازکا دائرہ بھی محدودکردیتا ہے۔ بہت یاد کیا، یاد نہیں آیا کہ انورسمیع سے پہلی ملاقات کب اورکہاں ہوئی تھی اورہم کیسے ایک دوسرے کی چاہت میں گرفتار ہوئے تھے۔اس چاہت کی میٹھی چھاؤں میں ہم غم روزگار اور غم دنیا کی آگ سے گزرنے کا ڈھنگ سیکھنے کی کوشش کرتے رہے۔ہمارے خواب مشترک تھے، خیالات مشترک تھے، اس لیے راستہ بھی ایک تھا، دُکھ سُکھ کی وہی پرچھائیاں ہمارے مقدر میں بھی آئیں، جومتوسط اور نیم متوسط طبقے کے دامن سے لپٹی ہوتی ہیں۔ اس جنگ میں بڑھاپا ہمارے احساسات اور نظریات پر حاوی نہ ہوسکا۔

انور سمیع نے موقع پرستی کو ہمیشہ پائے حقارت سے ٹکرایا، خود غرضی کی سیاہی میں اپنا ہاتھ کبھی آلودہ نہیں کیا، دوستوں کا دوست تھا،کُھلی کتاب جیسا تھا۔ سب کو اپنی خوشیوں میں شریک رکھتا تھا۔کوئی راز سینے میں چھپاکر نہیں رکھتا تھا، لیکن زندگی کی آخری گھڑی میں وہ اپنی وضع داری قائم نہ رکھ سکا، دوستوں اورعزیزوں کو اندھیرے میں رکھا۔ اس کا کوئی قصور نہیں، موت نے ایسی اَن ہونی میں وارکیا کہ اسے یہ بتانے کا موقع ہی نہ مل سکا کہ میں جارہا ہوں۔

میں نے وہ خوف ناک منظر بار بار دیکھا اور محسوس کیا کہ جب قاتل کار نے اس پر وارکیا تو اس کے ذہن میں کون سا خیال اُبھرا ہوگا، کیا یہ کہ آگے کی زندگی کا عنوان کیا ہوگا؟ کون کون سی یادیں اس لمحے چمکی ہوں گی، جب اس کا تن زمین پرگرا ہوگا اور اس کی آنکھوں کو اندھیروں نے ڈھانپ لیا ہوگا۔

موت یوں آئے گی، یوں عیّاری کے ساتھ دبے پاؤں آئے گی، اسے معلوم نہ تھا، معلوم ہوتا تو وہ اپنے چاہنے والوں کو پہلے سے خبردارکردیتا کہ اُمید کی ڈور ٹوٹنے والی ہے، نیا سفر شروع ہونے والا ہے۔ وہ چلا گیا، اور قبرستان میں اس کی قبر کے سامنے غم زدہ چہرے اپنی بے بسی پر ماتم کررہے تھے کہ اب وہ اس کو واپس نہیں لاسکتے، مرکر بھی واپس نہیں لاسکتے اور اسی دوران، جب بتّو، فیصل اور فراز کی آنکھیں محرومی کی کہانی سنارہی تھیں اور میری آنکھوں کے سامنے مہر بھابی کا غم زدہ چہرہ گھوم رہا تھا تو مجھے انور شعورکا شعر یاد آرہا تھا۔

ہم تم کو روتے ہی نہ رہتے، اے دنیا والو
مرکے اگر پا سکتے تم کو، مرجاتے ہم بھی

انور سمیع اس شہر کی ثقافتی زندگی کا ایک بہت متحرک اور ناموَرکردار تھا، ایک بہت عمدہ آرٹسٹ تھا، جمالیاتی قدروں سے گہرا لگاؤ رکھتا تھا۔اس کا گھر آرٹ کے نوادرات سے بھرا ہوا تھا۔ اسے پرانی چیزیں جمع کرنے کا شوق تھا۔ یہ شوق اسے اپنے والد سمیع دہلوی سے ورثے میں ملا تھا، جن کا شمار برصغیر کے ابتدائی اور مشہور ترین کارٹونسٹوں میں ہوتا ہے، یہی ان کا ذریعۂ معاش تھا۔


انور نے بھی یہی راستہ اختیارکیا، مختصر عرصے کے لیے ملازمت بھی کی لیکن زیادہ تر فری لانس آرٹسٹ کی حیثیت سے گزر بسرکی سبیل نکالتا رہا۔ آزاد خیال،خود دار آدمی تھا۔ ملازمت اس کو راس نہیں آتی تھی۔ اپنے دست ہُنر سے اپنے بال بچوں کا مستقبل تعمیرکیا، ان کی آسودگی کے لیے ایک کشادہ گھر فراہم کیا، جو شاید جرنلسٹس سوسائٹی کا سب سے خوب صورت مکان تھا۔

پڑوس میں آگیا تھا،اس لیے ہفتے میں دو تین بار ملاقات ضرور ہوتی تھی۔کبھی وہ میری طرف آجاتا تھا ورنہ زیادہ تر بیٹھکیں اسی کے گھر پر ہوتی تھیں۔ شہر میں کون سا دوست ہوگا جس نے اس کی وضع داری اور خاطر مدارات کے رنگ نہ چکھے ہوںگے۔ چند سال قبل اس نے بہت دور، گلشن معمار میں گھر بنالیا، جرنلسٹس سوسائٹی والا گھر فروخت کردیا۔ اس سے کم کم ملاقات رہنے لگی لیکن وہ روزانہ یاد آتا تھا، آتے جاتے اس کے گھر پر نظر پڑتی اورکوئی نہ کوئی پرانی یاد چمک اٹھتی۔

