میرا لہو مجھے پکار رہا ہے
یہ اُس کے لہو میں شامل تھا کہ جب تک سب کو بچا نہیں لیتے تب تک میدان خالی نہیں چھوڑتے
یہ اُس کے لہو میں شامل تھا کہ جب تک سب کو بچا نہیں لیتے تب تک میدان خالی نہیں چھوڑتے۔ یہ ہمارا لہو تھا، جو دشمنوں کے سامنے جھکنے کی بجائے لڑنے کے لیے تیار تھا۔ وہ نا سمجھ نہیں تھا۔ اُسے معلوم تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ وہ آگ سے کھیل رہا تھا۔ جس کا انجام صرف اور صرف موت تھا۔
مگر اُس کی روح میں یہ بات شامل کر دی گئی تھی کہ شہید کبھی بھی نہیں مرتے۔ یہ بات سچ ہے کہ وہ ہمارا شہید آج بھی زندہ ہے۔ اُس کی عمر صرف 14 سال تھی لیکن وہ جانتا تھا کہ بڑے کام کے لیے عمر کی قید نہیں ہوتی۔ اسی لیے تو وہ گولیوں کے سامنے بھی ایک فولادی دیوار کے طور پر کھڑا رہا۔
جس وقت سب کو اپنی جان سب سے زیادہ پیاری ہوتی ہے۔ اُس وقت وہ دوسروں کی جان بچانے میں مصروف تھا۔ اُس وقت کے جب سب کے حواس غائب ہو جاتے ہیں اُس لمحے فہد حسین نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ اس بہادر ماں کا بیٹا ہے جس کے بچو ں کی تربیت ہی کربلا ہے۔
فہد حسین اُس وقت آرمی پبلک اسکول میں ہی تھا جب دہشت گردوں نے ہم سے اپنا لہو مانگا۔ اُس وقت جب ہر طرف فائرنگ ہو رہی تھی۔ ہر سمت خوف کا عالم تھا۔ اُس وقت فہد، جسکے نام کا مطلب ہی شیر ہے نے شیر بن کر دکھایا۔ اُس نے دیکھا کہ خونخوار درندے اس کے لہو کے پیاسے ہیں، چنانچہ وہ کھڑا ہوا اور اُس نے تیزی کے ساتھ آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔ اُس نے اپنے دوستوں سے کہا کہ وہ یہاں سے نکلنا شروع کر دیں۔
کسی نے پلٹ کر فہد سے کہا کہ وہ بھی باہر نکل جائے ۔ لیکن وہ دروازہ پکڑے کھڑا رہا اور اپنے ایک ایک دوست کو پکار کر کہتا رہا کہ وہ سب باہر آ جائیں ۔ اتنی دیر میں دشمن کی نظر اُس پر پڑ گئی۔ وہ چاہتا تو نکل سکتا تھا۔ لیکن اُس نے دوستوں سے کہا کہ وہ پہلے نکل جائیں۔ یہ ہی تو ہماری تاریخ ہے۔ یہ ہی تو ہماری تربیت ہے۔
یہ ہی تو ہمارا عزم ہے۔ یہ ہی تو ہمارا لہو ہے۔ جو ظلم کے آگے نہیں جھکتا۔ چاہے اُسے اپنی جان قربان کرنی پڑے۔ اُن درندوں نے اُس کو نشانے پر رکھا۔ فہد نے دیکھ لیا کہ کے اب شر پسند اپنا رخ اُس کی طرف کر چکے ہیں۔ لیکن وہ سب کو پکارتا رہا۔ اُس کا نشانہ لیا جا چکا تھا۔ مگر اُس کا لہو ڈرنے والا نہیں تھا۔
اور پھر وہ منحوس گولی اُس کی طرف آئی۔ مگر اُس نے دروازہ بند نہیں ہو نے دیا۔ اُس نے ثابت کر دیا کہ جس کے بچے اتنے بہادر ہوں اُس قوم کو کوئی نہیں ختم کر سکتا۔ فہد حسین نے یہ ہمیں بتا دیا کہ ہمارا لہو ہی ایسا ہے کہ ہم اپنوں کے تحفظ لیے اپنی جان کی پرواہ نہیں کرتے۔ مگر کیا ہم نے یہ ثابت کیا کہ ہم فہد حسین کی قربانی کو رائیگاں نہیں جانے دینگے۔ کیا کسی نے کہا کہ وہ لہو ہماری رگوں میں بھی دوڑ رہا ہے۔
