قُرب ِ الٰہی کا حصول
’’اے ابراہیم! یقیناً تو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا۔ ‘‘ (القرآن)
قربانی کا ذکر قرآن حکیم میں واضح طور پر آیا ہے۔ ارشاد فرمایا:''اپنے رب کی نماز پڑھو اور قربانی کرو۔''
حافظ ابن کثیر فرماتے ہیںکہ اللہ نے اپنے رسول حضرت محمدﷺ کو حکم دیا کہ وہ غیر اللہ کی عبادت کرنے اور ان کے نام کی قربانی دینے والے مشرکوں کو بتادیں کہ ان کا طریقہ ان مشرکوں سے الگ ہے، ان کی نماز اور قربانی صرف ایک اللہ کے لیے ہے۔ حضور اکرم ؐ قرآنی تعلیمات کی اتنی سختی سے پابندی فرماتے تھے کہ اکثر صحابۂ کرام ؓ کہا کرتے تھے:''اﷲ کے رسولؐ چلتا پھرتا قرآن تھے۔'' محولہ بالا آیت کے سیاق و سباق کو دیکھیے جو ہو بہو قرآن کی تعبیر ہے۔
نبی رحمتﷺ نے ارشاد فرمایا:''بے شک! ہم اس (یوم عیدالاضحی) کے دن پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ کھلے میدان (عیدگاہ) میں جاکر عید کی نماز ادا کرتے ہیں اور واپس آنے کے بعد قربانی کرتے ہیں۔ جس شخص نے ایسا کیا، اس نے ہماری سنت کو پالیا۔''
قربانی کا تصور بہت قدیم ہے جو دنیا کے پہلے انسان اور نبی حضرت آدم ؑ کے وقت سے چلا آرہا ہے۔ جب ہابیل اور قابیل کے مابین شادی کے معاملے پر شدید تنازعہ ہوا تو قابیل، ہابیل کی جان کے درپے ہوگیا تھا۔ چناں چہ حضرت آدم ؑ نے دونوں کو قربانی کا حکم دیا تھا۔
حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت ابراہیم ؑ تک مختلف صحائف انبیاء پر نازل ہوتے رہے جن میں اس وقت کی ضرورت کے مطابق امتوں کے لیے شرعی احکامات نازل ہوتے رہے، اسی طرح قربانی کا بھی طریقہ بدلتا رہا۔
قربانی دراصل حضرت ابراہیم ؑ کی سنت ہے جو انھوں نے تقریباً پانچ ہزار سال قبل اپنے رب کے حکم کے مطابق پیش کی۔ مذہبی کتب میں ہمیں اس یادگار قربانی کا ذکر ملتا ہے ۔ حضرت ابراہیم ؑ نے 99برس کی عمر میں ایک خواب آیا دیکھا جس میں حکم ملا کہ ہماری راہ میں قربانی پیش کرو۔ دوسرے روز آپ نے100اونٹوں کی قربانی پیش کردی ۔
رات کو پھر وہی خواب آیا کہ ابراہیم قربانی پیش کرو۔ آپ نے دوسرے دن پھر سو اونٹ قربان کردیے۔ تیسرے دن پھر وہی خواب نظر آیا کہ ابراہیم قربانی پیش کرو۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے کل بھی اور آج بھی100،100اونٹ قربان کیے ہیں جس پر جواب میں کہا گیا کہ اونٹوں کی قربانی نہیں چاہیے، بلکہ اپنی عزیز ترین شے ہماری راہ میں قربان کرو۔ صبح جب آپ بیدار ہوئے تو سخت اضطرابی کیفیت میں مبتلا تھے۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اس خواب کی تعبیر کس سے پوچھی جائے۔ انبیاء کے خواب حقائق پر مبنی ہوتے ہیں اور فقہاء کرام لکھتے ہیں کہ یہ خواب وحی کا درجہ رکھتے ہیں۔
