بات دور تک چلی جائے گی
رینجرز کے اختیارات کے مسئلے پر سندھ حکومت اور وفاق کے درمیان کشیدگی کی جو فضا چلی آرہی تھی
لاہور:
رینجرز کے اختیارات کے مسئلے پر سندھ حکومت اور وفاق کے درمیان کشیدگی کی جو فضا چلی آرہی تھی وہ اب باضابطہ سخت بیانات اور جوابی بیانات کی لڑائی میں بدل گئی ہے۔
مرکزی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے مقابلے کے لیے سندھ حکومت نے میڈیا کے اکھاڑے میں جس نئے پہلوان کو اتارا ہے وہ ہیں مولا بخش چانڈیو۔ ہم جب پرائمری میں پڑھتے تھے اس وقت ہمارے ٹیچروں کے ہاتھوں میں جو ڈنڈا ہوتا تھا اسے ''مولا بخش'' کہا جاتا تھا۔ سندھ حکومت کے ہاتھوں میں آج کل جو ڈنڈا ہے اس کا نام بھی اتفاق سے مولا بخش ہی ہے دونوں وزرا صاحبان کے بیانات اور جوابی بیانات کا ذکر ہم بعد میں کریں گے پہلے جھگڑے کی اصل وجہ پر ایک نظر ڈالتے ہیں تاکہ اندازہ ہو کہ اس فسانے کا اصل موضوع کیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے رینجرز کو جو غیر معمولی اختیارات دیے تھے ان کا مقصد کراچی میں امن کی بحالی تھا اور امن کی بحالی کے لیے چونکہ امن دشمنوں کا خاتمہ ضروری ہوتا ہے لہٰذا رینجرز کو جو ٹاسک دیا گیا تھا وہ امن دشمنوں کا خاتمہ تھا۔ کراچی میں امن کو جو گروہ سبوتاژ کر رہے تھے ان میں سب سے پہلا نمبر دہشت گردوں اور ان کے چھوٹے بھائی ٹارگٹ کلروں کا تھا۔
اسے اتفاق کہیں یا حسن اتفاق کہ رینجرز نے اس حوالے سے جو کارروائی شروع کی اس کا رخ ایک ایسی پارٹی کی طرف ہوگیا جو ماضی میں بھی آپریشنوں کا شکار رہی ہے اس بات سے قطع نظر حقیقت یہ ہے کہ کراچی میں دہشت گردی ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان جیسے سنگین جرائم میں قابل ذکر کمی آئی ۔ اس دوران مختلف حلقوں سے یہ شکایات بھی شدت سے سامنے آئیں کہ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس رہا ہے، یعنی گنہگاروں کے ساتھ بہت سے بے گناہ بھی پکڑے جا رہے ہیں۔
کراچی آپریشن میں رینجرزکے ساتھ پولیس بھی شامل ہے اور بدقسمتی سے کراچی پولیس کی یہ تاریخ رہی ہے کہ وہ گیہوں کم اور گھن زیادہ پیستی ہے اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ گھن کی پسائی سے پولیس کی آمدنی میں حیرت انگیز اضافہ ہوجاتا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام میں روپے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ''باپ بڑا نہ بھیا سب سے بڑا روپیہ۔''
سندھ حکومت کو گھن کے پسنے پرکوئی اعتراض نہ تھا۔اعتراض اس بات پر تھا کہ رینجرز ''جرائم پیشہ لوگوں'' کے ساتھ شریف لوگوں کو بھی پکڑ رہی ہے اور ان پر دہشت گردی یا دہشت گردوں سے معاونت کے الزامات برائے نام ہیں اورکرپشن کے الزامات زیادہ ہیں، سندھ حکومت مسلسل یہ کہہ رہی ہے کہ ملکی اداروں کو اپنے ''دائرہ کار'' میں رہتے ہوئے کارروائیاں کرنا چاہیے اور حکومت سندھ کے خیال میں کرپشن رینجرز کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔
اس حوالے سے سندھ حکومت کا عالم یہ ہے کہ وہ رینجرز کا نام نہیں لیتی یا لیتی ہے تو باالواسطہ لیتی ہے اور ''قومی اداروں'' کے اشاروں کنایوں میں بات کرتی ہے اس صورتحال پر ہمیں ایک خاتون یاد آگئیں جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ حد سے زیادہ شرمیلی تھیں ان محترمہ کے شوہر نامدار کا نام اتفاق سے ''رحمت اللہ'' تھا۔ خاتون نمازی پرہیزگار بھی تھیں جب وہ نماز پڑھ کر سلام پھیرنے جاتیں تو وہ شرم کے مارے رحمت اللہ کہنے کے بجائے السلام علیکم بابو کے باپ کہتی تھیں کیونکہ بابو ان کے صاحبزادے کا نام تھا اور رحمت اللہ شوہر نامدار کا۔
