سبز موسم قریب تر ہے
خوبصورت ہونے کے ساتھ اگر عورت ذہین بھی ہو، تو دکھ سائے کی طرح اس کے ساتھ چلنے لگتے ہیں۔
خوبصورت ہونے کے ساتھ اگر عورت ذہین بھی ہو، تو دکھ سائے کی طرح اس کے ساتھ چلنے لگتے ہیں۔ پروین شاکر نے اپنی خوبصورتی اور ذہانت کی وجہ سے کئی عذاب جھیلے۔ یہ تکلیف دہ لمحات جا بجا اس کے شعروں سے جھلکتے ہیں۔ بہت سال پہلے کبھی ٹیلی ویژن کے کوریڈورز میں آتے جاتے، تو کبھی میک اپ روم میں اس سے ملاقات ہو جاتی تھی۔ وہ اس زمانے میں کراچی ٹی وی سے ادبی پروگرام کی میزبانی کے فرائض سرانجام دے رہی تھی۔ ہر طرف اس کی خوش سخنی اور شعری خوبصورتی کے چرچے تھے۔ اس کی ذات کا سحر ہر ملنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتا۔
پروین شاکر کی شاعری کے مختلف حوالے ہیں۔ ہر حوالہ اپنی جگہ فکر انگیز اور احساس کی گہرائی کو چھو جاتا ہے۔ رومانیت پسندی سے لے کر عہد حاضر کے المیوں و پاکستانی سیاست کے پیچیدہ پس منظر تک، پروین آگہی کے عذاب سے گزرتے ہوئے، شعور و لاشعور کے راستوں پر آبلہ پا چلتی دکھائی دیتی ہے۔
وقت کے ساتھ عناصر بھی رہے سازش میں
جل گئے پیڑ کبھی دھوپ کبھی بارش میں
پروین کا پہلا مجموعہ خواب بنتی ہوئی آنکھوں کا ثمر تھا۔ وہ خواب، جو انفرادی سوچ تک محدود نہیں تھے۔ بلکہ اجتماعی شعور کے حوالے سے اپنی تعبیر ڈھونڈتے تھے۔ امید، مستقل حبس زدہ ماحول میں ایک دریچہ تازہ ہوا کے لیے کھلا رکھتی ہے۔
دست بہار کا لمس
وصف گویائی دے سکے گا
یہ زرد رُت جلد بیت جائے گی
سبز موسم قریب تر ہے
پروین کے شعر کی خوبصورتی داخلیت پسندی ہے۔ یہ داخلی اظہار، جو روح کا روشن دان باہر کی فضاؤں کی طرف کھول دیتا ہے۔ پروین من کی راہوں کی مسافر تھی۔ وہ وجود کے اندرونی راستوں پر سفر کرتی ہوئی، کائنات کے سچ کو کھوجتی تھی۔
میں اپنے سورج سے
ہزاروں نوری سال کے فاصلے پر ہوں
کائنات کی بے اندازہ وسعت میں
ایک تنہا سیارہ ہوں
یہ تنہائی کا احساس، انسان کو کائنات سے جوڑ دیتا ہے۔ من کی شاخ اگر خالی ہے تو احساس کی کوئل بے اختیار کوکنے لگتی ہے۔ تنہائی، خوبصورت لمحوں کو کشید کرتی ہے۔ وجود سے لے کر زندگی اور کائنات تک بہت کچھ دریافت کرتی ہے۔
شاخ بدن کو تازہ پھول نشانی دے
کوئی تو ہو جو میری جڑوں کو پانی دے
زندگی اسی ایک المیے کے گرد گھومتی ہے۔ جب بھٹکتے احساس کو سائبان نہ مل سکے۔ جب سانسیں تازگی اور آنکھیں روشنی سے محروم ہو جائیں۔ دریا اپنا پانی ہر جگہ بانٹتا رہے۔ جب کہ اس کے کنارے پر لہلہلاتے پودے مرجھا جائیں سیراب ہوئے بغیر۔ یہ المیہ فقط پروین کی زندگی کا نہیں تھا۔ ہر حساس سوچ و خیال کا ہے۔ جسے سر اٹھانے کے لیے سورج مکھی کی طرح، آفتاب کی کرنوں کا سہارا چاہیے۔ یہ حساسیت ہمیشہ تعلق کی خوبصورتی کے تانے بانے بنتی ہے۔
