معصوم پھولوں کی شہادت ضرب عضب کے آہنی جذبے میں ڈھل گئی
آرمی پبلک اسکول کے شہداء کا پیغام پرنسپل تک منتقل کرنے کی ضرورت ہے
سارے الفاظ بے جان ہیں۔ اظہار کی ساری قوتیں گونگی ہیں۔ اس ملک میں درندے غرّاتے ہیں، لاشوں کے ڈھیر لگاتے ہیں، خون کا دریا بہاتے ہیں۔ کہتے ہیں، ہم اپنے مذہب کا پرچم بلند کر رہے ہیں، جنت کا راستہ کھول رہے ہیں۔
اﷲ رب العزت کی شان میں چارچاند لگارہے ہیں۔ ہمارے ساتھ آؤ، ورنہ ہم تمہاری دنیا کو جہنم میں تبدیل کردیں گے۔ ساری دنیا مذمت کرتی ہے، پھر بھی بہت سارے ''پاک باز'' مولوی بڑی چالاکی سے ان کا دفاع کرتے ہیں۔ حقیقت کو جھٹلانے کے لیے یہ تک کہتے ہیں کہ آرمی پبلک اسکول پر حملے کا ذمے دار بھارت ہے۔
وہ ''اچھے اور بُرے'' کی تھیوری پیش کرتے ہیں۔ اچھا قاتل، بُرا قاتل۔۔۔۔اچھا درندہ، بُرا درندہ۔۔۔۔اس سے بڑا مذاق اور کیا ہوسکتا ہے۔ اسی مذاق نے ہمیں پوری دنیا میں رُسوا کیا ہے۔ یہ موت کا راستہ ہے، چاروں طرف گھٹاٹوپ اندھیرا چھایا ہوا ہے۔ اس تاریکی کو کون دور کرے گا؟
ہر تیرگی میں تو نے اُتاری ہے روشنی
اب خود اُتر کے آ کہ سیہ تر ہے کائنات
16دسمبر 2014وہ دن تھا جس نے خون سے لکھ دیا کہ غرّاتے، لاشوں کے ڈھیر لگاتے اور خون کے دریا بہاتے ان درندوں کی درندگی کی کوئی انتہا نہیں۔ اس دن اتنا ظلم کیا گیا کہ دھرتی کانپ اٹھی، آسمان خون کے آنسو روتا دکھائی دیا، پوری دنیا اس غم میں ڈوبی ہوئی دکھائی دی اور پشاور، جہاں معصوم بچوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی، ماتم کدہ بن گیا۔ ہنستابستا شہر، شہرخموشاں کا منظر پیش کر رہا تھا۔
ہر آنکھ پُرنم تھی، کسی کے پاس الفاظ نہیں کہ وہ ان معصوموں کا دکھ بیان کرسکے، جس نے ہر دل پر گھاؤ لگایا۔ ہر باپ ان شہید ہونے والے بچوں کے بارے میں سوچتا اور نظر بچا کے اپنے بچوں کی طرف دیکھتا کہ اگر یہ بھی اس سکول میں زیر تعلیم ہوتے اور اگر اس موقع پر اسکول میںٕ موجود ہوتے تو۔۔۔۔۔ اس سے آگے سوچنے کی کسی باپ میں ہمت نہ۔ ہر ماں کے دل میں درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں ہر ماں کو ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے آرمی پبلک ا سکول میں شہید کیے جانے والے بچے اس کے اپنے بچے تھے۔ پورے شہر پر سوگ اور دہشت کی فضا چھائی تھی۔
16دسمبر اور اس کے بعد کئی دنوں تک یہ فضا برقرار رہی۔ 16دسمبر ویسے ہی ہماری ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ اسی روز پاکستان دولخت ہوا تھا۔
اب جب ہر سال اس دن کا سورج طلوع ہوگا تو ساتھ ہی وہ معصوم فرشتے اپنی تمام تر معصومیت لیے سب کی نظروں کے سامنے آکھڑے ہوں گے اور ہر ایک سے یہی ایک سوال کریں گے کہ ان کا قصور کیا تھا؟ان بِن کِھلے پھولوں کو کیوں مسل دیاگیا؟ ان سے زندگی کی خوشیاں کیوں چھین لی گئیں؟اس زندگی کی خوشیاں کہ جسے ابھی تو انہوں نے پوری طرح سمجھا بھی نہیں تھا۔ ابھی تو وہ زندگی کے معنی سمجھنے کی بس کوشش ہی کررہے تھے کہ ان کا یہ سفر درمیان ہی میں زبردستی ختم کردیاگیا۔
