گلوبل وارمنگعالمی خطرہ اب بھی کچھ نہ کیا تو کیا ہوگا
اگر گلوبل وارمنگ کی تباہ کاریاں اسی طرح جاری رہیں تو تمام عناصرشدید ہوجائیں گے
لاہور:
دنیا آج سے نہیں نہ جانے کب سے گلوبل وارمنگ کے خطرے سے دوچار ہے۔ ہمارے ماہرین ایک طویل عرصے سے ساری دنیا کے لوگوں کو اس متوقع عالمی تباہی کے بارے میں بتارہے ہیں، مگر ایسا لگ رہا ہے کہ دنیا بھر کے لوگ اس وارننگ کو کوئی اہمیت نہیں دے رہے ہیں، بلکہ انہوں نے یہ سوچ لیا ہے کہ جب وہ وقت آئے گا تب دیکھی جائے گی۔
انہیں نہ تو اس خطرے کی سنگینی کا کوئی احساس ہے اور نہ ہی وہ اس سے بچاؤ کے لیے کچھ کررہے ہیں، یعنی ان کی جانب سے اس ضمن میں عملی اقدامات نہیں کیے جارہے اور نہ ہی کوئی غور و فکر کیا جارہا ہے۔
اب تو صورت حال کچھ ایسی ہوگئی ہے کہ ہم یہ نہیں کہیں گے کہ خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے، بل کہ خطرہ ظاہر ہوچکا ہے اور اس نے اپنے اثرات بھی دکھانے شروع کردیے ہیں۔ اگر اب بھی ہماری آنکھیں نہیں کھلیں تو کب کھلیں گی؟ ہم اس خواب غفلت سے کب بیدار ہوں گے؟ اگر ہم نے اب بھی ہنگامی اقدامات نہ کیے تو یہ کرۂ ارض تباہ ہوجائے گا۔
اس کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ اس پر موجود انسانی آبادیاں اپنے نشان تک کھوبیٹھیں گی۔ کیا کسی کو اس بات کا احساس ہے کہ اگر ہم نے گلوبل وارمنگ کے اس خوف ناک عفریت سے نمٹنے کے لیے اب بھی کچھ نہ کیا تو کیا ہوگا؟ دنیا میں کہاں کہاں کس کس نوعیت کی تبدیلیاں آجائیں گی اور کتنے عرصے میں دنیا معدومیت کی طرف چلی جائے گی؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے، بل کہ دیگر تمام مسائل چھوڑ کر اسے ہنگامی طور پر ترجیح دینی چاہیے۔
دنیا بھر کے ماحولیاتی ماہرین اور سائنس داں کہتے ہیں کہ اگر گلوبل وارمنگ کی موجودہ صورت حال اسی طرح برقرار رہی تو کیا کیا ہوگا، اس کا اندازہ ان حقائق سے لگایا جاسکتا ہے:
دنیا میں ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت اور نقل مکانی کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوجائے گا جس کی وجہ سے دنیا کے مختلف ملکوں میں آبادیوں کا توازن ہی درہم برہم ہوجائے گا۔ لوگ پناہ کی تلاش میں نئی زمینوں کی طرف جانے لگیں گے۔ کاروبار کی تلاش بھی انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جائے گی جس کے بعد مہاجرین اور پناہ گزینوں کا وہ بحران پیدا ہوگا جو ساری دنیا کو ہی ابتری اور انتشار کی طرف لے جائے گا اور ہر طرف بدامنی کی صورت حال پیدا ہوجائے گی۔
ہماری زمین کا درجۂ حرارت تو پہلے ہی بڑھ چکا ہے، اس میں خوف ناک حد تک اضافہ انسانی اور حیوانی زندگیوں کے لیے ایسے خطرات پیدا کردے گا کہ وہ اپنا وجود تک کھونے لگیں گی۔ دنیا کے متعدد ملکوں کے متعدد نشیبی یا ساحلی شہر جزوی طور پر سمندر برد ہوجائیں گے اور اس طرح کبھی کے آباد شہر زیر آب آکر آبی دنیا کو آباد کردیں گے۔ پانی کی کمی اور خشک سالی اس صورت حال کو مزید بگاڑ دے گی۔
بارشیں نہیں ہوں گی تو لوگوں کو پینے کا پانی کہاں سے ملے گا؟ اسی طرح اگر گلیشیر بھی پگھلتے رہے تو کچھ ہی عرصے میں وہ سمندروں میں گرکر اپنا وجود کھودیں گے۔ دریا، پانی کی چشمے اور آبشار بھی رفتہ رفتہ خشک ہوتے چلے جائیں گے۔
