مسائل برقرار منزل دشوار پی ایس ایل کا جہاز ’’ٹیک آف‘‘ کیلیے تیار
اسلام آباد کوکرکٹرزکے انتخاب کا پہلا حق جب کہ کراچی اور لاہور پانچویں نمبرپردستیاب پول سے کھلاڑی منتخب کرے گا
منزل دشوار اورمسائل برقرار رہنے کے باوجود پاکستان سپرلیگ کا جہاز''ٹیک آف'' کیلیے تیار ہے، کرکٹرز کے انتخاب کا پہلا حق اسلام آباد کو ملے گا۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان سپر لیگ کے لوگوکی تقریب رونمائی کا انعقاد گذشتہ روز لاہور کے مقامی ہوٹل میں ہوا، اس موقع پر ایونٹ کی گورننگ کونسل کے سربراہ نجم سیٹھی، ٹائٹل اسپانسر حبیب بینک کے چیف مارکیٹنگ آفیسر نوید اصغر، فرنچائز مالکان اور پی سی بی کے عہدیدار بھی موجود تھے، میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے نجم سیٹھی نے کہا کہ یہ پاکستان کرکٹ کیلیے تاریخی دن ہے، کئی خدشات کے باوجود ہم اس مرحلے تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔
ابھی آغاز کررہے ہیں،اس میں مشکلات تو ہوں گی لیکن کامیاب ایونٹ مستقبل کی راہیں متعین کر دے گا، انھوں نے کہا کہ اگلے سال کچھ میچز اس کے بعد پورا ٹورنامنٹ ہی ملک میں کرانے کی کوشش کریں گے، برانڈ ایمبیسیڈر رمیز راجہ نے کہا کہ ایک دیرینہ خواب پورا ہونے جارہا ہے،اسے ایشیا اور بعدازاں دنیا کا بہترین کرکٹ ایونٹ بنانے کی سوچ اپنانی چاہیے، ٹیم اچھی بن گئی ہے،یواے ای میں مقابلوں سے پاکستان کو نیا ٹیلنٹ میسر آنے کے ساتھ کھلاڑیوں کو معاشی استحکام بھی حاصل ہوگا، پی ایس ایل کو ایک منافع بخش پراڈکٹ بنانا ہوگا۔
منگل کو ہونے والی قرعہ اندازی میں کھلاڑی کو ڈرافٹ سسٹم کے ذریعے منتخب کرنے کا اولین حق اسلام آباد کو حاصل ہوا،کراچی دوسرے، پشاورتیسرے، کوئٹہ چوتھے اور لاہور پانچویں نمبر پر دستیاب پول میں سے پلیئرز کا انتخاب کرے گا، یاد رہے کہ ہر ٹیم کے مالک کو فرنچائز رائٹس کے ساتھ تنخواہوں، سفر اور قیام وطعام کی مد میں 2 سے ڈھائی ملین ڈالر تک خرچ کرنا ہوںگے۔
اسٹاف کی تنخواہوں کیلیے مجموعی طور پر 1.75 ملین ڈالر درکار ہیں، رہائش کیلیے 1 لاکھ اور سفری اخراجات کیلیے 50 ہزار ڈالر مختص رکھنا ہوںگے، پی ایس ایل کے حوالے سے لاہور میں منعقدہ 2 روزہ ورکشاپ میں طے کیا گیاکہ کرکٹرز کی خریداری پرکم ازکم 9 لاکھ 85 ہزار ڈالرجبکہ زیادہ سے زیادہ 1.1 ملین ڈالر خرچ کرنے کی اجازت ہوگی، آئیکون پلیئرز کو 2 لاکھ ڈالر ادا کرنا ہوںگے، پلاٹینم کیٹیگری میں شامل 1 لاکھ 40 ہزار، ڈائمنڈ 70، گولڈ 50، سلور 25 اور ایمرجنگ 10 ہزار ڈالر کے حقدار بنیں گے۔