پریس کلب ہماری سرگرمیوں کا مرکز تھا، جہاں ہم آزادی صحافت کی مشعل روشن رکھتے تھے۔ انور بھی پریس کلب اورکراچی یونین آف جرنلسٹس کا رکن تھا۔ اس کی شامیں بھی پریس کلب میں گزرتی تھیں۔ جب جلسوں، جلوسوں کا اور دھوپ میں جلنے کا موسم آتا تو وہ ہمارے شانے سے شانہ ملاکر ہم قدم ہوتا۔ان کہانیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، اس اخباری مضمون میں تفصیل بیان کرنا ممکن نہیں۔

شہرکے متعدد اخبارات اور رسائل میں اس کے بنائے کارٹون چھپتے تھے اور ساتھ ساتھ کراچی یونین آف جرنلسٹس کی جدوجہد کے دوران وہ نئے انداز میں احتجاجی پوسٹر اور پلے کارڈ بھی بناتا رہتا تھا۔ ہفت روزہ''الفتح'' اور ہفت روزہ ''معیار'' کے لیے بہت سے خوبصورت سرورق اس نے بنائے۔ دونوں رسالے پاکستان میں جمہوری اقدارکی سربلندی کے لیے کوشاں تھے اور انور اپنے موئے قلم سے ان کے صفحات پر احتجاج اور بغاوت کا عکس اتارتا تھا یہ عمل ہماری رفاقت کا سب سے مضبوط بندھن تھا۔اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم اتنی دور اور اتنی دیر تک ایک ساتھ نہ چلتے۔ یہ جس زمانے کا ذکر ہے اس وقت ریاکاری اس قدر عام نہ تھی۔

آگ کو گلے لگانے والوں اور ذاتی مفادات کو چاہنے والوں کے درمیان لکیر واضح اور نمایاں تھی۔ ادھر سے جو اس لکیر کو پار کرکے دوسری طرف جاتا تھا وہ رفاقت کے دائرے سے نکل جاتا تھا۔ یہ خود احتسابی کا کرشمہ تھا۔ اخبار نویسوں کی اُجرتیں محدود تھیں، جن میں وہ جیسے تیسے بال بچوں کا پیٹ پالتے تھے۔ خستہ حال تھے، لیکن بے ایمانی، موقع پرستی اور خود غرضی سے نفرت کرتے تھے، اپنا ضابطۂ اخلاق خود اپنے عمل سے وضع کرتے تھے۔

جانتے تھے کہ ان کا بنیادی فریضہ ملک کے نادار لوگوں کی تشنہ آرزوؤں کی ترجمانی کرنا ہے اور یہ کہ اس راہ میں اپنے لیے ذاتی آسائش کا دروازہ کھولنا ایک مجرمانہ فعل ہے۔ یہ خالی ہاتھوں کا کارواں تھا، جو ملک کے بدحال لوگوں کے دریدہ دامنوں میں پھول سجانے کا خواب دیکھتا تھا۔

انور نے بھی ہمارے ساتھ یہی خواب دیکھا تھا۔اس نے تنگ دستی کے دور میں بھی اپنا سرکسی کے سامنے خم نہیں کیا۔ اس وضع داری کے باعث دوستوں کے حلقے میں اسے ہمیشہ محبت سے دیکھا گیا۔ ایک با وقارآدمی تھا، اس لیے نہ تو کسی سے اوچھے انداز میں بات کرتا تھا اور نہ ہی کسی کی سطحی اور گھٹیا گفتگو سننے کا روادار ہوتا تھا۔ مجھ سے اکثرکہا کرتا تھا، ''خاں صاحب، آپ سے سیکھا ہے، پیچھے نہیں ہیں ہم، فوراً حساب چُکتا کردیتے ہیں۔''

لیکن کچھ بھی ہو، وہ تُرش رُو آدمی نہیں تھا، خوبصورت اور خوش پوش تھا۔ خوب صورت مسکراہٹ اس کے چہرے پر رقص کرتی تھی، پینتالیس سال پر محیط دوستی کے دوران میں نے اسے کبھی آپے سے باہر ہوتا نہیں دیکھا۔ کبھی کسی سے ناراضگی کا اظہارکیا بھی تو دوسرے لمحے ہنسنے لگتا، ''چلو چھوڑو،کوئی اور بات کرتے ہیں۔'' یہ بہت بڑی خوبی ہے، جسے نصیب ہوئی، وہ چین سے رہتا ہے، حسد کی آگ سے محفوظ رہتا ہے، جو ہمارے معاشرے میں ہر طرف یلغار کرتی نظر آتی ہے۔ اس خوبی کے طفیل اس کا حلقۂ احباب بہت وسیع تھا۔ جس سے ملتا تھا، اپنی نفس وضع قطع اورخوش گفتاری سے اسے اپنا گرویدہ بنالیتا تھا۔ (جاری ہے)
Load Next Story