مذہبی دہشت گردی اور اس کے نتائج آخری حصہ

مذہبی انتہا پسندی اوردہشت گردی کے احیاء کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہر قوم میں ایسے رجعت پسند لوگ موجود ہوتے ہیں

ayazbabar@gmail.com

لاہور:
مذہبی انتہا پسندی اوردہشت گردی کے احیاء کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہر قوم میں ایسے رجعت پسند لوگ موجود ہوتے ہیں، جو ثقافتی اور مذہبی جمود برقرار رکھنا چاہتے ہیں اورکسی بھی تبدیلی، خاص طور پر ایسی تبدیلی کی مزاحمت کرتے ہیں جوخارجی نظر آتی ہو۔متعدد اسکالرز نے انتہا پسندوں کے لیے"Islamists" (اسلام پر کامل یقین رکھنے والے)کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ ممتاز محقق حمیرا اقتدار نے"Secularism Beyond the State" کے عنوان سے اپنے مقالے میں بتایا ہے کہ 'ریاست' اور 'مارکیٹ'مذہب پرکامل یقین رکھنے والوں کی تشریح اس طرح کرتی ہیں کہ یہ احیائے ماضی کے معتقد ایسے افراد ہیں، جن کا محور ریاست پر قبضہ کرنا ہے۔ یقیناً یہ بڑی سنجیدگی کے ساتھ فکری اور عملی طور پر، ریاست پر قابض ہوتے نظر آتے ہیں۔''

یہ لوگ ' مزید'مذہبی قوانین اور اس کے ضابطے کے مطابق طرز زندگی پر اصرارکر رہے ہیں جس پر 7 ویں صدی میں عمل کیا جاتا تھا۔Charles S. Liebman کے مطابق تمام مذاہب میں انتہا پسندی اس حقیقت کا فطری نتیجہ ہے کہ ''مذہب حقیقت ِمطلق کے بارے میں کامل سچائی کا دعویٰ کرتا ہے ۔ مذہب کو اس راستے کا علم ہے جس پر ہرکسی کو اس انداز میں زندگی گزارنے کے لیے چلنا چاہیے جو بالکل صحیح اور حتمی ہے.... قانون کی محدود اور سخت تشریح کی جستجو ،اپنی ذات اور دوسروں کو یہ یقین دلانے کی خواہش سے مطابقت رکھتی ہے کہ کوئی فرد محض اپنی پسند کے مطابق نہیں بلکہ عین اسی طرح سے زندگی بسرکر رہا ہے جیسا کہ اسے حکم دیا گیا ہے۔''

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذہب پسند کیوں تبدیلی سے خائف ہیںاور خیالی گھوڑے دوڑا رہے ہیں۔جیسا کہ ممتاز امریکی صحافی تھامس فرائیڈمین کا کہنا ہے کہ آج کی دنیا ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور آپٹیک فائبرکے صدقے ،اطلاعات کے بہاؤکی وجہ سے گول نہیں رہی چپٹی ہوچکی ہے۔دنیا کے ہر ملک میں غیر ملکی نظریات، ثقافت اور سیاسی سوچ لوگوں تک پہنچ رہی ہے ۔انٹرنیٹ نے ہر سرحد کو توڑ دیا ہے۔علم پر اجارہ داری ختم ہورہی ہے اور اسے جمہوری بنایا جارہا ہے۔معاشرے کو پیچھے کی طرف لے جانے والی قدامت پسند قوتیں اس تبدیلی سے خوف زدہ ہیں، یہ لوگ یہ شور مچاتے ہوئے لڑ رہے ہیں کہ ثقافت کی عالم گیریت ، مذہب اور مذہبی روایات کے لیے خطرہ ہے۔اسی پر بس نہیں،پاکستان میںانتہا پسند بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اور بعض لبرل کارکن بھی تبدیلی کی مزاحمت کر رہے ہیںاور بدلتے وقت کے ساتھ آگے بڑھنے کی بجائے قدیم نظریات اور نظاموں کے ساتھ جڑے رہنا چاہتے ہیں۔


فرانسیسی اسکالرOlivier Roy کا کہنا ہے کہ' جدید مسلم بنیاد پرستی' عالمگیریت کومسلم امہ کی خالصتاً مذہبی بنیاد پر تعمیر ِنو کا ایک اچھا موقع سمجھتی ہے، ان معنوں میں نہیں کہ مذہب کو ثقافت اور سیاست سے الگ کردیا جائے ، بلکہ اس حد تک کہ مذہب علامتی طور طریقوں کی گنجائش کو رد بلکہ نظر اندازکردے۔جدید بنیاد پرستی مذہبی تقاضوں کو ان کے سیاق و سباق سے الگ کرنے کو فروغ دینے کا ذریعہ بنتی ہے۔''ہم دیکھ چکے ہیں کہ سعودی عرب اور دوسری خلیجی ریاستوں کے پیٹرو ڈالرز کے ساتھ ان کا ثقافتی اورمذہبی اثرورسوخ بھی دوسرے ملکوں میں آرہا ہے اور مقامی ثقافت کو اس کی اصل بنیادوں سے ہٹارہا ہے۔غیر ملکی فنڈز پر پلنے والے مذہبی افراد اور بعض تعلیم یافتہ لوگ بھی غیر ملکی مسلکی سوچ کے زیراثر ہیں اور وہ اس وجہ سے مقامی ثقافتی طورطریقوں کی نفی کرتے ہیں کہ ان پر عرب ملکوں میں عمل نہیں کیا جاتا" ۔(Globalised Islam-The Search for a New Ummah by Olivier Roy; published by C. Hurst & Company 2004 (p-258)