آہ۔ کیجیے نا افسوس کیجیے۔ بلکہ فخر کیجیے کہ ہماری ماؤں نے وہ بیٹے پیدا کیے ہیں جو اس کے تحفظ کے لیے خود کو قربان کر دینے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ میں نہیں بھول سکتا۔ میں کبھی نہیں بھولنا چاہوں گا۔ میں اپنے بچوں کو اُس کی عظمت بتاتا ہوں۔
جس نے تیرہ گولیاں کھانے کے باوجود بھی اپنے بھائیوں کی جان بچا ئی۔ کبھی سوچا ہے کہ عذیر علی میں وہ جوش کہاں سے آیا۔ کبھی یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ اس آٹھویں جماعت کے طالب علم میں کون سی لگن تھی جس نے اُسے خود کو قربان کر دینے کے لیے تیار کیا۔ کسی نے اس بات کی جستجو نہیں کی کہ وہ سمجھ سکے کہ عذیر کے ذہن میں کیا تھا کہ وہ گولیاں کھانے کے باوجود بھی اپنی جگہ سے نہیں ہٹا ۔ جب شرپسندوں نے اپنی ناپاک بندوقوں کا رخ معصوم پھولوں کی طرف کیا تو وہ سمجھ رہے تھے کہ یہ سب ریت کی دیوار ہونگے۔ لیکن عذیر نے کہا کہ وہ بچہ ضرور ہے لیکن یہ وہ ہی بچہ ہے کہ جس کا دشمن اُس سے ڈرتا ہے۔
عذیر نے اپنے سب دوستوں کو دھکا دے کر نیچے گرا یا۔ اور پھر خود اُس کے اوپر لیٹ گیا۔ جانوروں نے اُس پر گولیاں برسا دیں۔ ایک گولی ماری۔ شاید وہ سمجھے کہ وہ کسی بزدل قوم کے بچوں سے لڑ رہا ہے۔ اُسے ہٹانے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں ہٹا۔ اور پھر اُس کے اوپر گولیوں کی بارش کر دی۔ وہ نہیں ہٹا۔ اُس کے لہو کا ایک ایک قطرہ باہر آ گیا۔ لیکن اس ننھے مجاہد نے دشمن کو موقعہ نہیں دیا۔ اُس نے اپنے دوستوں کو بچا لیا۔
یہ ہے میرا خون۔ یہ ہے میرے بچے۔ یہ ہے میرے آنے والا کل۔ جس کے عزم جواں ہیں۔ جس کے دلوں میں جہالت کا خوف نہیں ہے۔ جن کے دماغوں میں اپنے دشمن کے چہرے نمایاں ہیں۔ یہ ہے میرا کل جس کو معلوم ہے کہ اُس کی سب سے بڑی لڑائی جہالت سے ہے۔ یہ میرے بچے ہیں جو جانتے ہیں کہ ہمیں قلم سے بندوق کو شکست دینی ہے۔ یہ فہد اور عذیر کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ جس کے لیے انھوں نے قربانی دی۔ یہ میرے مستقبل کے وہ معمار ہیں جن کو اپنا کل قائد اعظم اور علامہ اقبال کے خوابوں کے مطابق تیار کرنا ہے۔ جنھیں ہر لمحہ پر ثابت کرنا ہے کہ وہ کسی بھی مقام پر اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
ان کے سامنے کو ن سے وحشی ہیں۔ جنھیں اپنی دنیا ناک کے آگے نظر نہیں آتی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں۔ وہ یہ بات اپنے ذہنوں میں نقش کر لیں کہ ناحق خون بہانے والا کبھی اُس کو پسند نہیں رہا۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ انھیں سب کچھ تباہ کر کے حکمرانی کا تاج ملے گا ۔ وہ خوابوں کی دنیا سے نکل آئیں کہ جس ماں کے عذیر اور فہد جیسے بیٹے ہوں اُسے کوئی کبھی تباہ نہیں کر سکتا۔ انھیں یہ بات اپنے ذہنوں میں بٹھا لینی چاہیے کہ جس کا لہو پاک ہو اُس کے جسم کو تم جیسے ظالم چھو نہیں سکتے ہیں۔