1967ء سے پروین کے اشعار جمہوری رویوں، سچائی، امن و آشتی، یکجہتی، انصاف، رواداری و محبت کا پرچار کرتے رہے تھے۔ یہ شاعری طبقاتی کشمکش، پسماندہ و اظہار کے طاقت سے محروم طبقوں کی ترجمانی کرنے لگی۔ بقول ایک نقاد کے کہ ''پروین شاکر کا پہلا شعری مجموعہ ''خوشبو'' شایع ہوا۔ پروین شاکر کی عمر پچیس سال تھی۔
اس مجموعے نے اردو شاعری میں انقلاب برپا کر دیا۔'' ایک لحاظ سے سماجی، معاشرتی، سیاسی و معاشی ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کی جڑوں سے پھوٹ نکلنے والی یہ شاعری دلوں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے بے ساختہ پہنچ رکھتی تھی کیونکہ پروین کے احساسات و خیالات معاشرتی زندگی کے حقیقی ترجمانی کر رہے تھے۔
پروین کی شاعری، معاشرتی تضاد سے ٹکراتی ہوئی، اس کی حساسیت کا ردعمل ہے۔ جب نئے خیال اور احساس کی سچائی دقیانوسی رویوں میں دراڑیں ڈالنے لگتی ہیں تو ہر سمت سے ناپسندیدگی کے پتھروں کی بارش تخلیق کار پر ہونے لگتی ہے۔ سچا فن ہمیشہ مخالفتوں کی تیز و تند ہواؤں میں اپنے لو جلائے رکھتا ہے۔
اسی تناظر میں ایران کی شاعرہ فروغ فرخ زاد ہے۔ جو انداز فکر اور حالات زندگی کے حوالے سے، پروین سے کمال کی مشابہت رکھتی ہے۔ دو مختلف خطوں کے لوگ کس طرح انداز بیاں و ٹوٹے ہوئے احساس میں کس قدر شراکت داری رکھتے ہیں۔ تہران کے متوسط گھرانے میں پیدا ہونے والی فروغ فرخ زاد کی شاعری، اس کے دور کی سیاسی، سماجی و معاشرتی زندگی کے تضادات کا عکس ہے۔ فروغ کی حساسیت نے بھی نامساعد حالات کے تھپیڑے کھائے، جو پروین کی زندگی کا حصہ تھے۔
حساس و ذہین عورتوں کے دکھ مشترکہ ہوتے ہیں۔ فروغ کی شادی سترہ سال میں ہوئی تھی۔ چند سالوں میں یہ بندھن ٹوٹ گیا۔ فروغ نے بیٹا شوہر کے حوالے کر دیا۔ پروین کی شادی بھی چند سالوں سے زیادہ قائم نہ رہ سکی۔
عقب میں گہرا سمندر ہے' سامنے جنگل
کس انتہا پہ میرا مہربان چھوڑ گیا
پروین نے دل کا سکون بیٹے کے چہرے میں ڈھونڈا۔ فروغ اور پروین کی الگ نظمیں ہیں جو انھوں نے بیٹے کو مخاطب کر کے لکھی ہیں۔ فروغ کو روایتی معاشرے میں علیحدگی کا دکھ شدت کے ساتھ بھگتنا پڑا مگر وہ ایک باغی روح تھی۔ اس کا تخیل روایتوں سے انحرافی تھا۔ وہ بھی پروین کی طرح پسند کے آسماں کو چھونا چاہتی تھی۔
اسے یقین تھا کہ وہ ایک دن اس دکھ سے فرار حاصل کر لے گی۔ ان واہموں سے نجات پا لے گی جو شکوک کا پیش خیمہ بنتے ہیں۔ اسے خوشبو بن کے بکھر جانے کا سلیقہ آتا تھا۔ وہ احساس جو رنگین خواب کے پھول کے مانند فضاؤں میں سانس لیتا تھا۔ کبھی وہ سوچتی کہ وہ رات کے سیاہ بالوں میں مغربی ہوا کی طرح مدغم ہو چلی ہے۔ کبھی وہ سورج سے روشن ساحلوں کی طرف محو سفر ہو جاتی۔ دائمی سکون کی تلاش میں، ایک خاموش دنیا کو پانے کے لیے۔
