چلو چلو تماشا دیکھنے چلو
یہ وہ شیطان ہیں جو ہمیں گدھے کا گوشت کھلاتے ہیں اور پھر اس پر منافع بھی کماتے ہیں، اور انھیں شرم بھی نہیں آتی ہے
یہاں کچھ لوگوں کا بس نہیں چلتا ہے ورنہ وہ ہمارے سانس لینے پر پابندی لگادیں۔ لوٹ مار، کرپشن اور طاقت کے نشے کا وہ خمار چھایا ہوا ہے کہ اپنے ناک سے آگے کی دنیا کسی کو نظر نہیں آتی ہے۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو ہمیں ہوا میں زہر ملا کر مارتے ہیں۔ یہ ایسے سفاک لوگ ہیں جو اپنے فائدے کے لیے گائے کو انجکشن لگا کر دودھ نکالتے ہیں، یہ سوچے بغیر کہ اس سے ہماری نسلوں کو کیا نقصان پہنچے گا۔
یہ وہ شیطان ہیں جو ہمیں گدھے کا گوشت کھلاتے ہیں اور پھر اس پر منافع بھی کماتے ہیں، اور انھیں شرم بھی نہیں آتی ہے۔ آج آپ کو ان لوگوں کے چند کارنامے بتاتا ہوں۔ ہمارے ایک دوست صدیق راجا صاحب ہیں، جن کے پاس ایک صاحب آئے جو کہ پہلے گدھوں کی کھالیں باہر بھیجا کرتے تھے۔
انھوں نے کہا کہ اب ڈبل منافع کمانے کا وقت آچکا ہے اور اپنی خواہش بتاتے ہوئے کہنے لگے کہ اب میں گدھوں کی کھالیں نہیں بھیج رہا اور نا ہی اب میں یہاں کسی کو گدھے کا گوشت کھلاؤں گا۔ ان صاحب کا سپر آئیڈیا یہ تھا کہ اب یہاں سے پورے گدھے باہر بھیجے جائیں گے جہاں انھیں کاٹ کر کھال اور گوشت کی قیمت وصول کی جائے گی۔ ہمارے دوست نے ان سے کہا کہ بڑی مہربانی ہوگی کہ چار پاؤں کے گدھے یہی چھوڑ دو اور حبیب جالب نے جن دو پیروں والے گدھوں کا ذکر کیا ہے، انھیں یہاں سے لے جاؤ۔
لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے ان دو پیروں والے گدھوں کو کوئی یہاں سے لے جانے کے لیے تیار نہیں جنھوں نے ہماری زندگی کو اجیرن کیا ہوا ہے۔ یہ پتلی تماشا لگایا ہوا ہے۔ ابھی ایک کھلونے سے دل نہیں بھرتا کہ فوراً دوسرا گیم شروع کردیا جاتا ہے۔ ساری قوم کو عرف عام میں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیا جاتا ہے، اور ہم سب سر جھکائے اس کے پیچھے پیچھے دوڑنے لگ جاتے ہیں۔
کوئی عقل نام کی چیز بھی یہاں بستی ہے۔ لیکن اس بستی میں لگتا یوں ہے کہ یہ ناپید ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ ان لوگوں کو دل کھول کر داد دوں جو اس مہارت سے پوری قوم کو چلارہے ہیں، وہ جب چاہتے ہیں ہمیں کسی نئے ٹرک کے پیچھے لگادیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں ایک ہی کہانی کو بار بار سناتے رہتے ہیں۔
کچھ لوگوں، قوم یا ملک کے مقاصد ہوتے ہیں۔ کوئی گول ہوتا ہے جیسے حاصل کرنا اس کی زندگی کا مقصد ہوتا ہے۔ ہم ان گدھوں میں تو شامل نہ ہوں جو صرف اس دنیا میں بس سانس لینے اور دوسروں کا بوجھ اپنے اوپر ڈالنے کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ کیا یہ بات طے ہے کہ اس قوم کا اجتماعی گول کیا ہے؟ ہم کس سمت جانا چاہتے ہیں؟ کیا ہمارا مقصد روز ایک جیسی بحث کو پرانے مہمان کے ساتھ کرنا ہے۔