اس حوالے سے دنیا بھر کی مہذب سوسائٹیاں اپنی اپنی حیثیت اور اپنی اپنی گنجائش و وسائل کے مطابق آواز بلند کررہی ہیں۔ اس اہم مسئلے پر غور و فکر کرنے کے لیے 30 نومبر کو فرانس کے دارالحکومت پیرس میں دنیا کی 195اقوام جمع ہورہی ہیں جو عالمی ماحولیات کے موضوع پر بات چیت کے بعد ایک ایسا مربوط معاہدہ کریں گی جس کے نتیجے میں ایسے اقدامات کیے جاسکیں گے جس سے اس کرۂ ارض کو اس خطرناک ماحول سے بچاکر صاف ستھرا کیا جاسکے۔
ہمیں کسی نہ کسی طرح اپنی دنیا کو زہریلی گیسوں اور خراب ماحول سے بچانا ہے اور اپنی آب و ہوا کو اتنا صاف ستھرا اور ہر طرح کی آلودگی سے پاک بنانا ہے کہ یہ جگہ طویل عرصے تک انسانوں اور دیگر جان داروں کے رہنے کے قابل بنی رہے۔اگر ہم نے اب بھی اپنے کرۂ ارض کو ماحولیاتی آلودگی سے بچانے کے لیے فوری اور ہنگامی اقدامات نہ کیے تو درج ذیل اہم مسائل کھڑے ہوسکتے ہیں:
٭شدید درجۂ حرارت یعنی شدید گرمی یا سردی:اگر ہم نے اب بھی گلوبل وارمنگ کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر کچھ نہ کیا تو اس صدی کے اختتام تک ہماری زمین کا درجۂ حرارت چار درجے سینٹی گریڈ (7.2 فیرن ہائٹ) تک بڑھ جائے گا۔ یہ وہ عنصر ہے جو اس دنیا کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے لیے اکیلا ہی کافی ہوگا۔اقوام متحدہ کے بین الحکومتی پینل برائے آب و ہوا کی تبدیلی (IPCC) کے مطابق: ہماری ملوں، فیکٹریوں اور کارخانوں کی چمنیاں جس طرح ہماری فضاؤں میں اپنا زہریلا دھواں گھول رہی ہیں، وہ انسانی اور حیوانی دونوں ہی زندگیوں پر نہایت مہلک اور ناقابل علاج و خطرناک اثرات مرتب کریں گی۔
٭سمندروں کی سطح بلند ہوجائے گی: IPCC نے اپنے تازہ ترین تجزیہ میں اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ 1986سے 2005کے درمیان ہمارے سمندروں میں پانی کی جو سطح تھی، اس کے مقابلے میں 2100 تک دنیا کے سبھی سمندروں میں پانی کی سطح 26سے 82سینٹی میٹر یعنی 10سے 32انچ تک بلند ہوجائے گی۔
اس تجزیہ میں 2012تک کے اعداد و شمار شامل ہیں۔ لیکن تازہ ترین مطالعات میں اس خدشے کا اظہار بھی کیا جارہا ہے کہ سمندروں کی سطحوں میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ سمندروں میں پانی کی سطح میں اضافے کا بڑا سبب گرین لینڈ اور انٹارکٹیکا میں برف کی دبیز اور موٹی چادروں کا پگھلنا ہے جو اب پہلے سے کہیں زیادہ تیزی سے پگھل رہی ہیں۔ اس پر گلیشیئرز نے پگھل کر سمندروں میں پانی کی سطح اور بھی بلند کردی ہے۔ جیسے جیسے کرۂ ارض کی گرمی بڑھ رہی ہے، ویسے ویسے ہمارے سمندر بھی تیزی سے بلند ہورہے ہیں۔
ایک امریکی ریسرچ گروپ کلائمیٹ سینٹرل کے مطابق: اقوام متحدہ نے درجۂ حرارت میں 2سینٹی گریڈ کے اضافے کی جو پیش گوئی کی ہے، اس کی وجہ سے وہ زمین جزوی طور پر زیر آب آجائے گی جس پر اس وقت دنیا بھر کے لگ بھر 280 ملین افراد رہتے بستے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ تبدیلی چند سو برسوں میں ہو یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسے ہونے میں 2000برس لگ جائیں۔
٭شدید ترین موسم: گلوبل وارمنگ کی وجہ سے سپر اسٹورمز (شدید ترین طوفان) ہڈیوں میں گودا جمادینے والی یخ بستہ ہوائیں اور نہایت شدید گرمی، یہ موسم زیادہ عام بھی ہوجائیں گے اور شدید ترین بھی ہوسکتے ہیں جو اس کرے کو اور اس پر بسنے والی زندگی کو ختم کرسکتا ہے۔
