یہ بڑے شہر

کوئی آفت نازل نہیں ہوئی لیکن پھربھی ہماراسب سےبڑاشہرکراچی کسی سیلاب زدہ شہرکانقشہ پیش کررہا ہے

Abdulqhasan@hotmail.com

سرور کائناتﷺ نے اپنی امت کو ہدایت فرمائی تھی کہ بڑے شہر نہ بنائیں یعنی بڑے اور پھیلے ہوئے شہروں میں کئی اخلاقی اور کئی معاشی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں، ہم پر آنحضرتﷺ کی ولادت کے انعام کا یہ مہینہ ہے اور ہمارا سب سے بڑا شہر کراچی ہماری بدانتظامی کا شکار ہے۔ کوئی بارش نہیں ہوئی کوئی سیلاب نہیں آیا۔

کوئی طوفان نہیں اٹھا اور ایسی کوئی آفت نازل نہیں ہوئی لیکن پھر بھی ہمارا سب سے بڑا شہر کراچی کسی سیلاب زدہ شہر کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔ اس کی کئی سڑکوں پر پانی بہہ رہا ہے اور کئی راستے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں، متعدد اہم سڑکوں پر ٹریفک بند ہے یا بڑی مشکل سے کوئی گاڑی پانی میں ڈوبی ہوئی ان سڑکوں سے گزرتی ہے۔ شہر کا کچھ حصہ متاثر ہے لیکن آپس میں جڑے ہوئے اس شہر کے بہت کم حصے محفوظ ہیں، وجہ اس کی صرف اور صرف ہمارے پانی سپلائی کرنے والے ادارے کی نااہلی ہے۔ سارا شہر اپنے واٹر بورڈ کو الزام دے رہا ہے۔

ہوا یہ کہ پانی کا ایک پائپ ٹوٹ گیا جس میں سے پانی باہر نکلنے لگا اور چونکہ یہ وقت پر بند نہ ہو سکا اس لیے یہ پانی پھیلتا رہا اس کی رفتار تیز تھی اس لیے وہ بہت جلد دور دور تک پھیل گیا اور یوں لگا کہ پورا شہر پانی میں ڈوب گیا ہے جب کہ شہر کا ایک حصہ ہی پانی سے متاثر تھا ۔کراچی والوں کو گلہ تھا کہ واٹر بورڈ بروقت یہ پھٹا ہوا پائپ مرمت نہیں کر سکا ۔

جس کی وجہ پانی کا ایک بڑا ذخیرہ سڑکوں پر بہہ نکلا جب کہ اس شہر کو پانی کی قلت کا سامنا رہتا ہے اور اس وجہ سے پانی سپلائی کرنے کے لیے واٹر ٹینکرز کا ایک باقاعدہ کاروبار پھیلا ہوا ہے اور اب جب یہ آفت نازل ہوئی ہے تو ٹی وی پر دیکھا کہ پانی کا ایک واٹر ٹینکر دو ہزار روپے میں مل سکتا ہے۔


ظاہر ہے کہ صرف ایک واٹر ٹینکر کی اتنی بڑی قیمت عام آدمی ادا نہیں کر سکتا، یہ سب شہر کا انتظام چلانے والے ادارے کی سستی اور بدانتظامی ہے جس نے اہل کراچی کو اس مشکل میں گرفتار کر دیا ہے۔ پائپ تیل کے ہوں گیس کے یا پانی کے پھٹتے ہی رہتے ہیں ،کچھ تو خود ہی کسی وجہ سے پھٹ جاتے ہیں اور کچھ تخریب کار اپنی کارروائی کرتے ہیں۔ ابھی میں اخبار میں پڑھ رہا تھا کہ بگٹی ایریا میں گیس وغیرہ کے پائپ بچھانے ہیں مگر بگٹی سردار اجازت دیں تو یہ کام کیا جا سکتا ہے اور وہ ان پائپوں کی حفاظت بھی کریں ورنہ یہ عوامی خدمت کا کام نہیں ہو سکتا۔

چلیے بلوچستان کے قبائلی علاقے کی صورت حال ذرا مختلف ہے لیکن سندھ اور کراچی میں تو اس طرح کا سخت سرداری نظام نہیں ہے یہاں تو قومی اور عوامی ضرورت کے سامان سے ایسے دوسرے ذرایع کو خطرہ نہیں ہونا چاہیے لیکن جب شہر بہت پھیل جاتے ہیں تو ان کے مختلف حصوں کی دیکھ بھال اور ان پر کنٹرول مشکل ہو جاتا ہے جیسے ان دنوں کراچی میں ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا کیونکہ ہمارا ملک چھوٹی بڑی تخریب کاری اور دہشت گردی کی زد میں ہے اور کسی بڑی آبادی کو کھلا دیکھ کر تخریب کار آسانی کے ساتھ کوئی واردات کر جاتے ہیں۔

یہ سب کسی آبادی کے پھیلاؤ اور کنٹرول کے لیے مشکل ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن جو آبادی پھیل گئی ہے اس کو اب سمیٹا تو نہیں جا سکتا اسے بہر حال اسی حالت میں کنٹرول کرنا ہے اور اس کے لیے شہری معاملات کے ماہر افسر اور کارکن چاہئیں جو حالات کو بگڑنے نہ دیں۔ بتایا گیا ہے کہ پانی کا یہ پائپ کسی نے توڑا ہے اور یہ بھی تخریب کاری کا حصہ ہے۔ آج چوتھا دن جا رہا ہے کہ اس پائپ کی مرمت نہیں ہو سکی اور ہم لوگ ٹی وی پر اس پائپ سے ابلتا اور اچھلتا ہوا پانی دیکھ رہے ہیں۔

اب خدا جانے کب یہ پائپ بند ہو گا اور اہل کراچی کو ضرورت کا پانی اور امن اور پانی سے تحفظ نصیب ہو گا۔ اس وقت تک تو ہم سندھ کی حکومت کو دیکھ رہے ہیں اور کراچی کے منتظمین کو بیانات جاری کرتا دیکھ رہے ہیں۔ ہم جو لاہور میں بیٹھے ہیں سوائے دعا اور نیک خواہش کے اور کیا کر سکتے ہیں۔

اتنی دیر میں تو اس پائپ کا متبادل بھی لگایا جا سکتا تھا لیکن معلوم ہوتا ہے جو انتظامیہ تین دنوں تک جو شاید اب بڑھ بھی جائیں، ایک پائپ کو جوڑ نہیں سکی اس کی مرمت نہیں کر سکی یا اس کا متبادل نہیں لگا سکی وہ اب اہل کراچی کو اس پانی کے حوالے کر کے آرام کرے گی۔ شہروں میں ایسے مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں لیکن ان کا حل بھی جلد نکالا جا سکتا ہے تا کہ اہل شہر سکھ کا سانس لیں۔ دنوں تک ایک بنیادی مسئلہ چلتا رہے تو ایسے شہر کا اللہ ہی حافظ ہے۔ پھر آنحضرتﷺ کا قول اور نصیحت یاد آتی ہے کہ بڑے شہر نہ بساؤ یہ مشکلات پیدا کرتے ہیں۔
Load Next Story