پروین اور فروغ نے مرد کے خواہش کے پنجرے سے رہائی پا لی۔ دونوں کی شاعری کو سمجھنے کے لیے تصوراتی قوت، وجد کی کیفیت و سرمستی کا ہونا ضروری ہے۔ پروین کی طرح فروغ کی موت بھی روڈ ایکسیڈنٹ میں ہوئی۔ درحقیقت خوشبو کو فنا کے ہاتھ نہیں چھو سکتے۔
پروین کی کتابیں خوشبو، صدبرگ، خودکلامی اور انکار کے روپ میں اس کے افکارات کئی نسلوں کے احساس کی نگہبانی کرتے رہیں گے۔ اس کی شاعری میں ان تمام تر المیوں کا ذکر ہے، جو ہر نسل کے خوابوں کا تعاقب کرتے ہیں۔
میں برگ برگ اس کو نمو بخشتی رہی
وہ شاخ شاخ میری جڑیں کاٹتا رہا
بارش ہریالی بانٹتی ہے۔ بالکل اسی طرح محبت کی تاثیر زندگی عطا کرنا ہے۔ سانپ کا کام ہے ڈسنا۔ کچھ لوگ یہ ہنر کمال کا رکھتے ہیں۔
اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں
روز اک موت نئے طرز کی ایجاد کرے
مرد کے بنائے ہوئے اس معاشرے میں حساس عورت کی تکالیف ناگزیر ہیں۔ جہاں الزام تراشی کے موسم سدا ہرے بھرے رہتے ہیں۔ اپنی نظم گلہ میں پروین خدا سے گلہ کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔
اے خدا
میری آواز سے ساحری چھین کر
تُو نے سانپوں کی بستی میں کیوں پیدا کیا مجھ کو؟
مجھے پروین کا آخری انٹرویو یاد ہے۔ وہ سفید لباس میں ملبوس سادگی و متانت سے جواب دے رہی تھی۔ جدانی کیفیات کی حامل اس خوبصورت شاعرہ نے یہ شعر پڑھ کے اپنی موت کی پیشگوئی قبل از وقت کردی۔
موت کی آہٹ سنائی دیتی ہے دل میں کیوں
کیا محبت سے بہت خالی یہ گھر ہونے کو ہے
پروین شاکر کی شاعری کے مختلف حوالے ہیں۔ ہر حوالہ اپنی جگہ فکر انگیز اور احساس کی گہرائی کو چھو جاتا ہے۔ رومانیت پسندی سے لے کر عہد حاضر کے المیوں و پاکستانی سیاست کے پیچیدہ پس منظر تک، پروین آگہی کے عذاب سے گزرتے ہوئے، شعور و لاشعور کے راستوں پر آبلہ پا چلتی دکھائی دیتی ہے۔
وقت کے ساتھ عناصر بھی رہے سازش میں
جل گئے پیڑ کبھی دھوپ کبھی بارش میں
پروین کا پہلا مجموعہ خواب بنتی ہوئی آنکھوں کا ثمر تھا۔ وہ خواب، جو انفرادی سوچ تک محدود نہیں تھے۔ بلکہ اجتماعی شعور کے حوالے سے اپنی تعبیر ڈھونڈتے تھے۔ امید، مستقل حبس زدہ ماحول میں ایک دریچہ تازہ ہوا کے لیے کھلا رکھتی ہے۔
دست بہار کا لمس
وصف گویائی دے سکے گا
یہ زرد رُت جلد بیت جائے گی
سبز موسم قریب تر ہے
پروین کے شعر کی خوبصورتی داخلیت پسندی ہے۔ یہ داخلی اظہار، جو روح کا روشن دان باہر کی فضاؤں کی طرف کھول دیتا ہے۔ پروین من کی راہوں کی مسافر تھی۔ وہ وجود کے اندرونی راستوں پر سفر کرتی ہوئی، کائنات کے سچ کو کھوجتی تھی۔