اگر گلوبل وارمنگ کی تباہ کاریاں اسی طرح جاری رہیں اور ہم نے اس کے سدباب کے لیے فوری طور پر اقدامات نہ کیے تو یہ تمام عناصر اس قدر شدید ہوجائیں گے کہ ان کی وجہ سے خوف ناک سیلاب، برف کے ناقابل بیان طوفان، بگولوں، آندھیوں اور شدید ہوا کے جھکڑوں والے طوفان اور گرمی کی لہریں اور بھی شدید ہوجائیں گی جن کے بعد اس کرۂ ارض پر انسان اور جانور کا رہنا محال ہوجائے گا۔ لیکن سائنس داں یہ بھی کہتے ہیں کہ سبھی سمندری اور ہوائی طوفانوں کی ذمے دار آب و ہوا کی تبدیلی یا گلوبل وارمنگ نہیں ہے، اس کے پیچھے بعض دیگر ماحولیاتی عوامل بھی ہوسکتے ہیں۔
٭پانی کا سنگین مسئلہ: گلوبل وارمنگ کے باعث ایک طرف شدید قسم کی طویل خشک سالی اور قحط بھی آسکتے ہیں تو دوسری طرف تباہ کن سیلاب بھی اسی کی وجہ سے آئیں گے۔ اس کا ایک سیدھا اور صاف مطلب یہ ہوگا کہ دنیا کے بعض خطوں میں تو پانی ناپید ہوجائے گا جس کی وجہ سے انسانیت کی بقا اور سلامتی کے لیے خطرات پیدا ہوجائیں گے اور بعض خطوں میں اتنا زیادہ ہوگا کہ وہاں یہی پانی انسان اور انسانیت کو تباہ کرڈالے گا۔
شدید سیلاب ہمیشہ سے انسان کو، اس کے کاروبار اور اس کے گھر یعنی اس کی پناہ گاہ کو اجاڑ کر اسے تباہ و برباد کرتے رہے ہیں۔ حال ہی میں شام اور کیلی فورنیا میں ہونے والی خشک سالی اور قحط کی صورت حال کے پیچھے آب و ہوا کی تبدیلی ہی کارفرما رہی ہے۔ تیز اور موسلا دھار بارشیں تباہ کن سیلابوں کا سبب بن کر لوگوں کو ان کی جانوں سے محروم کررہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ان کے گھر اور ان کی فصلیں بھی تباہ کررہی ہیں، گویا ان کی وجہ سے پوری انسانیت اجڑنے کی طرف جارہی ہے۔
٭انسانی اور سماجی شعور کا بحران: گلوبل وارمنگ مہلک بیماریوں کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتی ہے۔ اس کی وجہ سے کھڑی اور تیار فصلیں تباہ ہوں گی تو زراعت پر انحصار کرنے والے کاشت کار اور کسان تباہ ہوجائیں گے اور یہ بحران انہیں مزید غربت اور مزید بے روزگاری کی طرف دھکیل دے گا۔
پانی کی کمی کا مسئلہ ہو یا فصلوں کی تباہی، یہ سب لوگوں کے درمیان لڑائی جھگڑے کا سبب بنے گا اور اس کے نتیجے میں لوگ بڑے پیمانے پر ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے پر مجبور ہوجائیں گے، کیوں کہ ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بھی تو نہیں ہوگا۔اس کے علاوہ وہ لوگ جو نشیبی علاقوں یا جزیروں پر رہتے ہیں جیسے مالدیپ کے لوگ، وہ سب سمندر کی سطح میں اضافے کی وجہ سے اپنے گھروں کو چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کی کوشش کریں گے۔
واضح رہے کہ مالدیپ بحرہند کا ایک مجموعہ الجزائر ہے جو سمندر میں اس طرح دکھائی دیتا ہے جیسے اسے ایک پلیٹ کی صورت میں پانی پر رکھ دیا گیا ہو۔ اس کے علاوہ فلپائن بھی بے شمار جزائر کا مجموعہ ہے جو سمندر کے اوپر اس طرح رکھا ہوا ہے کہ اس کی سطح کے لگ بھگ ساتھ ہے۔ یہاں کے لوگ بھی ماحولیاتی مہاجر بن جائیں گے اور اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