مجھے آپ بتائیے کہ ہماری اس زندگی کا حصول یہ ہے کہ بچوں کو کیسے پالنا ہے اور ان کے اسکول کی فیس کا بندوبست کیسے کرنا ہے؟ کیا اجتماعی طور ہمیں اداروں، سیاسی جماعتوں اور شخصیتوں کا ٹکراؤ دیکھ کر انجوائے کرنا ہے۔
کبھی کوئی ہارا اور کبھی کسی کو اختیار ملا۔ لیکن ہم تو وہیں کھڑے ہیں جہاں سے چلے تھے۔ ہم ایک جمہوری ملک کے طور پر قائم رہنا چاہتے ہیں، یا ہم کچھ شرپسندوں کو اپنا فیورٹ مانتے ہیں۔ آخر ہم ہیں کیا؟ ہمارا آغاز ایک الجھن اور ہمارا اختتام ایک پہیلی بنادیا گیا ہے۔ ہم سمندر کے پانی میں مچھلیوں کا وہ جھنڈ ہیں جسے نہیں معلوم کہ اس کی منزل کیا ہے۔ سیاسی، سماجی، معاشرتی، معاشی اور شعوری طور پر ایک الجھن کا شکار بے سمت مجمع بن چکے ہیں۔
کوئی یہاں راگ الاپتا ہے کہ ہماری ساری برائیوں کا حل تعلیم ہے۔ جب یہاں ہر بچہ پڑھ جائے گا تو پھر سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ تو ایک صاحب اٹھ کر کہتے ہیں کہ تعلیم کے لیے اخراجات کی ضرورت ہوتی ہے اور خرچ کے لیے پیسہ چاہیے۔ تو جب تک پیسہ نہیں آئے گا تب تک مسائل حل نہیں ہوں گے۔ جو ملک ایک چھوٹے پروجیکٹ کے لیے بھی قرضہ لیتا ہو وہ لوگوں کو تعلیم کیسے دے سکتا ہے۔ اس لیے پہلی اور اولین ترجیح معاشی مسئلہ ہے۔ لیجیے جب ان سے بات کیجیے کہ یہ نوٹوں کی بارش کب ہونا شروع ہوگی؟
تو کہنے لگ جائیں گے کہ جب امن قائم ہوگا، جیسے ہی امن قائم ہوگا تو دنیا بھر کے سرمایہ دار ہمیں اپنی گودوں میں اٹھالیں گے، ہمیں اتنا پیار کریں گے کہ خودبخود نوٹ آنا شروع ہوجائیں گے۔ اگر ہم ان سے یہ کہہ دیں کہ چین نے تو اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر شروع کیا، اسے تو نوٹ دینے کے لیے کوئی نہیں آرہا تھا۔ اس نے خود اتنی محنت کی کہ نوٹ چل کر خود اس کے پاس آگئے، انھیں بھی تو افیون کالونی کہا جاتا تھا، مگریہ لوگ بضد ہیں کہ جب تک امن قائم نہیں ہوگا تب تک پیسہ نہیں آئے گا اور پیسہ نہیں آئے گا تو تعلیم نہیں ملے گی۔
ہم نے ہار مان لی اور ان سے کہا کہ آپ ہی بتادیجیے کہ ترقی کا سفر شروع کرنے اور امن قائم کرنے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟ صاحب نے ایک لمبی سانس لی اور فرمایا کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں برداشت نہیں ہے اور ہم دوسرے لوگوں کو برداشت نہیں کرتے ہیں، چاہے وہ مختلف فرقے کے لوگ ہوں یا پھر دیگر مذاہب کے افراد۔ ہمارے کئی کچے ذہنوں میں یہ نفرت بھر دی گئی ہے، جس کی وجہ سے امن قائم نہیں ہورہا ہے اور ہمارا ملک ترقی نہیں کررہا ہے۔
اچھا جی، بات تو بڑی ہی معقول ہے کہ امن قائم کرنے کے لیے ذہنوں کا بدلنا ضروری ہے۔ اب یہ بتائیں کہ ذہن کیسے بدلے جائیں؟ صاحب نے ایک لمبا کش لیا اور کہا کہ اس کا بہترین طریقہ تعلیم ہے، ہم اچھی تعلیم اور تربیت دے کر ہی بچوں کا ذہن ٹھیک کرسکتے ہیں، یعنی بات گھوم پھر کر تعلیم پر ہی آگئی۔ یہ ہی ہمارے یہاں روز گلی محلوں کی بحث میں ہوتا ہے۔
