خودی نہ بیچ
وہ دونوں ایک ٹی وی چینل پر بیٹھے حالاتِ حاضرہ پر اپنی ماہرانہ رائے دے رہے تھے۔
وہ دونوں ایک ٹی وی چینل پر بیٹھے حالاتِ حاضرہ پر اپنی ماہرانہ رائے دے رہے تھے۔ وہ ایک دوسرے سے بڑھ کر دورکی کوڑیاں لانے کی کوششوں میں مصروف حکومت پر برس رہے تھے اوراس کے پچھلے ڈھائی سالہ اقدامات کوکڑی تنقید کا نشانہ بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔نہیں معلوم انھیں زرداری و مشرف حکومتوں کی کارکردگی اس سے بہتر محسوس ہو رہی تھیں یا وہ کسی اور وجہ سے ایسا کر رہے تھے۔
ان کے مطابق موجودہ حکومت نے پچھلے ڈھائی سال میں ملک کو نقصان پہنچانے والے اقدامات کیے تھے جن سے مایوس ہو کرعوام اب کسی اور ادارے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ وہ موجودہ حکومت کی کارکردگی صفر قرار دے رہے تھے اور اپنی باتوں سے یہ تاثر د ے رہے تھے کہ اس حکومت نے کوئی وعدہ پورا نہیں کیا، اس میں اور ماضی کی حکومتوں میں کوئی فرق نہیں۔وہ تند وترش لہجے میں دعوے کررہے تھے کہ اس حکومت نے کچھ ڈلیور نہیں کیا۔ نہ کوئی گورننس ہے، نہ امن وامان بہتر ہوا، نہ مہنگائی کم ہوئی، صرف پٹرول تھوڑا سستا ہوا وہ بھی ان کا کوئی کمال نہیں،وہ تو عالمی منڈی میں ہی قیمتیں گرگئیں۔ بقول ان کے ہر شعبے میں اس حکومت کی کارکردگی صفر تھی۔
میں حیرت سے ان نامور، تجربہ کارصحافیوں کی گفتگو سن رہاتھا جو قیمتی ڈیزائنر سوٹ میں ملبوس تھے،جو مارشل لاؤں اور جمہوری ادوارکی باریکیوں ،حقائق اورکارکردگیوں سے اچھی طرح واقف تھے مگر معاشرے کی آنکھیں اور زبان کہلانے والے یہ لوگ کس قدرمنفی انداز میں اپنی زبان و قلم کا استعمال کررہے تھے۔
گزشتہ چند سالوں سے ہمارے یہاں یہ سلسلہ چل نکلا ہے کہ ہرشخص ہفتے میں چاردن،ایک گھنٹہ روزانہ کرنٹ افیئر یا ٹاک شو کے نام پر ٹی وی پر آبیٹھتا یا بیٹھتی ہے اور ریٹنگ کی خاطر نجانے کیا کچھ کہتا چلا جاتا ہے۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ میرے ٹی وی پر بیٹھے اور اخبارات میں لکھنے والے یہ دوست خدا کی عطا کردہ صلاحیتوں کا استعمال کس مقصد کے لیے کررہے تھے،کیا یہ حق کا پرچم بلند کررہے تھے یا فقط اپنی خواہشات، ڈیزائنرز سوٹ اور دنیا کی سیروسیاحت کی خاطر ان کا سودا کرچکے تھے ؟
میں سلام کرتا ہوں علامہ اقبال کو جو تنگ دستی جھیلتے رہے ، اپنا گھرتک نہ بناسکے، آخری وقت تک اپنے بیٹے کے گھر پر رہتے اور اسے ماہانہ کرایہ ادا کرتے رہے مگر انھوں نے اپنی خودی پر کبھی آنچ نہ آنے دی، اپنی صلاحیتوں کو اپنی یا اپنے اہلِ خانہ کی خواہشات پوری کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا۔