اس وقت ساری دنیا میں یہ صورت حال ہے کہ وسائل سے محروم غریب اور نادار افراد شدید گرمی کا نشانہ بنتے ہیں۔ انہی لوگوں پر خشک سالی بھی قہر بن کر گرتی ہے، انہی کو سیلاب بھی بہالے جاتے ہیں، ان لوگوں کے گھر بار، ان کے مویشی سب کچھ سیلاب کی نذر ہوجاتے ہیں، یہی بے چارے قحط کا بھی شکار ہوتے ہیں۔
اس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک تو یہ لوگ ہر بنیادی سہولت سے پہلے ہی محروم ہیں، اوپر سے انہیں مطلوبہ عوامی خدمات بھی میسر نہیں ہیں، گویا محروم زیادہ محروم ہیں اور اسی لیے وہ مظلوم ترین بن چکے ہیں۔ایک طرف تو ہم مسلسل ایسی دل شکن باتیں پڑھتے رہتے ہیں جن سے ہمارے حوصلے پست ہوتے ہیں۔ مگر درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ ہمارا کرۂ ارض زندہ ہے، اس پر اﷲ کی مہربانی ہے کہ اس نے اسے ہوا، پانی، دھوپ اور دیگر نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔ اس نے ہمیں عقل و شعور بھی عطا کیا ہے۔ ہم اپنی دانش سے کام لے کر ہی اس مسئلے سے نمٹ سکتے ہیں۔
ابھی وقت ہمارے ہاتھ سے نہیں نکلا ہے۔ ابھی بہت دیر نہیں ہوئی ہے۔ ہم اپنی اس پیاری زمین کو بچا بھی سکتے ہیں اور اسے ہر طرح کا تحفظ دے کر اسے رنگ برنگا، ہرا بھرا اور آباد رکھ سکتے ہیں۔ یہ دنیا، یہ زمین کسی کی ذاتی ملکیت نہیں، بل کہ دنیا بھر میں رہنے اور بسنے والے سبھی لوگوں کا مشترکہ اور اجتماعی گھر ہے۔ یہ سب اس سے بے پناہ پیار کرتے ہیں اور اس کی سلامتی کے لیے سب کچھ کرسکتے ہیں اور کرنے کو تیار ہیں۔ اگر ہم اس کے تحفظ کے لیے ڈٹ جائیں تو کیا ممکن نہیں ہوسکتا؟
ہمارے ارضیاتی، ماحولیاتی ماہرین اور سائنس داں ایک چیز پر متفق ہیں، وہ یہ کہ ہمارا یہ سیارہ زندہ ہے۔ یہ ماہرین اس زمین کے نظاموں کو صحیح طور پر جاننے اور سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔
ہماری زمین بھی ہمارے ماہرین کی ان کوششوں کو دیکھ رہی ہوگی، اگر اس نے یہ جان لیا کہ ہم اس سے محبت کرتے ہیں تو یہ زمین کبھی سمندر کے اندر نہیں جائے گی بل کہ اپنا سر فخر سے بلند کرکے اسے پانی سے بلند ہی رکھے گی، ہر گز نہیں ڈوبے گی، لیکن ساتھ ساتھ ہمیں اس زمین سے اپنی محبت اور وفاداری کے تقاضے بھی پورے کرنے ہوں گے، جس طرح ہم اپنے کسی دوست کو بیماری کے حالت میں مرنے نہیں دیتے، بل کہ اسے بچانے کے لیے اس کا علاج کراتے ہیں، اسے اسپتال میں داخل کراتے ہیں، اسی طرح ہمارے اس کرۂ ارض کو اس وقت ہماری خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ ہمیں اسے بچانے کے لیے اپنا کردار پوری ایمان داری سے ادا کرنا ہوگا۔
گلوبل وارمنگ کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہمیں چند چیزوں پر توجہ دینی ہوگی:
٭ہمیں اپنی زمین کو زیادہ سرسبز اور زیادہ شاداب بنانے کے لیے اس پر درخت لگانے کی ایک پوری مہم چلانی ہوگی اور اس زمین کو درختوں سے بھرنا ہوگا۔ زیادہ سے زیادہ درخت لگانے سے ہماری زمین کو یہ فائدہ ہوگا کہ مہلک گیسوں کو اپنے اندر جذب کرلیں گے اور ہمارے ماحول کو صاف ستھرا کردیں گے۔
٭ہمیں اپنے لیے قابل تجدید توانائی renewable energy کا انتخاب کرنا ہوگا۔ ایندھن کے استعمال میں ہر طرح کی احتیاط کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔
٭ اس دنیا کو صاف ستھرا اور آلودگی سے پاک رکھنا ہمارا بنیادی فرض ہونا چاہیے۔ ہمیں عہد کرنا ہوگا کہ ہم اس فرض کی ادائیگی میں کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہیں کریں گے۔
