پاکستان میں مالی خدمات تک عوامی رسائی 7سال میں 5 فیصد بڑھ سکی سروے
ملک میں2008 تک11فیصد بالغ آبادی مالی خدمات بشمول بینک وموبائل والٹ اکاؤنٹس تک رسائی رکھتی تھی
ISLAMABAD:
پاکستان میں مالیاتی خدمات تک عوامی رسائی میں 7سال کے دوران 5فیصد اضافہ ہوا ہے، سال 2008تک 11فیصد بالغ آبادی مالیاتی خدمات بشمول بینک اکاؤنٹس اور موبائل والٹ اکاؤنٹس تک رسائی رکھتی تھی 2015میں یہ تناسب بڑھ کر 16فیصد کی سطح پر آگیا ہے۔
بینک دولت پاکستان نے گزشتہ روز مالیات تک رسائی (اے ٹوایف) سروے2015 کے نتائج جاری کردیے جن کے مطابق رسمی مالیاتی خدمات تک رسائی کا تناسب 12 فیصد سے بڑھ کر 23فیصد کی سطح پر آگیا ہے۔سروے نتائج کے اجرا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گورنراشرف محمود وتھرا نے کہا کہ مالیات تک رسائی قومی مالی شمولیت کے وژن کا حصہ ہے کیونکہ یہ 2008 سے مالی شمولیت کے ضمن میں ہونے والے اقدامات کے اثرات کی پیمائش اور مالی شمولیت کی قومی حکمت عملی کے لیے بیس لائن ڈیٹا کی فراہمی کے دہرے مقاصد کے حصول میں معاون ثابت ہو گا۔
بینکوں کے صدور اور اہم فریقوں سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ روایتی طور پر مالیات تک رسائی کے سلسلے میں بڑا چیلنج طلب کے حوالے سے معلومات کا فقدان ہے جو مالی شمولیت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے، ان معلومات کے بغیر مارکیٹ میںکلائنٹس کو پیش نظر رکھ کر مصنوعات اور خدمات تیار کرنے کی صلاحیت اور استعداد پیدا نہیں ہوتی۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ سروے مالی امور کے سلسلے میںعام پاکستانی کے علم، رویے اور طرز عمل کو سمجھنے میں تمام فریقوں کی مدد کرے گا۔ اس موقع پر میسرز حورس ڈیولپمنٹ فنانس کے آندرے اوئرٹیل نے پریزینٹیشن دی جس میں رپورٹ کے نتائج بتائے گئے۔ اسٹیٹ بینک نے ملک میں مالی رسائی کی کیفیت جانچنے کیلیے مالیات تک رسائی سروے 2015 کا آغاز کیا، 10500سے زائد جواب دہندگان کے اس جامع ملک گیر مطالعہ کا مقصد پاکستان میں مالی خدمات کی موجودہ اور آئندہ طلب کو بہ لحاظ مقدار جانچنا اور اس کا تجزیہ کرنا تھا۔
اس سروے کے نتائج سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان میں 2008 سے مالی خدمات تک رسائی میں اضافہ ہوا ہے اور اب16 فیصد بالغ آبادی کو بینک کھاتوں (بشمول موبائل والٹس) تک رسائی حاصل ہے جبکہ 2008 میں اس کا تناسب 11 فیصد تھا، مزید برآں 23 فیصد بالغ آبادی کو اب رسمی مالی خدمات تک رسائی حاصل ہے جو 2008 کے 12 فیصد سے زیادہ ہے، مزید برآں خواتین کی مالی شمولیت میں بھی قابل ذکر اضافہ ہوا ہے اور 2015 میں اب 11 فیصد خواتین بینکاری خدمات سے استفادہ کر رہی ہیں جبکہ 2008 میں ان کی تعداد صرف 4 فیصد تھی۔
پاکستان میں مالیاتی خدمات تک عوامی رسائی میں 7سال کے دوران 5فیصد اضافہ ہوا ہے، سال 2008تک 11فیصد بالغ آبادی مالیاتی خدمات بشمول بینک اکاؤنٹس اور موبائل والٹ اکاؤنٹس تک رسائی رکھتی تھی 2015میں یہ تناسب بڑھ کر 16فیصد کی سطح پر آگیا ہے۔
بینک دولت پاکستان نے گزشتہ روز مالیات تک رسائی (اے ٹوایف) سروے2015 کے نتائج جاری کردیے جن کے مطابق رسمی مالیاتی خدمات تک رسائی کا تناسب 12 فیصد سے بڑھ کر 23فیصد کی سطح پر آگیا ہے۔سروے نتائج کے اجرا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گورنراشرف محمود وتھرا نے کہا کہ مالیات تک رسائی قومی مالی شمولیت کے وژن کا حصہ ہے کیونکہ یہ 2008 سے مالی شمولیت کے ضمن میں ہونے والے اقدامات کے اثرات کی پیمائش اور مالی شمولیت کی قومی حکمت عملی کے لیے بیس لائن ڈیٹا کی فراہمی کے دہرے مقاصد کے حصول میں معاون ثابت ہو گا۔
بینکوں کے صدور اور اہم فریقوں سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ روایتی طور پر مالیات تک رسائی کے سلسلے میں بڑا چیلنج طلب کے حوالے سے معلومات کا فقدان ہے جو مالی شمولیت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے، ان معلومات کے بغیر مارکیٹ میںکلائنٹس کو پیش نظر رکھ کر مصنوعات اور خدمات تیار کرنے کی صلاحیت اور استعداد پیدا نہیں ہوتی۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ سروے مالی امور کے سلسلے میںعام پاکستانی کے علم، رویے اور طرز عمل کو سمجھنے میں تمام فریقوں کی مدد کرے گا۔ اس موقع پر میسرز حورس ڈیولپمنٹ فنانس کے آندرے اوئرٹیل نے پریزینٹیشن دی جس میں رپورٹ کے نتائج بتائے گئے۔ اسٹیٹ بینک نے ملک میں مالی رسائی کی کیفیت جانچنے کیلیے مالیات تک رسائی سروے 2015 کا آغاز کیا، 10500سے زائد جواب دہندگان کے اس جامع ملک گیر مطالعہ کا مقصد پاکستان میں مالی خدمات کی موجودہ اور آئندہ طلب کو بہ لحاظ مقدار جانچنا اور اس کا تجزیہ کرنا تھا۔
اس سروے کے نتائج سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان میں 2008 سے مالی خدمات تک رسائی میں اضافہ ہوا ہے اور اب16 فیصد بالغ آبادی کو بینک کھاتوں (بشمول موبائل والٹس) تک رسائی حاصل ہے جبکہ 2008 میں اس کا تناسب 11 فیصد تھا، مزید برآں 23 فیصد بالغ آبادی کو اب رسمی مالی خدمات تک رسائی حاصل ہے جو 2008 کے 12 فیصد سے زیادہ ہے، مزید برآں خواتین کی مالی شمولیت میں بھی قابل ذکر اضافہ ہوا ہے اور 2015 میں اب 11 فیصد خواتین بینکاری خدمات سے استفادہ کر رہی ہیں جبکہ 2008 میں ان کی تعداد صرف 4 فیصد تھی۔