خیر آمدن برسر مطلب۔ سندھ حکومت کو یہ اعتراض ہے اور بجا طور پر اعتراض ہے کہ ''کرپشن'' بابو کے باپ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ اسے اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر آپریشن کرنا چاہیے۔ مشکل یہ ہے کہ جب کوئی سرجن آپریشن کے لیے کسی مریض کا پیٹ کھولتا ہے اور اس کا دائرہ کار صرف ایک السر ہوتا ہے اور اسے آپریشن کے دوران السر کے ساتھ پیٹ میں رسولی بھی نظر آتی ہے تو اس کی پیشہ ورانہ ذمے داری کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ وہ السر کے ساتھ ساتھ پیٹ سے رسولی کو بھی نکال دے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے بلکہ بجا طور پر پیدا ہوتا ہے کہ السر کے ساتھ رسولی کو آپریٹ کرنا سرجن کے دائرہ اختیار میں ہے یا نہیں؟ ایک طرف سندھ حکومت کے لیے رینجرز بابو کے باپ بنی ہوئی ہے تو اس کے ساتھ ہی ساتھ سندھ حکومت کے لیے ڈاکٹر عاصم بھی بابو کے باپ بن گئے ہیں وہ کرپشن کی بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عاصم حسین کو بابو کے باپ بنا دیتی ہے۔
ہمارے گھروں میں گھروں کی صفائی کے لیے ماسیاں رکھی جاتی ہیں ماسیوں کا کام عموماً گھروں کی صفائی ہوتا ہے لیکن اگر کوئی صفائی پسند ماسی گھر کی صفائی کے ساتھ ساتھ باتھ روم کے گندے پانی کو بھی صاف کردیتی ہے تو مالک مکان کو اس ماسی سے خوش ہونا چاہیے یا خفا ہونا چاہیے؟ اگر دہشت گردی کینسر ہے تو کرپشن بھی رسولی سے کم نہیں لیکن اگر بات اصولوں کی آتی ہے تو یہ بہرحال دیکھنا پڑے گا کہ رینجرز کو جو ٹاسک دیا گیا ہے اس میں کرپشن شامل ہے یا نہیں؟ یہ بات بہرحال طے ہے کہ معاشرتی جرائم اگر السر ہیں تو کرپشن رسولی ہے اور رسولی السر سے زیادہ بڑی اور خطرناک ہوتی ہے۔
اگر کرپشن رینجرز کے دائرہ اختیار میں نہیں تو پھر کس کے دائرہ اختیار میں ہے؟ اصل مسئلہ دائرہ اختیار کا نہیں بلکہ کرپشن کا ہے اگر حکومت سندھ کرپشن کو پیٹ کی رسولی مانتی ہے تو پھر سوال پھر سرجن کا رہ جاتا ہے اگر سندھ حکومت سرجن رینجرز کے ذریعے آپریشن نہیں کرانا چاہتی ہے تو پھر سرجن نیب ہے سرجن ایف آئی اے ہے کسی کے ذریعے بھی کرپشن کی رسولی پیٹ سے نکلوائی جائے اصل مسئلہ سرجن نہیں بلکہ رسولی ہے اور سرجن کا قابل اعتماد ہونا ہے۔
ہمارے مرکزی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے فرمایا ہے کہ سندھ حکومت غلط فہمی میں نہ رہے۔ ہمارے پاس کئی آپشنز ہیں ایک شخص کے لیے کراچی آپریشن کو متنازعہ بنایا جا رہا ہے اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ڈاکٹر عاصم کا ویڈیو بیان اور تحریری ثبوت سامنے لائیں گے۔ وزیر داخلہ کے اس بیان کو دھمکی قرار دیتے ہوئے پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اور قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا ہے کہ ''نثار دھمکیاں نہ دیں ہم نے چوڑیاں نہیں پہن رکھی ہیں۔
اگر کوئی ویڈیو ہے تو سامنے لائیں۔'' وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر اعلیٰ مولا بخش چانڈیو نے کہا ہے کہ چوہدری نثار ہمیں نتائج سے نہ ڈرائیں ہم نے بڑے نتائج بھگتے ہیں۔ چوہدری نثار مفادات کا کھیل نہ کھیلیں، اگر سندھ کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی تو بات ''دور تک'' چلی جائے گی۔ چوہدری نثار آپریشن کی باتیں تو کر رہے ہیں لیکن آپریشن کے لیے ایک پیسہ تک نہیں دیا۔ یہ ہے ہمارے اکابرین کی لفظی جنگ جو چوڑیوں اور بات آگے تک چلی جائے گی تک پہنچ گئی ہے اگر مفادات کی یہ جنگ جاری رہی تو بلاشبہ بات بہت دور تک چلی جائے گی۔