دنیا آج سے نہیں نہ جانے کب سے گلوبل وارمنگ کے خطرے سے دوچار ہے۔ ہمارے ماہرین ایک طویل عرصے سے ساری دنیا کے لوگوں کو اس متوقع عالمی تباہی کے بارے میں بتارہے ہیں، مگر ایسا لگ رہا ہے کہ دنیا بھر کے لوگ اس وارننگ کو کوئی اہمیت نہیں دے رہے ہیں، بلکہ انہوں نے یہ سوچ لیا ہے کہ جب وہ وقت آئے گا تب دیکھی جائے گی۔
انہیں نہ تو اس خطرے کی سنگینی کا کوئی احساس ہے اور نہ ہی وہ اس سے بچاؤ کے لیے کچھ کررہے ہیں، یعنی ان کی جانب سے اس ضمن میں عملی اقدامات نہیں کیے جارہے اور نہ ہی کوئی غور و فکر کیا جارہا ہے۔
اب تو صورت حال کچھ ایسی ہوگئی ہے کہ ہم یہ نہیں کہیں گے کہ خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے، بل کہ خطرہ ظاہر ہوچکا ہے اور اس نے اپنے اثرات بھی دکھانے شروع کردیے ہیں۔ اگر اب بھی ہماری آنکھیں نہیں کھلیں تو کب کھلیں گی؟ ہم اس خواب غفلت سے کب بیدار ہوں گے؟ اگر ہم نے اب بھی ہنگامی اقدامات نہ کیے تو یہ کرۂ ارض تباہ ہوجائے گا۔
اس کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ اس پر موجود انسانی آبادیاں اپنے نشان تک کھوبیٹھیں گی۔ کیا کسی کو اس بات کا احساس ہے کہ اگر ہم نے گلوبل وارمنگ کے اس خوف ناک عفریت سے نمٹنے کے لیے اب بھی کچھ نہ کیا تو کیا ہوگا؟ دنیا میں کہاں کہاں کس کس نوعیت کی تبدیلیاں آجائیں گی اور کتنے عرصے میں دنیا معدومیت کی طرف چلی جائے گی؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے، بل کہ دیگر تمام مسائل چھوڑ کر اسے ہنگامی طور پر ترجیح دینی چاہیے۔
دنیا بھر کے ماحولیاتی ماہرین اور سائنس داں کہتے ہیں کہ اگر گلوبل وارمنگ کی موجودہ صورت حال اسی طرح برقرار رہی تو کیا کیا ہوگا، اس کا اندازہ ان حقائق سے لگایا جاسکتا ہے:
دنیا میں ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت اور نقل مکانی کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوجائے گا جس کی وجہ سے دنیا کے مختلف ملکوں میں آبادیوں کا توازن ہی درہم برہم ہوجائے گا۔ لوگ پناہ کی تلاش میں نئی زمینوں کی طرف جانے لگیں گے۔ کاروبار کی تلاش بھی انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جائے گی جس کے بعد مہاجرین اور پناہ گزینوں کا وہ بحران پیدا ہوگا جو ساری دنیا کو ہی ابتری اور انتشار کی طرف لے جائے گا اور ہر طرف بدامنی کی صورت حال پیدا ہوجائے گی۔
ہماری زمین کا درجۂ حرارت تو پہلے ہی بڑھ چکا ہے، اس میں خوف ناک حد تک اضافہ انسانی اور حیوانی زندگیوں کے لیے ایسے خطرات پیدا کردے گا کہ وہ اپنا وجود تک کھونے لگیں گی۔ دنیا کے متعدد ملکوں کے متعدد نشیبی یا ساحلی شہر جزوی طور پر سمندر برد ہوجائیں گے اور اس طرح کبھی کے آباد شہر زیر آب آکر آبی دنیا کو آباد کردیں گے۔ پانی کی کمی اور خشک سالی اس صورت حال کو مزید بگاڑ دے گی۔
بارشیں نہیں ہوں گی تو لوگوں کو پینے کا پانی کہاں سے ملے گا؟ اسی طرح اگر گلیشیر بھی پگھلتے رہے تو کچھ ہی عرصے میں وہ سمندروں میں گرکر اپنا وجود کھودیں گے۔ دریا، پانی کی چشمے اور آبشار بھی رفتہ رفتہ خشک ہوتے چلے جائیں گے۔