یہ ہی ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کا حال ہے کہ گھوم پھر کر بات وہیں آکر رک جاتی ہے۔ اگر یہ پوچھا جائے کہ ہم اس دلدل سے کیسے نکلیں گے تو فوراً کہا جائے گا تعلیم سے، تعلیم کیسے آئے گی تو جواب آئے گا پیسے سے، پیسہ کیسے آئے گا تو کہا جائے گا امن سے، امن کیسے آئے گا تو ارشاد کیا جائے گا برداشت سے۔ اور برداشت کا مادہ کیسے پیدا ہو تو جواب آئے گا تعلیم سے۔ بس گھومتے رہیں اسی چکر میں۔
کراچی میں لوگوں کو بنیادی ضرورت یعنی پانی کب ملے گا؟ جب مقامی حکومتوں کا نظام ہوگا؟ مقامی حکومتوں کا نظام کب ہوگا؟ جب فیصلہ ہوگا۔ فیصلہ کب ہوگا؟ جب کسی کی طرف سے حکم آئے گا۔ حکم کب آئے گا؟ جب موڈ ہوگا۔ موڈ کب ہوگا؟ جب گھر میں پانی ہوگا۔
آپ اپنے اردگرد ہونے والے ہر معاملے کو اٹھا کر دیکھ لیجیے، وہ ایک چکر میں وہیں آکر ختم ہوگا جہاں سے شروع ہوا تھا۔ جس کے پاس مسئلے کا حل ہے، وہ مسئلہ پیدا کرنے کی وجہ ہے۔ جس کے پاس دوا ہے وہ ہی مرض دیتا ہے۔ اپنے گھر کے بہت سے مسائل دیکھیں یا پھر محلے کے، یا پھر شہر کے یا پھر اس ملک کو دیکھ لیجیے۔ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ شدت پسندی کو امریکا نے پیدا کیا اور آج وہ ہی کہتا ہے کہ اسے ختم کرو۔
بس دو چار موٹی موٹی باتیں ہی کرنا چاہ رہا تھا، پہلی یہ کہ ایک ہی چکر میں پوری کہانی کو گھمایا ہوا ہے اور حاصل جمع صفر ہے۔ رینجرز کو امن وامان کے لیے دو سال پہلے نہیں 28 سال پہلے بلایا گیا تھا۔ اس وقت بلانے میں بھی سائیں کی سرکار تھی اور آج بھی وہی ہے۔ پہلے دن سے یہ ہی مسئلہ ہے کہ رینجرز گئی تو کیا ہوگا، اور آج بھی وہی ہے۔ اور مجھے پوری امید ہے کہ 28 سال بعد بھی یہی ہوگا۔ تو آپ کیوں پریشان ہیں۔ ٹھنڈا پانی پیجیے اور تماشا دیکھیں۔ نہیں جی یہ والا تماشا نہیں بلکہ امتیاز علی کی تماشا فلم سے سمجھ آجائے گا کہ ہم سب کیسے تماشا بن کر تماشا دیکھتے ہیں۔
یہ وہ شیطان ہیں جو ہمیں گدھے کا گوشت کھلاتے ہیں اور پھر اس پر منافع بھی کماتے ہیں، اور انھیں شرم بھی نہیں آتی ہے۔ آج آپ کو ان لوگوں کے چند کارنامے بتاتا ہوں۔ ہمارے ایک دوست صدیق راجا صاحب ہیں، جن کے پاس ایک صاحب آئے جو کہ پہلے گدھوں کی کھالیں باہر بھیجا کرتے تھے۔
انھوں نے کہا کہ اب ڈبل منافع کمانے کا وقت آچکا ہے اور اپنی خواہش بتاتے ہوئے کہنے لگے کہ اب میں گدھوں کی کھالیں نہیں بھیج رہا اور نا ہی اب میں یہاں کسی کو گدھے کا گوشت کھلاؤں گا۔ ان صاحب کا سپر آئیڈیا یہ تھا کہ اب یہاں سے پورے گدھے باہر بھیجے جائیں گے جہاں انھیں کاٹ کر کھال اور گوشت کی قیمت وصول کی جائے گی۔ ہمارے دوست نے ان سے کہا کہ بڑی مہربانی ہوگی کہ چار پاؤں کے گدھے یہی چھوڑ دو اور حبیب جالب نے جن دو پیروں والے گدھوں کا ذکر کیا ہے، انھیں یہاں سے لے جاؤ۔
لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے ان دو پیروں والے گدھوں کو کوئی یہاں سے لے جانے کے لیے تیار نہیں جنھوں نے ہماری زندگی کو اجیرن کیا ہوا ہے۔ یہ پتلی تماشا لگایا ہوا ہے۔ ابھی ایک کھلونے سے دل نہیں بھرتا کہ فوراً دوسرا گیم شروع کردیا جاتا ہے۔ ساری قوم کو عرف عام میں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیا جاتا ہے، اور ہم سب سر جھکائے اس کے پیچھے پیچھے دوڑنے لگ جاتے ہیں۔
