جنگ و جدل کا انجام

یہ کیسے مان لیا جائے کہ ہمارے وہ دانشور اور مذہبی جماعتوں کے سیاستدان جنھیں جنگ و جدل بہت عزیز ہے

zahedahina@gmail.com

یہ کیسے مان لیا جائے کہ ہمارے وہ دانشور اور مذہبی جماعتوں کے سیاستدان جنھیں جنگ و جدل بہت عزیز ہے اور جو صبح و شام 'اپنے ہتھیاروں کو تیار رکھنے' کی بات کرتے ہیں، انھوں نے دنیائے ادب کا عظیم رزمیہ نہیں پڑھا ہوگا جو 'ایلیاد' کے نام سے مشہور ہے۔ اسے ایک نابینا شاعر ہومر کی خلاقی کا بے مثال نمونہ کہا جاتا ہے۔

وہ یونان کی گلیوں میں اس رزم نامے کو گا کر سناتا تھا۔ 3 ہزار برس پہلے لکھی جانے والی ایلیاد کو پڑھیے تو ہر قدم پر کسی شاندار اور شیردل جوان کی لاش نظر آتی ہے، خون اور خاک میں لتھڑی ہوئی۔ 'اودیسی' اس جنگ سے بچ جانے اور جلاوطنی کا کڑوا ذائقہ چکھنے والے اودسیس اور اس کے ساتھیوں پر دس برس تک گزرنے والی ابتلاؤں کا بھیانک نقشہ ہے۔

'اودیسی' میدان جنگ کی نہیں، وہاں سے بچ کر آنے والوں کی تیرہ بختیوں اور ناقابل یقین صعوبتوں کی داستان ہے۔ اس میں 'ایلیاد' کے ان سورماؤں کی جھلک بھی نظر آتی ہے جو میدانِ جنگ میں اپنی شمشیرزنی کی دھاک بٹھاتے ہوئے جان سے گئے اور اب پاتال کے اندھیروں میں وہ سرگرداں حسرت زدہ سایوں کے سوا کچھ نہیں۔

یہ عظیم ادبی شہ پارہ ان لوگوں کی نظر سے ضرور گزرنا چاہیے جو ہر وقت طبلِ جنگ بجاتے ہیں اور فتح سے پہلے فتح کا قرنا پھونکتے سنائی دیتے ہیں۔ 19 برس کی جنگ اور جلاوطنی کے بعد اودسیس جب اپنے دشمنوں سے انتقام لینے کے لیے ان پر عقاب کی طرح جھپٹتا ہے تو رب الارباب زیوس اسے لڑائی سے باز رہنے اور خانہ جنگی ختم کرنے کا حکم دیتا ہے، اودسیس اس حکم کے سامنے سر جھکاتا ہے اور فریقین میں صلح کرا دی جاتی ہے۔ 'اودیسی' کے بارے میں سلیم الرحمان صاحب نے کیسی پتے کی بات لکھی ہے کہ ''جنگ و جدل کا انجام، فاتح اور مفتوح دونوں کے لیے سراسر الم ناک ہوا کرتا ہے''۔

سچ یہی ہے کہ دلوں میں دشمنی کی دیوار اٹھانے اور نفرت کے ناگ کو انتقام کا دودھ پلانے والوں کو آخرکار مکالمے کی میز پر بیٹھنا پڑتا ہے۔ ہمارے یہاں ان لوگوں کی کمی نہیں جو مکالمے اور صلح صفائی کا نام سنتے ہی یوں بھڑک جاتے ہیں جیسے انھیں بھڑ نے کاٹ لیا ہو۔ پاکستانی وزیراعظم اگر کسی کانفرنس کے حاشیے پر ہندوستانی وزیراعظم سے ڈھائی منٹ کی بات کرلیں تو قیامت آجاتی ہے۔