اس حوالے سے دنیا بھر کی مہذب سوسائٹیاں اپنی اپنی حیثیت اور اپنی اپنی گنجائش و وسائل کے مطابق آواز بلند کررہی ہیں۔ اس اہم مسئلے پر غور و فکر کرنے کے لیے 30 نومبر کو فرانس کے دارالحکومت پیرس میں دنیا کی 195اقوام جمع ہورہی ہیں جو عالمی ماحولیات کے موضوع پر بات چیت کے بعد ایک ایسا مربوط معاہدہ کریں گی جس کے نتیجے میں ایسے اقدامات کیے جاسکیں گے جس سے اس کرۂ ارض کو اس خطرناک ماحول سے بچاکر صاف ستھرا کیا جاسکے۔
ہمیں کسی نہ کسی طرح اپنی دنیا کو زہریلی گیسوں اور خراب ماحول سے بچانا ہے اور اپنی آب و ہوا کو اتنا صاف ستھرا اور ہر طرح کی آلودگی سے پاک بنانا ہے کہ یہ جگہ طویل عرصے تک انسانوں اور دیگر جان داروں کے رہنے کے قابل بنی رہے۔اگر ہم نے اب بھی اپنے کرۂ ارض کو ماحولیاتی آلودگی سے بچانے کے لیے فوری اور ہنگامی اقدامات نہ کیے تو درج ذیل اہم مسائل کھڑے ہوسکتے ہیں:
٭شدید درجۂ حرارت یعنی شدید گرمی یا سردی:اگر ہم نے اب بھی گلوبل وارمنگ کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر کچھ نہ کیا تو اس صدی کے اختتام تک ہماری زمین کا درجۂ حرارت چار درجے سینٹی گریڈ (7.2 فیرن ہائٹ) تک بڑھ جائے گا۔ یہ وہ عنصر ہے جو اس دنیا کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے لیے اکیلا ہی کافی ہوگا۔اقوام متحدہ کے بین الحکومتی پینل برائے آب و ہوا کی تبدیلی (IPCC) کے مطابق: ہماری ملوں، فیکٹریوں اور کارخانوں کی چمنیاں جس طرح ہماری فضاؤں میں اپنا زہریلا دھواں گھول رہی ہیں، وہ انسانی اور حیوانی دونوں ہی زندگیوں پر نہایت مہلک اور ناقابل علاج و خطرناک اثرات مرتب کریں گی۔
٭سمندروں کی سطح بلند ہوجائے گی: IPCC نے اپنے تازہ ترین تجزیہ میں اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ 1986سے 2005کے درمیان ہمارے سمندروں میں پانی کی جو سطح تھی، اس کے مقابلے میں 2100 تک دنیا کے سبھی سمندروں میں پانی کی سطح 26سے 82سینٹی میٹر یعنی 10سے 32انچ تک بلند ہوجائے گی۔
اس تجزیہ میں 2012تک کے اعداد و شمار شامل ہیں۔ لیکن تازہ ترین مطالعات میں اس خدشے کا اظہار بھی کیا جارہا ہے کہ سمندروں کی سطحوں میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ سمندروں میں پانی کی سطح میں اضافے کا بڑا سبب گرین لینڈ اور انٹارکٹیکا میں برف کی دبیز اور موٹی چادروں کا پگھلنا ہے جو اب پہلے سے کہیں زیادہ تیزی سے پگھل رہی ہیں۔ اس پر گلیشیئرز نے پگھل کر سمندروں میں پانی کی سطح اور بھی بلند کردی ہے۔ جیسے جیسے کرۂ ارض کی گرمی بڑھ رہی ہے، ویسے ویسے ہمارے سمندر بھی تیزی سے بلند ہورہے ہیں۔
ایک امریکی ریسرچ گروپ کلائمیٹ سینٹرل کے مطابق: اقوام متحدہ نے درجۂ حرارت میں 2سینٹی گریڈ کے اضافے کی جو پیش گوئی کی ہے، اس کی وجہ سے وہ زمین جزوی طور پر زیر آب آجائے گی جس پر اس وقت دنیا بھر کے لگ بھر 280 ملین افراد رہتے بستے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ تبدیلی چند سو برسوں میں ہو یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسے ہونے میں 2000برس لگ جائیں۔
٭شدید ترین موسم: گلوبل وارمنگ کی وجہ سے سپر اسٹورمز (شدید ترین طوفان) ہڈیوں میں گودا جمادینے والی یخ بستہ ہوائیں اور نہایت شدید گرمی، یہ موسم زیادہ عام بھی ہوجائیں گے اور شدید ترین بھی ہوسکتے ہیں جو اس کرے کو اور اس پر بسنے والی زندگی کو ختم کرسکتا ہے۔