رینجرز کے اختیارات کے مسئلے پر سندھ حکومت اور وفاق کے درمیان کشیدگی کی جو فضا چلی آرہی تھی وہ اب باضابطہ سخت بیانات اور جوابی بیانات کی لڑائی میں بدل گئی ہے۔
مرکزی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے مقابلے کے لیے سندھ حکومت نے میڈیا کے اکھاڑے میں جس نئے پہلوان کو اتارا ہے وہ ہیں مولا بخش چانڈیو۔ ہم جب پرائمری میں پڑھتے تھے اس وقت ہمارے ٹیچروں کے ہاتھوں میں جو ڈنڈا ہوتا تھا اسے ''مولا بخش'' کہا جاتا تھا۔ سندھ حکومت کے ہاتھوں میں آج کل جو ڈنڈا ہے اس کا نام بھی اتفاق سے مولا بخش ہی ہے دونوں وزرا صاحبان کے بیانات اور جوابی بیانات کا ذکر ہم بعد میں کریں گے پہلے جھگڑے کی اصل وجہ پر ایک نظر ڈالتے ہیں تاکہ اندازہ ہو کہ اس فسانے کا اصل موضوع کیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے رینجرز کو جو غیر معمولی اختیارات دیے تھے ان کا مقصد کراچی میں امن کی بحالی تھا اور امن کی بحالی کے لیے چونکہ امن دشمنوں کا خاتمہ ضروری ہوتا ہے لہٰذا رینجرز کو جو ٹاسک دیا گیا تھا وہ امن دشمنوں کا خاتمہ تھا۔ کراچی میں امن کو جو گروہ سبوتاژ کر رہے تھے ان میں سب سے پہلا نمبر دہشت گردوں اور ان کے چھوٹے بھائی ٹارگٹ کلروں کا تھا۔
اسے اتفاق کہیں یا حسن اتفاق کہ رینجرز نے اس حوالے سے جو کارروائی شروع کی اس کا رخ ایک ایسی پارٹی کی طرف ہوگیا جو ماضی میں بھی آپریشنوں کا شکار رہی ہے اس بات سے قطع نظر حقیقت یہ ہے کہ کراچی میں دہشت گردی ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان جیسے سنگین جرائم میں قابل ذکر کمی آئی ۔ اس دوران مختلف حلقوں سے یہ شکایات بھی شدت سے سامنے آئیں کہ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس رہا ہے، یعنی گنہگاروں کے ساتھ بہت سے بے گناہ بھی پکڑے جا رہے ہیں۔
کراچی آپریشن میں رینجرزکے ساتھ پولیس بھی شامل ہے اور بدقسمتی سے کراچی پولیس کی یہ تاریخ رہی ہے کہ وہ گیہوں کم اور گھن زیادہ پیستی ہے اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ گھن کی پسائی سے پولیس کی آمدنی میں حیرت انگیز اضافہ ہوجاتا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام میں روپے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ''باپ بڑا نہ بھیا سب سے بڑا روپیہ۔''
سندھ حکومت کو گھن کے پسنے پرکوئی اعتراض نہ تھا۔اعتراض اس بات پر تھا کہ رینجرز ''جرائم پیشہ لوگوں'' کے ساتھ شریف لوگوں کو بھی پکڑ رہی ہے اور ان پر دہشت گردی یا دہشت گردوں سے معاونت کے الزامات برائے نام ہیں اورکرپشن کے الزامات زیادہ ہیں، سندھ حکومت مسلسل یہ کہہ رہی ہے کہ ملکی اداروں کو اپنے ''دائرہ کار'' میں رہتے ہوئے کارروائیاں کرنا چاہیے اور حکومت سندھ کے خیال میں کرپشن رینجرز کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔
اس حوالے سے سندھ حکومت کا عالم یہ ہے کہ وہ رینجرز کا نام نہیں لیتی یا لیتی ہے تو باالواسطہ لیتی ہے اور ''قومی اداروں'' کے اشاروں کنایوں میں بات کرتی ہے اس صورتحال پر ہمیں ایک خاتون یاد آگئیں جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ حد سے زیادہ شرمیلی تھیں ان محترمہ کے شوہر نامدار کا نام اتفاق سے ''رحمت اللہ'' تھا۔ خاتون نمازی پرہیزگار بھی تھیں جب وہ نماز پڑھ کر سلام پھیرنے جاتیں تو وہ شرم کے مارے رحمت اللہ کہنے کے بجائے السلام علیکم بابو کے باپ کہتی تھیں کیونکہ بابو ان کے صاحبزادے کا نام تھا اور رحمت اللہ شوہر نامدار کا۔