شرعی اصطلاح میں اسے رویائے صادق یعنی سچے خواب بھی کہا جاتا ہے۔ تمام دن غوروخوض کے بعد آخر آپؑ اس نتیجے پر پہنچے کہ اپنی سب سے عزیز تر شے مال اور اولاد ہوتی ہے۔ مال تو اونٹوں کی شکل میں قربان کرکے پیش کردیا گیا تھا، مگر اب اولاد میں بھی صرف نرینہ شکل میں ایک 13سالہ بیٹا اسماعیل موجود تھا، طے کیا کہ اس سے زیادہ عزیز شے کوئی موجود نہیں ہے، اس لیے اب راہ خدا میں اسی کی قربانی پیش کردی جائے۔ چناں چہ آپؑ نے اس خواب کا ذکر اپنی بیوی ہاجرہ سے کیا۔
اس شاکرہ و صابرہ بی بی نے بھی حضرت ابراہیم ؑکے ارادے کو استحکام بخشتے ہوئے فرمایا، جیسی اللہ کی مرضی! اس سے قبل بھی بی بی ہاجرہ اسی بیٹے کی وجہ سے ایک اور آزمائش سے گزر چکی تھیں۔ جب حضرت ابراہیم ؑ کی عمر 86برس ہوئی تو اﷲ نے آپؑ کو ایک بیٹا عطا کیا تھا۔ قرآن حکیم میں اس کا ذکر موجود ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:''اے پروردگار! مجھے ایک نیک لڑکا عطا کر، پس ہم نے اسے ایک بردبار لڑکے کی بشارت دی۔''
(سورۃ الصافات آیات100-101)
آیت سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ آپؑ نے اللہ کے حضور بیٹے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ آپ کا لقب خلیل اللہ تھا یعنی اللہ کا دوست! اللہ اپنے دوست کی خواہش کو کیسے ٹالتا، فوراً بیٹے کی بشارت دی۔ اس طرح حضرت اسماعیل، مراد ابراہیم تھے، اسی لیے تو آپ باپ کی نظر میں عزیز ترین شے تھے۔
جب بی بی ہاجرہ ؑ کے بطن سے حضرت اسماعیل پیدا ہوئے تو حضرت ابراہیم ؑکی پہلی بیوی حضرت سارہ بانجھ تھیں اور ان کی عمر بھی لگ بھگ 80تا85برس تھی۔ اسماعیل کی پیدائش پر ان کی پہلی بیوی سارہ نے حضرت ابراہیم ؑ سے کہا کہ اس نومولود اور اس کی ماں کو میری نظروں سے ہٹاکر کہیں اور بسا دو، یعنی دور لے جاؤ۔ آپؑ پر یہ اصرار ناگوار گزرا، مگر اللہ نے آپؑ کو بہ ذریعہ وحی مطلع کردیا کہ تیر ے لیے، ہاجرہ کے لیے اور اسماعیل کے لیے مصلحت اسی میں ہے کہ سارہ جو کچھ کہتی ہے، اسے مان لے۔ چناں چہ آپ ان دونوں کو لے کر ویران مقام کی طرف آگئے جو آج کل مکہ شہر کہلاتا ہے۔
اس قول کی تائید میں ایک حدیث بھی آئی ہے۔ حضرت عباس ؓفرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم، اپنی بیوی ہاجرہ اور شیر خوار بیٹے اسماعیل کو لے کر چلے اور جہاں آج کعبہ ہے، وہاں ایک بڑے درخت کے نیچے زمزم کے موجودہ مقام کے بالائی حصے پر چھوڑ گئے۔ وہ جگہ ویران اور غیر آباد تھی جہاں پانی کا نام ونشان تک نہ تھا۔ ابراہیم ؑ نے جاتے ہوئے ایک مشکیزہ پانی کا اور ایک تھیلی کھجور کی ان کے پاس چھوڑدی تھی۔ ہاجرہ ان کے پیچھے پیچھے یہ کہتی ہوئی چلیں:''اے ابراہیم! تم اس وادی میں ہمیں چھوڑکر کہاں چلے؟ یہاں نہ آدم نہ آدم زاد اور نہ کوئی مونس نہ کوئی غم خوار!'' ہاجرہ یہ کہتی جا رہی تھیں، مگر ابراہیم ؑ خاموش چلتے رہے۔
