نئے صوبوں کے قیام کی باتیں محض سیاسی کھیل
نیا صوبہ بننا دور کی بات۔
نیا صوبہ بننا تو دور کی بات' ابھی نئے صوبوں کی تشکیل کے حوالے سے کمیشن بنتا دکھائی نہیں دے رہا۔ تاہم سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے بانی سرائیکی صوبہ کا خطاب حاصل کر لیا ہے۔ شہر کی دیواریں 'بانی سرائیکی صوبہ' کے بینروں اور بورڈوں سے رنگین ہو گئی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ دو تہائی اکثریت کی حامل ایسی حکومت، جس میں کوئی بھی صوبے کی تشکیل کا مخالف نہیں اور مخالف سیاسی جماعت بھی بادل نخواستہ اس معاملہ پر ساتھ دیتی دکھائی دیتی ہے، خود صوبہ کی تشکیل کیلئے بروقت اور جلد از جلد عملی قدم اٹھانے کی بجائے پس و پیش سے کام لے رہی ہے۔
تازہ تازہ حکومت سے باہر ہو کر ملتان پہنچنے والے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے جب یہ اعلان کیا کہ وہ صوبے کی تشکیل کیلئے تحریک چلائیں گے تو مخالف تو کیا اپنوں نے بھی دانتوں میں انگلیاں دبا لیں کہ آخر یہ تحریک کس کے خلاف چلے گی اور کون ہے جو صوبے کی تشکیل میں رکاوٹ ہے؟ یوسف رضا گیلانی تو کہتے ہیں کہ انہیں سرائیکی صوبے کی بات کرنے کی پاداش میں حکومت سے نکالا گیا۔ عوام تو یہی جانتے ہیں کہ انہیں سپریم کورٹ نے عدالتی احکامات کی تعمیل نہ کرنے پر نااہل قرار دیا ہے تو کیا عدالت نئے صوبوں کی تشکیل کے خلاف ہے۔
عرصہ پہلے پیپلز پارٹی نے صوبے کی تشکیل میں بڑی رکاوٹ مسلم لیگ (ن) کو قرار دیاتھا لیکن پنجاب اسمبلی میں منظور ہونے والی قراردادوں کے بعد گیند پھر پیپلز پارٹی کے کورٹ میں آ گئی۔ عوام امید لگائے بیٹھے رہے کہ اب آنے والی آئینی ترمیم نئے صوبوں کی ہو گی۔ ترامیم تو آئیں لیکن یہ سب ارکان پارلیمنٹ کے اپنے مفادات کیلئے ۔ دو برس قبل صوبے بنانے کا نعرہ لگانے والے سابق وزیراعظم نے سیاسی جلسوں میں اس نعرے پر خوب سیاست کی، جب وہ خود اسمبلی سے باہر آ بیٹھے ہیں تو تحریک چلانے کی بات کرتے ہیں۔ ان سارے حالات سے تو بظاہر یہ ایک سیاسی کھیل ہی نظر آ رہا ہے۔
ایک روز بعد سید یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے باعث خالی ہونے والی نشست این اے 151 پر ضمنی انتخابات منعقد ہو رہے ہیں۔ سید یوسف رضا گیلانی کی طرف سے ان کے صاحبزادے سید عبدالقادر گیلانی یہاں سے امیدوار ہیں جبکہ ان کے مدمقابل تحریک انصاف کے سکندر حیات بوسن کے بھائی شوکت حیات بوسن امیدوار ہیں۔ انتخابی نتیجہ کیا ہوتا ہے اس کا تجزیہ کرنے کی بجائے اگر یہاں کے سیاسی حالات کا تجزیہ کیا جائے تو یوں لگتا ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی نے حلقے میں اپنے پرائے، دوست دشمن اور حامی، مخالف کا فرق مٹا دیا ہے۔
دوست کھل کر ساتھ ہیں تو مخالف پس پردہ حمایت کر رہے ہیں۔ حامی جلسوں میں نعرے لگا رہے ہیں تو سیاسی دشمن بھی گیلانی صاحب کیلئے کام کرتے نظر آرہے ہیں اور سرائیکی صوبے کا نعرہ عوامی جذبات سے کھیلنے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ سید یوسف رضا گیلانی نے وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے بعد علاقائی سیاست میں بڑے پیمانے پر توڑ پھوڑ کی ہے۔ ان کا خاندان حالیہ دور میں یہ چھٹا الیکشن لڑ رہا ہے جن میں سے یہ چوتھا ضمنی الیکشن ہے لیکن اقتدار کی خوبی دیکھئے جب بھی گیلانی خاندان میدان میں اترا مخالف اپنی اپنی سیاسی جماعتیں چھوڑ کر ان کی صفوں میں آ کھڑے ہوئے۔