ایک طرف میرے بچوں کا لہو ہے۔ دوسری طرف انسانیت کے دشمن ہیں۔ ایسے میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہمیں فہد والا جذبہ چاہیے کہ جب تک ہمارے دشمن زندہ ہیں ہم چین سے نہیں بیٹھ سکتے۔ ہمارے دشمن وہ سب لوگ ہیں جو بندوق سے ہمارا راستہ بدلنا چاہتے ہیں۔ ہمارے دشمن وہ لوگ ہیں جو ہمارے کچے ذہنوں کو نفرت کی آگ میں جھونک رہے ہیں۔
جو اپنی بالادستی کے لیے ہمارے امن اور سلامتی کے مذہب کا سہارا لے رہے ہیں۔ جو ہمارے درمیان رہتے ہوئے بھی ہمارے نہیں ہیں۔ جو اس ماں کی کوکھ کو اجاڑنا چاہتے ہیں جس نے انھیں جنم دیا ہے۔ ہمیں فہد کی طرح بننا ہو گا۔ خود کو ثابت قدم رکھنا ہو گا۔ سیاسی طور پر، عسکری طور پر، نفسیاتی طور پر اور سوچ کے لحاظ سے پیچھے نہیں ہٹنا ہو گا۔
ہمیں عذیر کی طرح ساری تکلفیں خود سہنی ہو گی ۔ اس لیے کہ ہماری آنے والی نسلیں نفرت کی گولیوں کا نشانہ نہ بنے۔ کہتے ہیں کہ کسی بھی قوم کو اُس وقت تک عزت نصیب نہیں ہوتی جب تک اُس کی ایک نسل اپنی آنے والی نسلوں کے لیے خود کو قربان نہیں کرتی۔ آج کا دن اُس ارادے اور عزم کا ہے جس میں ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ نفرت کو مٹا کر محبت کی دنیا بسانی ہے۔ اس یقین کا دن ہے کہ ہماری بقا سب کے ساتھ محبت سے رہنے میں ہے۔
مجھے فخر ہے اپنے لہو پر۔ مجھے فخر ہے اپنے بچوں پر جو شہید ہو کر ہمارے درمیان ہیں۔ ایک ناقابل تسخیر پاکستان کی صورت میں۔ آنے والی نسلوں کو ضرور بتائیے گا کہ یہ پاکستان فہد، عذیر اور ان سب بچوں کے بغیر نامکمل ہے۔ اور ان کا ہی دیا ہوا لہو سب کے جسموں میں دوڑ رہا ہے۔
مگر اُس کی روح میں یہ بات شامل کر دی گئی تھی کہ شہید کبھی بھی نہیں مرتے۔ یہ بات سچ ہے کہ وہ ہمارا شہید آج بھی زندہ ہے۔ اُس کی عمر صرف 14 سال تھی لیکن وہ جانتا تھا کہ بڑے کام کے لیے عمر کی قید نہیں ہوتی۔ اسی لیے تو وہ گولیوں کے سامنے بھی ایک فولادی دیوار کے طور پر کھڑا رہا۔
جس وقت سب کو اپنی جان سب سے زیادہ پیاری ہوتی ہے۔ اُس وقت وہ دوسروں کی جان بچانے میں مصروف تھا۔ اُس وقت کے جب سب کے حواس غائب ہو جاتے ہیں اُس لمحے فہد حسین نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ اس بہادر ماں کا بیٹا ہے جس کے بچو ں کی تربیت ہی کربلا ہے۔
فہد حسین اُس وقت آرمی پبلک اسکول میں ہی تھا جب دہشت گردوں نے ہم سے اپنا لہو مانگا۔ اُس وقت جب ہر طرف فائرنگ ہو رہی تھی۔ ہر سمت خوف کا عالم تھا۔ اُس وقت فہد، جسکے نام کا مطلب ہی شیر ہے نے شیر بن کر دکھایا۔ اُس نے دیکھا کہ خونخوار درندے اس کے لہو کے پیاسے ہیں، چنانچہ وہ کھڑا ہوا اور اُس نے تیزی کے ساتھ آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔ اُس نے اپنے دوستوں سے کہا کہ وہ یہاں سے نکلنا شروع کر دیں۔