پھر ہاجرہ نے پوچھا، کیا تمھارے خدا نے یہ حکم دیا ہے تو آپؑ نے ہاں میں جواب دیا۔ یہ جواب سن کر بی بی ہاجرہ پلٹ آئیں اور کہا:''اگر یہ خدا کا حکم ہے تو بلا شبہہ وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔''
قرآن حکیم میں بھی اس واقعے کا ذکر موجود ہے: ''اے ہمارے پروردگار (تو دیکھ رہا ہے) کہ ایسے میدان میں جہاں کھیتی کا نام و نشان نہیں ہے، میں نے اپنی بعض اولاد تیرے محترم گھر کے پاس لا بسائی ہے تاکہ نماز قائم رکھیں۔ پس تو ایسا کر کہ لوگوں کے دل ان کی طرف مائل ہوجائیں اور ان کے لیے زمین کی پیداوار سے سامان رزق مہیا کردے، تاکہ یہ تیرے شکر گزار بن جائیں۔'' (سورۂ ابراہیم آیت37)
قرآن حکیم کے ان الفاظ پر بار بار غور فرمائیں! کیا یہ الفاظ آج کے دور میں بھی سو فی صد صادق نظر نہیں آرہے؟
ہاجرہ چند روز تک وہ کھجور اور پانی استعمال کرتی رہیں اور ایک روز وہ ذخیرہ ختم ہوگیا۔ ننھے اسماعیل پیاس سے بلک بلک کر رونے لگے۔
بی بی ہاجرہ سے یہ منظر دیکھا نہ گیا اور دور جاکر بیٹھ گئیں ۔ پھر صفاء و مروہ کی پہاڑی پر سات مرتبہ چکر لگایا کہ شاید کوئی انسان یا پانی نظر آجائے، مگر بے سود! جب تھک ہار کر اسماعیل کی جانب پلیٹیں تو دیکھا کہ ان کی ایڑیوں کے قریب سے پانی کا چشمہ ابل رہا ہے۔ آپ نے فوراً وہاں ریت کی دیوار لگانی شروع کردی اور لب پہ یہ الفاظ تھے: زم زم!
حضرت ابراہیم ؑ اگرچہ فلسطین میں مستقل قیام پذیر تھے، مگر گاہے بہ گاہے دونوں کو دیکھنے مکہ آتے تھے۔ اس دوران آپؑ کو کعبے کی تعمیر کا حکم ہوا۔ اس کی پہلی تعمیر حضرت آدم ؑ کے زمانے میں ہوئی تھی، مگر حوادث زمانہ کے سبب وہ تعمیر ختم ہوچکی تھی۔ وحی الٰہی کے بعد آپؑ نے بیٹے اسماعیل کے ساتھ اس کی دوبارہ تعمیر شروع کردی تھی۔ اس کا ذکر قرآن حکیم میں اس طرح آیا ہے:''جب ابراہیم کعبے کی بنیاد چن رہے تھے اور اسماعیل بھی ان کے ساتھ تھے، ان کے ہاتھ تو پتھر چن رہے تھے مگر دل میں یہ دعا تھی، اے پروردگار! ہم دو عاجز بندے تیرے گھر کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ ہمارا یہ عمل قبول فرما۔ بے شک! تو ہی دعاؤں کا سننے والا ہے۔'' (سورۃ البقرہ آیت127)
جب اسماعیل شیر خوار تھے تو اللہ نے ان کے ذریعے زم زم کا معجزہ دکھایا اور جب وہ لڑکپن کی عمر کو چھو رہے تھے تو ان سے ایک زبردست دینی خدمت لی کہ پیغمبر باپ کے ساتھ بیت اللہ کی تعمیر کروائی جسے دنیا بھر کی مسلم امہ سمت بنا کر اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہورہی ہے اور قیامت تک ہوتی رہے گی۔ یہی اسماعیل جب 13برس کی عمر کو پہنچے تو ابراہیم ؑ نے اپنی بیوی ہاجرہ سے اسماعیل کی قربانی کا ذکر کیا تھا۔ انھوں نے فوراً اللہ کی مرضی کے آگے سر تسلیم خم کردیا، اپنے ہاتھوں سے اکلوتے بیٹے کو تیار کیا اور خلیل اللہ کے ہم راہ کردیا۔ اس ماں کی عظمت کو سلام جس نے13سال تک اس بچے کی پرورش اور تربیت کی اور آج اسے قربان گاہ بھیج رہی ہے۔ اس بے مثال قربانی کا ذکر ہمیں قرآن حکیم میں تفصیل سے ملتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:''ہم نے اسے بردبار بچے کی بشارت دی پھر جب وہ بچہ اتنی عمر کو پہنچا کہ اس کے ساتھ چلنے پھرنے لگا تو اس (ابراہیم ) نے کہا میرے پیارے بیٹے! میں خواب میں تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے کہا، ابا جان! جو حکم آپ کو ہوا ہے، اسے بجا لائیے۔ ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔ غرض جب دونوں مطیع ہوگئے اور اس (باپ) نے اس (بیٹے) کو جبین کے بل گرادیا تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم! یقیناً تو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا۔ بے شک! ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔ درحقیقت یہ کھلا امتحان تھا اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیے میں دے دیا اور ہم نے ان کا ذکر پچھلوں میں (آنے والے لوگوں) باقی رکھا۔ ابراہیم پر سلام ہو، ہم نیکو کاروں کو اسی طرح صلہ دیتے ہیں۔ بے شک! وہ ہمارے ایمان دار بندوں میں سے تھا۔'' (سورۃ الصافات آیت101تا111)
مسلمان ہر سال 10 ذی الحج کو سنت ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے جانوروں کی قربانی پیش کرتے ہیں جو دراصل ان کے مال کی بھی قربانی ہے۔ اسلام میں اس سنت ابراہیمی کو اسلام کا سب سے پسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے اور یہی عمل تا قیامت قرب الٰہی حاصل کرنے کا ذریعہ بھی قرار دیا گیا۔
حافظ ابن کثیر فرماتے ہیںکہ اللہ نے اپنے رسول حضرت محمدﷺ کو حکم دیا کہ وہ غیر اللہ کی عبادت کرنے اور ان کے نام کی قربانی دینے والے مشرکوں کو بتادیں کہ ان کا طریقہ ان مشرکوں سے الگ ہے، ان کی نماز اور قربانی صرف ایک اللہ کے لیے ہے۔ حضور اکرم ؐ قرآنی تعلیمات کی اتنی سختی سے پابندی فرماتے تھے کہ اکثر صحابۂ کرام ؓ کہا کرتے تھے:''اﷲ کے رسولؐ چلتا پھرتا قرآن تھے۔'' محولہ بالا آیت کے سیاق و سباق کو دیکھیے جو ہو بہو قرآن کی تعبیر ہے۔
نبی رحمتﷺ نے ارشاد فرمایا:''بے شک! ہم اس (یوم عیدالاضحی) کے دن پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ کھلے میدان (عیدگاہ) میں جاکر عید کی نماز ادا کرتے ہیں اور واپس آنے کے بعد قربانی کرتے ہیں۔ جس شخص نے ایسا کیا، اس نے ہماری سنت کو پالیا۔''
قربانی کا تصور بہت قدیم ہے جو دنیا کے پہلے انسان اور نبی حضرت آدم ؑ کے وقت سے چلا آرہا ہے۔ جب ہابیل اور قابیل کے مابین شادی کے معاملے پر شدید تنازعہ ہوا تو قابیل، ہابیل کی جان کے درپے ہوگیا تھا۔ چناں چہ حضرت آدم ؑ نے دونوں کو قربانی کا حکم دیا تھا۔
حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت ابراہیم ؑ تک مختلف صحائف انبیاء پر نازل ہوتے رہے جن میں اس وقت کی ضرورت کے مطابق امتوں کے لیے شرعی احکامات نازل ہوتے رہے، اسی طرح قربانی کا بھی طریقہ بدلتا رہا۔
قربانی دراصل حضرت ابراہیم ؑ کی سنت ہے جو انھوں نے تقریباً پانچ ہزار سال قبل اپنے رب کے حکم کے مطابق پیش کی۔ مذہبی کتب میں ہمیں اس یادگار قربانی کا ذکر ملتا ہے ۔ حضرت ابراہیم ؑ نے 99برس کی عمر میں ایک خواب آیا دیکھا جس میں حکم ملا کہ ہماری راہ میں قربانی پیش کرو۔ دوسرے روز آپ نے100اونٹوں کی قربانی پیش کردی ۔
رات کو پھر وہی خواب آیا کہ ابراہیم قربانی پیش کرو۔ آپ نے دوسرے دن پھر سو اونٹ قربان کردیے۔ تیسرے دن پھر وہی خواب نظر آیا کہ ابراہیم قربانی پیش کرو۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے کل بھی اور آج بھی100،100اونٹ قربان کیے ہیں جس پر جواب میں کہا گیا کہ اونٹوں کی قربانی نہیں چاہیے، بلکہ اپنی عزیز ترین شے ہماری راہ میں قربان کرو۔ صبح جب آپ بیدار ہوئے تو سخت اضطرابی کیفیت میں مبتلا تھے۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اس خواب کی تعبیر کس سے پوچھی جائے۔ انبیاء کے خواب حقائق پر مبنی ہوتے ہیں اور فقہاء کرام لکھتے ہیں کہ یہ خواب وحی کا درجہ رکھتے ہیں۔
شرعی اصطلاح میں اسے رویائے صادق یعنی سچے خواب بھی کہا جاتا ہے۔ تمام دن غوروخوض کے بعد آخر آپؑ اس نتیجے پر پہنچے کہ اپنی سب سے عزیز تر شے مال اور اولاد ہوتی ہے۔ مال تو اونٹوں کی شکل میں قربان کرکے پیش کردیا گیا تھا، مگر اب اولاد میں بھی صرف نرینہ شکل میں ایک 13سالہ بیٹا اسماعیل موجود تھا، طے کیا کہ اس سے زیادہ عزیز شے کوئی موجود نہیں ہے، اس لیے اب راہ خدا میں اسی کی قربانی پیش کردی جائے۔ چناں چہ آپؑ نے اس خواب کا ذکر اپنی بیوی ہاجرہ سے کیا۔
اس شاکرہ و صابرہ بی بی نے بھی حضرت ابراہیم ؑکے ارادے کو استحکام بخشتے ہوئے فرمایا، جیسی اللہ کی مرضی! اس سے قبل بھی بی بی ہاجرہ اسی بیٹے کی وجہ سے ایک اور آزمائش سے گزر چکی تھیں۔ جب حضرت ابراہیم ؑ کی عمر 86برس ہوئی تو اﷲ نے آپؑ کو ایک بیٹا عطا کیا تھا۔ قرآن حکیم میں اس کا ذکر موجود ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:''اے پروردگار! مجھے ایک نیک لڑکا عطا کر، پس ہم نے اسے ایک بردبار لڑکے کی بشارت دی۔''
(سورۃ الصافات آیات100-101)
آیت سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ آپؑ نے اللہ کے حضور بیٹے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ آپ کا لقب خلیل اللہ تھا یعنی اللہ کا دوست! اللہ اپنے دوست کی خواہش کو کیسے ٹالتا، فوراً بیٹے کی بشارت دی۔ اس طرح حضرت اسماعیل، مراد ابراہیم تھے، اسی لیے تو آپ باپ کی نظر میں عزیز ترین شے تھے۔