اکثر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ جب ہر مذہب میں انتہا پسند عناصر موجود ہیںتو پھر مسلمان انتہا پسندوں ہی کوکیوں دہشت گرد بناکر پیش کیا جاتا ہے؟ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلم دہشت گرد تعداد میں زیادہ ہیں، یہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، یہ بہت زیادہ منظم ہیں، یہ زیادہ تشدد پسند ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ القاعدہ اور اب داعش نے انھیں ایک عالمی ایجنڈا دے رکھا ہے۔ان لوگوں کے بر عکس جن کے مقامی مسائل ہیں، مسلمان انتہا پسندوں کے پاس پوری دنیا پر اسلامی بالا دستی قائم کرنے کے لیے القاعدہ اورداعش کا منشور ہے۔مسلمانوں میں یہ بحث جاری ہے کہ کیا کسی ایک فرد کی طرف سے مستقل جہاد کے بارے میں مسلکی تشریح درست ہے یا جہاد ایک ایسا اجتماعی عمل ہے، جس کا اعلان کرنے کی مجاز صرف اسلامی ریاست ہے۔اولیور رائے کہتے ہیں کہ دو نکات بالکل واضح ہیں :جہاد،اسلام کے پانچ ارکان توحید ، نماز ، روزہ، زکوٰۃ اور حج میں شامل نہیں، اس لیے یہ ایک اجتماعی فریضہ ہے۔مذکورہ حالات میں یہ فرض کفایہ ہے ، مگر سید قطب اور محمد فراج کے زمانے سے ہی انتہا پسند جہادکو ایک مستقل اورانفرادی فریضہ سمجھتے آئے ہیں۔

مغربی ایشیا میں عرب ممالک کے دو درجے ہیں، ایک وہ جو قبائلی سلطنتیں ہیں اور دوسرے وہ ممالک،جہاں خون خرابہ ہورہا ہے جیسے عراق، شام اور لیبیا۔عرب سلطنتوں اور ان تین ملکوں میں مشترک بات یہ ہے کہ ان سب میں آمریت رہی ہے اور عوام کو ان کے سیاسی حقوق دینے سے انکار کیا گیا۔ سعودی عرب کی زیر قیادت تیل کی دولت سے مالا مال خلیجی ریاستوں نے اپنی تیل کی دولت میںسے ایک چھوٹا سا حصہ عوام کو دے کران کو خوش رکھنے کی کوشش کی۔مگر ان ملکوں میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات، تیل کی دولت کے حکمران اشرافیہ کے چند ارکان کے ہاتھوں میں ارتکاز، انسانی حقوق کی پامالی اور فیصلہ سازی میں سماجی جبر نے عوام میں نفرت اور غم و غصے کو جنم دیا۔اس غم وغصے کا اظہار ان ملکوں میں وقتاً فوقتاً دہشت گردی کے واقعات سے ہوتا ہے اور ان حالات نے بڑی تعداد میں مایوس نوجوانوں کو القاعدہ اور داعش جیسے دہشت گرد گروپوں میں شامل ہونے کی راہ ہموارکی ہے۔ یہ صورتحال ہمیں تواترکے ساتھ پوچھے جانے اس سوال کی طرف لاتی ہے کہ دہشتگردی کا یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔فرانسیسی اسکالرMaxime Rodison کے خیال میں ''اسلامی بنیاد پرستی ایک عبوری اورعارضی تحریک ہے، مجھے نہیں معلوم کہ کب تک مگر یہ مزید 30 سے50 سال جاری رہ سکتی ہے۔اگر بنیاد پرستی ختم ہو جاتی ہے تو یہ سب سے اچھی بات ہوگی لیکن جب تک بنیاد پرستی اور اضطراب رہے گا لوگ انتہا پسندی کی جانب مائل ہوتے رہیں گے۔مذہبی جبر کو طویل عرصے تک برداشت کرنے کے بعد ہی لوگ اس سے تنگ آتے ہیں۔ آپ دیکھئے کہ یورپ میں ایسا ہونے میں کتنا وقت لگا۔''
Load Next Story