جس مقام پر سوچ بلک بلک کر رونے لگتی ہے، جہاں الفاظ کی ہچکیاں بندھ جاتی ہیں اور جہاں جذبات کو اظہار کے لیے کوئی جملہ کہیں سے بھی مستعار نہیں ملتا، اسی مقام سے ان ماؤں کے دکھ، تکلیف اور کرب کا آغاز ہوتا ہے کہ جن کے لعل ان سے منٹوں، سیکنڈوں میں چھین لیے گئے۔ وہ بیٹے کہ جنہیں ان کی ماؤں نے دسمبر کی اس یخ بستہ صبح بڑے چاؤ سے بال سنوار کر سوئیٹر اور کوٹ پہنا کر، کہ کہیں ان کے بچے کو سردی نہ لگ جائے۔
اسکول بھیجا تھا اور بھیجنے سے پہلے اپنے جگرگوشوں کو لاڈ پیار سے، پیار بھری ڈانٹ سے ناشتہ کرایا ہوگا۔ان ماؤں کو کیا پتا تھا کہ آج ان سے رخصت ہونے والے اپنے ان جگر گوشوں کو وہ آخری مرتبہ دیکھ رہی ہیں، جو مامتا وہ آج ان پر نچھاور کررہی ہیں انھیں سمیٹنے والے آج آخری مرتبہ اپنا یہ حق ان سے وصول کررہے ہیں۔ ان ماؤں کو کیا پتا تھا کہ جدا ہونے کا وہ لمحہ آن پہنچا ہے جو ان کی تقدیر میں لکھ دیاگیا ہے۔
ایک لمحے کے لیے، بس ایک لمحہ کے لیے بھی اگر ان ماؤں کو یہ خبر ہوجاتی کہ آج اپنے جن جگر گوشوں کو وہ اپنے ہاتھوں سے سجاسنوار کر حصولِ علم کے لیے بھیج رہی ہیں، پھر ان سے کبھی بھی ملاقات نہیں ہوگی تو وہ انھیں کبھی نہ بھیجتیں۔ اگر بھرپور شفقت کے سائے میں اپنے ان بچوں کو اسکول کے لیے رخصت کرنے والے باپ یہ جانتے کہ آج کیا سانحہ ہونے والا ہے تو وہ اپنے بیٹوں کو کبھی نہ جانے دیتے۔ اگر ان کے بس میں ہوتا تو وہ 16دسمبر کا سورج ابھرنے ہی نہ دیتے۔
بیتے سال آرمی پبلک اسکول پشاور میں برپا ہونے والی اس قیامت نے ہر دل کو زخمی کردیا، لیکن معصوم شہیدوں کا خون رنگ لایا اور قوم نے یہ حقیقت جان لی کہ اسلام اور جہاد کے نام پر قتل وغارت گری کرنے والا گروہ طالبان دراصل شیطانوں کا ٹولا اور درندوں کا غول ہے۔ اس آپریشن میں فوج کے افسران اور جوانوں نے جرأت اور قربانیوں کی لازوال تاریخ رقم کی ہے۔
آرمی پبلک اسکول کے سانحے سے قبل لگتا تھا کہ طالبان اور مذہب کے نام پر دہشت گردی کرنے والے دیگر گروہوں کے حوالے سے قوم کنفیوژن کا شکار اور منقسم ہے، لیکن دہشت گردوں کی اس سفاکانہ کارروائی نے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں اور پوری قوم کو پاک فوج کے شانہ بہ شانہ انتہاپسندوں کے خلاف صف آراء کردیا۔ قوم ان درندوں کے خلاف یکسو ہوگئی اور اس کے ساتھ ہی ان کے خلاف آپریشن ضرب عضب کا آغاز ہوا۔
کل تک صورت حال بہت مایوس کُن تھی۔ کوئی دن نہیں گزرتا تھا جب دہشت گرد کسی بازار، اجتماع، مسجد یا گزرگاہ کو اپنی وحشت کا نشانہ نہ بناتے ہوں۔ یوں لگتا تھا جیسے یہ سلسلہ کبھی ختم نہ ہوگا۔ لیکن آپریشن ضرب عضب شروع ہونے کے بعد صورت حال یکسر تبدیل ہوگئی ہے۔ دہشت گردی کے واقعات ہی میں کمی نہیں آئی ہے دہشت گردوں کی ایک بڑی تعداد فوج کے ہاتھوں یا عدالت سے ملنے والی پھانسی کے باعث اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے۔
