مستقبل کی جنگیں پولیس لڑے گی
میں بار بار پولیس پر اس لیے لکھ رہا ہوں کہ مستقبل قریب کی جنگیں پولیس نے لڑنی ہیں،
KARACHI:
میں بار بار پولیس پر اس لیے لکھ رہا ہوں کہ مستقبل قریب کی جنگیں پولیس نے لڑنی ہیں، دنیا بھر میں 95فیصد ممالک کو بیرونی جارحیت سے زیادہ اندرونی خطروں کا سامنا ہے اس لیے اگر ہم اس شعبے میں کمزور ہو گئے تو خاکم بدہن ہم کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ آج بھی یورپ میں کہیں فوج لڑتی نظر نہیں آئے گی، ہر طرف پولیس ہی لڑ رہی ہے۔
امریکا و دیگر ممالک میں بھی ایسا ہی ہے اسی لیے یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہمیں پولیس کو بہت زیادہ مضبوط کرنا ہے، انھیں جدید تربیت اور جدید اسلحہ سے لیس کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہمارے حکمرانوں کے کھوکھلے دعوے ایک طرف مگر حقیقت یہ ہے کہ یہاں سبھی چور ڈاکو اور لٹیرے بیٹھے ہیں وہ کیوں کر اس محکمہ میں انقلابی اصلاحات لائیں گے؟ جب کہ ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہو۔
پاکستان کی 97فیصد عوام اس محکمے کے بارے میں اچھے خیالات نہیں رکھتی۔ اور محکمہ پولیس کا ٹھیک ہونا میری ہی نہیں بلکہ مجھ جیسے کروڑوں پاکستانیوں کی خواہش ہے جو روزانہ اپنے پیاروں کی لاشیں سڑک پر رکھ کر احتجاج کرتے ہیں، جو روزانہ کروڑوں روپے رشوت کے عوض اس محکمے کی نذر کرتے ہیں، جو روزانہ اپنے اوپر جھوٹے اور ناجائز مقدمے کرواتے ہیں، جو روزانہ ان 'ناکوں' کی زد میں آتے ہیں جہاں سے آج تک کوئی چور ڈکیت نہیں پکڑا جا سکا، اور جو روزانہ ان سیاسی دلالوں کے ڈیروں پر مجبوراََ سجدہ ریزی کرتے ہیں۔۔۔ حالات تو یہ ہیں کہ شہریوں کی طرف سے اگر SHO کے خلاف رشوت یا اختیارات کے ناجائز استعمال کی شکایت موصول ہوتی ہے تو تحقیقات کے لیے کیس اُسی تھانے کو روانہ کیا جاتا ہے۔
پولیس میں ایک عام کانسٹیبل جب رشوت وصول کرتا ہے تو قصور اس کانسٹیبل کا نہیں بلکہ اس سسٹم کا ہے جو اسے رشوت لینے پر مجبور کیے ہوئے ہے، معمولی تنخواہ، عدم سہولیات افسران کی ڈانٹ ڈپٹ، 24گھنٹے کی ڈیوٹیاں نہ صرف مزاج کو چڑچڑا کرتی ہیں بلکہ اسے رشوت لینے پر بھی مجبور کرتی ہیں۔ ترقیوں سے مایوس افسران اپنے کیریئر کی محرومیوں کو رشوت، بدعنوانی اور غیرقانونی ٹارچر کے ذریعے سے Compensateکرتے ہیں۔
طویل ڈیوٹی اوقات اور چھٹی نہ ملنے کے پیچھے پولیس میں افرادی قوت کی قلت جیسے چیلنج ہیں لیکن اس سے بھی پولیس کی کارکردگی میں منفی رجحان واضح نظر آتا ہے کہ اس ادارے کے ایک معمولی کانسٹیبل کی فیملی بیمار ہوجائے تو اس کے علاج کے لیے وہ دربد ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوتا ہے اس محکمے کے لیے اچھے اسپتال نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور نہ ہی اچھی تعلیم کے لیے تعلیمی ادارے موجود ہیں۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ آپ کو ایسی سیکڑوں مثالیں مل سکتی ہیں جس میں کرپشن و قتل کے مقدمات میں چھوٹے پولیس افسر دھر لیے جاتے ہیں جب کہ حاکمین جن کے ایماء پر یہ سب کچھ ہوا ہوتا ہے انھیں کوئی مائی کا لال ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا، یا زیادہ سے زیادہ ان کی ٹرانسفر کر دی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ پولیس کی کارکردگی میں گراوٹ کی اہم ترین وجہ اپنی سیٹ پر بے یقینی ہے۔ ایس ایچ او کو قطعی طور پر پتہ نہیں ہوتا کہ اسے اگلے دن تبدیل کر کے لائن حاضر کر دیا جائے گا یا کسی اور جگہ پھینک دیا جائے گا لہٰذا وہ مال بناؤ اوربھاگو کے اصول پر چلتے ہیں اور کسی لانگ ٹرم حکمت عملی پر عمل نہیں کر پاتے۔ اس کے علاوہ پولیس کی جرائم کنٹرول کرنے کی استعداد میں سب سے بڑی رکاوٹ پروٹوکول ڈیوٹی ہے۔پولیس میں مڈل لیول عہدے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔
مثال کے طور پر سب انسپکٹر، ایس ایچ او اور ڈی ایس پی افسروں کو اس محکمے میں خصوصی اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ اعلیٰ افسروں سے حکم لیتے ہیں اور اپنی نگرانی میں مکمل تعمیل کرواتے ہیں۔ پولیس میں یہ لوگ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے اختیارات ان کی تعلیمی اور پیشہ ورانہ تربیت سے زیادہ ہیں لہٰذا اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ان کی بھرتی اور تربیت اور تعلیمی معیار پر خصوصی توجہ دی جائے۔ اگر یہ لوگ درست ہو جائیں تو پولیس سے کافی خرابیاں کم ہو سکتی ہیں۔
پولیس میں عورتوں کا تناسب ایک فیصد سے بھی کم ہے ۔ تھانوں میں صنفی امتیاز نہ ہونے کی وجہ سے عورتوں کے مقدمات میں وسیع پیمانے پر بدنظمی دیکھنے میں آتی ہے کم از کم ایک تھانے میں 10 خواتین پولیس اہلکاروں کی تعیناتی کو یقینی بنایا جائے تو عورتوں کے خلاف ہونے والے جرائم میں خاطر خواہ کمی آ سکتی ہے۔
پولیس میں انفراسٹرکچر اور جدید سازوسامان اور اسلحہ کی بھی شدید قلت ہے۔پولیس کو سیاسی تسلط سے آزاد کرنے کے دو طریقے ہیں۔ پہلا تو یہ ہے کہ پولیس کو وزارت داخلہ کے قبضے سے نکال کر عدلیہ کی تحویل میں دے دیا جائے ویسے بھی کریمنل جسٹس سسٹم میں پولیس کا قریب ترین تعلق عدلیہ او رمحکمہ انصاف کے ساتھ بنتا ہے۔
اس سے عدالتی نظام اور سزاؤں کے نفاذ میں بہتری آئے گی۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ عوام غریبی، مہنگائی، بے روزگاری، عدم مساوات اور لوڈشیڈنگ برداشت کر لیتے ہیں مگر ان سے ذلت، بے عزتی اور رسوائی برداشت نہیں ہوتی اگر انھیں بے گناہ ہونے کے باوجود تھانوں میں جوتے مارے جائیں یا مشکوک نہ ہونے کے باوجود چوراہوں پر بے عزت کیا جائے تو ایک وقت آئے گا کہ پولیس اپنے حکمرانوں کو عوام کے غیض و غضب سے بچانے میں ناکام ہو جائے گی اور یہ وقت زیادہ دور کی بات نہیں جب ان حکمرانوں کی وجہ سے پولیس جیسا ادارہ جسے دنیا بھر میں تحفظ کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں ذلیل و رسوا ہو کر رہ جائے گا... میری خواہش ہے کہ ہماری پولیس ترقی یافتہ ملکوں کی طرح آئیڈیل بن جائے، آپ دور نہ جائیں دبئی میں پولیس اور عوام کے درمیان اس قدر خوشگوار تعلقات ہیں کہ وہاں کا مکین اگر انتظامیہ یا پولیس کو مطلع کرے کہ وہ پریشانی سے دوچار ہے تو پولیس حرکت میں آ جائے گی اور وہ اُس شخص کو پولیس اسٹیشن طلب کر کے یا ٹیلی فون کے ذریعے معلومات حاصل کرے گی کہ وہ کیوں پریشانی کا شکار ہے۔