اقبال جیسی معروف شخصیت جو اگر چاہتے تو ان کی پہنچ میں پوری دنیا کی نعمتیں و آسائشیں تھیں ،جس کے صرف ایک اشارے ،ایک چھوٹے سے سمجھوتے پر وہ اور ان کی فیملی بادشاہوں کی سی زندگی بسر کرسکتے تھے ۔پھر نہ ان کی بیوی کو ان سے کوئی شکوہ ہوتا نہ اولاد کو کوئی گلہ... مگر انھوں نے اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں کو اسی کی راہ میں خرچ کیا،اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے نہیں۔ انھوں نے اپنے اس شعرکا مجسم روپ بن کر دکھایا کہ '' تیرا طریق امیری نہیں فقیری ہے ، خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر۔''
لارڈ ولنگٹن جو متحدہ ہندوستان کا سترواں وائسرائے تھا، اس کی علامہ اقبال سے پہلی ملاقات لندن میں تیسری گول میز کانفرنس کے موقعے پرہوئی، وہ اقبال کی شخصیت سے بے حد متاثر ہوا، ہندوستان پہنچ کر اس نے شاعر مشرق کو جنوبی افریقہ میں سفارت کی پیش کش کردی، جوکہ اس دورکا ایک بہت بڑا عہدہ تھا،علامہ اقبال نے پیش کش سن کر پوچھا ''اس عہدے میں انھیں کرنا کیا ہوگا''تو انھیں آگاہ کیا گیا '' کچھ نہیں، بس آپ اپنی اہلیہ کو سرکاری تقریبات میں لے کر جائیں گے''علامہ صاحب نے وائسرائے کو پیغام بجھوایا '' بے شک میں ایک گناہگار مسلمان ہوں، مجھ سے شریعت کی پابندی میں کوتاہی ہوجاتی ہے لیکن میں اس کے باوجودصرف معمولی سے سرکاری عہدے کے لیے یہ ذلت برداشت نہیں کرسکتا، سفارت کے لیے شریعت کا حکم نہیں توڑ سکتا۔''
میںیہ ٹاک اور تجزیاتی شوز دیکھ اور اخبارات میں سیاہ کو سفید اورسفید کا سیاہ ثابت کرنے والی تحریروں کو پڑھ کر یہ سوچنے لگتا ہوں کیا ہم اسی اقبال کے جانشین ہیں،کیا ہم اسی کے نقش ِقدم پر چل رہے ہیں،کیا ہم واقعی اپنی خودی کے بارے میں کبھی سوچنے کی زحمت بھی کرتے ہیں؟ کیا ہم ہی وہ شاہین ہیں جن کے لیے انھوں نے کہا تھا کہ ''خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیداکر'' ... ہم جو ذرا سے مفاد کی خاطر اپنا دین ایمان سب کچھ قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا واقعی موجودہ حکومت نااہل ہے ،اس نے پچھلے ڈھائی سال میں کچھ نہیں کیا؟ اگر یہ سچ ہے تو پھرکراچی ، بلوچستان ، فاٹا میں امن کیسے بحال ہوا جو پچھلی کئی دہائیوں سے بدترین شکل اختیارکرچکا تھا؟ ہمیں غیر جانبداری سے جائزہ لینا ہوگا کہ پچھلے ڈھائی سالوں میں اس حکومت نے جو فیصلے کیے ان سے ملک کو فائدہ پہنچا یا نقصان؟ ہمیں غورکرنا ہوگا کہ مشکل وقت میں خواہ وہ یمن سعودی تنازع کے وقت اپنی فوج سعودی عرب بھیجنے نہ بھیجنے کے فیصلے کا موقع ہو،آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردی کا، زلزلوںسے تباہی کا،اس حکومت نے بروقت، بڑے اور مشکل فیصلے کیے یا نہیں؟ اس حکومت نے اقوام متحدہ کے دباؤ کے باوجود دوبارہ پھانسی کی سزا دینا شروع کی یا نہیں جو زرداری ومشرف حکومت نہ کرسکی۔
جس پر عمل درآمد کی وجہ سے ڈھائی سو سے زیادہ خطرناک مجرموں کو پھانسی دی گئی جس کے نتیجے میں کراچی و ملک کے دیگر علاقوں میں امن وامان کی صورتحال بہتر ہوئی،اس نے پاکستان میں کئی دہائیوں سے جاری دہشت گردی کے خلاف ضرب عضب جیسا بڑا اور پیچیدہ آپریشن شروع کرنے کا جرات مندانہ فیصلہ کیا یا نہیں جس کی کامیابی کا اعتراف قوم سمیت امریکا ، یورپ پوری دنیا کر رہی ہے۔
