محض باتوں سے مسائل حل نہیں ہوں گے
بلوچستان کے تمام مسائل کا حل حکومت کی اولین ترجیح ہے
وزیر اعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف نے اپنے پہلے ایک روزہ مختصر دورہ کوئٹہ کے دوران ناراض بلوچ رہنمائوں کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہاہے کہ بلوچستان کے تمام مسائل کا حل حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ بلوچستان کے لوگ محب وطن، باعزت اور غیرت مند ہیں۔ صوبے کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والے افراد کون ہیں؟ ان کی کیا شناخت و مقاصد ہیں؟ سوچنا ہوگا کہ یہاں کس نے آگ لگائی ہے۔ عقل، جرأت مندی، بہادری اور مثبت سوچ سے ایسی سازشوں کا مقابلہ کرکے انہیں ناکام بنانا ہوگا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کے پرچم اور چھتری تلے اندر اور باہر بیٹھے لوگوں سے مذاکرات کیلئے ہم تیار ہیں۔ ہم سیاسی لوگ ہیں اور مذکرات کے ذریعے ہی تمام مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ جائز مطالبات ، جائز خواہشات اور مثبت منصوبہ بندی کو خوش آمدید کہیں گے۔ ہم دوسرے ممالک سے مذاکرات کرتے ہیں تو اپنوں سے کیوں نہیں کریں گے تاہم یہ مذاکرات بحیثیت پاکستانی ہوںگے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دہشت گردی، امن و امان کی خراب صورتحال اور بلوچستان کے حالات ہمیں ورثے میں ملے ہیں۔ بلوچستان میں ڈکٹیٹر کے اقدامات نے جلتی پرتیل کا کام کیا۔
طاقت سے حالات مزید خراب ہوتے ہیں۔ دنیا میں کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کا حل نہ ہو۔ ماضی میں آمرانہ قوتوں نے بلوچستان کے معاملات کو بزور طاقت حل کرنے کیلئے جو اقدامات کئے، اس سے نفرتوں میں اضافہ ہوا۔ نفرتوں کی اس آگ کو ہم ٹھنڈا کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں ۔ یہی وجہ تھی کہ صدر مملکت آصف علی زرداری نے ماضی کی نا انصافیوں پر بلوچوںسے معافی مانگی جو ایک نئی صبح کا آغاز تھا۔
اس پالیسی کے تحت بلوچستان میں اتحادی حکومت قائم ہوئی اور وزیراعلیٰ نواب رئیسانی تمام معاملات کو آگے لے کر بڑھے۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ بلوچستان سے پسماندگی کے خاتمے کے لئے ہمیں پیٹ پر پتھر باندھنا پڑے تو باندھیں گے لیکن بلوچستان میںترقی و خوشحالی کے سفر کو کسی طور پر بھی رکنے نہیں دیا جائے گااور بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے ہر ممکن تعاون جاری رہے گا۔
وزیراعظم نے اپنے اس مختصر دورے کے دوران صوبائی کابینہ سے خطاب کے علاوہ گورنر نواب ذوالفقار مگسی وزیر اعلیٰ نواب اسلم رئیسانی سے بھی الگ الگ ملاقاتیں کیں اسکے علاوہ انہیں بلوچستان کی ترقی و خوشحالی اور امن و امان کے حوالے سے بھی بریفنگ دی گئی۔ وزیراعظم نے اسلام آباد روانگی سے قبل پارٹی کے ورکروں سے بھی ملاقات کی۔ دوسری جانب گزشتہ دنوں اسلام آباد میں بلوچستان کے گورنر نواب ذوالفقار مگسی نے صدر زرداری سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں صدر زرداری نے ایک مرتبہ پھر یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ بلوچستان میں قیام امن کیلئے حکومت ہرممکن اقدامات کررہی ہے۔