کوئی عقل نام کی چیز بھی یہاں بستی ہے۔ لیکن اس بستی میں لگتا یوں ہے کہ یہ ناپید ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ ان لوگوں کو دل کھول کر داد دوں جو اس مہارت سے پوری قوم کو چلارہے ہیں، وہ جب چاہتے ہیں ہمیں کسی نئے ٹرک کے پیچھے لگادیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں ایک ہی کہانی کو بار بار سناتے رہتے ہیں۔
کچھ لوگوں، قوم یا ملک کے مقاصد ہوتے ہیں۔ کوئی گول ہوتا ہے جیسے حاصل کرنا اس کی زندگی کا مقصد ہوتا ہے۔ ہم ان گدھوں میں تو شامل نہ ہوں جو صرف اس دنیا میں بس سانس لینے اور دوسروں کا بوجھ اپنے اوپر ڈالنے کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ کیا یہ بات طے ہے کہ اس قوم کا اجتماعی گول کیا ہے؟ ہم کس سمت جانا چاہتے ہیں؟ کیا ہمارا مقصد روز ایک جیسی بحث کو پرانے مہمان کے ساتھ کرنا ہے۔
مجھے آپ بتائیے کہ ہماری اس زندگی کا حصول یہ ہے کہ بچوں کو کیسے پالنا ہے اور ان کے اسکول کی فیس کا بندوبست کیسے کرنا ہے؟ کیا اجتماعی طور ہمیں اداروں، سیاسی جماعتوں اور شخصیتوں کا ٹکراؤ دیکھ کر انجوائے کرنا ہے۔
کبھی کوئی ہارا اور کبھی کسی کو اختیار ملا۔ لیکن ہم تو وہیں کھڑے ہیں جہاں سے چلے تھے۔ ہم ایک جمہوری ملک کے طور پر قائم رہنا چاہتے ہیں، یا ہم کچھ شرپسندوں کو اپنا فیورٹ مانتے ہیں۔ آخر ہم ہیں کیا؟ ہمارا آغاز ایک الجھن اور ہمارا اختتام ایک پہیلی بنادیا گیا ہے۔ ہم سمندر کے پانی میں مچھلیوں کا وہ جھنڈ ہیں جسے نہیں معلوم کہ اس کی منزل کیا ہے۔ سیاسی، سماجی، معاشرتی، معاشی اور شعوری طور پر ایک الجھن کا شکار بے سمت مجمع بن چکے ہیں۔
کوئی یہاں راگ الاپتا ہے کہ ہماری ساری برائیوں کا حل تعلیم ہے۔ جب یہاں ہر بچہ پڑھ جائے گا تو پھر سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ تو ایک صاحب اٹھ کر کہتے ہیں کہ تعلیم کے لیے اخراجات کی ضرورت ہوتی ہے اور خرچ کے لیے پیسہ چاہیے۔ تو جب تک پیسہ نہیں آئے گا تب تک مسائل حل نہیں ہوں گے۔ جو ملک ایک چھوٹے پروجیکٹ کے لیے بھی قرضہ لیتا ہو وہ لوگوں کو تعلیم کیسے دے سکتا ہے۔ اس لیے پہلی اور اولین ترجیح معاشی مسئلہ ہے۔ لیجیے جب ان سے بات کیجیے کہ یہ نوٹوں کی بارش کب ہونا شروع ہوگی؟
تو کہنے لگ جائیں گے کہ جب امن قائم ہوگا، جیسے ہی امن قائم ہوگا تو دنیا بھر کے سرمایہ دار ہمیں اپنی گودوں میں اٹھالیں گے، ہمیں اتنا پیار کریں گے کہ خودبخود نوٹ آنا شروع ہوجائیں گے۔ اگر ہم ان سے یہ کہہ دیں کہ چین نے تو اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر شروع کیا، اسے تو نوٹ دینے کے لیے کوئی نہیں آرہا تھا۔ اس نے خود اتنی محنت کی کہ نوٹ چل کر خود اس کے پاس آگئے، انھیں بھی تو افیون کالونی کہا جاتا تھا، مگریہ لوگ بضد ہیں کہ جب تک امن قائم نہیں ہوگا تب تک پیسہ نہیں آئے گا اور پیسہ نہیں آئے گا تو تعلیم نہیں ملے گی۔