اس آپریشن نے ان دہشت گردوں کو پسپائی پر مجبور کردیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آرمی پبلک اسکول کے معصوم شہیدوں کے خون کے صدقے یہ آپریشن کام یابیاں حاصل کر رہا ہے اور پوری قوم کو امید ہے کہ بہت جلد پاک فوج دہشت اور وحشت کے ہرکاروں اور ان کی آماج گاہوں کا مکمل خاتمہ کردے گی۔
اﷲ رب العزت کی شان میں چارچاند لگارہے ہیں۔ ہمارے ساتھ آؤ، ورنہ ہم تمہاری دنیا کو جہنم میں تبدیل کردیں گے۔ ساری دنیا مذمت کرتی ہے، پھر بھی بہت سارے ''پاک باز'' مولوی بڑی چالاکی سے ان کا دفاع کرتے ہیں۔ حقیقت کو جھٹلانے کے لیے یہ تک کہتے ہیں کہ آرمی پبلک اسکول پر حملے کا ذمے دار بھارت ہے۔
وہ ''اچھے اور بُرے'' کی تھیوری پیش کرتے ہیں۔ اچھا قاتل، بُرا قاتل۔۔۔۔اچھا درندہ، بُرا درندہ۔۔۔۔اس سے بڑا مذاق اور کیا ہوسکتا ہے۔ اسی مذاق نے ہمیں پوری دنیا میں رُسوا کیا ہے۔ یہ موت کا راستہ ہے، چاروں طرف گھٹاٹوپ اندھیرا چھایا ہوا ہے۔ اس تاریکی کو کون دور کرے گا؟
ہر تیرگی میں تو نے اُتاری ہے روشنی
اب خود اُتر کے آ کہ سیہ تر ہے کائنات
16دسمبر 2014وہ دن تھا جس نے خون سے لکھ دیا کہ غرّاتے، لاشوں کے ڈھیر لگاتے اور خون کے دریا بہاتے ان درندوں کی درندگی کی کوئی انتہا نہیں۔ اس دن اتنا ظلم کیا گیا کہ دھرتی کانپ اٹھی، آسمان خون کے آنسو روتا دکھائی دیا، پوری دنیا اس غم میں ڈوبی ہوئی دکھائی دی اور پشاور، جہاں معصوم بچوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی، ماتم کدہ بن گیا۔ ہنستابستا شہر، شہرخموشاں کا منظر پیش کر رہا تھا۔
ہر آنکھ پُرنم تھی، کسی کے پاس الفاظ نہیں کہ وہ ان معصوموں کا دکھ بیان کرسکے، جس نے ہر دل پر گھاؤ لگایا۔ ہر باپ ان شہید ہونے والے بچوں کے بارے میں سوچتا اور نظر بچا کے اپنے بچوں کی طرف دیکھتا کہ اگر یہ بھی اس سکول میں زیر تعلیم ہوتے اور اگر اس موقع پر اسکول میںٕ موجود ہوتے تو۔۔۔۔۔ اس سے آگے سوچنے کی کسی باپ میں ہمت نہ۔ ہر ماں کے دل میں درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں ہر ماں کو ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے آرمی پبلک ا سکول میں شہید کیے جانے والے بچے اس کے اپنے بچے تھے۔ پورے شہر پر سوگ اور دہشت کی فضا چھائی تھی۔
16دسمبر اور اس کے بعد کئی دنوں تک یہ فضا برقرار رہی۔ 16دسمبر ویسے ہی ہماری ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ اسی روز پاکستان دولخت ہوا تھا۔
اب جب ہر سال اس دن کا سورج طلوع ہوگا تو ساتھ ہی وہ معصوم فرشتے اپنی تمام تر معصومیت لیے سب کی نظروں کے سامنے آکھڑے ہوں گے اور ہر ایک سے یہی ایک سوال کریں گے کہ ان کا قصور کیا تھا؟ان بِن کِھلے پھولوں کو کیوں مسل دیاگیا؟ ان سے زندگی کی خوشیاں کیوں چھین لی گئیں؟اس زندگی کی خوشیاں کہ جسے ابھی تو انہوں نے پوری طرح سمجھا بھی نہیں تھا۔ ابھی تو وہ زندگی کے معنی سمجھنے کی بس کوشش ہی کررہے تھے کہ ان کا یہ سفر درمیان ہی میں زبردستی ختم کردیاگیا۔