کسی نے پلٹ کر فہد سے کہا کہ وہ بھی باہر نکل جائے ۔ لیکن وہ دروازہ پکڑے کھڑا رہا اور اپنے ایک ایک دوست کو پکار کر کہتا رہا کہ وہ سب باہر آ جائیں ۔ اتنی دیر میں دشمن کی نظر اُس پر پڑ گئی۔ وہ چاہتا تو نکل سکتا تھا۔ لیکن اُس نے دوستوں سے کہا کہ وہ پہلے نکل جائیں۔ یہ ہی تو ہماری تاریخ ہے۔ یہ ہی تو ہماری تربیت ہے۔
یہ ہی تو ہمارا عزم ہے۔ یہ ہی تو ہمارا لہو ہے۔ جو ظلم کے آگے نہیں جھکتا۔ چاہے اُسے اپنی جان قربان کرنی پڑے۔ اُن درندوں نے اُس کو نشانے پر رکھا۔ فہد نے دیکھ لیا کہ کے اب شر پسند اپنا رخ اُس کی طرف کر چکے ہیں۔ لیکن وہ سب کو پکارتا رہا۔ اُس کا نشانہ لیا جا چکا تھا۔ مگر اُس کا لہو ڈرنے والا نہیں تھا۔
اور پھر وہ منحوس گولی اُس کی طرف آئی۔ مگر اُس نے دروازہ بند نہیں ہو نے دیا۔ اُس نے ثابت کر دیا کہ جس کے بچے اتنے بہادر ہوں اُس قوم کو کوئی نہیں ختم کر سکتا۔ فہد حسین نے یہ ہمیں بتا دیا کہ ہمارا لہو ہی ایسا ہے کہ ہم اپنوں کے تحفظ لیے اپنی جان کی پرواہ نہیں کرتے۔ مگر کیا ہم نے یہ ثابت کیا کہ ہم فہد حسین کی قربانی کو رائیگاں نہیں جانے دینگے۔ کیا کسی نے کہا کہ وہ لہو ہماری رگوں میں بھی دوڑ رہا ہے۔
آہ۔ کیجیے نا افسوس کیجیے۔ بلکہ فخر کیجیے کہ ہماری ماؤں نے وہ بیٹے پیدا کیے ہیں جو اس کے تحفظ کے لیے خود کو قربان کر دینے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ میں نہیں بھول سکتا۔ میں کبھی نہیں بھولنا چاہوں گا۔ میں اپنے بچوں کو اُس کی عظمت بتاتا ہوں۔
جس نے تیرہ گولیاں کھانے کے باوجود بھی اپنے بھائیوں کی جان بچا ئی۔ کبھی سوچا ہے کہ عذیر علی میں وہ جوش کہاں سے آیا۔ کبھی یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ اس آٹھویں جماعت کے طالب علم میں کون سی لگن تھی جس نے اُسے خود کو قربان کر دینے کے لیے تیار کیا۔ کسی نے اس بات کی جستجو نہیں کی کہ وہ سمجھ سکے کہ عذیر کے ذہن میں کیا تھا کہ وہ گولیاں کھانے کے باوجود بھی اپنی جگہ سے نہیں ہٹا ۔ جب شرپسندوں نے اپنی ناپاک بندوقوں کا رخ معصوم پھولوں کی طرف کیا تو وہ سمجھ رہے تھے کہ یہ سب ریت کی دیوار ہونگے۔ لیکن عذیر نے کہا کہ وہ بچہ ضرور ہے لیکن یہ وہ ہی بچہ ہے کہ جس کا دشمن اُس سے ڈرتا ہے۔
عذیر نے اپنے سب دوستوں کو دھکا دے کر نیچے گرا یا۔ اور پھر خود اُس کے اوپر لیٹ گیا۔ جانوروں نے اُس پر گولیاں برسا دیں۔ ایک گولی ماری۔ شاید وہ سمجھے کہ وہ کسی بزدل قوم کے بچوں سے لڑ رہا ہے۔ اُسے ہٹانے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں ہٹا۔ اور پھر اُس کے اوپر گولیوں کی بارش کر دی۔ وہ نہیں ہٹا۔ اُس کے لہو کا ایک ایک قطرہ باہر آ گیا۔ لیکن اس ننھے مجاہد نے دشمن کو موقعہ نہیں دیا۔ اُس نے اپنے دوستوں کو بچا لیا۔