شاہد آفریدی، شعیب ملک، کرس گیل، کیون پیٹرسن اور شین واٹسن 5 آئیکون پلیئرز ہیں،کسی ایک کیٹیگری میں منتخب نہ ہونے والا کرکٹر خود بخود ہی کم تر درجے میں چلا جائے گا، مثال کے طور پر پلاٹینم پلیئر کو 1 لاکھ 40 ہزار ڈالر کے بجائے ڈائمنڈ کے ریٹ 70 ہزار ڈالر پر خریدا جا سکے گا،کھلاڑیوں کی ڈرافٹنگ کا عمل 21 اور 22 دسمبر کو ہوگا جس کے بعد فرنچائزز اپنے اسکواڈز مرتب کرلیں گی۔
دوسری جانب بھاری اخراجات اٹھانے والی فرنچائززکو ٹیکس نے بھی پریشان کررکھا ہے، 5 ٹیموں کے حقوق پر مجموعی لاگت 9 ملین ڈالر سے زیادہ ہے، 10 فیصد انکم جبکہ 16 فیصد پنجاب حکومت کے گڈز اورسروسز ٹیکس کو ملاکرمجموعی طور پر 2.34 ملین ڈالر ادا کرنا ہوں گے، تمام فرنچائز مالکان کے اکاؤنٹس پاکستان میں ہونے کی وجہ سے چھوٹ نہیں مل سکتی، اگر کوئی کمپنی یواے ای یا کسی اور ملک میں رجسٹرڈ ہوتی تو رعایت کی مستحق ہوسکتی تھی، فرنچائزز کی جانب سے معاملہ سامنے لانے پر پی سی بی حکام نے حکومت سے درخواست کی تھی کہ پی ایس ایل کا ابھی آغاز ہونے جارہا ہے۔
اسے کامیاب بنانے کیلیے ابتدا میں فرنچائزز مالکان کا بوجھ کم کرنا ضروری ہوگا، ایونٹ کو 5 سال کیلیے ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیدیا جائے تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے یہ تجویز مسترد کردی، پی سی بی نے امید ظاہر کی ہے کہ حکومت فیصلے پر نظر ثانی کرے گی، دوسری صورت میں اس کے ایونٹ پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہونگے۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان سپر لیگ کے لوگوکی تقریب رونمائی کا انعقاد گذشتہ روز لاہور کے مقامی ہوٹل میں ہوا، اس موقع پر ایونٹ کی گورننگ کونسل کے سربراہ نجم سیٹھی، ٹائٹل اسپانسر حبیب بینک کے چیف مارکیٹنگ آفیسر نوید اصغر، فرنچائز مالکان اور پی سی بی کے عہدیدار بھی موجود تھے، میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے نجم سیٹھی نے کہا کہ یہ پاکستان کرکٹ کیلیے تاریخی دن ہے، کئی خدشات کے باوجود ہم اس مرحلے تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔
ابھی آغاز کررہے ہیں،اس میں مشکلات تو ہوں گی لیکن کامیاب ایونٹ مستقبل کی راہیں متعین کر دے گا، انھوں نے کہا کہ اگلے سال کچھ میچز اس کے بعد پورا ٹورنامنٹ ہی ملک میں کرانے کی کوشش کریں گے، برانڈ ایمبیسیڈر رمیز راجہ نے کہا کہ ایک دیرینہ خواب پورا ہونے جارہا ہے،اسے ایشیا اور بعدازاں دنیا کا بہترین کرکٹ ایونٹ بنانے کی سوچ اپنانی چاہیے، ٹیم اچھی بن گئی ہے،یواے ای میں مقابلوں سے پاکستان کو نیا ٹیلنٹ میسر آنے کے ساتھ کھلاڑیوں کو معاشی استحکام بھی حاصل ہوگا، پی ایس ایل کو ایک منافع بخش پراڈکٹ بنانا ہوگا۔