ہم نے ہار مان لی اور ان سے کہا کہ آپ ہی بتادیجیے کہ ترقی کا سفر شروع کرنے اور امن قائم کرنے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟ صاحب نے ایک لمبی سانس لی اور فرمایا کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں برداشت نہیں ہے اور ہم دوسرے لوگوں کو برداشت نہیں کرتے ہیں، چاہے وہ مختلف فرقے کے لوگ ہوں یا پھر دیگر مذاہب کے افراد۔ ہمارے کئی کچے ذہنوں میں یہ نفرت بھر دی گئی ہے، جس کی وجہ سے امن قائم نہیں ہورہا ہے اور ہمارا ملک ترقی نہیں کررہا ہے۔
اچھا جی، بات تو بڑی ہی معقول ہے کہ امن قائم کرنے کے لیے ذہنوں کا بدلنا ضروری ہے۔ اب یہ بتائیں کہ ذہن کیسے بدلے جائیں؟ صاحب نے ایک لمبا کش لیا اور کہا کہ اس کا بہترین طریقہ تعلیم ہے، ہم اچھی تعلیم اور تربیت دے کر ہی بچوں کا ذہن ٹھیک کرسکتے ہیں، یعنی بات گھوم پھر کر تعلیم پر ہی آگئی۔ یہ ہی ہمارے یہاں روز گلی محلوں کی بحث میں ہوتا ہے۔
یہ ہی ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کا حال ہے کہ گھوم پھر کر بات وہیں آکر رک جاتی ہے۔ اگر یہ پوچھا جائے کہ ہم اس دلدل سے کیسے نکلیں گے تو فوراً کہا جائے گا تعلیم سے، تعلیم کیسے آئے گی تو جواب آئے گا پیسے سے، پیسہ کیسے آئے گا تو کہا جائے گا امن سے، امن کیسے آئے گا تو ارشاد کیا جائے گا برداشت سے۔ اور برداشت کا مادہ کیسے پیدا ہو تو جواب آئے گا تعلیم سے۔ بس گھومتے رہیں اسی چکر میں۔
کراچی میں لوگوں کو بنیادی ضرورت یعنی پانی کب ملے گا؟ جب مقامی حکومتوں کا نظام ہوگا؟ مقامی حکومتوں کا نظام کب ہوگا؟ جب فیصلہ ہوگا۔ فیصلہ کب ہوگا؟ جب کسی کی طرف سے حکم آئے گا۔ حکم کب آئے گا؟ جب موڈ ہوگا۔ موڈ کب ہوگا؟ جب گھر میں پانی ہوگا۔
آپ اپنے اردگرد ہونے والے ہر معاملے کو اٹھا کر دیکھ لیجیے، وہ ایک چکر میں وہیں آکر ختم ہوگا جہاں سے شروع ہوا تھا۔ جس کے پاس مسئلے کا حل ہے، وہ مسئلہ پیدا کرنے کی وجہ ہے۔ جس کے پاس دوا ہے وہ ہی مرض دیتا ہے۔ اپنے گھر کے بہت سے مسائل دیکھیں یا پھر محلے کے، یا پھر شہر کے یا پھر اس ملک کو دیکھ لیجیے۔ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ شدت پسندی کو امریکا نے پیدا کیا اور آج وہ ہی کہتا ہے کہ اسے ختم کرو۔
بس دو چار موٹی موٹی باتیں ہی کرنا چاہ رہا تھا، پہلی یہ کہ ایک ہی چکر میں پوری کہانی کو گھمایا ہوا ہے اور حاصل جمع صفر ہے۔ رینجرز کو امن وامان کے لیے دو سال پہلے نہیں 28 سال پہلے بلایا گیا تھا۔ اس وقت بلانے میں بھی سائیں کی سرکار تھی اور آج بھی وہی ہے۔ پہلے دن سے یہ ہی مسئلہ ہے کہ رینجرز گئی تو کیا ہوگا، اور آج بھی وہی ہے۔ اور مجھے پوری امید ہے کہ 28 سال بعد بھی یہی ہوگا۔ تو آپ کیوں پریشان ہیں۔ ٹھنڈا پانی پیجیے اور تماشا دیکھیں۔ نہیں جی یہ والا تماشا نہیں بلکہ امتیاز علی کی تماشا فلم سے سمجھ آجائے گا کہ ہم سب کیسے تماشا بن کر تماشا دیکھتے ہیں۔