میں اپنے سورج سے
ہزاروں نوری سال کے فاصلے پر ہوں
کائنات کی بے اندازہ وسعت میں
ایک تنہا سیارہ ہوں
یہ تنہائی کا احساس، انسان کو کائنات سے جوڑ دیتا ہے۔ من کی شاخ اگر خالی ہے تو احساس کی کوئل بے اختیار کوکنے لگتی ہے۔ تنہائی، خوبصورت لمحوں کو کشید کرتی ہے۔ وجود سے لے کر زندگی اور کائنات تک بہت کچھ دریافت کرتی ہے۔
شاخ بدن کو تازہ پھول نشانی دے
کوئی تو ہو جو میری جڑوں کو پانی دے
زندگی اسی ایک المیے کے گرد گھومتی ہے۔ جب بھٹکتے احساس کو سائبان نہ مل سکے۔ جب سانسیں تازگی اور آنکھیں روشنی سے محروم ہو جائیں۔ دریا اپنا پانی ہر جگہ بانٹتا رہے۔ جب کہ اس کے کنارے پر لہلہلاتے پودے مرجھا جائیں سیراب ہوئے بغیر۔ یہ المیہ فقط پروین کی زندگی کا نہیں تھا۔ ہر حساس سوچ و خیال کا ہے۔ جسے سر اٹھانے کے لیے سورج مکھی کی طرح، آفتاب کی کرنوں کا سہارا چاہیے۔ یہ حساسیت ہمیشہ تعلق کی خوبصورتی کے تانے بانے بنتی ہے۔
1967ء سے پروین کے اشعار جمہوری رویوں، سچائی، امن و آشتی، یکجہتی، انصاف، رواداری و محبت کا پرچار کرتے رہے تھے۔ یہ شاعری طبقاتی کشمکش، پسماندہ و اظہار کے طاقت سے محروم طبقوں کی ترجمانی کرنے لگی۔ بقول ایک نقاد کے کہ ''پروین شاکر کا پہلا شعری مجموعہ ''خوشبو'' شایع ہوا۔ پروین شاکر کی عمر پچیس سال تھی۔
اس مجموعے نے اردو شاعری میں انقلاب برپا کر دیا۔'' ایک لحاظ سے سماجی، معاشرتی، سیاسی و معاشی ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کی جڑوں سے پھوٹ نکلنے والی یہ شاعری دلوں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے بے ساختہ پہنچ رکھتی تھی کیونکہ پروین کے احساسات و خیالات معاشرتی زندگی کے حقیقی ترجمانی کر رہے تھے۔
پروین کی شاعری، معاشرتی تضاد سے ٹکراتی ہوئی، اس کی حساسیت کا ردعمل ہے۔ جب نئے خیال اور احساس کی سچائی دقیانوسی رویوں میں دراڑیں ڈالنے لگتی ہیں تو ہر سمت سے ناپسندیدگی کے پتھروں کی بارش تخلیق کار پر ہونے لگتی ہے۔ سچا فن ہمیشہ مخالفتوں کی تیز و تند ہواؤں میں اپنے لو جلائے رکھتا ہے۔
اسی تناظر میں ایران کی شاعرہ فروغ فرخ زاد ہے۔ جو انداز فکر اور حالات زندگی کے حوالے سے، پروین سے کمال کی مشابہت رکھتی ہے۔ دو مختلف خطوں کے لوگ کس طرح انداز بیاں و ٹوٹے ہوئے احساس میں کس قدر شراکت داری رکھتے ہیں۔ تہران کے متوسط گھرانے میں پیدا ہونے والی فروغ فرخ زاد کی شاعری، اس کے دور کی سیاسی، سماجی و معاشرتی زندگی کے تضادات کا عکس ہے۔ فروغ کی حساسیت نے بھی نامساعد حالات کے تھپیڑے کھائے، جو پروین کی زندگی کا حصہ تھے۔