خیر آمدن برسر مطلب۔ سندھ حکومت کو یہ اعتراض ہے اور بجا طور پر اعتراض ہے کہ ''کرپشن'' بابو کے باپ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ اسے اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر آپریشن کرنا چاہیے۔ مشکل یہ ہے کہ جب کوئی سرجن آپریشن کے لیے کسی مریض کا پیٹ کھولتا ہے اور اس کا دائرہ کار صرف ایک السر ہوتا ہے اور اسے آپریشن کے دوران السر کے ساتھ پیٹ میں رسولی بھی نظر آتی ہے تو اس کی پیشہ ورانہ ذمے داری کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ وہ السر کے ساتھ ساتھ پیٹ سے رسولی کو بھی نکال دے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے بلکہ بجا طور پر پیدا ہوتا ہے کہ السر کے ساتھ رسولی کو آپریٹ کرنا سرجن کے دائرہ اختیار میں ہے یا نہیں؟ ایک طرف سندھ حکومت کے لیے رینجرز بابو کے باپ بنی ہوئی ہے تو اس کے ساتھ ہی ساتھ سندھ حکومت کے لیے ڈاکٹر عاصم بھی بابو کے باپ بن گئے ہیں وہ کرپشن کی بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عاصم حسین کو بابو کے باپ بنا دیتی ہے۔
ہمارے گھروں میں گھروں کی صفائی کے لیے ماسیاں رکھی جاتی ہیں ماسیوں کا کام عموماً گھروں کی صفائی ہوتا ہے لیکن اگر کوئی صفائی پسند ماسی گھر کی صفائی کے ساتھ ساتھ باتھ روم کے گندے پانی کو بھی صاف کردیتی ہے تو مالک مکان کو اس ماسی سے خوش ہونا چاہیے یا خفا ہونا چاہیے؟ اگر دہشت گردی کینسر ہے تو کرپشن بھی رسولی سے کم نہیں لیکن اگر بات اصولوں کی آتی ہے تو یہ بہرحال دیکھنا پڑے گا کہ رینجرز کو جو ٹاسک دیا گیا ہے اس میں کرپشن شامل ہے یا نہیں؟ یہ بات بہرحال طے ہے کہ معاشرتی جرائم اگر السر ہیں تو کرپشن رسولی ہے اور رسولی السر سے زیادہ بڑی اور خطرناک ہوتی ہے۔
اگر کرپشن رینجرز کے دائرہ اختیار میں نہیں تو پھر کس کے دائرہ اختیار میں ہے؟ اصل مسئلہ دائرہ اختیار کا نہیں بلکہ کرپشن کا ہے اگر حکومت سندھ کرپشن کو پیٹ کی رسولی مانتی ہے تو پھر سوال پھر سرجن کا رہ جاتا ہے اگر سندھ حکومت سرجن رینجرز کے ذریعے آپریشن نہیں کرانا چاہتی ہے تو پھر سرجن نیب ہے سرجن ایف آئی اے ہے کسی کے ذریعے بھی کرپشن کی رسولی پیٹ سے نکلوائی جائے اصل مسئلہ سرجن نہیں بلکہ رسولی ہے اور سرجن کا قابل اعتماد ہونا ہے۔
ہمارے مرکزی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے فرمایا ہے کہ سندھ حکومت غلط فہمی میں نہ رہے۔ ہمارے پاس کئی آپشنز ہیں ایک شخص کے لیے کراچی آپریشن کو متنازعہ بنایا جا رہا ہے اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ڈاکٹر عاصم کا ویڈیو بیان اور تحریری ثبوت سامنے لائیں گے۔ وزیر داخلہ کے اس بیان کو دھمکی قرار دیتے ہوئے پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اور قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا ہے کہ ''نثار دھمکیاں نہ دیں ہم نے چوڑیاں نہیں پہن رکھی ہیں۔
اگر کوئی ویڈیو ہے تو سامنے لائیں۔'' وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر اعلیٰ مولا بخش چانڈیو نے کہا ہے کہ چوہدری نثار ہمیں نتائج سے نہ ڈرائیں ہم نے بڑے نتائج بھگتے ہیں۔ چوہدری نثار مفادات کا کھیل نہ کھیلیں، اگر سندھ کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی تو بات ''دور تک'' چلی جائے گی۔ چوہدری نثار آپریشن کی باتیں تو کر رہے ہیں لیکن آپریشن کے لیے ایک پیسہ تک نہیں دیا۔ یہ ہے ہمارے اکابرین کی لفظی جنگ جو چوڑیوں اور بات آگے تک چلی جائے گی تک پہنچ گئی ہے اگر مفادات کی یہ جنگ جاری رہی تو بلاشبہ بات بہت دور تک چلی جائے گی۔