جس مقام پر سوچ بلک بلک کر رونے لگتی ہے، جہاں الفاظ کی ہچکیاں بندھ جاتی ہیں اور جہاں جذبات کو اظہار کے لیے کوئی جملہ کہیں سے بھی مستعار نہیں ملتا، اسی مقام سے ان ماؤں کے دکھ، تکلیف اور کرب کا آغاز ہوتا ہے کہ جن کے لعل ان سے منٹوں، سیکنڈوں میں چھین لیے گئے۔ وہ بیٹے کہ جنہیں ان کی ماؤں نے دسمبر کی اس یخ بستہ صبح بڑے چاؤ سے بال سنوار کر سوئیٹر اور کوٹ پہنا کر، کہ کہیں ان کے بچے کو سردی نہ لگ جائے۔
اسکول بھیجا تھا اور بھیجنے سے پہلے اپنے جگرگوشوں کو لاڈ پیار سے، پیار بھری ڈانٹ سے ناشتہ کرایا ہوگا۔ان ماؤں کو کیا پتا تھا کہ آج ان سے رخصت ہونے والے اپنے ان جگر گوشوں کو وہ آخری مرتبہ دیکھ رہی ہیں، جو مامتا وہ آج ان پر نچھاور کررہی ہیں انھیں سمیٹنے والے آج آخری مرتبہ اپنا یہ حق ان سے وصول کررہے ہیں۔ ان ماؤں کو کیا پتا تھا کہ جدا ہونے کا وہ لمحہ آن پہنچا ہے جو ان کی تقدیر میں لکھ دیاگیا ہے۔
ایک لمحے کے لیے، بس ایک لمحہ کے لیے بھی اگر ان ماؤں کو یہ خبر ہوجاتی کہ آج اپنے جن جگر گوشوں کو وہ اپنے ہاتھوں سے سجاسنوار کر حصولِ علم کے لیے بھیج رہی ہیں، پھر ان سے کبھی بھی ملاقات نہیں ہوگی تو وہ انھیں کبھی نہ بھیجتیں۔ اگر بھرپور شفقت کے سائے میں اپنے ان بچوں کو اسکول کے لیے رخصت کرنے والے باپ یہ جانتے کہ آج کیا سانحہ ہونے والا ہے تو وہ اپنے بیٹوں کو کبھی نہ جانے دیتے۔ اگر ان کے بس میں ہوتا تو وہ 16دسمبر کا سورج ابھرنے ہی نہ دیتے۔
بیتے سال آرمی پبلک اسکول پشاور میں برپا ہونے والی اس قیامت نے ہر دل کو زخمی کردیا، لیکن معصوم شہیدوں کا خون رنگ لایا اور قوم نے یہ حقیقت جان لی کہ اسلام اور جہاد کے نام پر قتل وغارت گری کرنے والا گروہ طالبان دراصل شیطانوں کا ٹولا اور درندوں کا غول ہے۔ اس آپریشن میں فوج کے افسران اور جوانوں نے جرأت اور قربانیوں کی لازوال تاریخ رقم کی ہے۔
آرمی پبلک اسکول کے سانحے سے قبل لگتا تھا کہ طالبان اور مذہب کے نام پر دہشت گردی کرنے والے دیگر گروہوں کے حوالے سے قوم کنفیوژن کا شکار اور منقسم ہے، لیکن دہشت گردوں کی اس سفاکانہ کارروائی نے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں اور پوری قوم کو پاک فوج کے شانہ بہ شانہ انتہاپسندوں کے خلاف صف آراء کردیا۔ قوم ان درندوں کے خلاف یکسو ہوگئی اور اس کے ساتھ ہی ان کے خلاف آپریشن ضرب عضب کا آغاز ہوا۔
کل تک صورت حال بہت مایوس کُن تھی۔ کوئی دن نہیں گزرتا تھا جب دہشت گرد کسی بازار، اجتماع، مسجد یا گزرگاہ کو اپنی وحشت کا نشانہ نہ بناتے ہوں۔ یوں لگتا تھا جیسے یہ سلسلہ کبھی ختم نہ ہوگا۔ لیکن آپریشن ضرب عضب شروع ہونے کے بعد صورت حال یکسر تبدیل ہوگئی ہے۔ دہشت گردی کے واقعات ہی میں کمی نہیں آئی ہے دہشت گردوں کی ایک بڑی تعداد فوج کے ہاتھوں یا عدالت سے ملنے والی پھانسی کے باعث اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے۔
اس آپریشن نے ان دہشت گردوں کو پسپائی پر مجبور کردیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آرمی پبلک اسکول کے معصوم شہیدوں کے خون کے صدقے یہ آپریشن کام یابیاں حاصل کر رہا ہے اور پوری قوم کو امید ہے کہ بہت جلد پاک فوج دہشت اور وحشت کے ہرکاروں اور ان کی آماج گاہوں کا مکمل خاتمہ کردے گی۔