منگل کو ہونے والی قرعہ اندازی میں کھلاڑی کو ڈرافٹ سسٹم کے ذریعے منتخب کرنے کا اولین حق اسلام آباد کو حاصل ہوا،کراچی دوسرے، پشاورتیسرے، کوئٹہ چوتھے اور لاہور پانچویں نمبر پر دستیاب پول میں سے پلیئرز کا انتخاب کرے گا، یاد رہے کہ ہر ٹیم کے مالک کو فرنچائز رائٹس کے ساتھ تنخواہوں، سفر اور قیام وطعام کی مد میں 2 سے ڈھائی ملین ڈالر تک خرچ کرنا ہوںگے۔
اسٹاف کی تنخواہوں کیلیے مجموعی طور پر 1.75 ملین ڈالر درکار ہیں، رہائش کیلیے 1 لاکھ اور سفری اخراجات کیلیے 50 ہزار ڈالر مختص رکھنا ہوںگے، پی ایس ایل کے حوالے سے لاہور میں منعقدہ 2 روزہ ورکشاپ میں طے کیا گیاکہ کرکٹرز کی خریداری پرکم ازکم 9 لاکھ 85 ہزار ڈالرجبکہ زیادہ سے زیادہ 1.1 ملین ڈالر خرچ کرنے کی اجازت ہوگی، آئیکون پلیئرز کو 2 لاکھ ڈالر ادا کرنا ہوںگے، پلاٹینم کیٹیگری میں شامل 1 لاکھ 40 ہزار، ڈائمنڈ 70، گولڈ 50، سلور 25 اور ایمرجنگ 10 ہزار ڈالر کے حقدار بنیں گے۔
شاہد آفریدی، شعیب ملک، کرس گیل، کیون پیٹرسن اور شین واٹسن 5 آئیکون پلیئرز ہیں،کسی ایک کیٹیگری میں منتخب نہ ہونے والا کرکٹر خود بخود ہی کم تر درجے میں چلا جائے گا، مثال کے طور پر پلاٹینم پلیئر کو 1 لاکھ 40 ہزار ڈالر کے بجائے ڈائمنڈ کے ریٹ 70 ہزار ڈالر پر خریدا جا سکے گا،کھلاڑیوں کی ڈرافٹنگ کا عمل 21 اور 22 دسمبر کو ہوگا جس کے بعد فرنچائزز اپنے اسکواڈز مرتب کرلیں گی۔
دوسری جانب بھاری اخراجات اٹھانے والی فرنچائززکو ٹیکس نے بھی پریشان کررکھا ہے، 5 ٹیموں کے حقوق پر مجموعی لاگت 9 ملین ڈالر سے زیادہ ہے، 10 فیصد انکم جبکہ 16 فیصد پنجاب حکومت کے گڈز اورسروسز ٹیکس کو ملاکرمجموعی طور پر 2.34 ملین ڈالر ادا کرنا ہوں گے، تمام فرنچائز مالکان کے اکاؤنٹس پاکستان میں ہونے کی وجہ سے چھوٹ نہیں مل سکتی، اگر کوئی کمپنی یواے ای یا کسی اور ملک میں رجسٹرڈ ہوتی تو رعایت کی مستحق ہوسکتی تھی، فرنچائزز کی جانب سے معاملہ سامنے لانے پر پی سی بی حکام نے حکومت سے درخواست کی تھی کہ پی ایس ایل کا ابھی آغاز ہونے جارہا ہے۔
اسے کامیاب بنانے کیلیے ابتدا میں فرنچائزز مالکان کا بوجھ کم کرنا ضروری ہوگا، ایونٹ کو 5 سال کیلیے ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیدیا جائے تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے یہ تجویز مسترد کردی، پی سی بی نے امید ظاہر کی ہے کہ حکومت فیصلے پر نظر ثانی کرے گی، دوسری صورت میں اس کے ایونٹ پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہونگے۔