بلوچستان حکومت کو قیام امن کیلئے جن وسائل کی ضرورت ہوئی وفاقی حکومت وہ فراہم کرے گی۔ اس موقع پر صدر زرداری نے گورنر بلوچستان کو ٹاسک دیتے ہوئے ہدایت کی کہ وہ ناراض بلوچ رہنمائوں سے بات کریں اور ان کے جو مسائل اور تحفظات ہیں ان کے بارے میں جلد ایک رپورٹ مرتب کرکے بھیجیں۔
سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان کے حوالے سے ایسی باتیں صدر مملکت اور وزیراعظم کی سطح پر کافی عرصے سے سننے میں آرہی ہیں لیکن کوئی عملی اقدامات دیکھنے میں نہیں آرہے۔ ان حلقوں کے مطابق خود گورنر اور وزیراعلیٰ بھی اپنی بے بسی ظاہر کررہے ہیں۔ وہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ انہیں مینڈیٹ حاصل نہیں کہ وہ آگے بڑھیں۔
ان حلقوں کے مطابق اب صدر مملکت نے گورنر بلوچستان کو ٹاسک تو دیا ہے۔ کیا گورنر کے پاس کوئی مینڈیٹ ہے کہ وہ ایسے کوئی اقدامات کریں جس سے کوئی بات چیت آگے چل سکے۔ حکومت اب تک ایسا کوئی ماحول بھی سازگار بنانے میں بھی کامیاب نہیں ہوئی کہ اس پرکوئی اعتبار کرے۔ ان سیاسی حلقوں کے مطابق حکومت کو چاہئے کہ پہلے وہ ایسے عملی اقدامات کرے جس سے اعتماد سازی کی فضا قائم ہو اور بات چیت کے لئے کوئی راستہ کھلے۔ ابھی تک ایسے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔
ان حلقوں کے مطابق حکومت اپنے سابقہ اعلان بلوچستان کے حوالے سے اے پی سی بلائے جس میں صوبے کے تمام سٹیک ہولڈر قوم پرستوں، قبائلی عمائدین اور سیاسی جماعتوں کو دعوت دے اور اس لئے حکومت کے کرتا دھرتائوں کو آگے آنا ہوگا۔ ماحول کو مذاکرات کے لئے سازگار بنانا ہوگا۔ اور بلوچستان کے حوالے سے ایسے بولڈ فیصلے کرنے ہوںگے جس سے تمام سٹیک ہولڈرز سیاسی جماعتیں اور قوم پرست مطمئن ہوں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کے پرچم اور چھتری تلے اندر اور باہر بیٹھے لوگوں سے مذاکرات کیلئے ہم تیار ہیں۔ ہم سیاسی لوگ ہیں اور مذکرات کے ذریعے ہی تمام مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ جائز مطالبات ، جائز خواہشات اور مثبت منصوبہ بندی کو خوش آمدید کہیں گے۔ ہم دوسرے ممالک سے مذاکرات کرتے ہیں تو اپنوں سے کیوں نہیں کریں گے تاہم یہ مذاکرات بحیثیت پاکستانی ہوںگے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دہشت گردی، امن و امان کی خراب صورتحال اور بلوچستان کے حالات ہمیں ورثے میں ملے ہیں۔ بلوچستان میں ڈکٹیٹر کے اقدامات نے جلتی پرتیل کا کام کیا۔
طاقت سے حالات مزید خراب ہوتے ہیں۔ دنیا میں کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کا حل نہ ہو۔ ماضی میں آمرانہ قوتوں نے بلوچستان کے معاملات کو بزور طاقت حل کرنے کیلئے جو اقدامات کئے، اس سے نفرتوں میں اضافہ ہوا۔ نفرتوں کی اس آگ کو ہم ٹھنڈا کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں ۔ یہی وجہ تھی کہ صدر مملکت آصف علی زرداری نے ماضی کی نا انصافیوں پر بلوچوںسے معافی مانگی جو ایک نئی صبح کا آغاز تھا۔