برسوں کی وابستگیاں منٹوں میں بدل گئیں اور وفا کے دعوے لمحوں میں تحلیل ہو گئے۔ جلالپور کے انتخابات میں جب یوسف رضا گیلانی حلقہ انتخاب میں جلسہ کرنے گئے تو اپنے اور مخالف سب قطار اندر قطار سٹیج پر براجمان تھے۔ شاہ محمود قریشی کی خالی کردہ نشست پر بھی لوگوں نے یہی مناظر دیکھے اور اب حلقہ 151 میں بھی یہی کچھ ہے کیونکہ یوسف رضا گیلانی بلاشبہ وزارت عظمیٰ سے ہٹ گئے ہیں لیکن اقتدار تو نہیں گیا اختیارات تو برقرار ہیں' فنڈز تو مل رہے ہیں، نوکریوں کے پروانے اور ترقیاتی کاموں کے احکامات کے سامنے کہاں کے اصول اور کیسی سیاسی وفاداریاں۔
جنوبی پنجاب کے باسیوں نے گزشتہ 4 برسوں میں ایک اور عجیب منظر بھی دیکھا ہے کہ جب گیلانی خاندان کا کوئی فرد امیدوار ہوتا ہے تو مسلم لیگ (ن) خانہ پری کیلئے میدان میں اترتی ہے۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں بھی مسلم لیگ (ن) نے اپنا امیدوار مقابلے پر نہیں کھڑا کیا اور آزاد امیدوار شوکت حیات بوسن کی حمایت کا اعلان کیا۔ مسلم لیگی دعویٰ کرتے ہیں کہ اس کے بدلے میں سکندر حیات بوسن سے الیکشن کے فوری بعد مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا وعدہ لیا گیا ہے لیکن یہ کیسی حمایت ہے کہ انتخابی مہم میں مسلم لیگ (ن) کا نہ تو کوئی رکن قومی اسمبلی شریک ہے نہ ملتان کا سنیٹر چند کارکنوں اور دوچار عہدیدار جلسوں میں شریک ہیں۔
ان ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے اپنے کئی عہدیدار اور اہم ساتھی کھو دیئے۔ پارٹی میں آئے ملک اسحاق بچہ سے وہ سلوک کیا گیا کہ وہ دوبارہ پیپلز پارٹی میں جاشامل ہوئے' ملک عاشق علی شجرا کیلئے بھی حالات خراب دکھائی دیتے ہیں۔ عباس اکبر مونی شاہ جو کچھ عرصہ قبل مسلم لیگ (ن) سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہے تھے اب دوبارہ سید یوسف رضا گیلانی کے گن گاتے پھر رہے ہیں۔ ادھر سکندر حیات بوسن علاقے میں اپنا وجود طاقت کے ساتھ برقرار رکھنے کی جنگ لڑ رہے ہیں تاکہ آئندہ قومی انتخابات میں وہ اپنے راستے سیدھے کر لیں اور شاہ محمود قریشی والی غلطی اپنے حلقے میں نہ دہرائیں۔
شاہ محمود قریشی کے بھائی مرید حسین قریشی بھی تحریک انصاف چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے ہیں اور سارا ملبہ شاہ محمود قریشی پر ڈال رہے ہیں لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کا یہ خیال ہے کہ مرید حسین قریشی کی پیپلز پارٹی میں شمولیت پر شاہ محمود قریشی کی رضا مندی بھی شامل ہو گی کیونکہ ان کے نکلنے سے پیپلز پارٹی کا مقامی سطح پر پیدا ہونے والا خلا کوئی اور پر کرے اس سے بہتر ہے کہ یہ خلا اپنے ہی بھائی سے پر کرا دیا جائے۔
اگر سید علی موسیٰ گیلانی ایفی ڈرین کیس کے باعث نااہل ہوگئے تو اس حلقہ سے پیپلز پارٹی کے امیدوار مرید حسین قریشی ہوں گے تاکہ معاملات گھر ہی میں رہیں۔ بظاہر مرید حسین قریشی کا تحریک انصاف چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہونا شاہ محمود قریشی کیلئے دوسرا بڑا دھچکا ہے۔ اس سے قبل انہیں ایسا ہی دھچکا معین ریاض قریشی کے پارٹی چھوڑنے سے ہوا تھا لیکن سیاسی مبصر اس تبدیلی کے پیچھے بھی شاہ محمود قریشی کی منشا کے دعوے کرتے رہے۔ کل حلقہ 151 میں ضمنی انتخابات ہیں تمام بدلے حالات کے باوجود اہل علاقہ سکندر بوسن کی علاقے میں مسلسل حاضری کو بڑا کریڈٹ دے رہے ہیں۔ لوگوں کی رائے ہے کہ اس حلقہ میں سخت اور دلچسپ مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔
تازہ تازہ حکومت سے باہر ہو کر ملتان پہنچنے والے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے جب یہ اعلان کیا کہ وہ صوبے کی تشکیل کیلئے تحریک چلائیں گے تو مخالف تو کیا اپنوں نے بھی دانتوں میں انگلیاں دبا لیں کہ آخر یہ تحریک کس کے خلاف چلے گی اور کون ہے جو صوبے کی تشکیل میں رکاوٹ ہے؟ یوسف رضا گیلانی تو کہتے ہیں کہ انہیں سرائیکی صوبے کی بات کرنے کی پاداش میں حکومت سے نکالا گیا۔ عوام تو یہی جانتے ہیں کہ انہیں سپریم کورٹ نے عدالتی احکامات کی تعمیل نہ کرنے پر نااہل قرار دیا ہے تو کیا عدالت نئے صوبوں کی تشکیل کے خلاف ہے۔
عرصہ پہلے پیپلز پارٹی نے صوبے کی تشکیل میں بڑی رکاوٹ مسلم لیگ (ن) کو قرار دیاتھا لیکن پنجاب اسمبلی میں منظور ہونے والی قراردادوں کے بعد گیند پھر پیپلز پارٹی کے کورٹ میں آ گئی۔ عوام امید لگائے بیٹھے رہے کہ اب آنے والی آئینی ترمیم نئے صوبوں کی ہو گی۔ ترامیم تو آئیں لیکن یہ سب ارکان پارلیمنٹ کے اپنے مفادات کیلئے ۔ دو برس قبل صوبے بنانے کا نعرہ لگانے والے سابق وزیراعظم نے سیاسی جلسوں میں اس نعرے پر خوب سیاست کی، جب وہ خود اسمبلی سے باہر آ بیٹھے ہیں تو تحریک چلانے کی بات کرتے ہیں۔ ان سارے حالات سے تو بظاہر یہ ایک سیاسی کھیل ہی نظر آ رہا ہے۔
ایک روز بعد سید یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے باعث خالی ہونے والی نشست این اے 151 پر ضمنی انتخابات منعقد ہو رہے ہیں۔ سید یوسف رضا گیلانی کی طرف سے ان کے صاحبزادے سید عبدالقادر گیلانی یہاں سے امیدوار ہیں جبکہ ان کے مدمقابل تحریک انصاف کے سکندر حیات بوسن کے بھائی شوکت حیات بوسن امیدوار ہیں۔ انتخابی نتیجہ کیا ہوتا ہے اس کا تجزیہ کرنے کی بجائے اگر یہاں کے سیاسی حالات کا تجزیہ کیا جائے تو یوں لگتا ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی نے حلقے میں اپنے پرائے، دوست دشمن اور حامی، مخالف کا فرق مٹا دیا ہے۔
دوست کھل کر ساتھ ہیں تو مخالف پس پردہ حمایت کر رہے ہیں۔ حامی جلسوں میں نعرے لگا رہے ہیں تو سیاسی دشمن بھی گیلانی صاحب کیلئے کام کرتے نظر آرہے ہیں اور سرائیکی صوبے کا نعرہ عوامی جذبات سے کھیلنے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ سید یوسف رضا گیلانی نے وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے بعد علاقائی سیاست میں بڑے پیمانے پر توڑ پھوڑ کی ہے۔ ان کا خاندان حالیہ دور میں یہ چھٹا الیکشن لڑ رہا ہے جن میں سے یہ چوتھا ضمنی الیکشن ہے لیکن اقتدار کی خوبی دیکھئے جب بھی گیلانی خاندان میدان میں اترا مخالف اپنی اپنی سیاسی جماعتیں چھوڑ کر ان کی صفوں میں آ کھڑے ہوئے۔