اس سے ڈانٹ کر پوچھا جاتا ہے کہ رازداری سے آخر کیا بات کی جارہی تھی۔ قوم کو فوراً بتایا جائے کہ ایسی کیا بات ہوئی کہ جس کے بعد تلواریں سونت کر ایک دوسرے پر پل پڑنے کے بجائے مکالمے کی میز بچھادی گئی۔ ہندوستانی وزیر خارجہ سشما سوراج صاحبہ پاکستان آئیں اور انھوں نے وزیراعظم کے گھر کا پھیرا لگایا، ان کے گھر کی خواتین سے مل کر اور وزیراعظم سے اچھی اچھی باتیں کر کے خارجہ امور کے سیکریٹریوں کی ملاقات کا اعلان کرکے، کسی جھگڑے فساد کے بجائے مسکراتی ہوئی واپس چلی گئیں۔

جنگ جوئی کا مزاج رکھنے والے ہندوستانیوں کا بھی یہی حال ہے وہ بھی اپنے وزیراعظم کی گوشمالی کررہے ہیں کہ آخر انھوں نے پاکستان سے بہتر تعلقات قائم کرنے کی کوشش کیوں اور کیسے کی۔ کچھ لوگ دونوں ملکوں میں لفظ 'دشمن' ایک دوسرے کے لیے دھڑلے سے استعمال کرتے ہیں اور اس پر مصر رہتے ہیں کہ جب تک وہ ایک دوسرے کو نیست و نابود نہیں کرلیں گے، چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ دشمنی کا یہ زہر ہماری رگوں میں اس طرح پھیلا ہے کہ اس نے ہمیں جنون کی سرحدوں میں دھکیل دیا ہے۔

چند دنوں پہلے مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا جب میں نے وہ تصویر دیکھی جس میں حیدرآباد، سندھ کی ایک سڑک پر ترنگا پھیلا ہوا تھا اور ایک مذہبی تحریک کے رکن یا رہنما ہندوستانی پرچم پر گائے لٹا کر اسے ذبح کررہے تھے۔ میں نے اس تصویر کو دیکھا اور مجھے دسمبر 1992 کی وہ تصویریں یاد آئیں جو بابری مسجد کے گنبد پر رقص کرتے ہوئے اور ترشول لہراتے ہوئے کارسیوکوں کی تھیں اور وہ تین ہندو لڑکے یاد آئے جو بابری مسجد کی حفاظت کرتے ہوئے ان کارسیوکوں کے ہاتھ شہید ہوئے تھے اور موہن چراغی یاد آئے جو خونِ دل میں انگلیاں ڈبو کر ہندوستانی اخباروں میں اس پاگل پن کے خلاف لکھ رہے تھے۔

مجھے خوشی اس بات کی ہے احمد شاہ نے کہ اس برس آرٹس کونسل کی آٹھویں عالمی کانفرنس میں ایک سیشن پاک و ہند تعلقات کے تناظر میں امن کے مسائل پر گفتگو کے لیے مختص کیا۔ 10 دسمبر جو حقوقِ انسانی کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے، اسی شام آرٹس کونسل میں پاک و ہند سیاسی کشیدگی پر بات کی گئی جسے ہمارے بعض حلقے جنگجوئی کے نعرے بلند کرتے ہوئے صبح و شام بڑھانے کی کوشش میں رہتے ہیں۔


ان کی آرزو ہوتی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان لڑائی چھڑ جائے اور ادھر سے یا ادھر سے اگر دو چار ایٹم بم بھی ماردیے جائیں تو کیا ہرج ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی چھنگلیا کٹ جانے پر واویلا کرنے لگتے ہیں لیکن دونوں ملکوں کے لاکھوں انسانوں کے لیے ایٹم بم کا نسخہ شفا لکھتے ہیں۔

اس روز پاک و ہند تعلقات اور امن کے مسائل پر گفتگو کے میزبان پاکستان اسٹڈی سینٹر کے ڈائریکٹر جعفر احمد تھے اور اظہار خیال کرنے والوں میں ہندوستان سے آئے ہوئے اردو کے مشہور اور مقبول ادیب اور نقاد ڈاکٹر شمیم حنفی، آئی بی اے کی ڈاکٹر ہما بقائی، افتخار عارف، ہندوستان سے آئے ہوئے عبید صدیقی اور پاکستان، ہندوستان اور انگلستان کے درمیان گشت کرنے والے رضا عابدی سب ہی موجود تھے۔