حساس و ذہین عورتوں کے دکھ مشترکہ ہوتے ہیں۔ فروغ کی شادی سترہ سال میں ہوئی تھی۔ چند سالوں میں یہ بندھن ٹوٹ گیا۔ فروغ نے بیٹا شوہر کے حوالے کر دیا۔ پروین کی شادی بھی چند سالوں سے زیادہ قائم نہ رہ سکی۔
عقب میں گہرا سمندر ہے' سامنے جنگل
کس انتہا پہ میرا مہربان چھوڑ گیا
پروین نے دل کا سکون بیٹے کے چہرے میں ڈھونڈا۔ فروغ اور پروین کی الگ نظمیں ہیں جو انھوں نے بیٹے کو مخاطب کر کے لکھی ہیں۔ فروغ کو روایتی معاشرے میں علیحدگی کا دکھ شدت کے ساتھ بھگتنا پڑا مگر وہ ایک باغی روح تھی۔ اس کا تخیل روایتوں سے انحرافی تھا۔ وہ بھی پروین کی طرح پسند کے آسماں کو چھونا چاہتی تھی۔
اسے یقین تھا کہ وہ ایک دن اس دکھ سے فرار حاصل کر لے گی۔ ان واہموں سے نجات پا لے گی جو شکوک کا پیش خیمہ بنتے ہیں۔ اسے خوشبو بن کے بکھر جانے کا سلیقہ آتا تھا۔ وہ احساس جو رنگین خواب کے پھول کے مانند فضاؤں میں سانس لیتا تھا۔ کبھی وہ سوچتی کہ وہ رات کے سیاہ بالوں میں مغربی ہوا کی طرح مدغم ہو چلی ہے۔ کبھی وہ سورج سے روشن ساحلوں کی طرف محو سفر ہو جاتی۔ دائمی سکون کی تلاش میں، ایک خاموش دنیا کو پانے کے لیے۔
پروین اور فروغ نے مرد کے خواہش کے پنجرے سے رہائی پا لی۔ دونوں کی شاعری کو سمجھنے کے لیے تصوراتی قوت، وجد کی کیفیت و سرمستی کا ہونا ضروری ہے۔ پروین کی طرح فروغ کی موت بھی روڈ ایکسیڈنٹ میں ہوئی۔ درحقیقت خوشبو کو فنا کے ہاتھ نہیں چھو سکتے۔
پروین کی کتابیں خوشبو، صدبرگ، خودکلامی اور انکار کے روپ میں اس کے افکارات کئی نسلوں کے احساس کی نگہبانی کرتے رہیں گے۔ اس کی شاعری میں ان تمام تر المیوں کا ذکر ہے، جو ہر نسل کے خوابوں کا تعاقب کرتے ہیں۔
میں برگ برگ اس کو نمو بخشتی رہی
وہ شاخ شاخ میری جڑیں کاٹتا رہا
بارش ہریالی بانٹتی ہے۔ بالکل اسی طرح محبت کی تاثیر زندگی عطا کرنا ہے۔ سانپ کا کام ہے ڈسنا۔ کچھ لوگ یہ ہنر کمال کا رکھتے ہیں۔
اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں
روز اک موت نئے طرز کی ایجاد کرے
مرد کے بنائے ہوئے اس معاشرے میں حساس عورت کی تکالیف ناگزیر ہیں۔ جہاں الزام تراشی کے موسم سدا ہرے بھرے رہتے ہیں۔ اپنی نظم گلہ میں پروین خدا سے گلہ کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔
اے خدا
میری آواز سے ساحری چھین کر
تُو نے سانپوں کی بستی میں کیوں پیدا کیا مجھ کو؟
مجھے پروین کا آخری انٹرویو یاد ہے۔ وہ سفید لباس میں ملبوس سادگی و متانت سے جواب دے رہی تھی۔ جدانی کیفیات کی حامل اس خوبصورت شاعرہ نے یہ شعر پڑھ کے اپنی موت کی پیشگوئی قبل از وقت کردی۔
موت کی آہٹ سنائی دیتی ہے دل میں کیوں
کیا محبت سے بہت خالی یہ گھر ہونے کو ہے