میرے تمام اہلِ نظر دوست اللہ کوگواہ بنا کر بتائیں کیا معیشت میں کوئی بہتری نہیں آئی، مہنگائی کم نہیں ہوئی، سڑکوں، موٹروے کے جال بچھانے اورمیٹرو بس سے غریب عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا،کیا وہ موجودہ حکومت کو بلاوجہ ہی ہر الیکشن میں ووٹ دیتے جارہے ہیں،کیا ملک میں لوڈ شیڈنگ،کراچی میں ہڑتالیں،عوام میں پھیلی مایوسی میں کوئی کمی نہیں آئی؟ کیا تین سال قبل کے پاکستان کی دنیا میں زیادہ عزت تھی یا آج کے؟ آج چائنا پاکستان راہ داری جیسا بڑا ، گیم چینجر منصوبہ بننے جا رہا ہے جس نے ہمارے دشمنوں کی نیندیں اُڑ ادی کیا ایسا کوئی منصوبہ پچھلی حکومتوںمیںبھی کبھی بنا؟آج امریکا کے بجائے پاکستان الحمداللہ امریکا سے ڈو مور کا مطالبہ کر رہاہے کیا پہلے کبھی ایسا ہوا؟ آج بھارتی وزیر ِ اعظم پاکستانی وزیر اعظم سے مصافحہ کرنے کے لیے خود آگے بڑھ کر پہل کرتا ہے۔کیا یہ سب اس حکومت کی ناکامیوں کی جانب اشارے ہیں؟
یقینا اس حکومت کی کارکردگی صفر نہیں ہے، ہمیں اپنی آنکھوں سے ذاتی مفاد کی عینک اتار کر دوسروں کی دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ ان کی کوتاہیوں کے ساتھ ان کی کامیابیوں کا اقرار کرنے کا حوصلہ بھی اپنے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔اگر ہم خود میں یہ مثبت تبدیلی پیدا کرلیں تو شاید لوگ بعد میں ہمیں اچھے ناموں سے یادکریں ورنہ یقین کیجیے کہ عوام ہم میں سے ہرکسی کو پہچانتے ہیں لیکن ہمیں اس کا ادراک وقت گزر جانے کے بعد ہوتا ہے۔
ان کے مطابق موجودہ حکومت نے پچھلے ڈھائی سال میں ملک کو نقصان پہنچانے والے اقدامات کیے تھے جن سے مایوس ہو کرعوام اب کسی اور ادارے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ وہ موجودہ حکومت کی کارکردگی صفر قرار دے رہے تھے اور اپنی باتوں سے یہ تاثر د ے رہے تھے کہ اس حکومت نے کوئی وعدہ پورا نہیں کیا، اس میں اور ماضی کی حکومتوں میں کوئی فرق نہیں۔وہ تند وترش لہجے میں دعوے کررہے تھے کہ اس حکومت نے کچھ ڈلیور نہیں کیا۔ نہ کوئی گورننس ہے، نہ امن وامان بہتر ہوا، نہ مہنگائی کم ہوئی، صرف پٹرول تھوڑا سستا ہوا وہ بھی ان کا کوئی کمال نہیں،وہ تو عالمی منڈی میں ہی قیمتیں گرگئیں۔ بقول ان کے ہر شعبے میں اس حکومت کی کارکردگی صفر تھی۔
میں حیرت سے ان نامور، تجربہ کارصحافیوں کی گفتگو سن رہاتھا جو قیمتی ڈیزائنر سوٹ میں ملبوس تھے،جو مارشل لاؤں اور جمہوری ادوارکی باریکیوں ،حقائق اورکارکردگیوں سے اچھی طرح واقف تھے مگر معاشرے کی آنکھیں اور زبان کہلانے والے یہ لوگ کس قدرمنفی انداز میں اپنی زبان و قلم کا استعمال کررہے تھے۔