اس روز ڈاکٹر ہما بقائی لگی لپٹی رکھے بغیر بولیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر ہم یہ مان لیں کہ دونوں ملکوں کے بیچ ہونے والی لڑائیاں دراصل ہم نے شروع کی تھیں، تو معاملات کو سلجھانا قدرے آسان ہوجائے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ خطرناک بات یہ نہیں ہے کہ دونوں ملکوں کے اسلحہ خانوں میں ایٹمی ہتھیار رکھے ہیں، خطرناک دونوں ملکوں میں کچھ لوگوں کا جنگ جوئی پر مبنی موقف اور نقطہ نظر ہے۔

اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ہمارے درمیان جب بھی لڑائیاں ہوئیں، دونوں طرف سے ایک دوسرے کے انفرااسٹرکچر کو نقصان نہیں پہنچایا گیا اور اس کی بھی احتیاط کی گئی کہ دونوں طرف کی آبادیوں کو کم سے کم نقصان پہنچے، بات تو وہ درست کہہ رہی تھیں۔ دونوں کے لڑاکا طیاروں نے تاج محل یا جہانگیر کے مقبرے کو نشانہ نہیں بنایا۔

ہندوستان سے آئے ہوئے ادیب اور دانشور شمیم حنفی کا کہنا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان کے پاس امن کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ انھوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کا بنیادی مسئلہ غربت اور ناخواندگی ہے۔ یہ وہ دو باتیں ہیں جن پر سب کا اتفاق ہے۔ یہ بات زیر بحث آئی کہ دونوں ملکوں کے بیچ امن کے لیے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی ذمے داری کہیں زیادہ ہے۔ اس مباحثے میں یہ بات کئی لوگوں نے کہی کہ جنگی جنون کر بڑھاوا دینے میں الیکٹرانک میڈیا کا خاصا کردار رہا ہے۔

اس بات کو ہندوستان اور پاکستان دونوں کے دانشوروں نے زور دے کر کہا کہ ہمارے ملکوں میں نصاب کے ذریعے جس بڑے پیمانے پر نفرت پھیلائی جارہی ہے، اس کا سدباب ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر جعفر احمد بار بار یہ بات کہہ رہے تھے کہ دونوں ملکوں کے درمیان رسائل اور کتابوں کی آمدورفت نہ ہونے کے برابر ہے اور دانش کی تجارت سے دونوں ملکوں کے ان لوگوں کو کوئی دلچسپی نہیں جو اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے ہیں اور اس بارے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

ہندوستان سے آئے ہوئے شاعر اور صحافی عبید صدیقی نے بھی یہ مانا کہ دونوں ملکوں کا الیکٹرانک میڈیا ایک بڑا خطرہ بن گیا ہے، کیونکہ وہ چھوٹی باتوں کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ ہمارے معروف اور مقبول شاعر افتخار عارف جو کچھ دنوں سے ایران میں رہتے ہیں، ان کا موقف تھا کہ اس وقت پوری دنیا افراتفری کا شکار ہے۔ چند بڑی طاقتوں کی نگاہیں مشرق وسطیٰ پر ہیں۔

پاکستان اور ہندوستان پر بھی یہ طاقتیں اپنی نظر رکھتی ہیں اور یہ عین ممکن ہے کہ اس وقت اچانک جس طرح پاکستان اور ہندوستان کے درمیان برف پگھلی ہے تو اس کا سبب بھی درپردہ ان طاقتوں کی دلچسپی ہو اور اس وقت وہ برصغیر کو امن کا علاقہ دیکھنا چاہتی ہوں۔

ان ہی امید افزا باتوں پر آرٹس کونسل کی یہ محفل اختتام کو پہنچی اور اس کو سننے والوں میں سے بہت سے لوگ آپس میں یہ گفتگو کرتے ہوئے وہاں سے رخصت ہوئے کہ آج تک اختلافات اور جنگوں نے ہمیں کچھ نہیں دیا، ہم سے ہماری زندگیاں اور خوشیاں چھینی ہیں، اب ہمیں سنجیدگی سے اپنے اپنے ملکوں میں امن کی فصل کاشت کرنی چاہیے کیونکہ جنگ و جدل کا انجام فاتح اور مفتوح دونوں کے لیے ہمیشہ الم ناک ہوتا ہے۔
Load Next Story