میں بار بار پولیس پر اس لیے لکھ رہا ہوں کہ مستقبل قریب کی جنگیں پولیس نے لڑنی ہیں، دنیا بھر میں 95فیصد ممالک کو بیرونی جارحیت سے زیادہ اندرونی خطروں کا سامنا ہے اس لیے اگر ہم اس شعبے میں کمزور ہو گئے تو خاکم بدہن ہم کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ آج بھی یورپ میں کہیں فوج لڑتی نظر نہیں آئے گی، ہر طرف پولیس ہی لڑ رہی ہے۔
امریکا و دیگر ممالک میں بھی ایسا ہی ہے اسی لیے یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہمیں پولیس کو بہت زیادہ مضبوط کرنا ہے، انھیں جدید تربیت اور جدید اسلحہ سے لیس کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہمارے حکمرانوں کے کھوکھلے دعوے ایک طرف مگر حقیقت یہ ہے کہ یہاں سبھی چور ڈاکو اور لٹیرے بیٹھے ہیں وہ کیوں کر اس محکمہ میں انقلابی اصلاحات لائیں گے؟ جب کہ ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہو۔
پاکستان کی 97فیصد عوام اس محکمے کے بارے میں اچھے خیالات نہیں رکھتی۔ اور محکمہ پولیس کا ٹھیک ہونا میری ہی نہیں بلکہ مجھ جیسے کروڑوں پاکستانیوں کی خواہش ہے جو روزانہ اپنے پیاروں کی لاشیں سڑک پر رکھ کر احتجاج کرتے ہیں، جو روزانہ کروڑوں روپے رشوت کے عوض اس محکمے کی نذر کرتے ہیں، جو روزانہ اپنے اوپر جھوٹے اور ناجائز مقدمے کرواتے ہیں، جو روزانہ ان 'ناکوں' کی زد میں آتے ہیں جہاں سے آج تک کوئی چور ڈکیت نہیں پکڑا جا سکا، اور جو روزانہ ان سیاسی دلالوں کے ڈیروں پر مجبوراََ سجدہ ریزی کرتے ہیں۔۔۔ حالات تو یہ ہیں کہ شہریوں کی طرف سے اگر SHO کے خلاف رشوت یا اختیارات کے ناجائز استعمال کی شکایت موصول ہوتی ہے تو تحقیقات کے لیے کیس اُسی تھانے کو روانہ کیا جاتا ہے۔
پولیس میں ایک عام کانسٹیبل جب رشوت وصول کرتا ہے تو قصور اس کانسٹیبل کا نہیں بلکہ اس سسٹم کا ہے جو اسے رشوت لینے پر مجبور کیے ہوئے ہے، معمولی تنخواہ، عدم سہولیات افسران کی ڈانٹ ڈپٹ، 24گھنٹے کی ڈیوٹیاں نہ صرف مزاج کو چڑچڑا کرتی ہیں بلکہ اسے رشوت لینے پر بھی مجبور کرتی ہیں۔ ترقیوں سے مایوس افسران اپنے کیریئر کی محرومیوں کو رشوت، بدعنوانی اور غیرقانونی ٹارچر کے ذریعے سے Compensateکرتے ہیں۔
طویل ڈیوٹی اوقات اور چھٹی نہ ملنے کے پیچھے پولیس میں افرادی قوت کی قلت جیسے چیلنج ہیں لیکن اس سے بھی پولیس کی کارکردگی میں منفی رجحان واضح نظر آتا ہے کہ اس ادارے کے ایک معمولی کانسٹیبل کی فیملی بیمار ہوجائے تو اس کے علاج کے لیے وہ دربد ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوتا ہے اس محکمے کے لیے اچھے اسپتال نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور نہ ہی اچھی تعلیم کے لیے تعلیمی ادارے موجود ہیں۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ آپ کو ایسی سیکڑوں مثالیں مل سکتی ہیں جس میں کرپشن و قتل کے مقدمات میں چھوٹے پولیس افسر دھر لیے جاتے ہیں جب کہ حاکمین جن کے ایماء پر یہ سب کچھ ہوا ہوتا ہے انھیں کوئی مائی کا لال ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا، یا زیادہ سے زیادہ ان کی ٹرانسفر کر دی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ پولیس کی کارکردگی میں گراوٹ کی اہم ترین وجہ اپنی سیٹ پر بے یقینی ہے۔ ایس ایچ او کو قطعی طور پر پتہ نہیں ہوتا کہ اسے اگلے دن تبدیل کر کے لائن حاضر کر دیا جائے گا یا کسی اور جگہ پھینک دیا جائے گا لہٰذا وہ مال بناؤ اوربھاگو کے اصول پر چلتے ہیں اور کسی لانگ ٹرم حکمت عملی پر عمل نہیں کر پاتے۔ اس کے علاوہ پولیس کی جرائم کنٹرول کرنے کی استعداد میں سب سے بڑی رکاوٹ پروٹوکول ڈیوٹی ہے۔پولیس میں مڈل لیول عہدے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔
مثال کے طور پر سب انسپکٹر، ایس ایچ او اور ڈی ایس پی افسروں کو اس محکمے میں خصوصی اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ اعلیٰ افسروں سے حکم لیتے ہیں اور اپنی نگرانی میں مکمل تعمیل کرواتے ہیں۔ پولیس میں یہ لوگ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے اختیارات ان کی تعلیمی اور پیشہ ورانہ تربیت سے زیادہ ہیں لہٰذا اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ان کی بھرتی اور تربیت اور تعلیمی معیار پر خصوصی توجہ دی جائے۔ اگر یہ لوگ درست ہو جائیں تو پولیس سے کافی خرابیاں کم ہو سکتی ہیں۔
پولیس میں عورتوں کا تناسب ایک فیصد سے بھی کم ہے ۔ تھانوں میں صنفی امتیاز نہ ہونے کی وجہ سے عورتوں کے مقدمات میں وسیع پیمانے پر بدنظمی دیکھنے میں آتی ہے کم از کم ایک تھانے میں 10 خواتین پولیس اہلکاروں کی تعیناتی کو یقینی بنایا جائے تو عورتوں کے خلاف ہونے والے جرائم میں خاطر خواہ کمی آ سکتی ہے۔
پولیس میں انفراسٹرکچر اور جدید سازوسامان اور اسلحہ کی بھی شدید قلت ہے۔پولیس کو سیاسی تسلط سے آزاد کرنے کے دو طریقے ہیں۔ پہلا تو یہ ہے کہ پولیس کو وزارت داخلہ کے قبضے سے نکال کر عدلیہ کی تحویل میں دے دیا جائے ویسے بھی کریمنل جسٹس سسٹم میں پولیس کا قریب ترین تعلق عدلیہ او رمحکمہ انصاف کے ساتھ بنتا ہے۔
اس سے عدالتی نظام اور سزاؤں کے نفاذ میں بہتری آئے گی۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ عوام غریبی، مہنگائی، بے روزگاری، عدم مساوات اور لوڈشیڈنگ برداشت کر لیتے ہیں مگر ان سے ذلت، بے عزتی اور رسوائی برداشت نہیں ہوتی اگر انھیں بے گناہ ہونے کے باوجود تھانوں میں جوتے مارے جائیں یا مشکوک نہ ہونے کے باوجود چوراہوں پر بے عزت کیا جائے تو ایک وقت آئے گا کہ پولیس اپنے حکمرانوں کو عوام کے غیض و غضب سے بچانے میں ناکام ہو جائے گی اور یہ وقت زیادہ دور کی بات نہیں جب ان حکمرانوں کی وجہ سے پولیس جیسا ادارہ جسے دنیا بھر میں تحفظ کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں ذلیل و رسوا ہو کر رہ جائے گا... میری خواہش ہے کہ ہماری پولیس ترقی یافتہ ملکوں کی طرح آئیڈیل بن جائے، آپ دور نہ جائیں دبئی میں پولیس اور عوام کے درمیان اس قدر خوشگوار تعلقات ہیں کہ وہاں کا مکین اگر انتظامیہ یا پولیس کو مطلع کرے کہ وہ پریشانی سے دوچار ہے تو پولیس حرکت میں آ جائے گی اور وہ اُس شخص کو پولیس اسٹیشن طلب کر کے یا ٹیلی فون کے ذریعے معلومات حاصل کرے گی کہ وہ کیوں پریشانی کا شکار ہے۔