گزشتہ چند سالوں سے ہمارے یہاں یہ سلسلہ چل نکلا ہے کہ ہرشخص ہفتے میں چاردن،ایک گھنٹہ روزانہ کرنٹ افیئر یا ٹاک شو کے نام پر ٹی وی پر آبیٹھتا یا بیٹھتی ہے اور ریٹنگ کی خاطر نجانے کیا کچھ کہتا چلا جاتا ہے۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ میرے ٹی وی پر بیٹھے اور اخبارات میں لکھنے والے یہ دوست خدا کی عطا کردہ صلاحیتوں کا استعمال کس مقصد کے لیے کررہے تھے،کیا یہ حق کا پرچم بلند کررہے تھے یا فقط اپنی خواہشات، ڈیزائنرز سوٹ اور دنیا کی سیروسیاحت کی خاطر ان کا سودا کرچکے تھے ؟
میں سلام کرتا ہوں علامہ اقبال کو جو تنگ دستی جھیلتے رہے ، اپنا گھرتک نہ بناسکے، آخری وقت تک اپنے بیٹے کے گھر پر رہتے اور اسے ماہانہ کرایہ ادا کرتے رہے مگر انھوں نے اپنی خودی پر کبھی آنچ نہ آنے دی، اپنی صلاحیتوں کو اپنی یا اپنے اہلِ خانہ کی خواہشات پوری کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا۔
اقبال جیسی معروف شخصیت جو اگر چاہتے تو ان کی پہنچ میں پوری دنیا کی نعمتیں و آسائشیں تھیں ،جس کے صرف ایک اشارے ،ایک چھوٹے سے سمجھوتے پر وہ اور ان کی فیملی بادشاہوں کی سی زندگی بسر کرسکتے تھے ۔پھر نہ ان کی بیوی کو ان سے کوئی شکوہ ہوتا نہ اولاد کو کوئی گلہ... مگر انھوں نے اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں کو اسی کی راہ میں خرچ کیا،اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے نہیں۔ انھوں نے اپنے اس شعرکا مجسم روپ بن کر دکھایا کہ '' تیرا طریق امیری نہیں فقیری ہے ، خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر۔''
لارڈ ولنگٹن جو متحدہ ہندوستان کا سترواں وائسرائے تھا، اس کی علامہ اقبال سے پہلی ملاقات لندن میں تیسری گول میز کانفرنس کے موقعے پرہوئی، وہ اقبال کی شخصیت سے بے حد متاثر ہوا، ہندوستان پہنچ کر اس نے شاعر مشرق کو جنوبی افریقہ میں سفارت کی پیش کش کردی، جوکہ اس دورکا ایک بہت بڑا عہدہ تھا،علامہ اقبال نے پیش کش سن کر پوچھا ''اس عہدے میں انھیں کرنا کیا ہوگا''تو انھیں آگاہ کیا گیا '' کچھ نہیں، بس آپ اپنی اہلیہ کو سرکاری تقریبات میں لے کر جائیں گے''علامہ صاحب نے وائسرائے کو پیغام بجھوایا '' بے شک میں ایک گناہگار مسلمان ہوں، مجھ سے شریعت کی پابندی میں کوتاہی ہوجاتی ہے لیکن میں اس کے باوجودصرف معمولی سے سرکاری عہدے کے لیے یہ ذلت برداشت نہیں کرسکتا، سفارت کے لیے شریعت کا حکم نہیں توڑ سکتا۔''
میںیہ ٹاک اور تجزیاتی شوز دیکھ اور اخبارات میں سیاہ کو سفید اورسفید کا سیاہ ثابت کرنے والی تحریروں کو پڑھ کر یہ سوچنے لگتا ہوں کیا ہم اسی اقبال کے جانشین ہیں،کیا ہم اسی کے نقش ِقدم پر چل رہے ہیں،کیا ہم واقعی اپنی خودی کے بارے میں کبھی سوچنے کی زحمت بھی کرتے ہیں؟ کیا ہم ہی وہ شاہین ہیں جن کے لیے انھوں نے کہا تھا کہ ''خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیداکر'' ... ہم جو ذرا سے مفاد کی خاطر اپنا دین ایمان سب کچھ قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا واقعی موجودہ حکومت نااہل ہے ،اس نے پچھلے ڈھائی سال میں کچھ نہیں کیا؟ اگر یہ سچ ہے تو پھرکراچی ، بلوچستان ، فاٹا میں امن کیسے بحال ہوا جو پچھلی کئی دہائیوں سے بدترین شکل اختیارکرچکا تھا؟ ہمیں غیر جانبداری سے جائزہ لینا ہوگا کہ پچھلے ڈھائی سالوں میں اس حکومت نے جو فیصلے کیے ان سے ملک کو فائدہ پہنچا یا نقصان؟ ہمیں غورکرنا ہوگا کہ مشکل وقت میں خواہ وہ یمن سعودی تنازع کے وقت اپنی فوج سعودی عرب بھیجنے نہ بھیجنے کے فیصلے کا موقع ہو،آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردی کا، زلزلوںسے تباہی کا،اس حکومت نے بروقت، بڑے اور مشکل فیصلے کیے یا نہیں؟ اس حکومت نے اقوام متحدہ کے دباؤ کے باوجود دوبارہ پھانسی کی سزا دینا شروع کی یا نہیں جو زرداری ومشرف حکومت نہ کرسکی۔
جس پر عمل درآمد کی وجہ سے ڈھائی سو سے زیادہ خطرناک مجرموں کو پھانسی دی گئی جس کے نتیجے میں کراچی و ملک کے دیگر علاقوں میں امن وامان کی صورتحال بہتر ہوئی،اس نے پاکستان میں کئی دہائیوں سے جاری دہشت گردی کے خلاف ضرب عضب جیسا بڑا اور پیچیدہ آپریشن شروع کرنے کا جرات مندانہ فیصلہ کیا یا نہیں جس کی کامیابی کا اعتراف قوم سمیت امریکا ، یورپ پوری دنیا کر رہی ہے۔
میرے تمام اہلِ نظر دوست اللہ کوگواہ بنا کر بتائیں کیا معیشت میں کوئی بہتری نہیں آئی، مہنگائی کم نہیں ہوئی، سڑکوں، موٹروے کے جال بچھانے اورمیٹرو بس سے غریب عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا،کیا وہ موجودہ حکومت کو بلاوجہ ہی ہر الیکشن میں ووٹ دیتے جارہے ہیں،کیا ملک میں لوڈ شیڈنگ،کراچی میں ہڑتالیں،عوام میں پھیلی مایوسی میں کوئی کمی نہیں آئی؟ کیا تین سال قبل کے پاکستان کی دنیا میں زیادہ عزت تھی یا آج کے؟ آج چائنا پاکستان راہ داری جیسا بڑا ، گیم چینجر منصوبہ بننے جا رہا ہے جس نے ہمارے دشمنوں کی نیندیں اُڑ ادی کیا ایسا کوئی منصوبہ پچھلی حکومتوںمیںبھی کبھی بنا؟آج امریکا کے بجائے پاکستان الحمداللہ امریکا سے ڈو مور کا مطالبہ کر رہاہے کیا پہلے کبھی ایسا ہوا؟ آج بھارتی وزیر ِ اعظم پاکستانی وزیر اعظم سے مصافحہ کرنے کے لیے خود آگے بڑھ کر پہل کرتا ہے۔کیا یہ سب اس حکومت کی ناکامیوں کی جانب اشارے ہیں؟
یقینا اس حکومت کی کارکردگی صفر نہیں ہے، ہمیں اپنی آنکھوں سے ذاتی مفاد کی عینک اتار کر دوسروں کی دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ ان کی کوتاہیوں کے ساتھ ان کی کامیابیوں کا اقرار کرنے کا حوصلہ بھی اپنے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔اگر ہم خود میں یہ مثبت تبدیلی پیدا کرلیں تو شاید لوگ بعد میں ہمیں اچھے ناموں سے یادکریں ورنہ یقین کیجیے کہ عوام ہم میں سے ہرکسی کو پہچانتے ہیں لیکن ہمیں اس کا ادراک وقت گزر جانے کے بعد ہوتا ہے۔