برسوں کی وابستگیاں منٹوں میں بدل گئیں اور وفا کے دعوے لمحوں میں تحلیل ہو گئے۔ جلالپور کے انتخابات میں جب یوسف رضا گیلانی حلقہ انتخاب میں جلسہ کرنے گئے تو اپنے اور مخالف سب قطار اندر قطار سٹیج پر براجمان تھے۔ شاہ محمود قریشی کی خالی کردہ نشست پر بھی لوگوں نے یہی مناظر دیکھے اور اب حلقہ 151 میں بھی یہی کچھ ہے کیونکہ یوسف رضا گیلانی بلاشبہ وزارت عظمیٰ سے ہٹ گئے ہیں لیکن اقتدار تو نہیں گیا اختیارات تو برقرار ہیں' فنڈز تو مل رہے ہیں، نوکریوں کے پروانے اور ترقیاتی کاموں کے احکامات کے سامنے کہاں کے اصول اور کیسی سیاسی وفاداریاں۔
جنوبی پنجاب کے باسیوں نے گزشتہ 4 برسوں میں ایک اور عجیب منظر بھی دیکھا ہے کہ جب گیلانی خاندان کا کوئی فرد امیدوار ہوتا ہے تو مسلم لیگ (ن) خانہ پری کیلئے میدان میں اترتی ہے۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں بھی مسلم لیگ (ن) نے اپنا امیدوار مقابلے پر نہیں کھڑا کیا اور آزاد امیدوار شوکت حیات بوسن کی حمایت کا اعلان کیا۔ مسلم لیگی دعویٰ کرتے ہیں کہ اس کے بدلے میں سکندر حیات بوسن سے الیکشن کے فوری بعد مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا وعدہ لیا گیا ہے لیکن یہ کیسی حمایت ہے کہ انتخابی مہم میں مسلم لیگ (ن) کا نہ تو کوئی رکن قومی اسمبلی شریک ہے نہ ملتان کا سنیٹر چند کارکنوں اور دوچار عہدیدار جلسوں میں شریک ہیں۔
ان ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے اپنے کئی عہدیدار اور اہم ساتھی کھو دیئے۔ پارٹی میں آئے ملک اسحاق بچہ سے وہ سلوک کیا گیا کہ وہ دوبارہ پیپلز پارٹی میں جاشامل ہوئے' ملک عاشق علی شجرا کیلئے بھی حالات خراب دکھائی دیتے ہیں۔ عباس اکبر مونی شاہ جو کچھ عرصہ قبل مسلم لیگ (ن) سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہے تھے اب دوبارہ سید یوسف رضا گیلانی کے گن گاتے پھر رہے ہیں۔ ادھر سکندر حیات بوسن علاقے میں اپنا وجود طاقت کے ساتھ برقرار رکھنے کی جنگ لڑ رہے ہیں تاکہ آئندہ قومی انتخابات میں وہ اپنے راستے سیدھے کر لیں اور شاہ محمود قریشی والی غلطی اپنے حلقے میں نہ دہرائیں۔
شاہ محمود قریشی کے بھائی مرید حسین قریشی بھی تحریک انصاف چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے ہیں اور سارا ملبہ شاہ محمود قریشی پر ڈال رہے ہیں لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کا یہ خیال ہے کہ مرید حسین قریشی کی پیپلز پارٹی میں شمولیت پر شاہ محمود قریشی کی رضا مندی بھی شامل ہو گی کیونکہ ان کے نکلنے سے پیپلز پارٹی کا مقامی سطح پر پیدا ہونے والا خلا کوئی اور پر کرے اس سے بہتر ہے کہ یہ خلا اپنے ہی بھائی سے پر کرا دیا جائے۔
اگر سید علی موسیٰ گیلانی ایفی ڈرین کیس کے باعث نااہل ہوگئے تو اس حلقہ سے پیپلز پارٹی کے امیدوار مرید حسین قریشی ہوں گے تاکہ معاملات گھر ہی میں رہیں۔ بظاہر مرید حسین قریشی کا تحریک انصاف چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہونا شاہ محمود قریشی کیلئے دوسرا بڑا دھچکا ہے۔ اس سے قبل انہیں ایسا ہی دھچکا معین ریاض قریشی کے پارٹی چھوڑنے سے ہوا تھا لیکن سیاسی مبصر اس تبدیلی کے پیچھے بھی شاہ محمود قریشی کی منشا کے دعوے کرتے رہے۔ کل حلقہ 151 میں ضمنی انتخابات ہیں تمام بدلے حالات کے باوجود اہل علاقہ سکندر بوسن کی علاقے میں مسلسل حاضری کو بڑا کریڈٹ دے رہے ہیں۔ لوگوں کی رائے ہے کہ اس حلقہ میں سخت اور دلچسپ مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