یہ ہے میرا خون۔ یہ ہے میرے بچے۔ یہ ہے میرے آنے والا کل۔ جس کے عزم جواں ہیں۔ جس کے دلوں میں جہالت کا خوف نہیں ہے۔ جن کے دماغوں میں اپنے دشمن کے چہرے نمایاں ہیں۔ یہ ہے میرا کل جس کو معلوم ہے کہ اُس کی سب سے بڑی لڑائی جہالت سے ہے۔ یہ میرے بچے ہیں جو جانتے ہیں کہ ہمیں قلم سے بندوق کو شکست دینی ہے۔ یہ فہد اور عذیر کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ جس کے لیے انھوں نے قربانی دی۔ یہ میرے مستقبل کے وہ معمار ہیں جن کو اپنا کل قائد اعظم اور علامہ اقبال کے خوابوں کے مطابق تیار کرنا ہے۔ جنھیں ہر لمحہ پر ثابت کرنا ہے کہ وہ کسی بھی مقام پر اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
ان کے سامنے کو ن سے وحشی ہیں۔ جنھیں اپنی دنیا ناک کے آگے نظر نہیں آتی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں۔ وہ یہ بات اپنے ذہنوں میں نقش کر لیں کہ ناحق خون بہانے والا کبھی اُس کو پسند نہیں رہا۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ انھیں سب کچھ تباہ کر کے حکمرانی کا تاج ملے گا ۔ وہ خوابوں کی دنیا سے نکل آئیں کہ جس ماں کے عذیر اور فہد جیسے بیٹے ہوں اُسے کوئی کبھی تباہ نہیں کر سکتا۔ انھیں یہ بات اپنے ذہنوں میں بٹھا لینی چاہیے کہ جس کا لہو پاک ہو اُس کے جسم کو تم جیسے ظالم چھو نہیں سکتے ہیں۔
ایک طرف میرے بچوں کا لہو ہے۔ دوسری طرف انسانیت کے دشمن ہیں۔ ایسے میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہمیں فہد والا جذبہ چاہیے کہ جب تک ہمارے دشمن زندہ ہیں ہم چین سے نہیں بیٹھ سکتے۔ ہمارے دشمن وہ سب لوگ ہیں جو بندوق سے ہمارا راستہ بدلنا چاہتے ہیں۔ ہمارے دشمن وہ لوگ ہیں جو ہمارے کچے ذہنوں کو نفرت کی آگ میں جھونک رہے ہیں۔
جو اپنی بالادستی کے لیے ہمارے امن اور سلامتی کے مذہب کا سہارا لے رہے ہیں۔ جو ہمارے درمیان رہتے ہوئے بھی ہمارے نہیں ہیں۔ جو اس ماں کی کوکھ کو اجاڑنا چاہتے ہیں جس نے انھیں جنم دیا ہے۔ ہمیں فہد کی طرح بننا ہو گا۔ خود کو ثابت قدم رکھنا ہو گا۔ سیاسی طور پر، عسکری طور پر، نفسیاتی طور پر اور سوچ کے لحاظ سے پیچھے نہیں ہٹنا ہو گا۔
ہمیں عذیر کی طرح ساری تکلفیں خود سہنی ہو گی ۔ اس لیے کہ ہماری آنے والی نسلیں نفرت کی گولیوں کا نشانہ نہ بنے۔ کہتے ہیں کہ کسی بھی قوم کو اُس وقت تک عزت نصیب نہیں ہوتی جب تک اُس کی ایک نسل اپنی آنے والی نسلوں کے لیے خود کو قربان نہیں کرتی۔ آج کا دن اُس ارادے اور عزم کا ہے جس میں ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ نفرت کو مٹا کر محبت کی دنیا بسانی ہے۔ اس یقین کا دن ہے کہ ہماری بقا سب کے ساتھ محبت سے رہنے میں ہے۔
مجھے فخر ہے اپنے لہو پر۔ مجھے فخر ہے اپنے بچوں پر جو شہید ہو کر ہمارے درمیان ہیں۔ ایک ناقابل تسخیر پاکستان کی صورت میں۔ آنے والی نسلوں کو ضرور بتائیے گا کہ یہ پاکستان فہد، عذیر اور ان سب بچوں کے بغیر نامکمل ہے۔ اور ان کا ہی دیا ہوا لہو سب کے جسموں میں دوڑ رہا ہے۔