اس پالیسی کے تحت بلوچستان میں اتحادی حکومت قائم ہوئی اور وزیراعلیٰ نواب رئیسانی تمام معاملات کو آگے لے کر بڑھے۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ بلوچستان سے پسماندگی کے خاتمے کے لئے ہمیں پیٹ پر پتھر باندھنا پڑے تو باندھیں گے لیکن بلوچستان میںترقی و خوشحالی کے سفر کو کسی طور پر بھی رکنے نہیں دیا جائے گااور بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے ہر ممکن تعاون جاری رہے گا۔
وزیراعظم نے اپنے اس مختصر دورے کے دوران صوبائی کابینہ سے خطاب کے علاوہ گورنر نواب ذوالفقار مگسی وزیر اعلیٰ نواب اسلم رئیسانی سے بھی الگ الگ ملاقاتیں کیں اسکے علاوہ انہیں بلوچستان کی ترقی و خوشحالی اور امن و امان کے حوالے سے بھی بریفنگ دی گئی۔ وزیراعظم نے اسلام آباد روانگی سے قبل پارٹی کے ورکروں سے بھی ملاقات کی۔ دوسری جانب گزشتہ دنوں اسلام آباد میں بلوچستان کے گورنر نواب ذوالفقار مگسی نے صدر زرداری سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں صدر زرداری نے ایک مرتبہ پھر یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ بلوچستان میں قیام امن کیلئے حکومت ہرممکن اقدامات کررہی ہے۔
بلوچستان حکومت کو قیام امن کیلئے جن وسائل کی ضرورت ہوئی وفاقی حکومت وہ فراہم کرے گی۔ اس موقع پر صدر زرداری نے گورنر بلوچستان کو ٹاسک دیتے ہوئے ہدایت کی کہ وہ ناراض بلوچ رہنمائوں سے بات کریں اور ان کے جو مسائل اور تحفظات ہیں ان کے بارے میں جلد ایک رپورٹ مرتب کرکے بھیجیں۔
سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان کے حوالے سے ایسی باتیں صدر مملکت اور وزیراعظم کی سطح پر کافی عرصے سے سننے میں آرہی ہیں لیکن کوئی عملی اقدامات دیکھنے میں نہیں آرہے۔ ان حلقوں کے مطابق خود گورنر اور وزیراعلیٰ بھی اپنی بے بسی ظاہر کررہے ہیں۔ وہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ انہیں مینڈیٹ حاصل نہیں کہ وہ آگے بڑھیں۔
ان حلقوں کے مطابق اب صدر مملکت نے گورنر بلوچستان کو ٹاسک تو دیا ہے۔ کیا گورنر کے پاس کوئی مینڈیٹ ہے کہ وہ ایسے کوئی اقدامات کریں جس سے کوئی بات چیت آگے چل سکے۔ حکومت اب تک ایسا کوئی ماحول بھی سازگار بنانے میں بھی کامیاب نہیں ہوئی کہ اس پرکوئی اعتبار کرے۔ ان سیاسی حلقوں کے مطابق حکومت کو چاہئے کہ پہلے وہ ایسے عملی اقدامات کرے جس سے اعتماد سازی کی فضا قائم ہو اور بات چیت کے لئے کوئی راستہ کھلے۔ ابھی تک ایسے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔
ان حلقوں کے مطابق حکومت اپنے سابقہ اعلان بلوچستان کے حوالے سے اے پی سی بلائے جس میں صوبے کے تمام سٹیک ہولڈر قوم پرستوں، قبائلی عمائدین اور سیاسی جماعتوں کو دعوت دے اور اس لئے حکومت کے کرتا دھرتائوں کو آگے آنا ہوگا۔ ماحول کو مذاکرات کے لئے سازگار بنانا ہوگا۔ اور بلوچستان کے حوالے سے ایسے بولڈ فیصلے کرنے ہوںگے جس سے تمام سٹیک ہولڈرز سیاسی جماعتیں اور قوم پرست مطمئن ہوں۔