جب بی بی ہاجرہ ؑ کے بطن سے حضرت اسماعیل پیدا ہوئے تو حضرت ابراہیم ؑکی پہلی بیوی حضرت سارہ بانجھ تھیں اور ان کی عمر بھی لگ بھگ 80تا85برس تھی۔ اسماعیل کی پیدائش پر ان کی پہلی بیوی سارہ نے حضرت ابراہیم ؑ سے کہا کہ اس نومولود اور اس کی ماں کو میری نظروں سے ہٹاکر کہیں اور بسا دو، یعنی دور لے جاؤ۔ آپؑ پر یہ اصرار ناگوار گزرا، مگر اللہ نے آپؑ کو بہ ذریعہ وحی مطلع کردیا کہ تیر ے لیے، ہاجرہ کے لیے اور اسماعیل کے لیے مصلحت اسی میں ہے کہ سارہ جو کچھ کہتی ہے، اسے مان لے۔ چناں چہ آپ ان دونوں کو لے کر ویران مقام کی طرف آگئے جو آج کل مکہ شہر کہلاتا ہے۔
اس قول کی تائید میں ایک حدیث بھی آئی ہے۔ حضرت عباس ؓفرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم، اپنی بیوی ہاجرہ اور شیر خوار بیٹے اسماعیل کو لے کر چلے اور جہاں آج کعبہ ہے، وہاں ایک بڑے درخت کے نیچے زمزم کے موجودہ مقام کے بالائی حصے پر چھوڑ گئے۔ وہ جگہ ویران اور غیر آباد تھی جہاں پانی کا نام ونشان تک نہ تھا۔ ابراہیم ؑ نے جاتے ہوئے ایک مشکیزہ پانی کا اور ایک تھیلی کھجور کی ان کے پاس چھوڑدی تھی۔ ہاجرہ ان کے پیچھے پیچھے یہ کہتی ہوئی چلیں:''اے ابراہیم! تم اس وادی میں ہمیں چھوڑکر کہاں چلے؟ یہاں نہ آدم نہ آدم زاد اور نہ کوئی مونس نہ کوئی غم خوار!'' ہاجرہ یہ کہتی جا رہی تھیں، مگر ابراہیم ؑ خاموش چلتے رہے۔
پھر ہاجرہ نے پوچھا، کیا تمھارے خدا نے یہ حکم دیا ہے تو آپؑ نے ہاں میں جواب دیا۔ یہ جواب سن کر بی بی ہاجرہ پلٹ آئیں اور کہا:''اگر یہ خدا کا حکم ہے تو بلا شبہہ وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔''
قرآن حکیم میں بھی اس واقعے کا ذکر موجود ہے: ''اے ہمارے پروردگار (تو دیکھ رہا ہے) کہ ایسے میدان میں جہاں کھیتی کا نام و نشان نہیں ہے، میں نے اپنی بعض اولاد تیرے محترم گھر کے پاس لا بسائی ہے تاکہ نماز قائم رکھیں۔ پس تو ایسا کر کہ لوگوں کے دل ان کی طرف مائل ہوجائیں اور ان کے لیے زمین کی پیداوار سے سامان رزق مہیا کردے، تاکہ یہ تیرے شکر گزار بن جائیں۔'' (سورۂ ابراہیم آیت37)
قرآن حکیم کے ان الفاظ پر بار بار غور فرمائیں! کیا یہ الفاظ آج کے دور میں بھی سو فی صد صادق نظر نہیں آرہے؟
ہاجرہ چند روز تک وہ کھجور اور پانی استعمال کرتی رہیں اور ایک روز وہ ذخیرہ ختم ہوگیا۔ ننھے اسماعیل پیاس سے بلک بلک کر رونے لگے۔
بی بی ہاجرہ سے یہ منظر دیکھا نہ گیا اور دور جاکر بیٹھ گئیں ۔ پھر صفاء و مروہ کی پہاڑی پر سات مرتبہ چکر لگایا کہ شاید کوئی انسان یا پانی نظر آجائے، مگر بے سود! جب تھک ہار کر اسماعیل کی جانب پلیٹیں تو دیکھا کہ ان کی ایڑیوں کے قریب سے پانی کا چشمہ ابل رہا ہے۔ آپ نے فوراً وہاں ریت کی دیوار لگانی شروع کردی اور لب پہ یہ الفاظ تھے: زم زم!