اگر گلوبل وارمنگ کی تباہ کاریاں اسی طرح جاری رہیں اور ہم نے اس کے سدباب کے لیے فوری طور پر اقدامات نہ کیے تو یہ تمام عناصر اس قدر شدید ہوجائیں گے کہ ان کی وجہ سے خوف ناک سیلاب، برف کے ناقابل بیان طوفان، بگولوں، آندھیوں اور شدید ہوا کے جھکڑوں والے طوفان اور گرمی کی لہریں اور بھی شدید ہوجائیں گی جن کے بعد اس کرۂ ارض پر انسان اور جانور کا رہنا محال ہوجائے گا۔ لیکن سائنس داں یہ بھی کہتے ہیں کہ سبھی سمندری اور ہوائی طوفانوں کی ذمے دار آب و ہوا کی تبدیلی یا گلوبل وارمنگ نہیں ہے، اس کے پیچھے بعض دیگر ماحولیاتی عوامل بھی ہوسکتے ہیں۔
٭پانی کا سنگین مسئلہ: گلوبل وارمنگ کے باعث ایک طرف شدید قسم کی طویل خشک سالی اور قحط بھی آسکتے ہیں تو دوسری طرف تباہ کن سیلاب بھی اسی کی وجہ سے آئیں گے۔ اس کا ایک سیدھا اور صاف مطلب یہ ہوگا کہ دنیا کے بعض خطوں میں تو پانی ناپید ہوجائے گا جس کی وجہ سے انسانیت کی بقا اور سلامتی کے لیے خطرات پیدا ہوجائیں گے اور بعض خطوں میں اتنا زیادہ ہوگا کہ وہاں یہی پانی انسان اور انسانیت کو تباہ کرڈالے گا۔
شدید سیلاب ہمیشہ سے انسان کو، اس کے کاروبار اور اس کے گھر یعنی اس کی پناہ گاہ کو اجاڑ کر اسے تباہ و برباد کرتے رہے ہیں۔ حال ہی میں شام اور کیلی فورنیا میں ہونے والی خشک سالی اور قحط کی صورت حال کے پیچھے آب و ہوا کی تبدیلی ہی کارفرما رہی ہے۔ تیز اور موسلا دھار بارشیں تباہ کن سیلابوں کا سبب بن کر لوگوں کو ان کی جانوں سے محروم کررہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ان کے گھر اور ان کی فصلیں بھی تباہ کررہی ہیں، گویا ان کی وجہ سے پوری انسانیت اجڑنے کی طرف جارہی ہے۔
٭انسانی اور سماجی شعور کا بحران: گلوبل وارمنگ مہلک بیماریوں کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتی ہے۔ اس کی وجہ سے کھڑی اور تیار فصلیں تباہ ہوں گی تو زراعت پر انحصار کرنے والے کاشت کار اور کسان تباہ ہوجائیں گے اور یہ بحران انہیں مزید غربت اور مزید بے روزگاری کی طرف دھکیل دے گا۔
پانی کی کمی کا مسئلہ ہو یا فصلوں کی تباہی، یہ سب لوگوں کے درمیان لڑائی جھگڑے کا سبب بنے گا اور اس کے نتیجے میں لوگ بڑے پیمانے پر ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے پر مجبور ہوجائیں گے، کیوں کہ ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بھی تو نہیں ہوگا۔اس کے علاوہ وہ لوگ جو نشیبی علاقوں یا جزیروں پر رہتے ہیں جیسے مالدیپ کے لوگ، وہ سب سمندر کی سطح میں اضافے کی وجہ سے اپنے گھروں کو چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کی کوشش کریں گے۔
واضح رہے کہ مالدیپ بحرہند کا ایک مجموعہ الجزائر ہے جو سمندر میں اس طرح دکھائی دیتا ہے جیسے اسے ایک پلیٹ کی صورت میں پانی پر رکھ دیا گیا ہو۔ اس کے علاوہ فلپائن بھی بے شمار جزائر کا مجموعہ ہے جو سمندر کے اوپر اس طرح رکھا ہوا ہے کہ اس کی سطح کے لگ بھگ ساتھ ہے۔ یہاں کے لوگ بھی ماحولیاتی مہاجر بن جائیں گے اور اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
اس وقت ساری دنیا میں یہ صورت حال ہے کہ وسائل سے محروم غریب اور نادار افراد شدید گرمی کا نشانہ بنتے ہیں۔ انہی لوگوں پر خشک سالی بھی قہر بن کر گرتی ہے، انہی کو سیلاب بھی بہالے جاتے ہیں، ان لوگوں کے گھر بار، ان کے مویشی سب کچھ سیلاب کی نذر ہوجاتے ہیں، یہی بے چارے قحط کا بھی شکار ہوتے ہیں۔