حضرت ابراہیم ؑ اگرچہ فلسطین میں مستقل قیام پذیر تھے، مگر گاہے بہ گاہے دونوں کو دیکھنے مکہ آتے تھے۔ اس دوران آپؑ کو کعبے کی تعمیر کا حکم ہوا۔ اس کی پہلی تعمیر حضرت آدم ؑ کے زمانے میں ہوئی تھی، مگر حوادث زمانہ کے سبب وہ تعمیر ختم ہوچکی تھی۔ وحی الٰہی کے بعد آپؑ نے بیٹے اسماعیل کے ساتھ اس کی دوبارہ تعمیر شروع کردی تھی۔ اس کا ذکر قرآن حکیم میں اس طرح آیا ہے:''جب ابراہیم کعبے کی بنیاد چن رہے تھے اور اسماعیل بھی ان کے ساتھ تھے، ان کے ہاتھ تو پتھر چن رہے تھے مگر دل میں یہ دعا تھی، اے پروردگار! ہم دو عاجز بندے تیرے گھر کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ ہمارا یہ عمل قبول فرما۔ بے شک! تو ہی دعاؤں کا سننے والا ہے۔'' (سورۃ البقرہ آیت127)
جب اسماعیل شیر خوار تھے تو اللہ نے ان کے ذریعے زم زم کا معجزہ دکھایا اور جب وہ لڑکپن کی عمر کو چھو رہے تھے تو ان سے ایک زبردست دینی خدمت لی کہ پیغمبر باپ کے ساتھ بیت اللہ کی تعمیر کروائی جسے دنیا بھر کی مسلم امہ سمت بنا کر اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہورہی ہے اور قیامت تک ہوتی رہے گی۔ یہی اسماعیل جب 13برس کی عمر کو پہنچے تو ابراہیم ؑ نے اپنی بیوی ہاجرہ سے اسماعیل کی قربانی کا ذکر کیا تھا۔ انھوں نے فوراً اللہ کی مرضی کے آگے سر تسلیم خم کردیا، اپنے ہاتھوں سے اکلوتے بیٹے کو تیار کیا اور خلیل اللہ کے ہم راہ کردیا۔ اس ماں کی عظمت کو سلام جس نے13سال تک اس بچے کی پرورش اور تربیت کی اور آج اسے قربان گاہ بھیج رہی ہے۔ اس بے مثال قربانی کا ذکر ہمیں قرآن حکیم میں تفصیل سے ملتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:''ہم نے اسے بردبار بچے کی بشارت دی پھر جب وہ بچہ اتنی عمر کو پہنچا کہ اس کے ساتھ چلنے پھرنے لگا تو اس (ابراہیم ) نے کہا میرے پیارے بیٹے! میں خواب میں تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے کہا، ابا جان! جو حکم آپ کو ہوا ہے، اسے بجا لائیے۔ ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔ غرض جب دونوں مطیع ہوگئے اور اس (باپ) نے اس (بیٹے) کو جبین کے بل گرادیا تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم! یقیناً تو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا۔ بے شک! ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔ درحقیقت یہ کھلا امتحان تھا اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیے میں دے دیا اور ہم نے ان کا ذکر پچھلوں میں (آنے والے لوگوں) باقی رکھا۔ ابراہیم پر سلام ہو، ہم نیکو کاروں کو اسی طرح صلہ دیتے ہیں۔ بے شک! وہ ہمارے ایمان دار بندوں میں سے تھا۔'' (سورۃ الصافات آیت101تا111)
مسلمان ہر سال 10 ذی الحج کو سنت ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے جانوروں کی قربانی پیش کرتے ہیں جو دراصل ان کے مال کی بھی قربانی ہے۔ اسلام میں اس سنت ابراہیمی کو اسلام کا سب سے پسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے اور یہی عمل تا قیامت قرب الٰہی حاصل کرنے کا ذریعہ بھی قرار دیا گیا۔