اس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک تو یہ لوگ ہر بنیادی سہولت سے پہلے ہی محروم ہیں، اوپر سے انہیں مطلوبہ عوامی خدمات بھی میسر نہیں ہیں، گویا محروم زیادہ محروم ہیں اور اسی لیے وہ مظلوم ترین بن چکے ہیں۔ایک طرف تو ہم مسلسل ایسی دل شکن باتیں پڑھتے رہتے ہیں جن سے ہمارے حوصلے پست ہوتے ہیں۔ مگر درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ ہمارا کرۂ ارض زندہ ہے، اس پر اﷲ کی مہربانی ہے کہ اس نے اسے ہوا، پانی، دھوپ اور دیگر نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔ اس نے ہمیں عقل و شعور بھی عطا کیا ہے۔ ہم اپنی دانش سے کام لے کر ہی اس مسئلے سے نمٹ سکتے ہیں۔
ابھی وقت ہمارے ہاتھ سے نہیں نکلا ہے۔ ابھی بہت دیر نہیں ہوئی ہے۔ ہم اپنی اس پیاری زمین کو بچا بھی سکتے ہیں اور اسے ہر طرح کا تحفظ دے کر اسے رنگ برنگا، ہرا بھرا اور آباد رکھ سکتے ہیں۔ یہ دنیا، یہ زمین کسی کی ذاتی ملکیت نہیں، بل کہ دنیا بھر میں رہنے اور بسنے والے سبھی لوگوں کا مشترکہ اور اجتماعی گھر ہے۔ یہ سب اس سے بے پناہ پیار کرتے ہیں اور اس کی سلامتی کے لیے سب کچھ کرسکتے ہیں اور کرنے کو تیار ہیں۔ اگر ہم اس کے تحفظ کے لیے ڈٹ جائیں تو کیا ممکن نہیں ہوسکتا؟
ہمارے ارضیاتی، ماحولیاتی ماہرین اور سائنس داں ایک چیز پر متفق ہیں، وہ یہ کہ ہمارا یہ سیارہ زندہ ہے۔ یہ ماہرین اس زمین کے نظاموں کو صحیح طور پر جاننے اور سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔
ہماری زمین بھی ہمارے ماہرین کی ان کوششوں کو دیکھ رہی ہوگی، اگر اس نے یہ جان لیا کہ ہم اس سے محبت کرتے ہیں تو یہ زمین کبھی سمندر کے اندر نہیں جائے گی بل کہ اپنا سر فخر سے بلند کرکے اسے پانی سے بلند ہی رکھے گی، ہر گز نہیں ڈوبے گی، لیکن ساتھ ساتھ ہمیں اس زمین سے اپنی محبت اور وفاداری کے تقاضے بھی پورے کرنے ہوں گے، جس طرح ہم اپنے کسی دوست کو بیماری کے حالت میں مرنے نہیں دیتے، بل کہ اسے بچانے کے لیے اس کا علاج کراتے ہیں، اسے اسپتال میں داخل کراتے ہیں، اسی طرح ہمارے اس کرۂ ارض کو اس وقت ہماری خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ ہمیں اسے بچانے کے لیے اپنا کردار پوری ایمان داری سے ادا کرنا ہوگا۔
گلوبل وارمنگ کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہمیں چند چیزوں پر توجہ دینی ہوگی:
٭ہمیں اپنی زمین کو زیادہ سرسبز اور زیادہ شاداب بنانے کے لیے اس پر درخت لگانے کی ایک پوری مہم چلانی ہوگی اور اس زمین کو درختوں سے بھرنا ہوگا۔ زیادہ سے زیادہ درخت لگانے سے ہماری زمین کو یہ فائدہ ہوگا کہ مہلک گیسوں کو اپنے اندر جذب کرلیں گے اور ہمارے ماحول کو صاف ستھرا کردیں گے۔
٭ہمیں اپنے لیے قابل تجدید توانائی renewable energy کا انتخاب کرنا ہوگا۔ ایندھن کے استعمال میں ہر طرح کی احتیاط کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔
٭ اس دنیا کو صاف ستھرا اور آلودگی سے پاک رکھنا ہمارا بنیادی فرض ہونا چاہیے۔ ہمیں عہد کرنا ہوگا کہ ہم اس فرض کی ادائیگی میں کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہیں کریں گے۔